چمکے گا پھر اک بار ترے بخت کا تارا

ہندو احیاء پرستی اور ہندوستانی مسلمان

شبیع الزماں ، پونے

 

۲۰۱۴ میں سنگھ کے پرچارک رہے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان میں ہندو احیاء پرستوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور ملک میں مسلم مخالفت کی لہر چل پڑی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کا وجود مٹانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس طرح کی کوششیں پہلی دفعہ نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ماضی میں بھی یہ کوششیں ہوتی رہیں ہیں۔ ہندوستان میں ہندو احیاء پرستی کی لہر پہلی مرتبہ نہیں اٹھی ہے بلکہ یہ وقفے وقفے سے اٹھتی رہی ہے لیکن مسلمانوں نے ہر بار کامیابی کے ساتھ ان مخالفتوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس بار بھی صورتحال مختلف نہیں ہو گی۔ جب خلجی خاندان کا آخری بادشاہ مبارک خلجی اپنے نو مسلم غلام خسرو خاں کے ہاتھ سے قتل ہوا اور خسرو نے تاج شاہی سر پر رکھا۔ خسرو کا صرف نام ہی مسلمان کا تھا وہ دل سے مسلمان نہ تھا اور اس کے ساتھی اور ہم قوم جو اس نے گجرات سے بلائے تھے وہ تو نام کے مسلمان بھی نہیں تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا تھا، مسجدوں کی محرابوں میں بت رکھوا دیے۔ کلام مجید کے نسخوں کو اوپر نیچے رکھ کر انہیں اسٹول کی طرح استعمال کیا جاتا تھا یہ وقت اسلام کے لیے بڑا نازک تھا۔ مورخین کا بیان ہے کہ خسرو خان نے تخت نشینی کے بعد اہانت اسلام پر کمر باندھ لی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ دہلی پھر سے ہندوانہ ہوجائے گی اور مسلمان وہاں سے ختم ہو جائیں گے۔ مسلمان کی عورتوں اور کنیزوں کو قبیلہ برادوں (خسرو خان کا قبیلہ) کے لوگ استعمال میں لاتے تھے۔ خسرو کا مقصد شمالی ہند میں نئے سرے سے ہندو اقتدار قائم کرنا تھا۔
کیمبرج ہسٹری میں اس صورت حال کو یوں بیان کیا گیا ہے؛۔
Islam stood in sore need of a champion. None of Khusrav’s tribe was a Muslim in more than name, and only a few had made profession of the faith. Muslim historians record with indignation the open celebration of idolatrous worship at court and the gross insults offered to their faith. Mosques were defiled and destroyed and copies of the scriptures of Islam were used as seats and stools.
(Cambridge history volume 3)
’’اسلام کو اس وقت ایک سرپرست کی بڑی ضرورت تھی۔ خسرو کی ساری جماعت میں ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا اسلام برائے نام نہ ہو اور بعض نے تو اسلام اختیار ہی نہ کیا تھا۔ دربار میں علانیہ بت پرستی ہوتی اور مذہب اسلام کی توہین کی جاتی۔ مسلمان مورخین ان واقعات کا بڑے رنج اور افسوس کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ مسجدوں کی بے حرمتی ہوتی یا انہیں مسمار کیا جاتا اور اسلام کی مقدس کتابیں کرسیوں اور اسٹولوں کی طرح بیٹھنے کے لیے استعمال کی جاتیں‘‘
ابن بطوطہ جو اس واقعہ کے کافی دن بعد ہندوستان آیا لکھتا ہے۔
جب خسرو ملک بادشاہ ہوا تو اس نے ہندووں کو بڑے بڑے عہدے دیے اور حکم دیا کہ تمام ملک میں کوئی گائے ذبح نہ ہونے پائے۔ ہندو لوگ گائے کی نہایت تعظیم کرتے ہیں اور ثواب کے لیے بھی اور بطور دوا کے بھی اس کے پیشاب کا استعمال کرتے ہیں اور اس کے گوبر سے اپنا گھر اور دیوار لیپتے ہیں۔ خسرو خان چاہتا تھا کہ مسلمان بھی ایسا ہی کریں۔ اس لیے لوگ اس سے متنفر ہو گئے۔
(سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات۔ خلیق احمد نظامی)
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ ایک ایسا نازک وقت تھا جو انہیں سلطنت دہلی کے قیام سے اب تک کبھی پیش نہیں آیا تھا۔ لیکن خدا کا ایک بندہ اٹھا اور اس سے پہلے کہ فتنہ جڑ پکڑ لے اس کا خاتمہ کر دیا۔ غازی ملک فخرالدین جو بعد میں سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے مسلم رئیسوں کو مدد کے لیے پکارا۔ اس نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ اس کی مہم کا مقصد ’’قطع کفر و کفران‘‘ ہے۔ اس وجہ سے عوام میں اس کی تحریک کے ساتھ خاص ہمدردی پیدا ہو گئی۔جن صوبائی گورنروں نے اس خوف کے سبب کہ اس طرح غازی ملک کو ذاتی استحکام کا موقع مل جائے گا اس کا ساتھ دینے سے انکار کیا انہیں عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ غازی ملک اور خسرو کے درمیان دو مسلسل جنگیں ہوئیں۔
خسرو نے شاہی خزانے کے منہ کھول دیے۔ سپاہیوں کو تین تین چار چار سال کی تنخواہیں پیشگی دیں، وہ جان توڑ کر لڑے لیکن غازی ملک کی شاندار قیادت کام آئی خسرو کو ابتدائی کامیابی کے بعد شکست فاش ہوئی۔ اس طرح دہلی اور اس کے گردو پیش کا علاقہ اس فتنے سے پاک ہوا۔
اسی طرح اکبر کے زمانے میں دین الٰہی صرف ایک بادشاہ کی حماقت نہیں تھی بلکہ اس کے در پردہ سیاسی طور پر ملک میں ہندو احیاء پرستی کی کوششیں بھی جاری تھیں۔ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات سے ان کوششوں کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ تھانیسر کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں’’کفار ہند بے تحاشا مسجدوں کو گرا کر وہاں اپنے معبدوں کو تعمیر کر رہے ہیں۔ چنانچہ تھانیسر میں کروکشیتر کے درمیان ایک مسجد اور ایک بزرگ کا مقبرہ تھا اس کو گرا کر بڑا بھاری مندر بنا دیا ہے‘‘۔(دفتر دوم مکتوب ۹۲)
اسی خط میں آگے لکھتے ہیں۔ ’’کفار اپنی رسموں کو کھلم کھلا بجا لارہے ہیں اور مسلمان اکثر اسلامی احکام کے جاری کرنے میں عاجز ہیں۔ ایکا دشی کے دن ہندو کھانا ترک کر دیتے ہیں۔ بڑی کوشش کرتے ہیں کہ بڑے اسلامی شہروں میں اس دن نہ کوئی روٹی پکائے اور نہ بیچے جبکہ ماہ رمضان میں برملا نان وطعام پکاتے اور بیچتے ہیں۔مگر اسلام کے مغلوب ہونے کے باعث کوئی روک نہیں سکتا‘‘
ان ہی وجوہات کی بنا پر مجدد الف ثانی کا ہندووں کے متعلق بہت سخت موقف تھا۔ ان سے پہلے ہندوستان میں شاید ہی کسی اہل طریقت بزرگ نے غیر مسلموں کے ساتھ شدت اور سختی کی تلقین کی ہو۔ بادشاہوں نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر، فقہا اور علما نے چاہے کسی اور سبب سے غیر مسلموں پر سختی کی وکالت کی ہو لیکن حضرات صوفیہ نے ان کے خلاف کبھی بھی غیض وغضب کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن ہندو احیاء پرست تحریکوں کے مظالم نے حضرت مجدد الف ثانی کے حساس دل پر بڑا اثر کیا اور ان کے دل میں غیر مسلموں کے لیے غصے کے جذبات پیدا ہو گئے۔ محمد اکرام لکھتے ہیں ’’حضرت مجدد الف ثانی کا غیر مسلموں کے متعلق جو خاص نقطہ نظر تھا اور جو فی الحقیقت ہندووں کی جارحانہ احیاء پرستی کی تحریک کے خلاف رد عمل تھا۔ اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ اکبر کے زمانے سے ہندووں کی تالیف قلب کے لیے جو مصالحانہ کوششیں ہوئی تھی ان کی مخالفت شروع ہوئی، اکبر کے زمانے میں جزیہ موقوف ہوا تھا اور ذبح بقر پر پابندی لگائی گئی تھی حضرت مجدد الف ثانی کو یہ دونوں باتیں ناگوار تھیں‘‘ (رود کوثر۔ محمد اکرام)
محمد اکرام نے ان حالات کی تصویر کشی یوں کی ہے ’’اس وقت ہندووں میں احیائے مذہب کی تحریک زوروں پر تھی اور اطراف ملک میں اس کے جو مظاہرے ہوتے تھے ان سے باغیرت مسلمانوں کے دل مجروح ہوتے تھے۔۔۔۔ہندو احیائیت کی تحریک بسا اوقات داراسلطنت یا بڑے اسلامی شہروں مثلا لاہور سے دور اور بالخصوص ہندووں کے مقامات مقدسہ کے گرد و نواح میں بڑی خطر ناک صورت اختیار کرلیتی تھی۔ عہد اکبری میں متھرا کے ایک برہمن نے مسجد کی اینٹ پتھر کو ایک مندر کی تعمیر میں جس طرح استعمال کیا اور مسلمان متولی کی مزاحمت پر رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی اس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ اس برہمن کو سزائے موت دینے پر اکبر کے زمانے میں بڑا ہنگامہ ہوا تھا۔ ہندووں کی سینہ زوری کے کئی واقعات اطراف ملک میں ہو رہے تھے۔‘‘ (رود کوثر)
اس ہندو احیاء پرستی کو روکنے میں جہاں امراء جیسے شیخ فرید، شہباز خان نبوہ، قطب الدین وغیرہ نے کوششیں کی وہیں حضرات صوفیہ میں خواجہ باقی اللہ، ان کے شاگردوں اور حضرت مجدد الف ثانی کی زبردست محنت نظر آتی ہے۔ ان حضرات کی کوششوں سے یہ فتنہ ختم ہوا اور جہانگیر نے تخت نشینی کے وقت وعدہ کیا کہ وہ شرع کی پابندی کرے گا۔
البتہ تاریخ میں ہونے والی ہندو احیاء پرستی کی کوششوں اور موجودہ کوششوں میں بعض باتوں میں بنیادی فرق ہے جس کے سبب صورتحال کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ اس سے پہلے کی ہندو احیائی کوششیں اچانک ہوئی اقتدار کے تبدیلی کے نتیجہ میں تھیں ان کے پیچھے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور مضبوط حکمت عملی نہیں تھی لیکن موجودہ اقتدار کی تبدیلی اچانک ہونے والی تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک صدی سے زیادہ کی جدو جہد اور محنت ہے۔ تبدیلی کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ جس طریقے سے آتی ہے اسی طریقے سے رخصت بھی ہوتی ہے۔ پہلے اچانک آئی تھی اچانک چلی بھی گئی تھی اس بار دھیرے دھیرے اور منصوبہ بند طریقے سے آئی ہے تو اس کے جانے میں بھی وقت درکار ہو گا۔
اس سے پہلے کی تبدیلیوں میں کوئی نظریاتی پہلو نہیں تھا بلکہ صرف مسلم دشمنی اور تعصب تھا۔ اس کے برعکس اب اس دشمنی اور تعصب کو نظریاتی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کے پیچھے ایک صدی کا لٹریچر ہے اور اس نظریہ کی بنیاد پر کئی سو تنظیمیں کام کر رہی ہے۔ اس نظریہ کو سماج کے ہر طبقے میں منصوبہ طریقے سے پھیلایا گیا ہے۔ ان نظریات کی بنیاد پر ایک نیا سماج تشکیل دیا گیا ہے۔ اور اسے سماج کی رگوں میں فلموں، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، لٹریچر، نصاب اور ہر ممکن طریقے سے اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لیے اب اس کا صرف میدان میں نہیں بلکہ نظریاتی سطح پر بھی کرنا پڑے گا۔
تیسری اہم اور بنیادی وجہ ہندوستانی مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی پوزیشن ہے۔ کیونکہ تب مسلمان بحثیت مجموعی ایک مضبوط قوم تھے۔سماج کے پاور سینٹرز پر ان کی پکڑ مضبوط تھی۔سیاسی، سماجی، معاشی اور ہر طرح سے ان کو دیگر اقوام پر فوقیت حاصل تھی۔ اس لیے وہ اس طرح کے چیلنجیز کا بہتر طور پر مقابلہ کر پائے لیکن اب مسلم سماج ہر سطح پر کمزور ہو چکا ہے۔حکومت سے لے کر قیادت تک، تعلیم سے لے کر معاش تک وہ بد ترین زبوں حالی کا شکار ہے۔اس صورتحال میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی صورتحال میں تبدیلی کے بغیر ہندو احیاء پرستی کا مقابلہ ناممکنات میں سے ہے۔ مسلمانوں کو ایسے اہل دانش اور اولعزم لوگوں کی ضرورت ہے جو مسلم سماج میں ہر سطح اور ہر میدان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرسکیں اور مسلمانوں کو اس مقام پر لاکر کھڑا کر دیں جو ان یورشوں کا مقابلہ کر سکیں۔ جس کی طرف جگن ناتھ آزاد نے اپنی نظم ’’بھارت کے مسلماں‘‘ میں اشارہ کیا تھا۔
طوفان میں تو ڈھونڈھ رہا ہے جو کنارا
امواج کا کر دیدۂ باطن سے نظارا
ممکن ہے کہ ہر موج بنے تیرا سہارا
ممکن ہے کہ ہر موج نظر کو ہو گوارا
ممکن ہے کہ ساحل ہو پس پردۂ طوفاں
بھارت کے مسلماں
ماحول کی ہو تازہ ہوا تجھ کو گوارا
درکار ہے تہذیب کو پھر تیرا سہارا
کر آج نئے رنگ سے دنیا کا نظارا
چمکے گا پھر اک بار ترے بخت کا تارا
ہو جائے گی تاریکیٔ ماحول گریزاں
بھارت کے مسلماں
ماخذ و حوالہ جات: (Cambridge history volume 3)
سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات۔ خلیق احمد نظامی
رود کوثر۔ محمد اکرام
تجدید و احیائے دین۔ مولانا مودودی
تذکرہ۔ مولانا ابوالکلام آزاد
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021