ملک میں سماجی مساوات کی صورت حال انتہائی افسوسناک

آزادی کے خواب کی تعبیر کے منتظرہیں اہل وطن

پروفیسر محمد سلیم انجینئر

 

‘وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں’
ملک کی آزادی کے بعد سات دہائیوں کا سفر ہم نے طے کیا ہے اور ابھی ابھی ہم نے 72 ویں یوم جمہوریہ بھی منایا ہے۔ یقینا ہم نے تعلیم، صحت، سائنس اور تکنیک کے میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ ہم ایک ایٹمی طاقت بھی بن چکے ہیں۔ خلائی سائنس کے میدان میں بھی ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی اور سافٹ ویئر کے میدان میں بھی دنیا میں ہمارے نوجوانوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان سب کامیابیوں پر ہمیں خوشی اور فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ آزادی کے بعد ہم نے اس ملک کے تنوع کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اچھے سیکولر ملک کی شکل میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا اور سیکولرزم کو ہم نے مذہب کی توہین یا مذہب کو مسترد کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ اس معنی میں لیا کہ یہاں ہر شہری کو مذہب کی پوری آزادی ہوگی، کسی ایک مذہب یا عقیدے کو ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ حکومت میں ہر مذہب اور عقیدے کا مساوی طور سے احترام کیا جائے گا اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کسی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ ہم نے ان سب حقائق کو قبول کرتے ہوئے ایک ایسا آئین بنایا اور اپنایا جو یہاں کے سبھی شہریوں کو برابری کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ آئین کے بنیادی اقدار کو ہم نے ملک کی بنیاد بنایا۔ یہ بنیادی اقدار آزادی، مساوات، انصاف اور آپسی بھائی چارہ ہیں۔ اس پہلو سے آج سات دہائی بعد ایمانداری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان اقدار کی بنیاد پر ملک میں سماج کی تعمیر کا جو ہمارا خواب تھا وہ کس حد تک پورا ہوا اور ہم نے ایک فلاحی ملک بننے کا جو فیصلہ لیا تھا اس میں کہاں تک کامیاب ہوئے؟
ہم نے یہ بھی خواب دیکھا تھا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا فائدہ ہندوستان کے آخری فرد یعنی کمزور ترین آدمی تک پہنچ سکے۔ اس میں ہم کہاں تک کامیاب ہوئے؟ ہم نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ مذہب، طبقہ، ذات برادری، علاقہ، جنس اور زبانوں کے تنوع کے باوجود ہر شہری کو مساوی عزت ملے، ان کے وقار کو ہر حال میں تحفظ ملے اور حقوق محفوظ رہیں اور ہر ایک فرد کو ترقی کے مواقع فراہم ہوں۔ اس پہلو سے ہم نے کتنی کامیابی حاصل کی اور آج موجودہ صورت حال کیا ہے؟ اس کا تجزیہ بھی ہمیں کرنا چاہیے۔ یقیناً بہت سی چیزوں میں ہم نے اصلاحات کیں لیکن ہم اپنے خواب سے اب بھی بہت دور ہیں بلکہ کچھ پہلوؤں سے صورتحال بہت ہی تشویشناک ہے۔چونکہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے بہت وقت چاہیے اس لیے ہم یہاں چند پہلوؤں، خاص طور پر مساوات، سب کو برابر کے مواقع، سماجی انصاف اور انسانی اقدار کی صورت حال پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کریں گے اور ان پہلوؤں سے حالات کو بہتر بنانے میں ہم سب شہریوں اور حکومت کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے کیا بندوبست کیے جانے چاہئیں اور کیا قدم اٹھائے جانے چاہئیں اس پر غور کریں گے۔
ہندوستان میں سماجی، اقتصادی اور تعلیمی طور پر پسماندہ اور کمزور طبقوں کی آبادی اور ان کی حالت کا تجزیہ کرنے سے حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
ہندوستان کی 138 کروڑ کی آبادی میں دیگر پسماندہ طبقہ کی آبادی 41 فیصد یعنی تقریباً 56 کروڑ ہے جو کہ سماجی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے پسماندہ ہیں۔ ہندوستان کی تقریباً 22 فیصد یعنی تقریباً 30 کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ شیدولڈ کاسٹ کی آبادی 16.6 فیصد یعنی تقریباً 23 کروڑ ہے۔ شیڈولڈ ٹرائبس کی آبادی 8.6 فیصد یعنی تقریباً 12کروڑ ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں کی آبادی کا فیصد 19.3 یعنی تقریبا ً27 کروڑ جس میں سب سے بڑی حصہ داری مسلم اقلیت کی ہے جن کا فیصد 14.3 یعنی تقریباً 20 کروڑ ہے۔۔ ان اعداد و شمار سے حالات کو سمجھنا اور زیادہ آسان ہو گا۔
شیڈولڈ کاسٹ/ٹرائبس جن کی کل آبادی ہندوستان کی مجموعی آبادی کا 25.2 فیصد یعنی تقریبا 35 کروڑ۔ حالانکہ ان کی حالت کی اصلاح کے لیے تعلیم، روزگار اور سیاست میں بھی ریزرویشن کی تجویز رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے ان طبقات کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی حالت بہتر ہوئی ہے اور ان میں حوصلہ بھی بڑھا ہے، سماجی سطح پر بھی کچھ بہتری آئی ہے لیکن ابھی بھی چھوت چھات، بھید بھاؤ اور طاقتور طبقوں کے ذریعہ ہراساں کیے جانے کے ساتھ ناانصافی کی صورتحال تشویشناک ہی کہی جائے گی۔ ابھی بھی اعلیٰ ذات کے مندروں میں داخلے ان کے کنوؤں اور تالابوں سے پانی لینے و نہانے پر تشدد کے واقعات، شادی میں دولہے کے گھوڑی پر بیٹھنے پر تشدد واذیت، دلت و کمزور طبقوں کی لڑکیوں و عورتوں کے ساتھ بد سلوکی، عصمت دری اور قتل کی وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں۔گزشتہ سال یو پی کے شہر اناؤ میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل اور اسی شہر میں ابھی چند روز قبل دو دلت لڑکیوں کی مشتبہ موت اور ہاتھرس کی لڑکی کے ساتھ پیش آئے دل دہلا دینے والے واقعات نے ہمارے سماج اور انتظامیہ پر بد نما داغ لگا دیے ہیں۔ اگرچہ سَتی پرتھا اور چھوت چھات جیسی روایتوں کو قانون کے ذریعہ روکنے کی کوشش ایک حد تک کامیاب ہوئی ہے لیکن سماج میں دلتوں کے تئیں احترام و برابری اور ان کے ساتھ مساوات کے رویے میں ہمارے سماج کی حالت بہت افسوسناک ہے۔ ریزرویشن کی وجہ سے تعلیم، روزگار اور سیاست میں بہتری بھی آئی ہے مگر اس میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی و سرکاری سطح پر اس سلسلے میں خصوصی کوششیں کرنی ہوں گی۔
ہر میدان میں نجی کاری کی طرف ہمارے ملک کے قدم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اعلیٰ اور انتظامی سروسز میں پیچھے کے دروازوں سے لوگوں کو داخل کرانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے ان کمزور طبقوں کے لیے ریزرویشن کو خطرہ پیدا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کام بہت چالاکی سے کیا جا رہا ہے کیونکہ کسی بھی پارٹی یا حکومت میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ ریزرویشن کی کھل کر مخالفت کرے۔ اس چالاکی اور ہوشیاری کی نفسیات کے پیچھے وہی سوچ کام کر رہی ہے یعنی ان کمزور لوگوں کے تئیں نفرت اور ان کو اپنے سے کم سمجھنے کا رجحان۔ یہ ان کمزور طبقات کو برابری کا حق اور مساوی درجہ دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یقیناً ان کمزور طبقات کو انصاف دلانے اور ان کے حقوق اور وقار کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اضافی قانون بھی بنائے گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود کمزور طبقے کو ہمارا عدالتی نظام بھی اب تک جزوی انصاف دلانے میں ہی کامیاب ہو سکا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام سے طاقتور اور اثر و رسوخ والے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور کمزور محروم رہ جاتا ہے۔ اس کڑوی سچائی کو قبول کرتے ہوئے ہمیں سرکاری و سماجی سطح پر کچھ موثر قدم اٹھانے چاہئیں۔
آج سات دہائی بعد بھی ہمارے ہندوستانی سماج پر ایک اور داغ ہے اور وہ ہے انسانوں کے ذریعہ گندگی ڈھونے اور گندگی کی صفائی کا کام۔ حالانکہ 2013 میں ایک قانون کے ذریعہ اس کا پروویژن لایا گیا تھا اور انسانوں کے ذریعہ گندگی صاف کرنے اور ڈھونے کو قانونی جرم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کام کو کرنے والے طبقے کی از سر نو آباد کاری کا پروویژن بھی قانون کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ قانون کے ذریعہ سے اور تشریحات میں ترمیم کر کے اعداد و شمار میں اصلاح دکھانے کی کوششیں حکومتوں کے ذریعہ کی جاتی رہی ہیں لیکن حالات ابھی بھی سنگین ہیں۔ ایک سرکاری قومی سطح کے سروے کے مطابق 18 ریاستوں میں گندگی ڈھونے اور صفائی کرنے والوں کی تعداد 48345 بتائی گئی ہے جس میں سے 29923 صرف ایک ریاست اتر پریش میں ہیں۔ لیکن جو زمینی حقیقت ہے وہ ان اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتے۔ 2011 کے ایک سروے کے مطابق 182505 خاندان اس کام سے منسلک پائے گئے۔ ’صفائی کرمچاری آندولن‘ (SKA) کے مطابق ملک میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ تقریباً 12 لاکھ ہے۔ سیور لائن اور سیپٹک ٹینک کی صفائی آج بھی انسانوں کے ذریعہ کی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ قانوناً ممنوع ہے۔ ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی ہے۔ اس کام کے لئے مشینیں بھی بن گئی ہیں لیکن ابھی بھی یہ کام کرتے ہوئے ہر سال کئی لوگوں کی اموات ہو جاتی ہیں۔ اموات کی یہ تعداد بھی حقیقی تعداد سے کم ہے۔ 2018 میں یہ کام کرتے ہوئے 68 لوگوں کی اموات رپورٹ کی گئیں۔ 2019 میں 110 لوگوں کی اموات اس کام کو کرتے ہوئے ریکارڈ کی گئیں۔ یہ تمام حادثات حکومت اور پورے ہندوستانی سماج کے لیے تشویش کی بات ہونی چاہیے۔
آج اکیسویں صدی میں سماج میں انسانوں کے ذریعہ اس طرح کام کیا جانا کیا ہم سب کے لیے شرم کی بات ہے۔ خاص طور سے ایک مسلمان کی حیثیت سے اور خیر امت اور داعی امت کی حیثیت سے ہمیں ان حالات پر سنجیدگی سے نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں انسان کی عظمت، اس کی تکریم، برابری اور مساوات کی تعلیمات کا عملی نمونہ انفرادی اور اجتماعی طور پر پیش کرنا چاہیے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ان کمزور طبقات اور مظلومین و محرومین کے ساتھ کھڑے رہنا، ان کے حق کے لیے، ان کے احترام و وقار کی حفاظت کے لیے عملی جدو جہد کرنا ہمارا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ اگر ہم کمزور اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ان کی مدد کریں گے اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدو جہد کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہمارے ساتھ ہو گی اور ہم اللہ سے قریب ہوں گے۔ یہ دنیاوی کامیابی ہمارے اپنے مسائل کے حل، اپنی دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور آخرت کی کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ہیں)
***

سماجی سطح پر کچھ بہتری آئی ہے لیکن ابھی بھی چھوت چھات، بھید بھاؤ اور طاقتور طبقوں کے ذریعہ ہراساں کیے جانے کے ساتھ ناانصافی کی صورتحال تشویشناک ہی کہی جائے گی۔ ابھی بھی اعلیٰ ذات کے مندروں میں داخلے ان کے کنوؤں اور تالابوں سے پانی لینے و نہانے پر تشدد کے واقعات، شادی میں دولہے کے گھوڑی پر بیٹھنے پر تشدد واذیت، دلت و کمزور طبقوں کی لڑکیوں و عورتوں کے ساتھ بد سلوکی، عصمت دری اور قتل کی وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں۔گزشتہ سال یو پی کے شہر اناؤ میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل اور اسی شہر میں ابھی چند روز قبل دو دلت لڑکیوں کی مشتبہ موت اور ہاتھرس کی لڑکی کے ساتھ پیش آئے دل دہلا دینے والے واقعات نے ہمارے سماج اور انتظامیہ پر بد نما داغ لگا دیے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021