فلمی دنیا سے توبہ، سوشل دنیا میں تہلکہ

ثناء خان کی مفتی أنس سید سے شادی کیسے بن رہی ہے موضوع بحث؟

معین دین، حیدرآباد۔

 

ورچوئل ورلڈ میں دیکھی جا رہی ہے الگ طرح کی ’اسلامیت‘
سلیبریٹیز اور عوام سب میں ہے تجسّس
معین دین، حیدرآباد۔
ایک ٹی وی شو ’’بِگ باس‘‘ کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے والی اور فلمی شخصیت سلمان خان کے ساتھ کام کر چکی بالی ووڈ کی سابق اداکارہ ثنا خان اس وقت سرخیوں میں آ گئی تھیں جب انہوں نے اسلامی زندگی پر عمل پیرا ہونے کا عزم ظاہر کیا اور فلم انڈسٹری کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ ثنا خان نے آٹھ اکتوبر 2020 کو سماجی ویب سائٹ انسٹاگرام کے اپنے اکاؤنٹ پر ایک جذباتی پوسٹ کیا تھا۔ ثنا خان نے تین زبانوں ہندی، اردو اور انگریزی میں جاری تفصیلی پوسٹ میں اپنے فالوورز کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”بھائیو اور بہنو، آج میں اپنی زندگی کے ایک اہم موڑ پر آپ سے بات کر رہی ہوں۔ میں سالوں سے شو بز (چکا چوند) کی زندگی گزار رہی ہوں اور اس عرصے میں ہر طرح کی شہرت، عزت اور دولت مجھے اپنے شیدائیوں کی طرف سے نصیب ہوئی، جس کے لیے میں ان کی شکرگزار ہوں۔ لیکن اب کچھ دن سے مجھ پر یہ احساس قبضہ جمائے ہوئے ہے کہ کیا انسان کے اس دنیا میں آنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ صرف دولت اور شہرت کمائے؟، کیا اس کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی ان لوگوں کی خدمت میں گزار دے جو بے آسرا اور بے سہارا ہیں؟ کیا انسان کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اسے کسی بھی وقت موت آسکتی ہے؟ اور مرنے کے بعد اس کا کیا بننے والا ہے؟ ان دو سوالوں کے جواب میں مدت سے تلاش کر رہی ہوں۔ خاص طور پر دوسرے سوال کا کہ مرنے کے بعد میرا کیا بنے گا؟ اس سوال کا جواب میں نے اپنے دین میں تلاش کیا تو مجھے پتہ چلا کہ دنیا کی یہ زندگی اصل میں مرنے کے بعد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہے“۔علاوہ ازیں فلم انڈسٹری چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ”میں آج یہ اعلان کرتی ہوں کہ آج سے میں اپنی شو بز کی زندگی چھوڑ کر انسانیت کی خدمت اور اپنے پیدا کرنے والے کے حکم پر چلنے کا پختہ ارادہ کرتی ہوں۔ آخر میں تمام بھائیوں اور بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اب مجھے شو بز کے کسی کام کے لیے دعوت نہ دیں۔ بہت بہت شکریہ“ ثنا خان کے اس توبہ نامہ سے جہاں سوشل میڈیا پر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں”روشن خیال“ قسم کے لوگوں نے اس اقدام کو دقیانوسی خیالات اور شدت پسندی سے تعبیر کیا۔ جب تک ثنا خان رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہوئیں اس وقت تک مجموعی طور پر مسلمان ثنا خان کے فلم انڈسٹری کو الوداع کہنے پر خوش تھے اور ثنا خان کو دعائے خیر سے نواز رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی ثنا خان کا نکاح مفتی انس سے ہوا سوشل ‌میڈیا پر تنقید و تبصروں کا طوفان برپا ہو گیا۔ سوال شادی کا نہیں تھا بلکہ نکاح کے بعد کا جو ویڈیو وائرل ہوا اس پر بعض مسلمان ناراض ہوئے جب کہ فلمی دنیا سے تائب خاتون کے ایک مفتی سے نکاح کرنے کو کئی صارفین نے رشک کی نگاہ سے بھی دیکھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مشہور مبلغ اسلام مولانا احمد لاٹ نے دونوں کا نکاح پڑھایا، نیز حضرت مولانا کلیم صدیقی بھی محفلِ نکاح میں شریک رہے۔گجرات کے انکلیشور کے قریب ایک علاقے میں بہت سادگی کے ساتھ نکاح کی تقریب منعقد کی گئی۔نکاح کا بھی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب گردش کرتا رہا۔ مگر جس ویڈیو میں شوہر۔بیوی ایک ساتھ چلتے ہوئے نظر آئے اس پر صارفین نے دونوں کا تنقید کا نشانہ بنایا، پھر مولانا کلیم صدیقی کا ایک آڈیو میسج عام کیا گیا جس میں انہوں نے اس نکاح کا ذکر کیا ہے کہ وہ پوری طرح سنت کی پیروی میں ہوا ہے۔ اس آڈیو میں وضاحت کی گئی ہے کہ ”نکاح کی تقریب میں کسی کو بھی ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جب دولہا دلہن زینے سے نیچے اتر رہے تھے تو کسی طرح ان کا ویڈیو بنالیا گیا اور وہ وائرل بھی ہوگیا، جس پر ثنا خان خود بھی کافی رنجیدہ ہیں” آڈیو پیغام کے بعد مولانا کلیم صدیقی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ان دونوں پر منفی تبصروں سے بچیں۔ اگرچہ ثنا خان نے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے اپنی سابقہ پیشہ ورانہ زندگی سے وابستہ تمام قابل اعتراض تصویریں ہٹا دی تھیں مگر نئی زندگی کے لمحات کو وہ سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے شاید خود کو روک نہیں پائیں اور انہوں نے انسٹاگرام پر اپنی شادی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ ”ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور اسی کی رضا کے لیے ہم نے شادی کی ہے“ اُنہوں نے لکھا کہ ”میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی متحد رکھے اور اگلے جہاں میں بھی ساتھ ہی رکھے“ اس کے فوری بعد ان کے شوہر مفتی انس کے ساتھ آیت الکرسی پڑھنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جو خود ثنا خان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کیا اس میں دونوں شادی کے جوڑے میں ملبوس ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آیت الکرسی پڑھ رہے ہیں۔ ثنا خان مسلسل اپنے شوہر مفتی انس کے ساتھ اپنی تصاویر شیئر کرتی رہیں۔ خاص طور پروادی کشمیر میں سیر و تفریح کی تصویریں تو سوشل میڈیا سے آگے نکل کر متعدد قومی میڈیا کی آج بھی زینت بن رہی ہیں، جیسا کہ میڈیا اپنے مزاج کے مطابق سماج کی مشہور ہستیوں کی خبریں مع تصاویر شائع کیا کرتا ہے۔ اب صارفین دو گروپ میں تقسیم ہو چکے تھے۔ مخالفت میں اتر چکے لوگوں کا سوال ہے کہ اگر فلم انڈسٹری کو ترک کر ہی دیا ہے تو اب یہ دکھاوا کیوں؟ سابق فلم اداکارہ زائرہ وسیم کی طرح (جو کہ ثنا خان سے کافی زیادہ کامیاب اداکارہ تھیں) باضابطہ اس چکاچوند والی دنیا کو خیرباد کیوں نہیں کیا؟آپ کو بتا دیں کہ زائرہ وسیم، کشمیری ہیں اور ایک سابق اداکارہ ہیں جنہوں نے ہندی فلموں میں کام کرتے ہوئے کافی نام کمایا۔ فلم فیئر ایوارڈ اور ایک نیشنل فلم ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات وصول کیے‌۔ زائرہ وسیم کو 2017 میں نئی دلی میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے ان کی کم عمری میں غیر معمولی کامیابیوں کی حصولیابی کے لیے نیشنل چائلڈ ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ کچھ تازہ دم فارغین مدارس مفتی انس کے نام کھلا خط لکھنے لگے ہیں۔ مفتی انس کو مشورے دیے جانے لگے یہاں تک کہ بعض ناقدین نے مفتی انس سے سخت کلامی سے بھی کام لیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مفتی انس نے اس سلسلے میں تنقید کرنے والے ایک صاحب سے بات کی۔ دونوں کی بات چیت سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ کال ریکارڈنگ کے مطابق مفتی انس کا کہنا تھا کہ”کسی فرد کو اپنی سابقہ طرزِ زندگی کو بدلنے میں وقت لگتا ہے۔ کسی بھی کام کو بتدریج انجام دیا جاتاہے، اچانک ہی ساری چیزیں بدل جایا نہیں کرتیں، ہم دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے ہیں، اب ہم دونوں کو کیا کرنا ہے وہ ہمارا اپنا فیصلہ ہوگا“ اس کے علاوہ مفتی انس نے کہا کہ ”جو لوگ معاشرے میں مشہور ہوتے ہیں ان کی زندگی سے وابستہ باتیں بھی اسی طرح سے عام ہو جایا کرتی ہیں، لیکن ہم دونوں اسلامی تعلیمات کے دائرہ ہی میں چل رہے ہیں“۔دوسری جانب حمایت میں صارفین نے ثنا خان اور مفتی انس کی ذاتی زندگی میں دخل نہ دینے کا مشورہ دیا۔ حامی صارفین کا کہنا تھا کہ دونوں نے کوئی غیر شرعی کام نہیں کیا ہے۔جب بات شریعت کی آجائے تو لوگ محتاط ہو ہی جاتے ہیں‌ یہی وجہ ہے کہ ‘دعوت نیوز’ نے ان نوجوان علماء سے رجوع کیا جو سوشل میڈیا پر کافی سرگرم رہتے ہیں تاکہ اس معاملے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ‘دعوت نیوز’ نے متعدد افراد سے رابطہ کیا جہاں ملے جلے رد عمل سامنے آئے۔ ان خیالات سے ادارۂ ‘دعوت’ کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔ قارئین کی خدمت میں فریقین کی رایوں کو پیش کیا جا رہا ہے تاکہ مسئلے کی نوعیت اور اس سے وابستہ مختلف پہلوؤں تک پہنچنے میں آسانی ہو۔مفتی أنس اور ثنا خان اب ایک Celebrity Couple بن چکے ہیں۔ ان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ سے وابستہ ایک استاذ مفتی نصراللہ کا کہنا ہے کہ “شادی کرنا تو بہت اچھی بات ہے لیکن شادی کے بعد کی تصاویر شیئر کرنا بداخلاقی کی بات ہے، یہ خلاف شریعت بھی ہے اور تہذیب و شرافت کے منافی بھی! اس لیے یہ انداز قابل مذمت ہے، اس پر نکیر ہونی چاہیے“۔وہیں ایک عالم دین نے اپنا نام پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر اپنا پیغام ہمیں ارسال کیا جس میں لکھا کہ ”مفتی أنس نے ایک توبہ کرنے والی اداکارہ سے نکاح کر کے بڑا مبارک قدم اٹھایا ہے۔ مفتی انس کے ساتھ رہ کر اپنی شریکِ حیات کو رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات سے مانوس کرنے کا عذر اور موقع موجود ہے۔ لیکن ان دونوں کو سوشل میڈیا پر مذاق بننے سے بچنا چاہیے۔ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ روایتی دین دار طبقے کے ناتجربہ کار نمائندے میڈیا میں غیر اخلاقی تبصروں سے بالکلیہ گریز کریں، جس سے دو طرفہ بدنامی ہو رہی ہے کیوں کہ شوبز کے لوگ بھی ان کے پیجز دیکھتے ہیں جس سے مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثر جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے“ وہیں مولانا منصور قاسمی کہتے ہیں کہ”مفتی انس جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ مفتی ہیں اور ثناء خان فلم انڈسٹری کو اس لیے چھوڑ کر آئی ہیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی اور شرعی زندگی گزار سکیں، سو تقاضا تو یہ تھا کہ میاں بیوی ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر اس طرح کی تصاویر شئیر نہ کرتے۔ تاہم اگر کر بھی دیا تو کسی کو منفی رد عمل نہیں دینا چاہیے کیونکہ پہلے سے چڑھے ہوئے رنگ کو اتارنے اور پھر نیا رنگ چڑھانے میں وقت اور محنت درکار ہوتی ہے“۔ جب کہ جناب عمران صدیقی ندوی صاحب کا کہنا ہے کہ ”فقہی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان تمام تصاویر میں کوئی قباحت نہیں ہے، صرف چہرہ ہی نظر آ رہا ہے باقی رہا میاں بیوی کا مل کر ساتھ میں فوٹو نکالنا تو اس میں بھی کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے اپنے نزدیک جو دینداری کا معیار معاشرے نے بنا رکھا ہے، ہم پوری دنیا کو اسی پر پرکھتے ہیں اور باقی دنیا کو اسی پر کھرا اترتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں
جب کہ یہاں تقوے سے لے کر فتوے تک، افضل سے لے کر مفضولتک شریعت میں بہت گنجائش ہے اور سب کو شریعت نے مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہے اختیار کرے، اس آسانی اور سہولت کو اختیار کرنے میں اس پر لعنت ملامت نہیں کی جائے گی“۔دوسری طرف کچھ علماء نے اس مسئلے سے اپنے آپ کو اس لیے علیحدہ رکھا کیونکہ شادی ایک بلکل نجی اور ذاتی معاملہ ہے۔عام طور پر اسلامی معاشرے میں میاں بیوی کے بیچ محبت ایک پوشیدہ امر ہے۔ وہ ‘یک جان دو قالب’ تو ہوتے ہیں مگر اس کی نمائش کو روا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن اگر کوئی شریعت کے دائرے میں رہ کر اپنی ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے رکھ رہا ہے تو اس پر رد عمل کس طرح کا ہونا چاہیے؟ کیا سوشل میڈیا پر اس طرح کے مسائل پر بات کرنا عقلمندی ہے؟ اور اگر اصلاح مقصود ہے تو لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟شادی کے بعد گھومنے پھرنے اور سیر گاہوں میں ساتھ ہونے کی تصاویر کو مشرقی اور مغربی معاشروں میں الگ الگ پیمانوں سے پرکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ثنا خان اداکاری سے توبہ کرنے کے بعد سے اب تک حجاب اور شرع کے مطابق ستر کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی گزار رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی ان تمام حدود کے ساتھ سرگرم دیکھی جا رہی ہیں۔ ان کے کشمیر ہنی مون سفر کی جو تصاویر اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کر رہی ہیں۔ بادی النظر میں ان میں شریعت کے مطابق لباس میں ملبوس نظر آرہی ہیں۔ ان کے شوہر مفتی أنس بھی مکمل طور پر شرعی لباس میں پائے گئے ہیں۔ پھر بھی یورپ کے مقابلے میں ایشیائی معاشروں میں ذاتی اور ازدواجی زندگی کو کھلے عام زیرِ بحث لانے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اسی لیے اس ‘سیلیبریٹی’ جوڑے کو آج کل نہایت افراط و تفریط پر مبنی تبصروں اور رائے زنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن‌ میں سماجی آداب و روایات اور جذبات سے کام لیا جا رہا ہے جب کہ نئی نسل میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا بڑھتا جا رہا جنون اور وقفہ وقفہ سے بدلتی جا رہی سماجی اقدار کے تناظر میں دلائل اور روایات دونوں بنیادوں پر عوام و خواص کی رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں پر دین کے دائرے میں رہتے ہوئے جدید زمانے اور بدلتے سماجی پیمانوں کے تناظر میں سیر و تفریح نیز، خوشی و غمی کے اظہار کے راستے مزید واضح کیے جائیں جس سے کہ دیگر اقوام میں ہماری طرز زندگی کے بارے میں کوئی منفی شبیہ جانے نہ پائے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21