عید: اللہ تعالیٰ کا انعام

خوشیاں بانٹنے سے خوشیاں بڑھ جاتی ہیں

سید فلک بنت حیدر

 

عید عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے عظیم الشان تحفہ ہے۔ یہ تہوار رمضان المبارک کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کے لیے ایک انعام ہے۔ عید کا لفظ ”عود“ سے مشتق ہے جس کے معنیٰ ’’لَوٹنا‘‘ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے، اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے اور ’’فطر‘‘ کے معنیٰ ’’روزہ توڑنے یا ختم کرنے‘‘ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، تو اِسی مناسبت سے اسے ’’عید الفطر‘‘ قرار دیا گیا۔
عید وہ خاص دن ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو جنہوں نے رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے، خشوع خضوع کے ساتھ عبادت کی، نماز پنجگانہ قائم کی، نماز تراویح پڑھی، قرآن پاک کی تلاوت کی اور شریعت مطہرہ کے مطابق احکامات خداوند قدوس کو بجا لاتے ہوئے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے، اپنا خاص فضل و کرم کرتا ہے کیونکہ پروردگار عالم کی ذات مقدسہ ہے ہی بڑی رحیم و کریم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عیدین کے موقع پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی ہے نیز، ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندہ مومن کسی بھی حال میں اپنے رب کو نہیں بھولتا۔
عید کا تحفہ کس کے لیے؟
بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔ پورے ماہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھی اور بارگاہِ رب العزت میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔ یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب انہیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔ صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا قول ہے کہ ’’عید اُن کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید تو اُن کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اُس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں بلکہ عید تو اُن کی ہے جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اُس پر قائم رہے عید اُن کی نہیں جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے بلکہ عید تو اُن کی ہے جنہوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیں جو دنیوی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے ساتھ گھر سے نکلے بلکہ عید تو اُن کی ہے جنہوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اورخوفِ خدا اختیار کیا۔ عید اُن کی نہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔‘‘ حضرت علیؓ نے عید کی مبارک باد دینے کے لیے آنے والوں سے فرمایا ’’عید تو اُن کی ہے جو عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پا چکے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایک دفعہ حضرت عُمرؓ کے دَورِ خلافت میں لوگ عید کے روز آپ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کیے زارو قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا ’’امیرالمومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپ رو رہے ہیں؟ حضرت عُمرؓ نے جواب دیا ’’لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کے نماز، روزے اور دیگر عبادات قبول ہو گئیں بلاشبہ اس کی آج عید ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں اس کے لیے وعید کا دن۔ میں اِس خوف سے رو رہا ہوں کہ نہیں معلوم میری عبادات قبول ہوئیں یا انہیں رَد کر دیا گیا۔‘‘
غربا ومساکین کی عید
عید کے موقع پر ہمارا ایک اہم کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ پاس پڑوس میں اور رشتے داروں پر نظر ڈالیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے تو یقین جانیے کہ ہم کتنے ہی اچھا لباس پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، تحائف بھی بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں‘‘ روایت ہے کہ آقائے دوجہاں ﷺ نمازِ عید سے فارغ ہو کر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپ کی نظر ایک بچے پر پڑی جو میدان کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اُس کے سر پر دستِ شفقت رکھا پھر پوچھا ’’کیوں رو رہے ہو؟‘‘ بچے نے کہا ’’میرا باپ مر چکا ہے ماں نے دوسری شادی کرلی ہے اور سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز ہے نہ پہننے کو کپڑا ہے۔‘‘ یتیموں کے ملجا ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، فرمایا کہ ’’اگر میں تمہارا باپ، عائشہ تمہاری ماں اور فاطمہ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جاو گے؟‘‘ کہنے لگا’’ یارسول اللہ! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔‘‘ چنانچہ حضور اکرمﷺ بچے کو گھر لے گئے۔لہذا غربا کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
صدقہ فطر
صدقہ فطر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے۔ اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر واجب کیا تاکہ روزہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائے اور مساکین کے لیے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر صدقہ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشیوں میں غریب مسلمان بھی بھرپور طریقے سے شریک ہو سکیں۔ غریبوں کی اچھے طریقے سے مدد ہو سکے۔ اسی طرح صاحبِ حیثیت افراد کو فطرانے کے علاوہ بھی عید کے موقعے پر صدقہ خیرات کرنا چاہیے تاکہ اس سے غریبوں کو عید کی خوشیاں نصیب ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کسی کی دُعا آپ کی زندگی میں بھی مزید خوشیاں بھر دے۔
شوال کے چھے روزے
رمضان المبارک کے بعد ماہِ شوال میں چھے روزے رکھنا مستحب ہیں اور احادیثِ مبارکہ میں ان کی بہت فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اُس کے بعد ماہِ شوال میں چھے نفلی روزے رکھے تو اُس کا یہ عمل سال بھر روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔‘‘حضرت ابو ایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے تو یہ ایسا ہے ،جیسے پورے سال کے روزے ہوں۔‘‘(مسلم)
برکتوں اور نعمتوں کا مہینہ رمضان المبارک بس ختم ہونے کو ہے، چند دن ہی باقی رہ گئے جنہیں غنیمت جان کر خوب خوب نیکیاں، برکتیں اور اللہ کی مغفرت اپنے دامن میں بھر لیں کہ معلوم نہیں آئندہ سال ہم اس مبارک مہینے کو پا سکیں گے یا نہیں۔بے شک رمضان ضبط نفس کے لیے لائحہ عمل دیتا ہے۔ اللہ ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021