مرد خود آگاہ و خدا آگاہ۔۔۔

مولانا سراج الحسن :اسقامت کا کوہ ِ گراں ،محبتوں کا ترجماں،ربّ کریم غریق ِ رحمت کرے

ایس ایم ملک، حیدرآباد

مَیں نے واٹس ایپ پر جیسے ہی یہ خبر پڑھی کہ تحریک کی ایک مضبوط چٹان اب اپنی جگہ نہیں رہی تو کچھ لمحوں کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ دل کی دھڑکنیں شاید رک سی گئی ہیں، چند ہی لمحوں میں دیگر دوستوں کے ذریعہ اس جانکاہ خبر کی تصدیق ہو گئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
پھر فہیم الدین احمد صاحب کا فون آیا، خبر کی تصدیق کے ساتھ حکم بھی تھا کہ مولانا سراج الحسن پر ایک مضمون لکھوں۔ چنانچہ مَیں نے اپنی یادداشت کی بنیاد پر کچھ یادیں کچھ باتیں مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغرب کا وقت تھا نماز کے بعد ذہن مولانا کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کے تانے بانے سنوارنے لگ گیا گویا پچاس سال کا فلیش بیک شروع ہو گیا۔ جس طرح خیالات آرہے ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک طرح سے آپ بیتی بھی ہے۔
غالباً ١٩٦٤ کی بات ہے، بنگلور میں کسی بڑے اجتماع کی خبر سن کر مجھ’نَو گرفتارِ بلا‘کو خیال آیا کہ اجتماع میں شریک ہونا چاہیے چنانچہ میں شرکت کی غرض سے گھر سے روانہ ہوا معلوم نہیں مَیں کس طرح سیدھے امیر مقامی جناب جمال احمد امین آبادی صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ ناشتہ ہو رہا تھا سلام دعا کے بعد تعارف سے پہلے ہی ایک صاحب نے مجھے دسترخوان پر دعوت دے دی اور میں تکلف کو برطرف کر کے کھانے میں شامل ہوگیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جنہوں نے مجھے ناشتے میں شرکت کی دعوت دی وہی مولانا محمد سراج الحسن ہیں جو اس وقت امیر حلقہ کرناٹک تھے۔ دیگر حضرات میں مولانا سید حامد حسین معاون قیم جماعت اور صاحب خانہ جناب امین آبادی صاحب تھے۔ اس وقت تین دن تک میں ان بزرگوں کے ساتھ ساتھ ’مدراسی رفیق‘ کی حیثیت سے برابر تمام پروگراموں میں شریک رہا۔یہ مولانا سراج الحسن سے میری پہلی ملاقات تھی۔ اس وقت میں محض ’یکے از ہمدرداں‘ تھا۔
دوسری ملاقات ١٩٦٧ والے زیبا باغ، حیدر آباد کے کل ہند اجتماع میں ہوئی تھی مگر اس وقت تفصیلی ملاقات نہ ہو سکی تھی۔ اس کے بعد جب میں چتلی قبر کے مرکزِ جماعت میں محاسب اور دفتری معاون کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا تھا مولانا مرحوم ملاقات ہوئی۔ اس زمانے میں مجھے یہ شرف حاصل رہا ہے کہ مَیں مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے اجلاسوں کے وقفوں کے دوران جناب سید حامد حسین صاحب، جناب محمد عبدالرزاق لطیفی صاحب، جناب محمد عبدالعزیز صاحب اور جناب محمد سراج الحسن صاحب کے ساتھ اہم پالیسی موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے کبھی کبھار شریک محفل بھی کرلیا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں اپنے وطن بیلم پلی سے جنتا ایکسپریس کے ذریعہ دہلی جا رہا تھا، جس کوچ میں میرا برتھ تھا اسی میں مولانا سراج الحسن صاحب اور جناب محمد جعفر منیار صاحب کے بھی برتھ تھے۔ جنتا ایکسپریس میں میرا سفر تو خیر کوئی خاص بات نہیں تھی، مگر کرناٹک کے امیر حلقہ کا ہمسفر ہونا اس وقت بھی میرے لیے یادگار تھا اور آج بھی یاد کرتا ہوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ عزیمت کا حال یہ کہ دو دن کے سفر کے دوران جنتا ایکسپریس جیسی ٹرین میں وہ کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھتے رہے۔ محترم سراج الحسن صاحب سے قریب ہونے اور ان سے زیادہ استفادہ کا موقع اس وقت ملا جب ١٩٧٤ میں مرکزی شوریٰ کا اجلاس عبدالرزاق لطیفی صاحب کی علالت کی وجہ سے بنگلور میں رکھا گیا تھا۔ آپ کی شفقت اور محبت کا لطف اس وقت مَیں نے جتنا اٹھایا ہے اسے کبھی بھلا نہیں پاؤں گا۔ جتنے ارکانِ جماعت اس اجلاس میں شریک تھے انہوں نے ان سب میں نہ صرف میرا تعارف کروایا بلکہ اس ذریعہ سے میری تربیت کا بھی بڑا سامان کر دیا۔مولانا کی خوئے دلنوازی کی شان ہی نرالی تھی، یوں تو تحریک اسلامی کے ہر چھوٹے بڑے قائد کے اندر دلنوازی کا عنصر ضرور شامل رہتا ہے مگر مولانا سراج الحسن صاحب ان سب میں منفرد تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے نبوی صفت کا پَرتو آپ پر ڈال دیا گیا ہے، آپ سے ملنے والا ہر شخص یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ آپ سب سے زیادہ اسے ہی چاہتے ہیں۔ آپ کرناٹک کے امیر حلقہ تھے مگر میں نے ایس آئی او کے پہلے کل ہند اجتماع کے دوران دیکھا کہ وہ کس طرح کارکنوں کو مصروف رکھتے خود اس طرح متحرک رہتے کہ آپ کو دیکھ کر پوری انتظامی ٹیم حرکت میں رہتی۔ یہی بات میں نے سراج الحسن صاحب سے حلقہ کا چارج سنبھالنے والے جناب محمود خان صاحب میں بھی پائی تھی۔
١٩٧٩ میں پاکستان کے وزیراعظم، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی، یہاں کشمیر میں جماعت اسلامی جموں کشمیر پر مظالم ڈھائے گئے؛ جماعت کے ارکان و کارکنوں کے باغات کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا؛ دفاتر کو نذر آتش کیا گیا، لوگوں کو مارا پیٹا گیا؛ اس وقت جماعت اسلامی ہند کی طرف سے ایک وفد حالات کی جانچ کے لئے بھیجا گیا تھا، اس کے ایک رکن مولانا سراج الحسن صاحب بھی تھے، اس وفد کی رپورٹ باقاعدہ شایع ہوئی تھی؛ وہاں سے واپسی کے بعد گیٹورای کے لئے مولانا سراج الحسن صاحب سے میں نے انٹرویو لیا تھا؛ اس کی سرخیاں اور مواد، اس میں مولانا کے جملے بہت دنوں تک زیر بحث رہے ہیں۔
ایس آئی او SIO کا پہلا کل ہند اجتماع بنگلور میں ١٩٨٦ میں منعقد ہوا۔ اس سے قبل اس وقت کے امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب اپنے علاج کے سلسلے میں حیدر آباد تشریف لائے ہوئے تھے اور اس خادم کو مولانا کی خدمت میں حاضر رہنے کا شرف حاصل ہوا تھا یہ رفاقت غالباً پندرہ یا بیس دن رہی ہوگی۔ مولانا ابواللیث اصلاحی نے SIO کے اجتماع کے لیے اپنا خطبہ صدارت حیدر آباد ہی میں املا کروا لیا تھا۔ اس وقت مولانا کی خردہ نوازی کا مشاہدہ کرنے کا بھی ملا کہ درمیان میں کہیں کہیں کوئی بات میں اضافہ کر دیتا تو بڑی خوشی سے مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر لیتے۔ یہ خدمت کا سلسلہ بنگلور میں اجتماع کے دوران اور قیام گاہ تک رہا۔ مولانا سراج الحسن صاحب نے خود مجھے اس خدمت پر لگایا تھا۔ حالانکہ مہمانوں کی دیکھ ریکھ کے ذمہ دار کوئی اور تھے اس کے باوجود وہ خود مہمانوں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔
بعض اوقات ہم کارکنوں کے درمیان یہ گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے کہ قائدین کو رول ماڈل ہونا چاہیے:
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکر عمل بن کر غیب کی صدا ہو جا
(اصغر گونڈوی)
اور وہ سرتاپا پیکرِ عمل تھے، پورا رول ماڈل۔ الحمدللہ، تحریک اسلامی کے قد آور قائدین میں ہر ایک اپنی جگہ ایک رول ماڈل رہا ہے۔ میرے ساتھ ایک اور خوش قسمتی کی بات یہ بھی رہی کہ تلگو اسلامک پبلیکیشنز کی عمارت ’’دارالدعوہ ‘‘(سندیش بھون) بن کر تیار ہوگئی تو مولانا سراج الحسن صاحب امیر جماعت منتخب ہو چکے تھے۔ میں نے فون پر ان سے اس عمارت کے افتتاح کی درخواست کی تو وہ تیار ہو گئے چنانچہ انہیں کے ہاتھوں اس عمارت کا افتتاح ہوا۔ اسی موقع پر موصوف نے وہ مشہور جملہ ارشاد فرمایا تھا جو بہت عام ہو گیا ’’ان عمارتوں کے ذریعے اگر وہ مقاصد حاصل نہ ہو سکیں جن کے لیے یہ بنی ہیں تو یہ عمارتیں ہمارے نصب العین کے مقبرے بن جائیں گی‘‘
مولانا سراج الحسن صاحب کے دور امارت ہی کی پہلی میقات میں بھارت کی تاریخ کا بدترین المیہ پیش آیا تھا جب کہ بابری مسجد کی چار سو سالہ تاریخی عمارت، جمہوریہ بھارت کے لیڈروں اور ملک کے محافظوں کی نظروں کے سامنے ڈھا دی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور اس کے معاً بعد ملک بھر میں بدترین فسادات پھوٹ پڑے۔ سیکولر کانگریس کی حکومت کو کچھ اور نہیں بن پڑا تو جماعت اسلامی ہند پر پابندی لگا دی۔ میں ان دنوں تلگو ہفتہ وار رسالہ گیٹورائی کے دفتر میں بیٹھا مجھ سے جو کچھ ہوسکتا تھا کر رہا تھا۔ میرے ایڈیٹوریل اور لیڈ آرٹیکلز کا کچھ نہ کچھ رسپانس ضرور ملتا تھا مگر میری پہنچ آندھرا پردیش کے تلگو قارئین تک ہی محدود تھی۔ ایک خیال ستائے جارہا تھا۔ میں نے فون پر جمیل بھائی (ایم اے جمیل احمد، آئی ایف ٹی، مدراس ) سے طویل گفتگو کی، انہوں نے کہا، تم یہاں پہنچو میں کے سی عبداللہ اور ٹی کے عبداللہ صاحبان کیرالا کو بھی بلوالیتا ہوں پھر ہم بیٹھ کر تفصیلاً گفتگو کریں گے۔ چنانچہ میں وہاں پہنچ گیا اور دو دن کے بحث ومباحثے کے بعد طے پایا کہ امیر جماعت کے سامنے ان خیالات کا پیش ہونا ضروری ہے۔ تاریخ مقرر ہوئی، کیرالا کے ذمہ داران، جمیل بھائی اور میں پروگرام کے مطابق مولانا سراج الحسن صاحب کی خدمت میں پہنچ گئے اور مولانا سے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں ایک طرف تحریک اسلامی کے ارکان وکارکنان اور دوسری طرف پوری ملت اسلامیہ بےحد رنجیدہ ہیں اور بے بسی محسوس کر رہے ہیں ایسا معلوم رہا ہے کہ وہ اس وقت بے یار ومددگار ہو گئے ہیں اس صورت حال سے نکلنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اہل وطن کے خیر پسند عناصر کو ساتھ لے کر ملک کی موجودہ فضا کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ تھا مختصراً میری گفتگو کا لب لباب۔ پھر دوسرے احباب نے بھی اظہار خیال کیا۔ مولانا نے Modes Operendy پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے جو جا سکتے ہوں وہ مرکز جماعت جائیں اور وہاں مولانا محمد شفیع مونس صاحب، محمد جعفر صاحب، سید یوسف صاحب( ارکان شوریٰ) کو بھی تفصیلات سے آگاہ کر کے ان سے مشورہ کریں۔ مولانا نے غالباً ان حضرات سے فون پر ربط بھی پیدا کیا تھا اور گفتگو کے بعد طے پایا کہ جمیل بھائی اور میں مرکز اور علی گڑھ جائیں گے۔ اس طرح مولانا کے دور میں FDCA وجود میں آیا۔
اس وقت میں نے امیر جماعت سے یہ بھی عرض کیا تھا کہ آج ان حالات کی وجہ سے یہ طریقہ کار اختیار کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ میرا تو یہ پختہ یقین ہے کہ ہماری پالیسی کا Thrust اور Orientation یہی ہونا چاہیے کہ برادران وطن کے ساتھ مل کر ہی ہم مختلف کام انجام دینے لگیں۔ مولانا نے بڑے غور سے میری باتیں سنیں میری ان باتوں کا کچھ اثر دھارمک جن مورچہ کی تشکیل میں بھی رہا ہوگا (واللہ اعلم)
گو کہ FDCA پر بعض بزرگوں میں نا خوشگوار باتیں بھی سننے میں آئیں لیکن ملک کے طول وعرض میں برادران وطن کے پڑھے لکھے طبقے کے اندر جس پیمانے پر اور جس طرح جماعت اسلامی کا تعارف ہوا وہ اپنی جگہ ایک تاریخ ہے۔ ساتھ ہی دھارمک جن مورچہ کے اثرات کا بھی کاش کوئی اندازہ کرسکتا! اس کام کو جاری رکھنے کی ضرورت کاش کوئی سمجھ سکے!!
اپنے پورے دور امارت میں، دارالدعوہ کی تعمیر کے بعد مولانا جب بھی حیدرآباد تشریف لاتے سندیش بھون ہی میں ایڈیٹر کے کمرے میں قیام کرتے۔ چونکہ مجھے بھی اسی عمارت کے ایک گوشے میں رہنے کا اتفاق حاصل تھا، میرے اور میرے خاندان کے لیے ان کی خدمت کا یہ بڑا شاندار موقع ہوا کرتا۔ میرے بچوں کو مولانا کی نصیحتیں پانے کے بے شمار مواقع ہمیشہ حاصل ہوتے رہے اور آج بھی گھر میں مولانا کی باتوں کے چرچے معمولاً ہوتے رہتے ہیں۔دارالدعوہ میں قیام کے دوران نماز فجر محلہ کی مسجد میں پڑھی جاتی، نماز کے بعد فضائل اعمال پڑھی جاتی مولانا چند لمحے ان کے ساتھ گزارتے اور لوگوں سے مصافحہ کرکے لوٹ آتے۔
مولانا سراج الحسن امیر جماعت منتخب ہوئے تو سامنے قیم جماعت کے انتخاب کا مسئلہ بڑا دشوار گزار تھا، مولانا کے سامنے کچھ نام پیش ہوئے، انتخاب کے بعد مولانا نے مختلف حلقوں کے دورے کیے اور جناب محمد جعفر صاحب کو جو امارت حلقہ کے لیے نامزد تھے پٹنہ سے لے آئے اور محمد جعفر صاحب نے بعد میں ثابت کیا کہ ان کا انتخاب سو فیصد درست تھا اور وہ (معذرت کے ساتھ) پیدائشی طور پر قیم ہیں! مولانا سراج الحسن صاحب کی مردم شناسی کی داد دینی پڑے گی۔ مولانا سراج صاحب کئی لوگوں کو حلقوں سے نکال کر مرکز لے آئے اور ان سے کام لیا اور الحمد للہ یہ شخصیتیں تحریک کے لیے مفید ثابت ہوئیں، نیز حلقوں میں بھی نئے افراد کو آگے بڑھانے کے مواقع ملے۔ تحریک کے کام کو پھیلانے اور ساتھ ہی افراد کو مختلف کاموں میں مصروف کرنے کے بے شمار مواقع فراہم ہوئے۔ تحریکی اور دعوتی مساعی کی نئی جہتیں دریافت ہوئیں۔ یہ سب مولانا سراج الحسن صاحب کے دور امارت کی خصوصیات ہیں۔
میں مولانا کی امارت کے دوران مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن رہا ہوں، ارکان کی رائیوں کو سننے اور ان کا احترام کرنے میں انہوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی ہمیشہ مشاورت کے اعلیٰ ترین قدروں کی پاسداری کرتے رہے۔
مولانا سراج الحسن صاحب کو PR (رابطہ عامہ) کے کام سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس خصوصیت کے ساتھ بحیثیت امیر حلقہ کرناٹک میں انہوں نے تحریک کو کس طرح پھیلایا یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ امیر جماعت کی حیثیت سے بھی دہلی میں مولانا نے اپنے تحریکی تعلقات کو کس طرح وسعت دی اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہو جاتا ہے۔ برادرم ملک معتصم خان صاحب بھی ان لوگوں میں تھے جنہیں امیر محترم مرکز میں بحیثیت سکریٹری تقرر کرنا چاہتے تھے اور میں مرکز ہی کی کال پر کسی کام کے لیے دہلی گیا ہوا تھا۔ مولانا ہم دونوں کو لے کر ایک پنجابی بھائی جو پرانے کانگریسی تھے، کے گھر پہنچے وہاں ہماری دعوت تھی ان صاحب سے پوری ملاقات کے دوران جس طرح ملکی مسائل پر گفتگو ہوئی اس سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مولانا سے ان کی بہت پرانی شناسائی ہے اور جماعت سے بھی وہ صاحب بخوبی واقف ہیں۔ معلوم نہیں اس طرح کے کتنے تعلقات مولانا نے بنائے ہوں گے اور اب ان کا کیا حال ہے؟
مولانا سراج صاحب کے مزاج میں جلال وجمال کا، رعب داب اور کسر وانکسار کا حسین امتزاج جمع تھا۔ بقول جناب فضل الرحمن فریدی صاحب مرحوم، مولانا کو دیکھنے سے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ ’’امیر جماعت اسلامی‘‘ ہیں! مولانا جب بھی کسی قدر طویل دورے سے مرکز لوٹتے تو مرکز کے چھوٹے سے لے کر بڑے تمام ملازمین سے حسب موقع معانقہ کرتے اور ایک دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ بال بچوں کی خیریت دریافت کرتے۔ مرکزِ جماعت میں ایک اسٹڈی گروپ ہوا کرتا تھا، جس کا میں بھی ایک ممبر تھا اور کنوینر جناب سید یوسف صاحب ہوا کرتے تھے اور ان کی وفات کے بعد شاید سابق امیر جماعت ڈاکٹر عبدالحق انصاری صاحب مرحوم کنوینر ہوئے۔ سابق امیر جماعت مولانا سید جلال الدین انصر عمری صاحب بھی اس کے ممبر رہے ہیں۔ ایک نشست اس گروپ کی بمبئی میں ہوئی، وہاں گروپ نے امیر جماعت کی ایما پر جماعت کے آئندہ ٢٥ سالہ لائحہ عمل پر غور وخوض کیا، تقریباً ایک ہفتہ کی اس نشست کے نتائج پر محترم فریدی صاحب مرحوم کو نوٹس تیار کرنا چاہیے تھا لیکن شومئی قسمت سے وہ نوٹس تیار نہ ہو سکے، میں نے اپنے نوٹس کی بنیاد پر ایک خاکہ تیار کیا اور شوریٰ میں پیش کیا تو فریدی صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ بالآخر محترم امیر جماعت نے انہی نوٹس کو زیر بحث رکھا اور کہا کہ آپ لوگ موجود ہیں تو گفتگو ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مجلس شوریٰ نے جو لائحہ عمل کا خاکہ منظور کیا تھا اسی کی روشنی میں ہر میقاتی پروگرام طے کیا جا رہا تھا جناب محمد جعفر صاحب اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
مولانا محمد سراج الحسن صاحب تین میقاتوں تک مسلسل امیر منتخب ہوتے آئے تھے۔ چوتھی میقات کے آغاز میں جب انتخاب امیر کا مرحلہ آیا اور مولانا سراج الحسن صاحب کا نام بھی پیش ہوا تو آپ نے معذرت کر لی اور دیگر عذرات کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ’’میں نے زندگی میں کبھی کسی تحریکی فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، اب مجھے اس پر مجبور نہ کیجئے ‘‘ چنانچہ مولانا کا نام زیر غور نہیں رہا؛ اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب امیر چن لئے گئے ؛ مولانا محمد سراج الحسن صاحب اور مولانا محمد عبد العزیز صاحب کے دوست، سابق امیر حلقہ آندھرا پردیش مولانا عبدالرزاق لطیفی صاحب کی وفات پر میں نے کہا تھا… ایک مشعل جلی تھی ابھی بجھ گئی آج جو مصرع ذہن میں آیا وہ یہ تھا…
وہ رہنما تھا، وہ ہم نشیں و ہم زباں تھا، مگر کہاں ہے
نظم لکھوں گا مگر معلوم نہیں کب؟
اب وہ رہنما نہیں رہے، اللہ تعالٰی ان کی کاوشوں کو تحریکی خدمات کو اور جو کچھ مساعی ان سے ہوئی ہیں انہیں قبول فرمائے اور انہیں اپنی رضا سے نوازے اور ان کی اولاد سمیت ہم سب کو اپنی زندگیاں اس کی بندگی کی دعوت دیتے ہوئے مالک حقیقی سے جا ملنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین

ملک کے طول وعرض میں برادران وطن کے پڑھے لکھے طبقے کے اندر جس پیمانے پر اور جس طرح جماعت اسلامی کا تعارف ہوا وہ اپنی جگہ ایک تاریخ ہے۔ ساتھ ہی دھارمک جن مورچہ کے اثرات کا بھی کاش کوئی اندازہ کرسکتا! اس کام کو جاری رکھنے کی ضرورت کاش کوئی سمجھ سکے!!