مسلم حکم راں :مغربی ترکش کے زہریلے تیر

اسلام پسند تحریکوں پردہشت گردی کا لیبل۔شہریوں کو سیاسی نظام کے خلاف اکسانے کاالزام

تنویر آفاقی

 

اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے زمین تیار کرنے کے لیے ڈراموں سے مدد
ایک عیسائی خاتون خلیج فارس میں واقع مٹی کے ایک گھر میں بیٹھی اپنے مسلم عاشق کے لیے آنسو بہا رہی ہے، کیوں کہ اس کا عاشق کسی دوسری لڑکی کے عشق میں مبتلا ہے۔ لیکن اس کا مسلم عاشق جس لڑکی سے پیار کرتا ہے وہ لڑکی اس کے بجائے کسی دوسرے شخص کو چاہتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ لڑکی بھی اپنے عاشق کو پانے میں ناکام ہے کیوں کہ وہ گاؤں کے یہودی عالم کی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔
جس وقت ہندستان میں ’لَو جہاد‘ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف قانون سازی کا تانا بانا تیار کیا جا رہا تھا تقریباً اسی عرصے کے دوران میں سعودی عرب کے معروف پرائیویٹ ٹی وی چینل ایم بی سی کی وساطت سے ایک ایسے ڈراما سیریل کو عوام کے سامنے لایا گیا جو بین المذاہب (اسلام، عیسائیت اور یہودیت) شادیوں اور بین ثقافتی رشتوں کی استواری کا پیغام دیتا ہے۔ اس ڈرامے کا نام ’امِّ ہارون‘ (ہارون کی ماں) ہے اور مثلث عشق کی مذکورہ کہانی اسی ڈرامے کا پلاٹ ہے۔
اخبارات کے مطابق گزشتہ ماہِ رمضان میں شروع ہونے والے اس ڈرامے کو خلیجی ممالک اور مصر میں ۱۴۱ ملین لوگوں نے دیکھا۔ ناظرین کی اتنی بڑی تعداد میں اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس ڈرامے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔مبصرین اور خود ڈرامے کے منظر نگار علی شمس کا یہ خیال ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی کارروائی (عرب امارت اور اسرائیل کے درمیان ’معاہدۂ ابراہیمی‘ پر دستخط) سے چند ماہ پہلے اس ڈرامے کا آغاز موقِع کی مناسبت سے تھا۔ علی شمس کا یہ بھی کہنا ہے کہ عرب عوام کے اندر یہودیوں کے تعلق سے مثبت رائے قائم کرنے یا ان کے ذہنوں سے یہود دشمنی کے اثرات کو کم کرنے میں اس ڈرامے نے بہتر کردار ادا کیا ہے۔
اس دعوے کے باوجود کہ دونوں کا ایک ہی وقت پر واقع ہونا محض اتفاق تھا، حقیقت یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اسے خلیجی ممالک میں نشر کرنے کی اجازت اسی لیے دی گئی تاکہ کچھ ماہ بعد اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کا جو عمل فروغ پانے والا تھا، اس کے لیے عوامی سطح پر بھی مثبت زمین تیار ہو جائے۔امریکا اَبراڈ میڈیا (AAM) کے تاسیسی صدر ڈاکٹر’ ایرون لوبیل‘ کا بیان اس کی تائید کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ڈراما سیریل سعودی عرب کے رویے کی اس تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے جو اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں پیدا ہو رہی ہے۔خلیجی سیاست کے ماہر مائیکل اسٹیفن کا بھی یہی خیال ہے کہ اس ڈرامے نے یہود مخالف بیانات کی تاریخ کو بدلنے اور اسرائیل کے ساتھ نئے تعلقات کے امکانات کا راستہ صاف کیا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ بھی اس قسم کے اشارے بہت واضح طور پر سامنے آنے لگے ہیں کہ جلد یا بدیر سعودی عرب بھی اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا اعلان کر دے گا، بلکہ اگر ترکی، بقول سعودی عرب ’امت مسلمہ کی رہنمائی کی آرزو‘ لے کر سامنے نہ آجاتا تو شاید اب تک سعودی عرب تعلقات کی بحالی کا اعلان کر چکا ہوتا۔حالاں کہ عراق کو چھوڑ کر باقی تمام عرب ممالک کی تقریباً نصف آبادی اسرائیل کو اپنے ملک کے لیے اولین خطرہ تسلیم کرتی ہے۔ المرکز العربی للابحاث ودراسۃ السیاسات ۲۰۱۹۔۲۰ (عرب مرکز برائے تحقیق و مطالعہ پالیسی) کی رپورٹ کے مطابق ممالک عرب کی ۸۸ فی صد آبادی اسرائیلی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس سے تعلقات کی بحالی کے خلاف ہے۔ قطر، کویت اور الجزائر میں تو یہ تناسب ۹۰ فی صد سے متجاوز ہے۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ خلیج و مصر کے حکم رانوں کا اقتدار امریکاو اسرائیل کی بدولت ہی برقرار رہ سکتا ہے۔ انہیں خطرہ ان انقلابی تحریکوں سے ہے جو اپنے اپنے ملک میں سیاسی آزادی اور فکر و رائے کی آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن ان حکم رانوں نے ان تحریکوں کے افکار و نطریات کو عالمِ مغرب کے سامنے سیاسی اسلام اور دہشت گردی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد سعودی علما کی جانب سے اخوان المسلمون کے خلاف دہشت گردی کا فتویٰ اس امر کی پیشگی کوشش ہے کہ اخوان المسلمون یا سیاسی اصلاحات کی حمایت کرنے والی تحریکوں کے سلسلے میں نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ بعض عرب مبصرین کا خیال ہے کہ اب کی بار ایک دینی ادارے سے دہشت گردی کا فتویٰ جاری کرنے کا مقصد یہ جتانا ہے کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ خالص دینی و مذہبی موقف ہے اور اس فتوے کا کوئی تعلق ان کے سیاسی اغراض ومقاصد سے نہیں ہے۔
حال ہی میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کی خود نوِشت منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب نے بعض عرب حکم رانوں کے تعلق سے راز افشا کیے ہیں۔ اپنی خود نوِشت The promised Land (ارضِ موعود) میں اوباما نے لکھا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاجات کے موقع پر اسرائیلی صدر نیتن یاہو نے ان سے رابطہ کیا اور حسنی مبارک کی حمایت میں سامنے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ اسرائیلی صدر نے اوباما کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ اگر حسنی مبارک کی حکومت کو بچانے کی کوشش نہ کی گئی تو لمحوں کے اندر ایران وہاں پہنچ جائے گا۔ اوباما کے بقول ان احتجاجات کے خلاف سب سے شدید رد عمل اس وقت کے سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا تھا۔ شاہ عبداللہ نے انہیں احتجاجات کی خبروں کی اطلاع دیتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا کہ اگر مصر میں احتجاج کے اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو ان کے شاہی خان دان کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ انہوں نے اوباما کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ مصری عوام کے سڑکوں پر احتجاجات کے پس پشت اخوان المسلمون، حزب اللہ، القاعدہ اور حماس ہیں۔ حالاں کہ اوباما نے ان دونوں حکم رانوں کی حماقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ غورو تفتیش نہیں کرتے۔ بھلا سنّی مسلمانوں کی اکثریت والے ملک میں ایران کی حزب اللہ کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ القاعدہ اور حماس کے کردار کو بھی اوباما نے بلا دلیل قرار دیا ہے۔
فرانس کے صدر امانوئیل میکرون نے اپنے بعض بیانات اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر رد عمل کے نتیجے میں اسلام پسندوں کو علیحدگی پسند قرار دے کر ان کے لیے فرانس کی زمین تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے سابق امریکی صدر اپنے دور صدارت میں یہ کہہ چکے تھے کہ وہ اسلام پسندوں کو بھی سیاسی اسلام کے زمرے میں رکھیں گے اور اس کے ایک جز کی حیثیت سے ہی ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ مطلب واضح ہے کہ امریکہ ویوروپ کو اصل پریشانی اس اسلام سے ہے جو اپنی شناخت کو ہر حال میں اور ہر جگہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔ فرانس کے ان واقعات کے تسلسل میں بعض چیزیں ایسی بھی پیش آئی ہیں جو بعض مسلم حکم رانوں پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔
کسی بھی یوروپی ملک، بالخصوص فرانس اور آسٹریا میں مسلمان سیاسی اور عددی اعتبار سے اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ وہاں کی جمہوری حکومت کے لیے خطرہ بن سکیں۔ ان کے جو بھی سیاسی افکار و آراء ہیں وہ زیادہ تر اپنے متعلقہ ممالک کے تناظر میں ہوتے ہیں، یا اپنے ملک میں قیام کے دوران سیاسی اصلاحات کے لیے کچھ کر پانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا، اس لیے وہ غیر ملکوں میں رہ کر اس سلسلے میں ممکنہ کوششیں کرتے ہیں۔ ان اصلاحات کی ضرورت وہ اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے حکم رانوں نے ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو انہیں ملکی مفاد کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔ ان مسلم حکم رانوں کو اصل خطرہ اسی بات سے لاحق ہے، اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یوروپی ممالک ان کے لیے ایسی ساز گار فضا قائم رہنے دیں جو خود ان کے لیے خطرہ بن سکتی ہو۔ چنانچہ یوروپی ممالک کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اکساتے ہیں، جس کا ایک ثبوت تو سعودی علما کا وہ فتویٰ لہے جو حال ہی میں اخوان المسلمون کے خلاف دیا گیا ہے۔ دوسرا ثبوت فرانس حادثے کے فوری بعد مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا دورہ فرانس ہے، جسے سعودی عرب کی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے صدر ترکی آل الشیخ نے تاریخی قرار دیا ہے۔ وہاں اسیسی نے اپنے بیان میں یہ بات کہی کہ مصر میں تقریباً ۹۰ برس سے موجود ایک تحریک (اخوان المسلمون) نہ صرف مصری قوانین بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اہل فرانس کو یہ بتانا بھی انہوں نے ضروری سمجھا کہ اگر کبھی کبھار آپ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اسی تحریک کے افکار و نظریات کا پرتو ہے جو ان کے بعض متفقین کے توسط سے فرانس اور دوسرے یوروپی ممالک میں پہنچا ہے۔ اس خیال کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے اسلام پسندوں کے خلاف قانون سازی اور ائمہ کی قومی مجلس کی تشکیل کا اعلان ہونے کے ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ ترکی، الجزائر اور مراقش سے مبعوث کیے ہوئے ۳۰۰ ائمہ کو ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔ ممکن ہے ضرورت پڑنے پر ان مصری ائمہ کو برآمد کیا جائے جن کی تربیت مصر کی وزارت اوقاف کی نگرانی میں دونوں ممالک کے حسب منشا کی جارہی ہے اور انھیں یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ اسلام پسند تحریکیں یوروپی ممالک میں آباد اہل وطن کو ملک کے سیاسی نظام کے خلاف اکسا رہی ہیں۔ دوسری طرف ان حالات نے مغرب کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ اخوانی فکر کو قربانی کا بکرا بنا کر اور سیاسی اسلام و دہشت گردی کو ایک زمرے میں لا کر اسلام کے خلاف سخت سے سخت قوانین بنا لیے جائیں۔
***

موجودہ حالات نے مغرب کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ اخوانی فکر کو قربانی کا بکرا بنایا جائے اور’ سیاسی اسلام‘ و دہشت گردی کو ایک زمرے میں لا کر اسلام کے خلاف سخت سے سخت قوانین بنا لیے جائیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21