معیشت میں بہتری کے آثار مگر بے روزگاری بدستور ایک بڑا مسئلہ

زراعت کے علاوہ ہر شعبے میں تنزلی کا امکان

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

گزشتہ مارچ 2020سے کورونا قہر میں پھنسی معیشت اب مصیبت سے باہر نکلنے لگی ہے۔ جاریہ مالی سال کی پہلی اور دوسری سہ ماہیوں کے بڑے تکلیف دہ حالات کے برعکس معیشت کی موجودہ رفتار اندازہ سے کہیں بہتر ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ آنے والا کل معیشت کے لیے بہتر ہوگا اور جی ڈی پی کی ترقی کی ممکنہ شرح ظاہر کر رہی ہے کہ برے دن اب پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا قہر سے پہلے جیسی بہتری کی سطح پر پہنچنے میں کچھ دیر ضرور لگے گی لیکن جو علامات ہیں اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کی بنیاد مضبوط ہے۔ وبا کے سخت دنوں میں لاک ڈاؤن کی ضروری مجبوری کی وجہ سے معیشت کی تمام سرگرمیاں بالکل تھم سی گئی تھیں۔ معیشت کو پٹری پر لانے اور متاثرہ شعبوں کی مدد کے لیے مرکزی حکومت نے تین قسطوں میں 30 لاکھ کروڑ روپے راحتی پیکیج کا اعلان ضرور کیا تھا مگر مصیبت زدہ لوگوں تک اور مہاجر مزدوروں کو محض تین لاکھ کروڑ روپے کی ہی مدد پہنچائی جا سکی۔ فلاحی کام جو تھوڑے بہت ہوئے اس سے غربا اور حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کی جتنی کچھ مدد ہوئی وہ ان مصیبت زدگان کے کے لیے غیبی مدد سے کم نہ تھی۔ اس وجہ سے بڑی مصیبت کی گھڑی ٹلی اور انسانی آفت سے ملک بچ گیا۔ اب حکومت بڑی قوت سے مینو فیکچرنگ اور برآمدات بڑھانے پر خود کفیل بھارت کے پروگرام کے تحت اپنی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی برآمدات جنوری کے پہلے ہفتہ میں سالانہ بنیاد پر 16.22 فیصد سے بڑھ کر 6.21 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ اس سے برآمدات کے پٹری پر آنے کا اندازہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال جنوری کے پہلے ہفتہ میں برآمدات کا تناسب 5.34 ارب ڈالر تھا۔ امسال یکم جنوری سے 7جنوری کے درمیان درآمدات بھی 1.07فیصد سے بڑھ کر 8.7 ارب ڈالر ہو گئی جو 2020 کی اسی مدت میں 18.6 ارب ڈالر تھی۔ پٹرولیم کو چھوڑ کر باقی درآمدات پہلے ہفتہ میں 6.56 فیصد بڑھی۔ نومبر 2020 میں برآمدات میں 8.74 فیصد کی تنزلی ہوئی تھی اور دسمبر میں معمولی بہتری کے ساتھ محض 0.8 فیصد کی تنزلی آئی۔ ہیرے اور زیوارت، انجینئرنگ اور کیمیکلس کے شعبوں کی وجہ سے برآمدات کا اچھا مظاہرہ سامنے آیا۔ عالمی صنعت اور مالی بازار کے علاوہ دیگر ممالک چین کی جارحانہ حرکتوں سے بے حد ناراض ہیں اور وہ عالمی سپلائی کے میدان میں چین کے متبادل تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔
چین کے متبادل کے طور پر بھارت ہی نظر آتا ہے کیونکہ بھارت کے بڑے بازار، سستے مزدور، صنعت کے لیے بنیادی ڈھانچوں کے ساتھ خصوصی معاشی زون (Special Economic Zone) یہاں وافر ہیں۔ اگر ان سب بنیادی ضروریات کو حکومت پورا کرنے کی پالیسی پر عامل ہوگی تو اس سے گھریلو صنعتوں کو قوت ملے گی، برآمدات بڑھیں گی، تجارتی خسارہ کم ہوگا اور بے روزگاری بھی کم ہوگی۔ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے اپنے طور پر بہترین نیٹ ورک تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اسی ضمن میں وزیر اعظم مودی نے پہلی بار معیشت میں اصلاح کے لیے یکم فروری کو پیش ہونے والے بجٹ پر صلاح و مشورہ کے لیے ماہرین اقتصادیات سے بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ کا پروگرام بنایا۔ اس معاشی سستی کے دور میں یہ بہت اہم کاز بھی ہے۔ ان چہار طرفہ کوششوں کی وجہ سے غیر موسمی سرمایہ کاروں کے علاوہ سرمایہ کاری کے میدان میں دیگر ممالک کا اعتماد بھی بڑھا ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود ہماری غیر ملکی کرنسی کے خزانہ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اسی اعتماد کا نتیجہ ہے کہ زیادہ تر ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارتی سمجھوتہ بھی ہوا۔ اس کے علاوہ کچھ ممالک کے ساتھ تجارتی سمجھوتوں پر اس سال مہر لگ جائے گی۔ کورونا قہر، معیشیت پر چھائی سستی اور مہنگائی، بے روزگاری اور مالی خسارہ کو لے کر ابھی بھی تشویش ہے۔ ملک کی معیشت دھیمی ہی سہی مگر بہتری کی طرف گامزن ہے اور یہ قابل قدر بھی ہے کیونکہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں عوام کو کم ہی راحت ملی۔ مگر کارپوریٹ منافع، رئیل اسٹیٹ میں کچھ اصلاح، اشیا اور خدمت ٹیکس میں زیادتی، ربیع فصلوں میں بڑھوتری، اس طرح معیشت میں بہتری کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اندازہ ہے کہ بھارت امسال 30.1 ملین ٹن اناج کا ریکارڈ پیدا کرے گا۔ آئندہ سال زراعت میں 3.5 فیصد ترقی کا امکان ہے۔ یکم فروری کو پیش ہونے والے بجٹ کے وعدہ انفراسٹرکچر کے ذریعے بڑی راحت ملنے کی توقع ہے۔ اس میں صحت اور تعلیم کے لیے بہتری کا نظم ہوگا۔ کورونا نے صحت کے انتظام کو بالکل ہی درہم برہم کر دیا تھا۔ تعلیمی نظام بھی بری طرح متاثر رہا جو نرم انفراسٹرکچر کے حصے ہیں۔
ادھر اسٹاک مارکٹ لگاتار اونچائی کی طرف گامزن ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے پہلے کاروباری دن اس نے اپنے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے ۔ سنسیکس پہلی بار 49000 کے پار گیا تو وہیں نفٹی بھی 14500کے قریب پہنچ گئی۔ آئی ٹی اور آٹو شیئر میں زور دار تیزی سے بازار کو سپورٹ ملا۔ ایچ سی ایل ٹیک اور انفوسس کے شیئر میں سب سے زیادہ تیزی رہی اس کے علاوہ ایچ ڈی ایف سی بینک، بجاج آٹو، ماروتی، ٹیک مہندرا، ایم اینڈ ایم اور این جی سی کے شیئروں میں بھی تیزی دکھائی دی۔ نیتی آیوگ کے وائس چیرمین راجیو کمار نے کہا ہے کہ صنعتوں میں اب بہتری نظر آرہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کے سرکاری خزانہ وسائل سے کووڈ-۱۹ وبا کے اثر کو محدود کرنے میں مدد ملے گی۔ نیشنل اسٹیسٹکل آفس (این ایس او) کے اندازہ کے مطابق آئندہ کے معیشت کے دورانیہ میں 7.7 فیصد کی تنزلی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ صنعتوں میں تیزی سے بہتری آرہی ہے۔ پیشگی اندازہ کے مطابق جاریہ مالی سال میں زراعت کو چھوڑ کر دیگر مختلف شعبے تنزلی کا شکار ہوں گے۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے تجارت کو ترقی کی طرف لے جانے کے لیے حکومت کی کوششوں کی ستائش کی ہے۔ تجارتی تنظیم نے کہا ہے کہ بھارت نے تجارت کو مہمیز دینے کے لیے کئی طرح کے اقدام کیے ہیں۔ ان میں درآمدات و برآمدات کے لیے سرحدی ٹیکس سے جڑی منظوری کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے عمل کی ستائش کی ہے۔ اس تنظیم نے کہا ہے کہ بھارت نے 2015 کے بعد انڈین کسٹمس الکٹرانک گیٹ وے (ICEGATE) سنگل ونڈو انٹر فیس فار فیسیلیشن آف ٹریڈ (SWIFT) ڈائرکٹر پورٹ ڈیلیوری اینڈ ڈائریکٹ پورٹ انٹری جیسے اقدام کیے ہیں۔ ساتھ ہی رسک مینجمنٹ سسٹم (RMS) کا استعمال بڑھایا گیا ہے۔ تجارتی تنظیم نے کہا ہے کہ ٹیرف، برآمدتی ٹیکس، اقل ترین درآمدتی ٹیکس۔ برآمدات اور درآمدات پابندی جیسے پالیسی انسٹرومینٹس پر بھروسہ قائم رکھا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ حکومت نے گھریلو پیداوار اور برآمدات دونوں کو ترقی دینے کے لیے کئی طرح کے قدم اٹھائے ہیں۔ ان میں براہ راست سبسیڈی دینا اور سپورٹ پرائس جیسے منصوبے شامل ہیں۔اگرچہ معیشت میں بہتری ہو رہی ہے مگر روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو وزیر اعظم نے روزگار کی فراہمی پر ماہرین اقتصادیات سے کھل کر تبادلہ خیال کیا مگر کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ روزگار کے تناظر میں معاملہ بہت ہی خراب اور مایوس کن ہے۔ ۲۰۲۰ دسمبر میں بے روزگاری بڑھ کر 9.1 فیصد ہو گئی۔ جون میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ 6 دسمبر تک بے روزگاری تیزی سے بڑھ کر 8.4 فیصد ہو گئی۔ اس کے بعد بے روزگاری ایک ہی ہفتہ سے دوسرے ہفتہ تک 9.9 فیصد سے 10.1 فیصد ہو گئی۔ سی ایم آئی ای نے شرح بے روزگاری پر افسوس کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس سے ہی افراط زر کا مسئلہ سامنے آتا ہے جو فی الوقت ۷ فیصد کے قریب ہے۔ سی ایم آئی ای کے مطابق بے روزگاری کی دراصل لیبر پارٹیسپیشن ریٹ (ایل پی آر) میں جزوی بہتری ہوئی کیونکہ ایل پی آر نومبر میں 40 فیصد سے گرکر 400 فیصد پر آ گیا۔
بے روزگاری کے علاوہ تین بڑے چیلنجز
حکومت نے ہندوتوا کو بروئے کار لانے کے لیے خود ہی معاشی اور سیاسی بحران پیدا کر لیا ہے جس میں ان کی مذہبی منافرت سے بھر پور زہر آلودہ نیو لبرل پونجی واد ذہنیت شامل ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ وہ نفرت کی سیاست کے ذریعہ اکثریتی حب الوطنی اور راشٹر واد کا نام لے کر بانٹو اور سیاست کرو کی پالیسی پر چل کر ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کووڈ-19 کے وبائی حملے پر کسی غور و فکر کے بغیر جلد بازی میں نافذ کیے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے باقی بچی معیشت بھی زمین بوس ہوگئی۔ محنت کشوں اور مزدوروں پر اس کا ہتھوڑا برسایا گیا اور حاشیہ پر پڑے ہوئے لوگ خصوصاً دلت وغیرہ جس میں تین افراد میں سے ایک فرد نے اپنا ذریعہ گزر بسر کو کھو دیا اور مہاجر مزدروں کی تین چوتھائی تعداد ملک بھر میں جگہ جگہ پھنس کر رہ گئی۔ پھر انہیں ان کی یومیہ اجرت نصف سے بھی کم محض ایک دن کا راشن دیا گیا۔ standard workers rehan network–(SWAN)نے یہ رپورٹ دی ہے۔ اس اجتماعی آفت کے وقت حکومت نے جس راحتی پیکیج کو تقسیم کیا وہ ملک کی جی ڈی پی کا محض 1.5 فیصد ہی تھا۔ مگر حکومت نے 20 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کے برخلاف ویتنام جیسے چھوٹے ملک نے اپنی جی ڈی پی کا 9.5 فیصد خرچ کیا اور بہت مہارت، ہوشیاری اور کامیابی سے وائرس کے پھیلاؤ کو قابو میں کرنے کے لیے کنٹکٹ ٹریسنگ، آئیسولیٹنگ ٹریٹمنٹ کیا۔ روہت آزاد اور سوریندرا موہن گھوش نے سوشل سائنٹسٹ نام کے جرنل میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں وضاحت کی گئی کہ ویتنام کی جانچ کی شرح 718 تھی اگرچہ بھارت کی شرح جانچ محض 12 رہی ہے۔ ہماری حکومت مالی خسارہ کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی سلامتی، آسمانی آفت کے موقع پر خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتی مگر حکومت نے مودی اور جانب دار میڈیا کے ذریعے 10 فیصد جی ڈی پی کا شور مچایا۔ اگر باریکی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ محض جی ڈی پی کا 1.5 فیصد یعنی 3 لاکھ کروڑ روپے کا صرفہ کیا گیا۔ جس میں سے نوے ہزار کروڑ روپے مالی بجٹ میں پہلے سے ہی مختص کیے گئے تھے۔ سب سے برا حال دیہی مزدوری کا ہوا۔ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گیارنٹی رورل ایکٹ کے بارے میں People’s action for employment اور dib.tech.india نے واضح کیا ہے کہ حکومت نے غریب ترین افراد کے روزگار پروگرام کی ضرورت پوری نہیں کی جس سے دیہی روزگار کا بحران سامنے آیا۔ اس سے قبل عظیم پریم جی یونیورسٹی کی طرف سے ایک سروے آیا جس میں بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاون کے دوران دس میں سے چھ دیہی علاقے میں لوگوں کے روزگار ختم ہو گئے ہیں۔ دی سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) نے کہا ہے کہ ایک کروڑ 10 لاکھ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور بے روزگار ہیں۔ اس دعوے کی تائید میں رائٹ ٹو فوڈ کمپنی کے سروے نے واضح کیا ہے کہ 43 فیصد لوگوں کو اپریل مئی میں کسی طرح کا کام نہیں ملا تھا۔ 62 فیصد لوگ ایسے تھے جو ماقبل کوویڈ کے کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور تھے۔ منریگا ہی آمدنی کا ایسا منصوبہ جو دیہی علاقے میں باوقار روزگار کا ذریعہ ہوا کرتا تھا جو بڑے خسارہ میں رہا ہے۔ PAEG کی رپورٹ بتاتی ہے 1.3 کروڑ نئے کارڈ جاری کیے گئے جو گزشتہ سال نومبر 30 کے مقابلے ایک کروڑ سے زیادہ خاندنوں کو اس اسکیم کے تحت کام دیا گیا۔ اس طرح اوسطاً ہر خاندان کو 41 دنوں کا کام دیا گیا جو 2019 کے 48 دنوں کے روزگار سے کم تھا۔ امسال 17 لاکھ خاندانوں نے 100 دنوں یعنی 30 نومبر تک کام کیا جبکہ گزشتہ سال 40.06 لاکھ کنبوں نے کام کیا تھا۔ حسب توقع منریگا کے تحت ان خاندانوں کو روزگار کے ختم ہو جانے سے زیادہ کام کی توقع تھی۔ اس طرح کام کی طلب زیادہ تھی اور روزگار بکھرا پڑا تھا۔
منریگا میں خامیوں کے تین وجوہات
فنڈ کی کمی اور اس کا کم جاری کیا جانا۔ PAEG رپورٹ بتاتی ہے کہ نومبر کے اخیر تک فی کس دنوں کا حساب ۴۳ فیصد تھا۔ یہ مدت گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ فی کس دنوں کے حساب سے جاری کی گئی ہے۔ آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس کے باقی دنوں کے روزگار کو ختم کر دیا۔ 20 فیصد سے زیادہ رقم وزارت کے پاس ہی رہ گئی۔ کٹائی کا موسم ختم ہونے کے بعد بقیہ ماہ دیہی روزگار کے لیے بہترین موقع مل سکتا تھا۔ مگر کم اسکیموں کو گرام پنچایت کو مختص کئے جانے کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہو گئے۔ بلاک انتظامیہ اس طرح کے منصوبوں کو مسابقت کے فقدان کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنا پاتی ہے۔ اس سے ضرورت مند مزدور اپنی سہولت کے حساب سے منفعت حاصل نہیں کر پاتے۔ فی الوقت فنڈ کی اجرائی سافٹ ویر کے متعینہ سسٹم سے ہوتی ہے جس پر ضلعی آفیسر اور بلاک آفیسر کا ہی کنٹرول ہوتا ہے۔ گرام پنچایت کا اس میں عمل دخل بہت کم ہی ہوا کرتا ہے۔ مزدوروں کے اندر بیداری کی کمی کی وجہ سے بھی وہ اس بحرانی دور میں زیادہ کام کا مطالبہ نہیں کر پائے۔ منریگا کی شروعات 14 سال قبل ہوئی تھی مگر بہت سارے لوگ اس کے متعلق لا علم ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۳ فیصدی روزگار کی طلب پورا ہونے سے رہ جاتی ہے۔ گوا کنکشن اور سی ایس ڈی ایس لوک نیتی کے سروے میں بتایا گیا کہ مطالبہ کی بنیاد پر 20 فیصد افراد کو کام ملا 45.6 لاکھ گھروں کو کارڈ بھی نہیں دیا گیا اور PAEG کی فائنڈنگ کے مطابق 97 لاکھ خاندانوں کو دو وقت کا سال بھر کھانا بھی نہیں مل پایا۔ایسے سماجی، سیاسی اور طبی بحران کے دور میں حکومت کو نئے شمسی سال میں مندرجہ ذیل چیلنجز کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوگا۔
40 دنوں سے جاری کسانوں کا مظاہرہ اور قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ لگاتار مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ ان تینوں کالے قوانین کے بارے میں اشکالات بہت حقیقی ہیں۔ خواہ وہ دھان کو لے کر ہوں یا قیمتوں کے اتار چڑھاو پر۔ حکومت کے لیے کسان کے جائز مطالبات کو مانے بغیر اب دوسرا متبادل نہیں رہ گیا ہے۔ 40 سے زیادہ کسانوں کی موت ہوئی مگر حکومت اڑیل رویہ اختیار کی ہوئی ہے۔ حکومت کسانوں کو آتنک وادی، خالصتان و دیگر ناموں سے بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تحریک سے ریل ڈھلائی، کھاد، کوئلہ و دیگر اشیا کی سپلائی میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ اس سے دلی، پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور راجستھان کی ریاستی حکومتوں سے مشورہ کر کے کوئی بہتر فارمولا بنانا چاہیے۔ فی الوقت اس تحریک کی وجہ سے 40 ہزار کروڑ سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس کے بعد برآمدات میں تیزی لانا بڑا چیلنج ہے۔ گزشتہ 5 سالوں میں ہمارے ملک میں برآمدات کی رفتار دھیمی ہو چکی ہے اور ترقی کی رفتار تقریباً صفر کے برابر ہے۔ بلاشبہ حکومت اس سلسلہ میں بہتر لائحہ عمل بنانے کی کوشش میں ہے لیکن زر مبادلہ میں کمی، برآمدات میں گراوٹ اور درآمدات میں زیادتی بھارتی معیشت کے لیے لمحہ فکر ہے۔ وزارت کامرس نے گزشتہ ہفتہ جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں اس کے مطابق دسمبر میں برآمدات میں تنزلی ہوئی ہے۔ وہیں درآمدات 7.6 فیصد سے بڑھ کر 3.12 لاکھ کروڑ ہوگئیں۔ یہ رپورٹ واقعی چونکا دینے والی ہے۔ دسمبر میں محض امپورٹ ہی ہوا ہے کیونکہ تجارتی خسارہ 25.7 فیصد بڑھ کر 1.15 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ جن اشیا کے اکسپورٹ میں گراوٹ ہوئی ہے اس میں پٹرولیم، چمڑا اور لیدرس کے سامان کافی، ریڈی میڈ گارمنٹس وغیرہ ہیں۔ ہمارے سامنے تیسرا بڑا چیلنج بینکنگ کا ہے۔ کامیتھ کمیٹی نے 26 شعبوں کو نشان زد کیا ہے جہاں قرض داروں کو دیوالیہ ہونے کے حالت پر پہنچائے بغیر ان سے قرضوں کی حصولیابی آسان کی جا سکے۔ کُل قرضہ جات کی رقم تقریباً 48 لاکھ کروڑ روپے ہے لیکن متعینہ وقت گزر جانے کے بعد بہت کم ہی قرض دار اس کے متبادل طریقہ کار کے لیے تیار ہوئے۔ اس سے کیا نتیجہ نکالا جائے گا؟ قرض داروں کا منافع یا ان کانقصان۔ اب حکومت کو ماہ کے اخیر کے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ مہیا کراکے معیشت کی رفتار کو مہمیز دینے کے لیے بینک کریڈٹ میں کم از کم 20 فیصد کا اضافہ کرنا ہوگا تاکہ شرح ترقی کے نشانے کو 8-9فیصد تک پہنچایا جا سکے۔
***

گزشتہ 5 سالوں میں ہمارے ملک میں برآمدات کی رفتار دھیمی ہو چکی ہے اور ترقی کی رفتار تقریباً صفر کے برابر ہے۔ بلاشبہ حکومت اس سلسلہ میں بہتر لائحہ عمل بنانے کی کوشش میں ہے لیکن زر مبادلہ میں کمی، برآمدات میں گراوٹ اور درآمدات میں زیادتی بھارتی معیشت کے لیے لمحہ فکر ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021