مسلم اقلیت کےمسائل سیرت طیبہ کی روشنی میں

غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کی شہریت اور تہذیبی شناخت کے امور کا ایک جائزہ

اختر امام عادل قاسمی ،بہار

تہذیبی شناخت کا تحفظ مسلمانوں کی اولین ذمہ داری
امتِ مسلمہ اقوامِ عالم کےدرمیان اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اقتدار اور محکومی دونوں ہی حالتوں میں اپنی دینی وملی امتیازی حیثیت کو باقی رکھا ہے۔ یہ امتیاز دنیا کی کسی قوم ومذہب کو حاصل نہیں ہے۔ ان کی قومی اور سیاسی زندگیوں میں مذہب کبھی بھی طاقتور عنصر کی حیثیت سے غالب نہیں رہا۔ کلیسا کا عبوری دور مذہب کا دور مانا جاتا ہے مگر وہ اعتدال کو نہ برت سکا اور اس کی شدت پسندی نے مذہب کو فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا نقصان ہی پہنچایا ہے۔ نیز اس کی مدّت اتنی مختصر رہی کہ اس کو شمار میں نہیں لایا جاسکتا۔ اس لیے وہ تمام طاقتیں جن کو امتِ مسلمہ کا یہ امتیاز آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے، چاہتی ہیں کہ مذہب اس امت کی زندگی سے بھی نکل جائے۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے یہاں مختلف تدابیر اور منصوبے زیرِ غور و زیرِ عمل ہیں۔ عالمی سطح پر ثقافتی انجذاب، اور تمدنی وحدت کی تحریک بھی اسی کا ایک حصہ ہےکہ ایک ایسی وحدت قائم کی جائے جس میں کسی مذہب کا اپنا وجود نہ ہو بلکہ سب مل کر کام کریں اور تمام کی اچھی اور لائقِ اتفاق باتوں کاایک مجموعہ تیارکیا جائے، جو اس وحدت جدیدہ کا لائحۂ عمل ہو اس لیے کہ تمام مذاہب کا سرچشمہ ایک ہے ، صرف راستے الگ الگ ہیں۔ تاریخی جائزہ سےپتہ چلتا ہےکہ تمدنی اورثقافتی وحدت و انجذاب کایہ تصور بہت قدیم ہے اور ہر دَور میں اہلِ کفر، اہلِ ایمان سے یہی خواہش کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنا امتیاز ترک کر کے ہماری وحدت میں شامل ہو جائیں خود قرآن کا بیان ہے: اہلِ کفر خواہش رکھتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کفر قبول کر لو تاکہ تم ان کے برابر ہو جاؤ مگر ان کی خواہش پر ہرگز عمل نہ کرو اور ان سے دوستانہ وحدت قائم نہ کرو۔(النساء 89)
یعنی ہر ایسی وحدت اسلام میں مسترد کر دی جائےگی جو ہمیں اسلام سے کھینچ کر کفر سے قریب کر دے شیطان جہنم کی طرف کھینچتا ہے اور رحمان جنت کی طرف، جہنم کی طرف جانے والا راستہ قابلِ رَد ہے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کے ہر دَور میں اہلِ دنیا کے لیے بعض بنیادیں ایسی موجود رہی ہیں جو ان کو ایک وحدت وانجذاب سے منسلک رکھتی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالہ سے قرآن نے بیان کیا ہے: تم لوگوں نے اللہ کے علاوہ چند بُت بنا رکھے ہیں جو دنیوی زندگی میں تمہاری باہم وحدت ومحبت کا ذریعہ ہیں۔(العنکبوت25)
یہ بت ہر دور کے لحاظ سے مختلف ہوتے رہتے ہیں لیکن بُت خواہ جو شکل بھی اختیار کر لے وہ بت ہی رہے گا۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل پوری انسانیت ایک وحدت پر رواں دواں تھی۔ پیغمبروں اور رسولوں کے سلسلے نے ہی اس وحدت کو توڑا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسولوں کی تعلیمات صحیح طور پر ہمارے پاس موجود ہوں اورعہدِ جاہلیت کی وہ وحدت دوبارہ لوٹ کر آ جائے۔ قرآن کہتاہے: تمام لوگ پہلے ایک ہی امّت تھے پھر اللہ نےنبیوں کو مبشر ونذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔(سورہ البقرہ 213)
اسلام مکمل خود سپردگی کا نام ہے
مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل کریں جو بڑی قطعیت کے ساتھ قرآن نے دیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ اور شیطانی راستوں کی پیروی نہ کرو۔ اس آیت کے نزول کا تاریخی پس منظر سامنے رکھیں تو بات اور بھی زیادہ صاف ہوجائے گی بعض نو مسلم حضرات جو پہلے یہودی تھے مثلاً حضرت عبد اللہ بن سلامؓ، اور اسد بن عبیدؓ وغیرہ ان لوگوں نے سوچا کہ اسلام پر قائم رہتے ہوئے سابقہ مذہب کے بعض ان احکام کی رعایت بھی ملحوظ رکھی جائے جو اسلامی احکام سے متصادم نہ ہوں۔ اس آیتِ کریمہ میں در اصل اسی فکر پر ضرب لگائی گئی ہے کہ محض اسلام قبول کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ اسلام میں پورے طور پر داخل ہونا ضروری ہے، بایں طور کہ اس میں کسی دوسرے مذہب وقوم کا کوئی شائبہ تک باقی نہ رہے ’’کافہ ‘‘کی تشریح کرتے ہوئے زیادہ تر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ اس کا تعلق داخل ہونے والے سے نہیں، بلکہ اسلام سے ہے کہ اسلام کے تمام شرائع و احکام کو قبول کرنا مسلمان کے لیے لازم ہے ادھورا یا مِخلوط اسلام، خدا اور رسول کے نزدیک معتبر نہیں۔ اور اسی سے مِلتا جُلتا ایک اور پس منظر تھا جس میں حضرت عثم ’’تورات‘‘ کا نسخہ لے کر آگئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، لب و لہجہ کی گرمی محسوس فرمائیے۔
والذي نفس محمد بيده لو بدا لكم موسى فاتبعتموه وتركتموني لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني قال حسين سليم أسد :
(إسناده ضعيف لضعف مجالد ولكن الحديث حسن)
ترجمہ : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمدﷺکی جان ہے اگر تمہارے سامنے موسیٰؑ ظاہر ہوں اور تم مجھ کو چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگو تو تم گمراہ قرار پاؤگے، یقین رکھو اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میرا عہدِ نبوت پاتے تو وہ میری اتباع کرتے‘‘۔
ایک مرتبہ حضرت حفصہ ؓ حضرت یوسفؑ کے قصوں کی ایک کتاب لے کر آئیں ،اور حضور ﷺ کے سامنے پڑھ کر سنانے لگیں ،حضرت حفصہ ؓ کے اس عمل سے مزاج نبوت میں تغیر آنے لگا ،آپ ﷺنے ناراض ہو کر ارشاد فرمایا :’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگر تمہارے پاس یوسف آجائیں اور میں موجود ہوں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگو تو تم گمراہ قرار پاؤ گے ۔یہاں صرف اس درجہ کا ایمان قابلِ قبول ہے جو حضورﷺ کی ناراضی کے بعد حضرت عمرؓ نے عرض کیاتھا: میں اللہ اور رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، ہم اللہ سے راضی ہیں بحیثیت رب اور اسلام سے راضی ہیں بحیثیت مذہب، اور محمدﷺ سے بحیثیت نبی راضی ہیں ۔
تہذیبی تحفظ کی ہدایات
نیز نبی اکرمﷺ نے مختلف مواقع پر غیر مسلموں کی مخالفت کرنے کے جو احکام دیے ہیں ان کی روح بھی یہی تہذیبی وتمدنی اختلاط سے گریز ہے۔ اس لیے کہ بہت زیادہ سماجی قربت سے تہذیبی اختلاط کا اندیشہ ہوتاہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ۔جو کسی قوم کی نقل اُتارے اس کا شمار اسی کے ساتھ ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نےمیرے اوپر دو زعفرانی رنگ کے کپڑے دیکھے تو ارشاد فرمایا:ی’’ہ کفار کا لباس ہے اس کو مت پہنو‘‘۔
٭ حضرت رُکانہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نےبارشاد فرمایا: ’’ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں فرق یہ ہے کہ ہمارا عمامہ ٹوپیوں پر ہوتا ہے ان کا نہیں‘‘۔ ٭حضرت بریدہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو پیتل کی انگوٹھی پہنے دیکھا تو فرمایا: میں تمہارے اندر بتوں کی بو محسوس کر رہا ہوں، اس نے وہ انگوٹھی پھینک دی اور پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر حاضر ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا میں تم پر اہلِ جہنم کا زیور دیکھ رہا ہوں، اس نے اس کو بھی پھینک دیا اور دریافت کیا کہ کس چیز کی انگوٹھی بناؤں، آپ نے فرمایا چاندی کی اور اس کا وزن ایک مثقال سے کم رہے ۔
٭حضرت ابو ہریرۃ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم ۔یہود ونصاریٰ بالوں میں خضاب نہیں لگاتے تم ان کی مخالفت کرو۔
٭ حضرت ابو ہریرہؓ ہی کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: غيروا الشيب ولا تشبهوا اليهود ۔سفیدی کو بدلو اور یہود کی نقل نہ اتارو۔
٭ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عاشورے کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو اس کا حکم دیا، تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہود ونصاریٰ اس دن کا بہت احترام کرتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:آئندہ سال اگر میں زندہ رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا۔
٭ حضرت ابن عباس ؓ ہی کی روایت ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللحد لنا والشق لغيرنا
ترجمہ: لحد ہمارے لیے اور شق غیروں کے لیےہے۔
٭حضرت ام سلمہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہفتہ اور اتوار کے دن بطورِ خاص روزہ رہتے تھے اور فرماتے کہ: ’’یہ دونوں دن مشرکوں کی عید کے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان کی مخالفت کروں‘‘۔
٭ حضرت شداد بن اوس ؓکی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’یہود کی مخالفت کرو وہ اپنے جوتوں اور خف میں نماز نہیں پڑھتے۔
٭حضرت عتبہ بن عویم بن ساعدہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک میں ایک عربی کمان تھی، آپ نے ایک شخص کے ہاتھ میں فارسی کمان دیکھی تو آپ نے فرمایا لعنت ہو، اس طرح کی کمان لو
٭حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےارشادفرمایا: گوشت کو چھری سے نہ کاٹو اس لیے کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔
٭حضرت ابو ریحانہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کئی باتوں سے منع فرمایا ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ آدمی اپنے کپڑے کے نیچے ریشم لگائے اس لیے کہ یہ عجمیوں کا طرز ہے یا یہ کہ اپنے مونڈھےپر ریشم لگائے اس لیے کہ یہ بھی عجمیوں کاطریقہ ہے ۔
٭حضورﷺ کواپنی امت کےتہذیبی اختلاط کا شدید اندیشہ تھا، ایک موقعہ پرارشادفرمایا:’’تم اپنےسےپہلے والوں کی پوری طرح پیروی کروگےبالشت دربالشت ،ہاتھ درہاتھ،یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوں گے تو ان کی دیکھا دیکھی تم بھی اس بل میں گھس جاوگے، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ﷺ آپ کی مراد پہلے والوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟ تو آپ نے فرمایا پھر اور کون؟‘‘۔
کتبِ احادیث میں اس طرح کی بہت سی روایات موجود ہیں جن میں مسلمانو ں کو غیر مسلموں کے ساتھ تہذیبی اور تمدنی اختلاط سےمنع کیا گیا ہے۔ قطعِ نظر اس سےکہ ان میں کون ساحکم کس درجہ کاہے؟ان احادیث میں جوبنیادی روح ہےوہ ہےمسلمانوں کی تہذیبی اورسماجی تطہیر کاحکم۔
سیاسی یا سماجی مسائل پر مذاکرات ہو سکتے ہیں
البتہ سیاسی یا سماجی بنیادوں پر مختلف اقوام و مذاہب اور جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوسکتے ہیں ،اور کسی خاص معاہدہ پر اتفاق رائے بھی کیا جاسکتا ہے،خواہ دوسری جماعت سخت گیراورمتعصبانہ نظریات ہی کی حامل کیوں نہ ہو، بشرطیکہ مسلمانوں کا قومی تشخص اور ملی وقار مجروح نہ ہو، اور معاہد جماعت اس اتفاقی منشورمیں ان سخت گیر،اورمتعصبانہ نظریات کوخارج کرنےپرآمادہ ہوجومسلمانوں کےمفادات سےمتصادم ہوں، اورمشترکہ بنیادوں پر اتحادکےلیے تیارہو،اس سلسلےمیں قرآن کریم کی یہ آیتِ کریمہ بنیادبن سکتی ہے:قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاإِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَاوَبَيْنَكُمْالآیۃ
ترجمہ:اےاہلِ کتاب آؤایک ایسی بنیادپرجمع ہوجاؤ جو ہمارےاورتمہارےدرمیان مشترک ہو۔
اس آیتِ کریمہ میں یہودیوں کو ایک مشترکہ بنیادپرمسلمانوں کے ساتھ جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے،گوکہ اس آیت میں اہل کتاب کی ترغیب کے لیے چند ایسی بنیادیں بھی ذکر کردی گئی ہیں جو مذہبی طور پر دونوں میں پہلے سے مشترک ہیں ۔
یہود کے ساتھ اتحاد کی دعوت اس بات کی علامت ہے ،سخت گیر اور متشدد جماعت کے ساتھ مشترکہ بنیادوں پر مذاکرہ ومعاہدہ کی گنجائش ہے اس لئے کہ قرآن نےہی یہوداورمشرکین کی عداوت و شدت کا ذکر کر کےان کی عصبیت و تنگ نظر ی پردائمی مہر لگادی ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:’’یقینا تم کو(عملی زندگی میں)مسلمانوں کےسب سےبد ترین دشمن یہوداورمشرکین ملیں گے‘‘۔(المائدہ جزو آیت 82)
لیکن اس کےباوجودمشترکہ بنیادوں پران کو متحدہونے کی دعوت دی گئی، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے، کہ اگر مسلمانوں پرایسےحالات آئیں جن میں ملی مفادات کےتحفظ اور وسیع سطح پر امن عالم کے قیام کےلئےسخت گیرعناصر سےمشترکہ بنیادوں پرمعاہدہ کی ضرورت پڑےتو اس کی گنجائش ہوگی ،اور حالت مغلوبی میں اکثر اس قسم کے مذاکرات اور معاہدات کی ضرورت پڑتی ہے ۔
عہدِ نبوی میں بین الاقوامی اتحادکےنمونےاس کی کئی عملی مثالیں خود رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں موجود ہیں :میثاق مدینہ میں یہود کی شمولیت تاریخی طورپراس سلسلے کا سب سےاہم اتحادجس کومذاکرات کے بعدخودرسول اللہﷺ نےقائم فرمایاوہ ہجرتِ مدینہ کےبعدمسلمانوں اور یہودیوں کااتحادہے،اوراسکےلیےجودستورمرتب کیاگیااس میں اکثر ان بنیادوں کو جگہ دی گئی جن پر دونوں فریقوں کا اتفاق ممکن تھا، تاریخ الکامل، البدایۃ والنہایۃ، اور سیرت ابنِ ہشام وغیرہ میں یہ معاہدہ پوری تفصیل کے ساتھ نقل کیاگیاہے،یہاں بطورِ مثال صرف چند مشترکہ بنیادوں کا ذکرکیاجاتا ہےجن پر میثاق کی اساس تھی۔
٭ وان یھودبنی عوف امۃ مع المؤمنین
یہود اورمسلمانوں کاایک اتحادہوگا۔
٭ و ان بینھم النصرعلی من حارب ھذہ الصحیفۃ
جو شخص اس میثاق کی مخالفت کرےگااس کےخلاف دونوں مل کر کارروائی کریں گے۔
٭ و ان بینھم النصح والنصیحۃ والبردون الاثم
ان کے درمیان باہم ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کا رشتہ ہوگا کسی ظلم و گناہ کا نہیں۔
٭ و ان النصر للمظلوم
مظلوم کی مدد کی جائے گی۔
٭و ان بینھم النصر علی من دھم یثرب
مدینہ منورہ پر جو حملہ کرے گا اس کے خلاف دونوں مل کر کارروائی کریں گے۔
٭واذا دعوا الی صلح یصا لحونہ ویلبسو نہ فانھم یصالحونہ و یلبسونہ و انھم اذادعواالی مثل ذلک فانہ لھم علی المؤمنین الامن حارب فی الدین ۔
اگر یہودکو کسی ایسے معاہدہ کی دعوت دی جائے جس پراتفاق ممکن ہو تووہ اس پیش کش کوقبول کریں گےاور اس طرح کے معاہدات میں جوطے ہوگا وہ مسلمانوں پر بھی نافذ ہوگا۔ الایہ کہ خلافِ دین کوئی چیز طے کر لی جائے (یعنی مشترکہ بنیاد کے بجائے کوئی امتیازی بنیاداختیارکر لی جائے تومعاہدہ کا اطلاق اس پرنہیں ہوگا) وغیرہ تقریباً ۴۷ دفعات ہیں جن کا تذکرہ میثاق مدینہ میں کیا گیا ہے،
البتہ اس اتحادمیں مسلمانوں کی حیثیت ایک بالا دست قوت کی تھی اورمتعدداختلافی معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلہ کو آخری فیصلہ قراردیا گیا تھا، اس لیے کہ یہ اتحاد مَدنی دَور میں قائم ہوا تھا اور مَدنی دَورمسلمانوں کے غَلبہ کا دَور ہے، لیکن فی الجملہ اس سےمشترکہ انسانی ،سماجی اور سیاسی بنیادوں پر غیر مسلموں کے ساتھ مذاکرات اور اتحادکا جواز ملتا ہے۔
حلف الفضول
اسی قسم کا ایک بین القبائلی اتحاد(جس کو آج ہم بین الاقوامی یابین المذاہبی اتحاد بھی کہہ سکتے ہیں ،اس لیے کہ اس وقت ہر قبیلہ اپنے سیاسی اور اقتصادی معاملات میں خود مختار تھا اور ہر ایک کے مذہبی تصورات دوسرے سے مختلف تھے )بعثتِ نبویﷺ سےتقریباً بیس (۲۰ )سال قبل جنگ فجارکےچارماہ بعدمکہ مکرمہ میں ہواتھا،جب حضورﷺ کی عمرِ مبارک بیس(۲۰ ) سال کی تھی،آپﷺ اس معاہدہ میں شعوری طورپرشریک تھے۔ اس کو ’’حلف الفضول ‘‘کہاجاتاہے، ایک مخصوص واقعہ کےتناظرمیں امن و سلامتی، انسانی ہمدردی، مظلوموں کی مدد، ظالموں کا مقابلہ اور اس جیسی بعض مشترکہ سماجی اور سیاسی مسائل پر بنو ہاشم، زہرہ، تیم بن مرۃ، وغیرہ قبائل کے درمیان یہ اتحاد قائم ہوا ،جو تاریخ عرب کا معروف واقعہ ہے۔(جاری)
ہمارے لیے زیرِ بحث مسئلہ میں اس اتحاد کےحوالےسےنبی اکرمﷺ کا یہ ارشاد اصل اہمیت رکھتا ہے،جوحضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف ؓسے مروی ہے۔
حضورﷺنےارشادفر مایاکہ میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر اس معاہدہ میں شریک تھا، یہ معاہدہ مجھےسرخ اونٹوں سےبھی زیادہ عزیز ہے، اگر مجھے آج بھی اس قسم کے کسی معاہدہ کی دعوت دی جائے تو میں اس کو قبول کروں گا۔
یہ عہدِ اسلامی سےقبل کا معاہدہ تھا اور ظاہر ہے کہ اس میں شریک قبائل مسلمان نہیں تھے، اورحضورﷺکا اس وقت نو عمری مگر مکمل شعورکادورتھا،اس معاہدہ میں کسی معاہد فریق کی بالا دستی کا بھی سوال نہیں اٹھتا تھا، ایسے معاہدہ اور ایسے اتحاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرکارِ دوعالمﷺنے ارشاد فرمایا کہ اگر اس قسم کے اتحاد کی دعوت مجھے آج بھی دی جائے تو میں بخوشی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان ملی تشخص اور مفادات کے تحفظ کی شرط کے ساتھ قیام امن ،بقائے باہم اور بدگمانیوں کےخاتمہ وغیرہ نیک مقاصد کےلیےدیگر اہل مذاہب سے مشترکہ انسانی بنیادوں پر (جن میں کوئی بات خلافِ شریعت نہ ہو) مذاکرات اور معاہدات کرسکتے ہیں بالخصوص اس وقت جب مسلمان حالت مغلوبی(اقلیت ) میں ہوں ،اور اس طرح کے معاہدات سے ان کو قومی تحفظ اور دعوت دین وغیرہ کے مواقع زیادہ فراہم ہوسکتے ہوں ۔ (جاری)

امتِ مسلمہ اقوامِ عالم کےدرمیان اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اقتدار اور محکومی دونوں ہی حالتوں میں اپنی دینی وملی امتیازی حیثیت کو باقی رکھا ہے۔ یہ امتیاز دنیا کی کسی قوم ومذہب کو حاصل نہیں ہے۔ ان کی قومی اور سیاسی زندگیوں میں مذہب کبھی بھی طاقتور عنصر کی حیثیت سے غالب نہیں رہا۔ کلیسا کا عبوری دور مذہب کا دور مانا جاتا ہے مگر وہ اعتدال کو نہ برت سکا اور اس کی شدت پسندی نے مذہب کو فائدہ پہنچانے کے بجائے الٹا نقصان ہی پہنچایا ہے۔ نیز اس کی مدّت اتنی مختصر رہی کہ اس کو شمار میں نہیں لایا جاسکتا۔ اس لیے وہ تمام طاقتیں جن کو امتِ مسلمہ کا یہ امتیاز آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے، چاہتی ہیں کہ مذہب اس امت کی زندگی سے بھی نکل جائے۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے یہاں مختلف تدابیر اور منصوبے زیرِ غور و زیرِ عمل ہیں۔ عالمی سطح پر ثقافتی انجذاب، اور تمدنی وحدت کی تحریک بھی اسی کا ایک حصہ ہےکہ ایک ایسی وحدت قائم کی جائے جس میں کسی مذہب کا اپنا وجود نہ ہو بلکہ سب مل کر کام کریں اور تمام کی اچھی اور لائقِ اتفاق باتوں کاایک مجموعہ تیارکیا جائے، جو اس وحدت جدیدہ کا لائحۂ عمل ہو اس لیے کہ تمام مذاہب کا سرچشمہ ایک ہے ، صرف راستے الگ الگ ہیں۔