ملک اور ہندو سماج کا سب سے بڑا دشمن کون؟

کورونا سے متاثر ایک ہندو عقیدت مند کا جواب

ابھئے کمار، دلی

 

زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ اتنا کم ہو جائے گا یہ کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا۔ کل تک جن کے ساتھ چائے پی تھی اور سیاسی معاملات پر بحث و مباحثہ کیا تھا ان میں سے ایک کے اچانک بیمار ہو جانے کی خبر ملی۔
کچھ دن پہلے ایک منحوس کال آئی تھی۔ ’’بھائی میں کرونا پازیٹیو ہو گیا ہوں بدن میں بہت تکلیف ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے پیٹھ پر سو لاٹھیاں ماری ہوں۔ زبان کا ذائقہ بالکل ختم ہو گیا ہے قوت شامہ یعنی سونگھنے کی طاقت بھی ختم ہو گئی ہے اور ابھی بھی جسم تیز بخار سے جل رہا ہے‘‘
بیمار شخص مجھے ’’بھائی‘‘ کہہ رہا تھا کیونکہ میں ان سے عمر میں بڑا ہوں۔ ہم دونوں کا تعلق ریاست بہار سے ہے۔
بھائی کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ دوران بحث میری بات نہ کاٹتا ہو یا سماجی انصاف کے مسائل پر میرا ہم خیال ہو اور بائیں بازو کے نظریہ کو درست سمجھتا ہو بلکہ ان سب معاملات میں میرا اس سے شدید اختلاف رہتا تھا۔ بار بار اس نے مجھ پر یادو کی ’’غنڈہ گردی‘‘ پر اور سماجی انصاف کی پارٹی کے ذریعہ کی جانے والی ’’بدعنوانی‘‘ پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام لگایا۔
وہ دوران گفتگو میری بات کاٹ کر کہا کرتا تھا کہ ’’بھائی! آپ معاشرتی انصاف پسند جماعتوں کے خلاف بات نہیں کریں گے کیونکہ اس سے آپ کا کاروبار خراب ہوتا ہے۔ آپ صرف پنڈتوں اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں کیونکہ اس سے آپ کی ترقی میں مدد ملتی ہے۔ سچائی بولنے کی ہمت کیجیے۔‘‘
میری دلیل یہ ہوتی کہ سماجی انصاف کی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں میں بہت سی کوتاہیاں ہیں، لیکن کوئی چیز مذہب اور نفرت کی سیاست کا متبادل کبھی نہیں ہو سکتی۔
لیکن محترم میری بات نہیں مانتے اور مسلمانوں کے خلاف خوب بولتے رہتے۔ انہوں نے دفعہ 370 کے خاتمے کا جشن منایا۔ مندر کی بھی حمایت کی اور آخری بار بھی صاحب کو ووٹ دیا۔ بہار انتخابات کے دوران لالٹین بجھانے میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور کئی بار دلت بہوجن حامیوں سے مار کھاتے کھاتے بچے۔ انہوں نے مذہب اور نفرت کی سیاست پر عمل پیرا پارٹی کی طلبہ تنظیم کے رہنماؤں کے ساتھ بھی دوستی نبھائی اور جہاں موقع ملا وہاں خوب فائدہ اٹھایا۔
لیکن جب محترم کورونا سے متاثر ہوئے سب نے نظریاتی اختلافات بھلا کر ان کی مدد کی۔ ہمارے ایک دوست نے ان کے پاس کھانا بھی پہنچایا۔ خوشی کی بات ہے کہ اب وہ کورونا سے شفا یاب ہو گئے ہیں۔
کل رات وہ فون کر کے شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا شکریہ کی کوئی بات نہیں میں نے آپ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ’’نہیں بھائی! آپ نے بہت کچھ کیا، میری حوصلہ افزائی کی، پچھلے اٹھارہ دن میں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں تنہا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے بھائی اپنا خیال رکھیں کمرے میں ہی رہیں آرام کریں اور اچھی غذا کھائیں۔‘‘
اس نے جواب دیا ’’میں ابھی آرام کر رہا ہوں لیکن کورونا بہت خطرناک ہے۔ لوگوں کو اسے ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ یہ معمولی بخار نہیں بلکہ کمر توڑ بخار ہے‘‘
اتنا کہنے کے بعد وہ کچھ اور بولا جس کی مجھے توقع نہیں تھی۔ شاید اس کی وجہ اس کا اس پریشانی کو جھیلنا ہے۔ شاید آج کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ اس کے دل و دماغ سے مذہب اور نفرت کی سیاست کا وائرس بھی نکل گیا ہے۔
وہ کہتا رہا ’’بھائی میں نے قسم کھائی ہے کہ جو غلطی میں نے پچھلے بار کی وہ اب نہیں کروں گا۔ میں نے جن لوگوں کو ووٹ دیا تھا انہوں نے مجھے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ کوئی بستر نہیں تھا، کوئی اسپتال نہیں۔ اقتدار میں رہنے والے لوگوں کو غریبوں کی زندگی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کیا اس ملک میں مندروں کی کمی ہے جو ایک اور مندر تعمیر کیا جا رہا ہے؟
مسلمانوں کے خلاف بہت کچھ برا بھلا کہا جاتا ہے۔ میرے ایک مسلمان دوست نے اس مشکل گھڑی میں میرے لیے پھل بھیجے۔ مسلمانوں اور سکھ بھائیوں نے میری بہت مدد کی۔
میں نے ہندو مذہب کے ٹھیکیداروں کو ووٹ دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اب کبھی دوبارہ یہ غلطی نہیں کروں گا۔ مجھے آج احساس ہوا کہ ہندو مذہب اور ملک کو کس چیز سے خطرہ ہے؟
دوسری طرف موبائل فون ہاتھ میں لیے میں اس کی ساری باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔

وہ کہتا رہا ’’بھائی میں نے قسم کھائی ہے کہ جو غلطی میں نے پچھلے بار کی وہ اب نہیں کروں گا۔ میں نے جن لوگوں کو ووٹ دیا تھا انہوں نے مجھے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ کوئی بستر نہیں تھا، کوئی اسپتال نہیں۔ اقتدار میں رہنے والے لوگوں کو غریبوں کی زندگی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کیا اس ملک میں مندروں کی کمی ہے جو ایک اور مندر تعمیر کیا جا رہا ہے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021