مزدور۔ دور حاضرکاایک مظلوم ترین طبقہ

مادہ پرستوں نے مزدوروں کابہت زیادہ استحصال کیا

محمد جرجیس کریمی

تشدد، اغوا اور جنسی ہراسانی ، جبری مشقت مزدوروں کا مقدر !
دنیا میں قدیم زمانے سے لے کر تاحال جو طبقہ سب سے زیادہ ظلم و بربریت، قہروغضب، حقوق کی پامالی اور استحصال کا شکار ہورہا ہے وہ ہے مزدور طبقہ ، آکسفورڈ ڈکشنری (Oxford Dictionary) کے مطابق مزدور یا محنت کش لوگ (Labour class, Working class)وہ ہیں جو تنخواہوں کے لیے دستی کام یا صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ مزدور سے مراد وہ شخص ہے جو کسی صنعتی یا کاروباری ادارے میں ملازم ہو اور خواہ فنی کام یا غیر فنی کام پر متعین ہو۔۱
مزدور طبقہ معاشرہ کی ریڈھ کی ہڈی ہے، اس کے خون کی آنچ میں معاشرہ کا چولہا جلتا ہے ۔ اس کے پسینے کے گارے سے عمارت کھڑی ہوتی ہے۔اس کے جھڑتے اور سفید بالوں سے سماج کو لباس میسر ہوتا ہے۔ لیکن اس معمار قوم طبقہ کی اکثریت بے لباس یا پھٹے پرانے لباس میں بھوکے پیاسے کھلے آسمان میں سوتی ہے۔ روز اول سے ہی اس طبقہ کے حقوق سلب کیے گئے۔ ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ مزدور ہے۔ ہمارے پاس قدیم زمانے کے مزدوروں سے متعلق کوئی ٹھوس حوالہ یا باوثوق ذریعہ نہیں ہے جس سے ان کے احوال کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے اور معاشرہ میں ان کی حیثیت جانی جاسکے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہرزمانے میں کچھ سرمایہ دار اور کچھ مزدور ہوا کرتے تھے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ذریعہ مزدوروں کا استحصال ہوتا رہا، گرچہ زمانے اور احوال کے لحاظ سے طریقۂ استحصال اور اس کی سختی میں تفاوت ہوتا رہاہے۔
اسلام میں مزدوروں کے حقوق سے متعلق تفصیلی بحث موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی صراحت سے ان کے حقوق اور معاشرہ میں ان کی حیثیت بیان کی ہے اور پابندی کے ساتھ ان پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے۔مزدوروں کے تئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدی تعلیمات و ہدایات کی بدولت ان کے متبعین کے مابین مزدوروں کے حالات کافی بہتر ہوئے۔ ان کو حقوق ملے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جانے لگااور شرعی وسماجی طورپر معاشرے میں ان کی حیثیت مقرر ہوئی۔ اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں سے متاثر ہونے والی حکومتوں ، ریاستوں اور معاشرے میں بھی دیگر میدانوں ومعاملات کی طرح مزدوروں کے احوال بھی کچھ بہتر ہوئے۔
جس قدر دنیا پرمادیت کا غلبہ بڑھتا گیا اسی قدر مزدوروں کے حالات بدسے بدتر ہوتے گئے۔حالات کی تبدیلی کے ساتھ استحصال کا طریقۂ کار بھی بدلتا رہا ہے۔
چند صدیاں مزدوروں کے لیے بدترین رہیں ، جو قربانیوں سے بھرادور ہوا ہے۔ یہ دور جہاں مزدوروں کے خلاف ظلم وستم اور استحصال کی انتہاء کے لیے جانا جاتا ہے ، وہیں مزدوروں کی بیداری، حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد اور آزادی کے لیے انتھک کوششوں اور قربانیوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف لالچ دے کر ، سراب دکھا کر ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیابلکہ انہیں غلامی کی زنجیر وںمیں جکڑا گیا۔ ظلم وستم کی انتہاء کی گئی ، استحصال کے حدود پھانددیے گئے ۔ استحصال کی انتہاء کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کے اندر حاکموں اور جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ سینوں میں جل رہی آگ شعلہ بن کر دہکنے لگی۔ یہ جوش وجذبہ اس قدر دل میں گھر کرگیاکہ اپنے حقوق کی حصولیابی کے لیے وہ جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے آمادہ ہوگیے۔ مزدوروں نے ظلم واستحصال کے خلاف اور اپنی آزادی کے لیے کئی احتجاجات کیے۔ درج ذیل سطور میں چند احتجاجات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
مزدوروں کے چار بڑے احتجاجات:
مزدوروں نے اپنی حالت زار میں بہتری لانے، اپنے حقوق کی حصولیابی کے لیے کئی اقدامات کیے، کئی یونینیں متحرک ہوئیں لیکن اکثر ناکام ہوئیں۔ کچھ احتجاجات میں انہیں کامیابی بھی ملی ۔ بعد کے ادوار میں اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے, ان میں سے چار احتجاجات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ بغاوت 1886:
یہ احتجاج مزدوروں کااپنے حقوق اور عدل انصاف کے حصول کے لیے شروع کی گئی ایک تاریخی تحریک ہے۔ یہ ایک ظالم و جابر حاکمیت اور تشدد و استحصال کے خلاف بغاوت تھی۔ اس کا پس منظریہ ہے کہ یونین امریکن فیڈریشن آف لیبر کے مطالبے پر ایک نئے قانون کے تحت وفاقی دفاتر کے ملازمین اور مزدوروں کو روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کا حق دیا گیا تھا مگر صنعتوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اور مزدوراس حق سے محروم رکھے گیے تھے۔ ان سے روزانہ چودہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا ۔ اسی حق کے مطالبہ کے لیے یکم مئی 1886ء کو ملک بھر سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ مزدور وملازمین مرکزی شہر شکاگو میں جمع ہوئے۔ یہ احتجاج چار مئی تک چلا۔ چوتھے دن بیس ہزار مزدوروں نے مارکیٹ میں علم احتجاج بلند کیا ،جس کے نتیجے میں مالکین اور مزدوروں کے درمیان کشیدگی اور تنائو انتہاء کو پہنچ گیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں 38 کارکنان مارے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے۔ بعد میں عدالتوں میں مقدمات چلے اور یونین کے کئی رہ نمائوں کو پھانسی دی گئی۔ اس موقع پر ہلاک ہونے والے رہنمائوں نے کہا تھا ۔ ’’تم ہمیں جسمانی طورپر ختم کرسکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے۔ ‘‘ مزدوروں کی تاریخ میں یہ سب سے کامیاب احتجاج تھا، اس نے ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔
روس میں انقلابی مظاہرے:
1905ء میں روس کے متوسط طبقے کے بادشاہ طاس نیکلوس دوئم کے خلاف کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے علم احتجاج بلند کیا۔ ان کا مطالبہ تھاکہ ان کی حالت زار بہترکی جائے، انہیں حقوق و مراعات حاصل ہوں۔ اس موقع پر کسانوں کی کئی تحریکیں وجود میں آئیں۔ ان تحریکوں میں تشدد آگیا۔ 22جنوری کو ان کا پرامن احتجاجی مظاہرہ بادشاہ کے سفید محل سے گزر رہاتھا کہ شاہی محافظوں نے مظاہرین کو روکا، جس کے نتیجے میں افراتفری مچی اور ہزاروں افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔تاریخ میں اس مظاہرہ کو ’’خونی سنڈے‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس ہنگامے کے بعد مزدوروں نے سوویت کونسلز تشکیل دیں۔ کونسلز نے بادشاہ سے کئی مطالبات کیے۔
برازیلی مزدوروں کا احتجاج:
1970ء میں لاطینی امریکہ کے صنعت کاروں اور مزدوروں نے اجرت میں اضافہ کے لیے متعدد مظاہرے کیے۔ برازیل میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملکی پیمانے پر مزدوروں نے خود کو منظم کیا۔ ایک تحریک کی شکل دی اور فوجی حکومت کو چیلنج کیا۔ 1979ء میں برازیل میں صنعتی گڑھ سائوپالو میں دھاتیں صاف کرنے والے ایک لاکھ ستر ہزار مزدوروں نے مظاہرہ کرکے شہر کو مفلوج کردیا۔ اس مظاہرے میں فوجی دستے اور مظاہرین کے مابین متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ بالآخر فوجی حکومت نے سہ ماہی بنیاد پر اجرتوں میں نظرثانی کا مطالبہ مان لیا۔
پولینڈ کے مزدوروں کا احتجاج:
یہ احتجاج پولینڈ کے شہر گدانسک میں ہوا۔ 14اگست 1980ء کو 17سترہ ہزار کارکنوں اور مزدروں نے خوراک اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاجاً لینن شب یارڈ پر قبضہ کرلیا۔ کارکنان کے رہنما لیچ والیسا تھا جو بعد میں قبضہ کرنے والے کارکنوں سے جاملا۔ اس موقع پر ملک کے متعدد فیکٹریوں کے مزدور اور کارکن اظہار یکجہتی کے طورپر مظاہرے میں شامل ہوئے۔
یہ چار بڑے مظاہرے ہیں جن کے ذریعہ معاشرہ کے ایک طبقہ میں خود مختاری اور آزادی کا احساس جاگا۔ ان کے حالات پہلے سے کچھ بہتر ہوے ۔ اس کے علاوہ ہردور میں چھوٹے بڑے متعدد مظاہرے ہوتے رہے۔ تنظیمیں، ادارے اور یونینز قائم ہوتے رہے، جن میں سے کچھ ناکام ہوے اور کچھ مزدوروں کے حالت زار کے پیچھے مطمح نظر کچھ اور تھا ۔مزدوروں کا یونین کے اعتبار سے 1836ء نہایت اہم سال ہے ۔ کیوں کہ اس سال بین الاقوامی مزدور تحریک (International Labour Movement)کا آغاز ہوا۔
مزدوروں کی موجودہ صورت حال ۔اعدادوشمار:
مزدوروں کے اعدادوشمار کی بات کی جائے تو World bankکے مطابق 2019ء میں مزدورافراد (Labour Force)کی تعداد 3.489 Millionتھی۔
مزدور طبقہ کے امور سے متعلق عالمی تنظیم اور (ILo) Intermational Labour Organization کے 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں مزدوروں کا تناسب 60.7فیصد ہے۔ ان کی کل تعدادتین ارب اڑتیس کروڑ بیس لاکھ ہے۔ پسماندہ ممالک (Low income Countries)میں مزدوروں کی شرح 70.4 فیصد ہے ۔کم ترقی پزیر ممالک Lower Middle income Countries میں ان کی شرح 55.3ہے۔ زیادہ ترقی پزیر ممالک (Upper middle income Countries) میں مزور طبقہ کا تناسب 64.2فیصد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک (High income Countries)مزدوروں کی شرح 60.7فیصد ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اعدادو شمار میں بچے شامل نہیں ہیں جن کی عمر 15سال سے کم ہے۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو دوسرے ممالک میں ملازمت کرتے ہیں
وطن عزیز ان سرفہرست ممالک میں سے ہے جہاں سب سے زیادہ مزدور رہتے ہیں۔ ہندوستان 521,900,000مزدور وں کے ساتھ فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ پہلے سرفہرست چین ہے جہاں مزدور کی تعداد 806,700,000ہے۔ تیسرے نمبر پر یورپین یونین ہے۔ جہاں 238,900,000 ملازمت کرتے ہیں۔ (gtlps://en.m.wikipedia.org)ہندوستان میں مزدوروں کی شرح 23.4فیصد ہے۔ اس شمار میں پندرہ سال سے کم عمر کی بچیاں شامل نہیں ہیں۔
مزدور دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ بندھوا مزدور کا ہے۔ کہنے کے لیے تو دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہرانسان آزاد ہے لیکن آج بھی ایک بڑی آبادی کارخانوں، فیکٹریوں، کانوں، اینٹ بھٹوں اور دیگر ملازمت کے مقامات پر غلامی یا نیم غلامی کی زندگی جی رہے ہیں جسے بندھوا مزدوری (Bonded Labour)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں آٹھ ملین سے زیادہ افراد بندھوا مزدوری (Bonded Labour)کا شکار ہیں۔ بندھوا مزدوروں کی بڑی تعداد ایشیاء میں رہتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 84سے 88فیصد بندھوا مزدور جنوبی ایشیاء میں پائے جاتے ہیں۔
وطن عزیز ہندوستان بندھوا مزدوری کا گڑھ ہے۔ انڈیا منسٹری کے مطابق 300,000تین لاکھ سے زیادہ مزدور بندھوا مزدوری اور جدید غلامی (Modern Slavery)کا شکار ہیں۔ تمل ناڈو ، کرناٹک اور اڈیشہ وغیرہ بندھوا مزدوری کے مراکز ہیں۔
موجودہ دور میں مزدوروں کی ایک غیر قانونی اور مذموم شکل بچہ مزدور (Child Labour)یا بچوں سے مزدوری کرانا ہے۔ قانونی طورپر ممنوع ہونے کے باوجود پوری دنیا میں بچوں سے مختلف طریقے سے مزدوری کرائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً218ملین بچے پانچ سے سترہ سال کی عمر کے کہیں نہ کہیں ملازمت کرتے ہیں۔ تقریباً 152ملین بچے مزدوری (Child Labour)کا شکار ہیں۔ ان میں سے 73ملین بچے پرخطر پیشہ سے وابستہ ہیں۔ بچہ مزدوروں کی سب سے بڑی تعداد افریقہ میں پائی جاتی ہے۔ وہاں 72.1ملین بچے بچہ مزدوری کاشکار ہیں، جب کہ ایشیاء میں 62.1ملین، امریکہ میں 10.7ملین ، عرب ممالک میں 1.2ملین اور یوروپ و سینٹرل ایشیاء میں 5.5ملین بچہ مزدور ہیں۔
بچہ مزدوروں کی آدھی تعداد یعنی تقریباً 76ملین بچوں کی عمر 5سے 11سال کے مابین ہوتی ہے۔ 42ملین بچوں کی عمر 12سے 14، جب کہ 37ملین بچوں کی عمر 15سے 17سال کے درمیان ہوتی ہے۔
160ملین بچہ مزدوروں میں سے 88ملین بچے جب کہ 64ملین بچیاں ہوتی ہیں۔
ہمارا ملک ہندوستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں بڑی تعداد میں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ ہندوستان میں بچہ مزدوری کو فروغ دیا جاتا ہے تو شاید بے جانہ ہو، افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اس پر قدغن لگانے کے بجائے کسی نہ کسی طرح اس کو فروغ دے رہی ہے۔ حکومت بچہ مزدوروں کی اعداد وشمار کو عوام کے سامنے لانا نہیں چاہتی۔ 2011ء کی آخری رپورٹ کے مطابق 5سے 18سال کے 33 ملین جب کہ 5سے14سال کے 10.13ملین بچے ہندوستان میں بچہ مزدوری (Child Labou)کا شکار ہیں۔
ہندوستان میں درج ذیل پانچ ریاستوں میں کثیر تعداد میں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے۔ اترپردیش 8,96,301مہاراشٹر 4,96,916، بہار 4,51,590، آندھراپردیش 440851اور مدھیہ پردیش میں 2,86,310بچے مزدور ہیں ۔
موجودہ دور میں مزدوروں کے استحصال کی چند صورتیں:
جبری مشقت : جبری مشقت میں ہر وہ کام اور عمل داخل ہے جو کسی شخص سے جرمانے کے طورپر پرخطر طریقے سے لیا جاتا ہے اور جس کو کرنے کے لیے وہ شخص یا عورت راضی نہ ہو‘‘۔
دنیا میں کروڑوں مزدور جبری مشقت کا شکار ہیں ، ان سے ان کی مرضی کے خلاف ایسے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس میں نہ صرف زخمی ہونے کا امکان رہتا ہے بلکہ جان گنوانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ ILOکی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 24.9ملین افراد جبری مشقت کا شکار ہیں۔ جبری مشقت نیم غلامی کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے (Modern Slavery)جدید غلامی کہاجاتا ہے۔
زیادہ وقت کام لینا:
موجودہ دور میں مزدوروں کے استحصال کی ایک شکل طے شدہ وقت سے زیادہ وقت کام لینا ہے، فیکٹری ہویا کارخانہ، سیکٹر ہو یاکان، دیہاڑی مزدورہوں یا دفتر اور آفس میں کام کرنے والے ملازمین ہرجگہ مزدوروں سے پوری دنیا میں طے شدہ وقت سے زیادہ جبراً کام لینے کا رجحان پایا جاتاہے۔ انکار کرنے والوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونے یا اجرت نہ ملنے کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ پوری دنیا میں عالمی اور ملکی سطح پر اوقاتِ کار متعین ہیں۔ اس کی پاسداری تقریباً نہیں کے برابر ہے۔کچھ تو مالکوں کی مجبوریاں ہوتی ہیںاورکچھ ملازمین اور مزدوروں کی۔ قانونی اعتبار سے اضافی اجرت کے بدلے زیادہ کام کیا جاسکتا ہے۔ بعض مالکین اجرت دینے کا اہتمام کرتے ہیں جوکہ ایک مستحسن عمل ہے۔
اجرت دینے میں ٹال مٹول کرنا:
موجودہ حالات میں مزدوروں پر ظلم وستم اور ان کے استحصال کی ایک صورت اجرت دینے میں ٹال مٹول کرنا ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ عام رجحان ہوچلاہے۔ ایک مزدور بڑی محنت ومشقت کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔ اپنا پسینہ بہاتا ہے۔ اپنی خواہشات کو تج دیتا ہے۔ بسااوقات بیماری اور ضروریات کے وقت بھی چھٹی لینے سے گریز کرتا ہے۔ تاکہ اسے اور اس کے بال بچوں کو دو وقت کی روٹی نصیب ہو اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھ سکے۔ مگر جب محنت کی مزدوری لینے کے لیے مالک کے پاس جاتا ہے تو وہ ٹال مٹول کرنے لگتا ہے یااس کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے۔ دنیا میں روزانہ کروڑوں مزدوروں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
تشدد:
مزدور پر زیادتی اور استحصال کی ایک شکل ان پر تشدد برتنا ہے۔ مزدوروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا، مارپیٹ کرنا، متشددانہ رویہ اختیار کرنا ایک عام بات ہوگئی ہے۔ آئے دن سوشل میڈیا اور اخبارات میں اس طرح کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ متشددانہ رویہ کا شکار زیادہ تر گھروں میں کام کرنے والی خواتین ملازمین، بھٹوں ، کارخانوں کے مزدور اور دیہاڑی کے مزدور ہوتے ہیں۔ مزدوروں کی نہ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کی جاتی ہے بلکہ بسا اوقات ایسا بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے کہ مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔بلاشبہ بعض مزدور بے ایمان اور کام چور ہوتے ہیں۔ بوقت ضرورت مزدور کی ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور تھوڑی بہت سرزنش کرنا مالک کا حق ہے۔ لیکن ان پر بے جا تشدد کرنا، بہیمانہ رویہ اختیار کرنا ظلم وزیادتی ہے۔ جو کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے۔
جنسی استحصال:
مزدور طبقہ کے استحصال کی ایک صورت بداخلاقی، جنسی زیادتی وجسمانی ہراسانی ہے۔ دیگر زیادتیوں کی طرح اس زیادتی کا بھی سب سے زیادہ شکار مزدور طبقہ ہوتاہے۔ چوں کہ مزدور طبقہ معاشرہ کا دباکچلا طبقہ ہوتا ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے اس لیے انہیں لالچ دے کر اور بڑے بڑے خواب دکھا کر ان کا استحصال کرنا آسان ہوتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں مزدور روزانہ کسی نہ کسی طرح جنسی زیادتی اور بداخلاقی کا شکار ہوتے ہیں
مزدوروں کا اغوا:
موجودہ حالات میں مزدوروں پر ظلم وزیادتی اور استحصال کی ایک شکل مزدور کا اغوا کرنا ہے۔ مزدوروں کا اغوا دنیا بھر میں پھیلا ہوا ایک سنگین جرم ہے۔ یہ جرم بطور خاص پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اغوا مختلف طریقے سے اور متعدد مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔موجودہ حالات میں مزدور کے اغوا کی ایک صورت یہ ہے انہیں بڑے بڑے خواب دکھاکر دوسرے ممالک بھیج دیا جاتا ہے جہاں ان سے ان کی استطاعت سے بڑھ کر یا گھنائونے کام لیے جاتے ہیں ۔ اس درمیان ان سے سارے کاغذات وغیرہ ضبط کرلیے جاتے ہیں۔ انہیں برسوں گھر واپسی کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔
استحصال کے پیچھے کون؟:
مزدوروں کے استحصال کی جڑکون ہے، اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ۔ اس کا جواب ملنا بہت مشکل نہیں ہے کہ اس کی جڑمادیت اور مال ودولت کی حرص و طمع ہے۔ جس پر عصرحاضر میں سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔قوم وسماج کے جس طبقے کے ہاتھوں مادیت اور مال و دولت کا غلبہ رہاہے۔ اس نے اپنے ماتحت کمزور اور مزدور پر ظلم وزیادتی ، تشدد اور استحصال کیا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ مادیت پرستی کا اس قدر شکار ہوتا ہے کہ وہ مال و دولت میں مسابقت لے جانے اور دنیا پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتا ہے۔مزدوروں اور کمزوروں کے ظلم وستم اور استحصال سے نجات دلانے اور حالات میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ داروں پر شکنجہ کساجائے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سدھار لایا جائے کیوں کہ اس کے بغیر کسی بہتری کی امید کرنا سراب کے پیچھے دوڑنے کے مترادف ہے۔
(مضمون نگار ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں )

 

***

 مزدور طبقہ معاشرہ کی ریڈھ کی ہڈی ہے، اس کے خون کی آنچ میں معاشرہ کا چولہا جلتا ہے ۔ اس کے پسینے کے گارے سے عمارت کھڑی ہوتی ہے۔اس کے جھڑتے اور سفید بالوں سے سماج کو لباس میسر ہوتا ہے۔ لیکن اس معمار قوم طبقہ کی اکثریت بے لباس یا پھٹے پرانے لباس میں بھوکے پیاسے کھلے آسمان میں سوتی ہے۔ روز اول سے ہی اس طبقہ کے حقوق سلب کیے گئے۔ ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دنیا کا سب سے مظلوم طبقہ مزدور ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022