مفتی نعیم الدین مرادآبادی کی تصنیف ’’احقاق حق ‘‘کی عصری افادیت

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات (قسط 9)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،، علیگڑھ

 

گزشتہ مضمون مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کی تصنیف ’’حق پرکاش‘‘ کے بارے میں تحریر کیا گیا تھا۔ مولانا نے یہ کتاب، سوامی دیانند سرسوتی کی مشہور کتاب ستھیارتھ پرکاش کے جواب میں لکھی تھی۔ اسی موضوع کی مناسبت سے ایک اور اہم تصنیف مولانا مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی کی ’’احقاق حق‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ بات بھی آ چکی ہے کہ سوامی جی نے اپنی کتاب ستھیارتھ پرکاش میں تمام مذاہب پر حملے کیے ہیں۔ البتہ کتاب کے چودہویں باب میں اسلام کو نشانہ بنایا اور اپنے ذہنی تعصب کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ مفتی نعیم الدین مرادآبادی کی اس تصنیف کی تدوین و ترتیب کا کام مولانا مفتی غلام معین الدین نعیمی نے کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اپنی جامعیت اور اہمیت کے لحاظ سے کافی اہم ہے۔ اس کتاب کو 2002ء میں فرید بک اسٹال اردو بازار لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 254صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے سرورق پر درج ذیل عبارت مرقوم ہے۔ ’’قرآن کریم پر ستھیارتھ پرکاش کے اعتراضات کا جواب آریہ دھرم، ہندومت اور آواگون (تناسخ) کے فلسفیانہ اوہام کا محققانہ بطلان‘‘ اس عبارت سے مصنف کے مقصد و منشاء کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ علاوہ ازیں، سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 18جاءالحق بھی لکھی ہوئی ہے۔ یعنی اس آیت سے مصنف یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسلام کے آنے کے بعد کوئی بھی دین و مذہب معتبر نہیں ہے اور نہ ہی قابل اطاعت و اتباع ہے۔
کتاب میں جن مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے اس کی فہرست اس طرح ہے۔ اعتراض بر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، اعتراضات متعلق سورہ فاتحہ، آواگون یعنی تناسخ کی بحث اور اس کا بطلان، جوابات اعتراضات متعلق سورہ بقرہ، جنت کا بیان، بہشت میں اہل جنت کا شاندار داخلہ، جنت کی وسعت، جنت کی فضا، اہل جنت کے لباس وفروش، جنتی بیبیاں، حیات دوام اور موت سے امن، جنتی جو چاہیں گے وہ ملے گا اور دیدار الٰہی جیسے اہم مضامین شامل ہیں۔ فاضل مصنف نے کتاب کی ابتدا میں سوامی جی کے متعلق جو گفتگو کی ہے اس کا اقتباس ذیل میں پیش خدمت ہے۔
’’مقدس اسلام کو حاسدوں اور معاہدوں سے واسطہ پڑا اور پڑتا رہتا ہے اور جس قدر اس کے ساتھ حسد اور عداوت کی رسمیں برتی گئیں اور اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے اہل باطل کی ساری قوتیں تل تل کر آئیں اور انہوں نے اپنی زور آزمائی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، اسی قدر اسلام کے کمالات اپنی شان و شوکت دوبالا کرتے گئے۔ دور حاضر میں جہاں صدہا مشینیں اور مِلیں اور طرح طرح کی عجیب و غریب چیزیں ایجاد ہو رہی ہیں، مذہب سازی کی صنعت بھی اپنے اوج کمال کو پہنچ گئی ہے اور آئے دن نئے نئے مذہب ایجاد ہوتے رہتے ہیں انہیں میں ایک ’’دیانندی‘‘ مذہب بھی ہے (جو اپنے آپ کو آریہ کہلاتا ہے) جو تھوڑے زمانہ سے پیدا ہوا، اس نے مذہبی دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے اور اپنے دل آزاری طرز عمل سے دنیا کو جگر خراش صدمے پہنچائے ہیں۔ سخت کلامی اور بدزبانی تو گویا انہوں نے جزوِ مذہب قرار دے لی ہے کہ ان کے مذہب کی کتاب ستھیارتھ پرکاش دریدہ دینی اور بدزبانی بلکہ سب و شتم کا ذخیرہ ہے۔ اس کتاب کا چودھواں باب قرآن پر اعتراض کرنے کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے اور اس میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ قرآن پاک کی ایک ایک سورہ علیحدہ علیحدہ سرخی قائم کر کے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں کو صدمے پہنچانے ہیں۔ ‘‘ یعنی مذکورہ بالا اقتباس اس بات پر شاہد عدل ہے کہ سوامی جی نے جو اعتراضات قرآن پر کئے ہیں ان میں شائستگی اور اخلاقی قدروں کا قطعی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ بلکہ دل آزاری کی تمام حدود کا تجاوز کیا گیا ہے۔ اس بناء پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کسی مہذب اور دانشور کے لئے کسی بھی نظریہ پر تنقید و اعتراض کرنے سے قبل لازمی ہے کہ وہ ایسی زبان و رویہ بالکل استعمال نہ کرے جس سے کسی کو رنج و صدمہ پہنچے۔ اب ذیل میں سوامی جی کے اعتراضات اور مفتی نعیم الدین مرادآبادی کے چند جواب ملاحظہ کیجئے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پر پنڈت جی کا اعتراض یہ ہے کہ ’’مسلمان لوگ ایسا کہتے ہیں کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے۔ لیکن اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی دوسرا ہے۔ کیونکہ اگر خدا کا بنایا ہوتا تو شروع ساتھ نام اللہ کے ایسا نہیں کہتا بلکہ شروع واسطے ہدایت انسانوں کے، ایسا کہتا۔ ‘‘
مفتی نعیم الدین مرادآبادی مذکورہ اعتراض کا جواب اس طرح عرض کرتے ہیں۔ ’’کسی چیز پر اعتراض کرنے کے لئے پہلے اس کی واقفیت حاصل کرنا چاہئے لیکن معترض قرآن پاک سے محض نابلد ہے، حتیٰ کہ اس کو یہ بھی خبر نہیں کہ قرآن پاک خود اپنی نسبت کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتا ہے۔ اور ایسی زبردست براہین پیش فرما رہا ہے۔ جن کے جواب سے زمانہ ہمیشہ عاجز ہے اور ہمیشہ عاجز رہے گا۔ إن كنتم فی ریب مما نزلنا علی عبد نا فاتوا بسورة من مثله وادعوا شهداء كم من دون الله إن كنتم صادقین. یہ وہ تحدی تھی وہ معارضہ جس کی ہیبت نے ہاتھوں سے قلم چھڑا دیئے، بولنے والی زبانیں ساکت بلکہ گنگ ہوگئیں۔ قلم کی جگہ تلوار ہاتھ میں لینا پڑی اور ایک آیت کا نظیر پیش کرنے کے بجائے دشمنان اسلام خونوں کی ندیاں بہانے کے لئے تیار ہو گئے۔ بلغائے عرب کی ہمتیں پست ہوگئیں اور انہوں نے علمی طور پر اپنے عجز کا اعتراف کرلیا۔ ‘‘اس نقلی جواب دینے کے بعد مفتی صاحب نے عقلی جواب بھی دیا ہے۔ چنانچہ وہ جواباً تحریر کرتے ہیں ’’ پنڈت جی نے لکھا ہے کہ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کلام کا بنانے والا کوئی دوسرا ہے۔ آیت میں کونسا لفظ ہے اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا کونسا حرف ہے جس کا مدلول یا مفہوم یہ ہو کہ اس کتاب کا بنانے والا خداوند عالم کے سوا کوئی دوسرا ہے؟ خود پنڈت جی نے جو ترجمہ کیا ہے اس کے کون سے لفظ میں اشارہ ہے کہ قرآن، کلام الٰہی ہونے کا کس طرح منافی ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی دیانندی اس کے ثابت کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ اگر ناممکن کسی طرح ممکن ہو، تو کوئی آریہ بھی اس کا جواب دے سکے گا؟ کیا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں اللہ کا نام آنا اس بات کی دلیل ہوسکتا ہے کہ کہ یہ اللہ کا کلام نہیں؟ ‘‘ راقم نے طوالت کے باعث مختصر جواب نقل کیا ہے۔ پوری تفصیل زیر تبصرہ کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔
دوسرا اعتراض پنڈت جی کا یہ ہے کہ ’’اگر انسان کو نصیحت کرتا ہے تو تم بھی ایسا کہو تو بھی درست نہیں کیونکہ اس گناہ کا شروع بھی خدا کے نام سے ہونا صادق آئے گا اور اس کا نام بھی بدنام ہو جائے گا‘‘ اس کا جواب مفتی صاحب یوں عرض کرتے ہیں۔ ’’پنڈت کو خیال آیا یا کسی مسلمان کی زبان سے انہوں نے سنا ہو کہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم بندوں کو تعلیم ہے کہ تلاوت قرآن پاک کی ابتدا اس طرح نام خدا سے کیا کریں؟ کیونکہ سب سے اول جو آیت نازل ہوئی وہ یہ ہے’’ اقرا باسم ربك الذی خلق‘‘ اس کا پہلا امر قرآت کا امر ہے یعنی پڑھئے تو اس کے بعد جو کچھ بھی وہ تعلیم ہے جس طرح کچہری میں حلف دینے والا کہتا ہے’’ کہو میں سچ کہوں گا‘‘ اس سے کوئی نادان بھی یہ نہیں سمجھتا کہ حلف دینے والا یہ حلف کر رہا ہے۔ بلکہ اس کا کام فقط سکھانا ہے۔ قرآن پاک میں پہلا لفظ جو نازل ہوا وہ اقرا ہے جس کے معنی تھے پڑھئے تو آئندہ اب جو کچھ ہے وہ تعلیم ہے۔
پنڈت جی نے جب یہ دیکھا کہ اب کوئی جائے اعتراض نہیں تو اپنے دل کا غبار اس طرح نکالا ’’ اگر انسان کو نصیحت کرتا ہے تو بھی درست نہیں کیونکہ اس گناہ کا شروع بھی خدا کے نام سے صادق آئے گا۔ ‘‘ پنڈت کا یہ باطل دعویٰ کہ گناہ کا شروع بھی خدا کے نام سے صادق آ ئےگا، کسی دلیل سے ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا بطلان بدیہی ہے۔ کتاب ھدایت کا شروع خدا سے کیا جاتا ہے۔ اس میں گناہ کا کیا ذکر مگر پنڈت کو تو کسی نہ کسی طرح اعتراض کرنا اور الزام لگانا تھا اس لئے ایسی بے اصل اور غلط بات کہہ دی۔ مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہ ناجائز کام پر بسم اللہ پڑھنا ممنوع ہے، اسی کو مسلمانوں کے سر منڈنا ایک جھوٹ بات لکھ کر دنیا کو غلطی میں ڈالنے کی کوشش کرنا نہایت شرمناک ہے‘‘۔ یہ سچ ہیکہ مفتی صاحب نے پنڈت جی کے اعتراضات کا تشفی بخش اور اطمینان بخش جواب دیا ہے۔ اسی طرح پنڈت جی نے یہ بھی اعتراض قرآن کریم پر کیا کہ ’’اگر وہ بخشش ورحم کرنے والا ہے تو اس نے اپنی مخلوق میں انسانوں کے آرام کے واسطے دوسرے جانداروں کو مارنے، سخت ایذا دینے اور ذبح کرکے گوشت کھانے کی اجازت کیوں دی ؟ کیا وہ ذی روح بے گناہ اور خدا کے بنائے ہوئے نہیں ہیں‘‘
اس کا جواب بھی ملاحظہ کیجئے۔ مفتی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایسے اعتراض پنڈت صاحب کی علم ولیاقت کا نمونہ ہیں۔ ’’اس اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے اور ذی روح کو ذبح کرنے اور ایذا دینے کی اجازت دینا رحم کے خلاف ہے۔ یہ اعتراض اس قابلیت سے کیا گیا ہے کہ اس کی زد خود پنڈت جی پر پڑتی ہے۔ کیونکہ اگر ایذا دینے کی اجازت دینا رحم کے خلاف ہے تو جانوروں سے خدمتیں لینا اور ان کی آزادی کو آسائش کے لئے برباد کرنا، ہل جتوانا، بوجھ لادنا، سواری لینا، سردی اور بارش کے وقت میں دق کرنا، منزلوں لئے پھرنا۔ تھک جائیں تو مار مار کر لہو لہان کرنا، ان کے بچے کا حق دودھ ان سے چھین لینا، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کی گردنوں میں رسیاں ڈال کر ان سے علیحدہ کرنا قدرتی غذا چھیننے کے لئے انہیں ترسانا، وغیرہ ان سب باتوں کی اجازت آپ کے پرمیشور نے دی ہے؟ بقول آپ کے وہ رحم والا نہیں۔ اگر نہیں دی ہے تو آپ کے یہ سب افعال ناجائز ہیں۔ دودھ دہی، گھی، سب آپ کے قاعدے پر حرام، سواری زراعت بار برداری میں ان سے کام لینا سب ناجائز ہے مظالم کے ترک کا عملی ثبوت دیا ہے؟ اور ان کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہے؟ لیکن یہ عمل پنڈت صاحب کی تکذیب کرتا ہے۔ آپ کا گھی، دودھ استعمال کرنا جانوروں سے سواری، بار برداری کی خدمتیں لینا ثابت کرتا ہے کہ آپ اپنے ایشور کو رحم والا نہیں مانتے۔ ‘‘
مفتی نعیم الدین مرادآبادی کی کتاب احقاق حق کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت اجاگر ہوجاتی ہے کہ پنڈت سوامی دیانند نے اسلام پر جو اعتراضات کئے ہیں وہ یقینا تعصب و جانبداری پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ علمی بخل اور علمی عدم توازن کی واضح دلیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس طرح کے اعتراضات کئے ہیں جن کا حقائق یا سنجیدگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہر اعتراض میں سوامی جی کی انتشار ذہنی اور ژولیدہ پن کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر مفتی صاحب نے ان کے تمام اعتراضات کا انتہائی سنجیدگی اور عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں جواب دیا ہے۔ نیز سوامی جی کے جملہ اشکالات و خدشات اور شکوک وشبہات کا نہ صرف تعاقب کیا ہے بلکہ ان کا ازالہ بھی فرمایا ہے۔
کتاب کی اہمیت
یہ سوال قارئین کے ذہن میں گردش کر رہا ہوگا کہ اس دور میں جب کہ ملک میں ایک طبقہ مذہبی تشدد اور نفرت و تعصب کی کھیتی کو پروان چڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑ رہا ہے۔ ایسے وقت میں اس طرح کے لٹریچر وادب پر یا کتاب پر تبصرہ ونقد کرنے سے کیا فائدہ۔ ؟ یہی نہیں بلکہ یہ بات بھی ذہن کی راہ دانیوں میں آتی ہوگی کہ یہ ملک میں قومی یکجہتی اور رواداری و ہم آہنگی کے لئے سدباب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب ملک میں مذہبی منافرت اور ایک خاص طبقے کو سب وشتم کیا جارہا ہے تو اس طرح کی تحریروں سے وطن عزیز میں ایک پیغام یہ جائے گا کہ دیگر ادیان پر بھی مسلم اسکالرس اور محققین نے بلا کسی جانبداری اور تعصب کے خاصا کام کیا ہے۔ یقیناً اس طرح کے علمی، فکری اور تحریری سرمایہ سے تکثیری سماج کی باہم قدریں مستحکم ہوتی ہیں، وہیں اقوام و ملل میں ایک دوسرے کے مذہب کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ہوتا ہے۔ امید قوی ہے راقم کی اس کاوش سے ملک میں بقائے باہم کی راہ ہموار ہوگی اور ملکی سطح پر مثبت و مفید پیغام جائے گا، اسی چیز کی آج ضرورت ہے کہ تمام اختلافات کو معدوم کرکے باہم یکجہتی اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کی یہ تہذیب کا نمایاں حصہ ہے کہ اگر باہم علمی مباحثہ، مناظرہ یا مجادلہ کہیں بھی وقوع پذیر ہوا ہے تو بھی تکثیری سماج کے درخشاں اصولوں کو مخدوش و مجروح نہیں ہونے دیا ہے۔ آج ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو جلا بخشنے کے لئے لازمی ہے کہ ملک میں اسلاف و اکابر کی روایات کو یقینی بنایا جائے تاکہ وطن عزیز میں کسی بھی طرح کی انارکی اور بد عنوانی جیسے جرائم نہ پنپ سکیں۔
[email protected]

مفتی نعیم الدین مرادآبادی کی کتاب احقاق حق کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت اجاگر ہوجاتی ہے کہ پنڈت سوامی دیانند نے اسلام پر جو اعتراضات کئے ہیں وہ یقینا تعصب و جانبداری پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ علمی بخل اور علمی عدم توازن کی واضح دلیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس طرح کے اعتراضات کئے ہیں جن کا حقائق یا سنجیدگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہر اعتراض میں سوامی جی کی انتشار ذہنی اور ژولیدہ پن کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر مفتی صاحب نے ان کے تمام اعتراضات کا انتہائی سنجیدگی اور عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں جواب دیا ہے۔ نیز سوامی جی کے جملہ اشکالات و خدشات اور شکوک وشبہات کا نہ صرف تعاقب کیا ہے بلکہ ان کا ازالہ بھی فرمایا ہے۔