مراسلات

صلاح الدین شبیر خان، گیا

زندگی نو جون 2020ء نظر نواز ہوا۔ بہترین مقالات و مضامین اور حسن پیش کش کے لیے مبارک باد۔

ویسے تو گذشتہ کئی مہینوں کے دوران ہر شمارہ اپنے معیاری مضامین اور موضوعات کے انتخاب اوربہتر طباعت کے لحاظ سے روز افزوں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مجلس ادارت کے اراکین کی خدمات قبول فرمائے، اور اسے قارئین کی صحیح رہ نمائی اور ذہن سازی کاذریعہ بنائے۔ زیر نظر شمارےمیں محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب اور برادرم محی الدین غازی کے مضامین عوام کے درمیان زیر بحث موضوعات سے متعلق بروقت اور صحیح رہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔ دیگر مضامین بھی معیاری اور غور و فکر کے حامل ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ سارے اہل قلم کو نام بنام مبارک باد پیش کروں۔ چلیے اتنا لکھ دینے سے بھی میرے تاثرات کی ترجمانی ہو جاتی ہے۔

’ سازشیت ‘ کی اصطلاح بر محل ہے اور صاحب مضمون نے سازش کی درجہ بندی کرتے ہوئے سازشیت کے مہلکات، اس کی پہچان اور قرآنی آیات سے رہ نمایانہ استدلال کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔ مضمون سیر حاصل ہے اور حوالہ جات سے اہل علم کو مزید استفادہ کرنے کی ترغیب ملے گی۔ سازشیت افراد کے لیے بھی اور گروہ کے لیے بھی کبھی کبھی وبال جان بن جاتی ہے اور مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں میرے وہاٹس اپ پر اپنے سمجھ دار رفقا میں سے کئی ایک نے سازشیت پر مشتمل کچے پکے اتنے مضامین اور معلومات بلا تحقیق شئیر کیں کہ مجھے ان پر تبصرہ کرتے کرتے الجھن سی ہونے لگی۔ میرے مشاہدے میں بعض افراد تو ایسے آتے رہے ہیں جن پر نفسیاتی مریض ہونے کی وجہ سے سازشیت کا دورہ پڑتا رہتا تھا اور وہ دوا اور کاؤنسلنگ کے ذریعے قدرے ٹھیک ہو جاتے تھے۔

لیکن جب کسی گروہ کو بقائمی ہوش و حواس اس کا چسکا لگ جائے تو اس سے نکالنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ سازشیت کی ایک بنیادی پہچان یہ ہے کہ اس میں سازش، سازشی اور ہدف سازش سب کی کیفیات کی آگاہی تو سازشیت میں مبتلا افراد کو ہوتی ہے جس سے یا تو یہ پتہ چلتا ہے کہ سازشی افراد یا گروہ نے ساری سازش ان کے سامنے بیٹھ کر بنائی تھی یا یہ لوگ اتنے ذہین و خورد بین ہیں کہ انھیں اس کا پتہ چل گیا لیکن اسی کے ساتھ اتنے غبی ہیں کہ اس کا جواب اور بچاؤ کا لائحۂ عمل ان کے پاس نہیں ہے۔ امید ہے اس مضمون سے سازش کے سلسلے میں اعتدال پسندی کی راہ نظر آئے گی اور تدبیر امر کے خداوندی اختیار سے قلب و ذہن روشن ہو گا۔

“رخصت و رعایت” احکام الہی میں یسر کی کارفرمائی کا مرکزی عنوان ہے اور اس پر فقہی پہلو سے گفتگو ہوتی رہتی ہے جس سے کسی حد تک ہمارے جیسے عامی بھی واقف ہیں لیکن احکام و رعایت کی روح کیا ہے اس سے کم از کم ہم جیسے لوگوں کا ذہن روشن نہیں تھا۔ زیر نظر مضمون نے، جو صاحب مضمون کے قلبی مطالعۂ قرآن کا اظہار ہے، اس پہلو سے تازگیٔ فکر بخشی۔ انسان کو زندگی میں مختلف حالات و احوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ معمول کے مطابق ہوتے ہیں، کبھی غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر دو صورت میں انسان احکام خداوندی کی بجا آوری کا مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے نازل کردہ احکام میں بھی جاری و ساری ہے اور ان رعایتوں میں بھی جو اللہ اور اس کے رسول نے اصول استطاعت کی صورت میں عطا کیا ہے۔ صاحب تحریر کے الفاظ میں احکام الہی کی بجا آوری کا مطالبہ بشرط استطاعت، بقدر استطاعت اور بشکل استطاعت ہے جو سراسر رحمت خداوندی کا مظہر ہے۔ کورونا کی وبائے عالم گیر نے مساجد میں با جماعت نماز، نماز جمعہ اور عید گاہ میں نماز عید کے حوالے سے عام مسلمانوں کو ایک قلبی اضطراب سے دوچار کردیا اور حکومت کی بھیڑ سے متعلق عمومی مناہی کے مسجد پر اطلاق کے حوالے سے دینی رہ نمائی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔

اس موقع پر جو رہ نمائی بعض دارلافتاء سے جاری ہوئیں ان میں سرکاری حکم کے پیش نظر مسجد میں با جماعت نماز میں عمومی شرکت سے منع کیا گیا۔ عوام الناس نے اسے سرکاری حکم کی پابندی پر محمول کرتے ہوئے بہ اکراہ قبول کیا۔ لیکن یہ نکتہ عوام کی نظروں سے اوجھل رہا کہ کورونا کی وبائے عام میں جو نئی حالت درپیش ہے اس میں حکم نماز کی بجا آوری کے لیے ان کے رب نے اپنی رحمت سے کیا آسانیاں فراہم کی ہیں۔ اگر ہمارا ذہن اس پہلو سے واضح رہے کہ نئی وبائی صورت حال میں نماز کی ادائیگی بحکم سرکار نہیں بلکہ منشائے الہی کے تحت نئی شکل استطاعت میں مطلوب ہے، تو اضطراب قلب کا تعلق اس نئی شکل بجا آوری سے نہیں ہوتا بلکہ حالات کو معمول پر آنے کے لیے اپنے رب سے گریہ و زاری سے منسوب رہتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ ہر طرح کی صورت حال میں احکام الہی کی پابندی لازم ہے لیکن ان کی صورت گری کا بنیادی عنصر استطاعت ہے جو رحمت الہی کا مظہر ہے۔ اس فہم و حکمت کو مضمون میں قرآنی آیات کے حوالے سے بہت خوبصورتی اور منطقی ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

تحریک اسلامی کے فکری اثرات کا ایک اہم دائرہ علوم جدیدہ کی تشکیل نو کی کوششوں میں ظاہر ہوئی جس میں حقیقی پیش رفت کتنی ہوئی قابل غور ہے لیکن معاشیات کے میدان میں عالمی سطح پر مسلم اور غیر مسلم محققین نے دیگر علوم کے مقابلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اور ایک مخصوص دائرے میں اس کے اطلاق کی کوششیں بھی عالمی سطح پر جاری ہیں۔ ان تمام علمی اور عملی کوششوں کے باوجود یہ سوال اب بھی برقرار ہے کہ کیا اسلامی معاشیات کے ماہرین موجودہ معاشی بندوبست کا متبادل فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ظاہر ہے ہنوز دلی دور است۔ معاشیات کی اصلاح میں درپیش موانع و مشکلات کا جائزہ عام فہم انداز میں پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر وقار انور صاحب نے دو اہم نکتے بیان کیے ہیں جسے تبدیلی کے عمل کی کنجی سمجھنا چاہیے: (1) متبادل معاشیات کی فراہمی کا عمل انقلابی تبدیلی کا نہیں ارتقائی تبدیلی کا عمل ہے اس لیے بےصبری سے سب کچھ تلپٹ کرکے ہم کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتے، اور (2) مروجہ معاشیات کے آگے سپر اندازی یا اس کا کلی استرداد دونوں ہی رویے غیر علمی بھی ہیں اور بے نتیجہ بھی، کیوں کہ کسی بھی میدان میں ہونے والی علمی پیش رفت اپنی خامیوں اور کم زوریوں کے باوجود انسانی عقل کا مشترکہ سرمایہ ہے جس میں مزید بہتری یا بدتری کا انحصار بہتر یا بدتر اصولوں کے اطلاق کی کامیاب یا ناکام کوشش پر منحصر ہے اور تدریجا اسے متبال نظام کے قالب میں ڈھال دینے کی صلاحیت یا عدم صلاحیت پر ہے۔ ایک اور بنیادی نکتہ جو پورے مضمون میں جاری و ساری ہے وہ اسلامی اقدار و اصول میں ثبات و تغیر کی کارفرمائی ہے ،جس کو ملحوظ رکھتے ہوئے صاحب مضمون نے بجا طور پر اسلامی معاشیات کے ناقابل مداہنت کچھ بنیادی اصول و مبادی اور مروجہ معاشیات کے قابل اختیار کچھ طرز و طریق کی نشان دہی کی ہے۔

ہندوستان کے تناظر میں ہمارے روایتی مسلم سماج کے لیے تبدیلی کے دو میدان غیر روایتی رہے ہیں–برادران وطن میں دعوت اور اجتماعی جدوجہد میں خواتین کی شرکت–جن میں تحریک اسلامی کی سرتوڑ کوششوں کی وجہ سے کچھ سگبگاہٹ دیکھنے کو ملتی ہے ورنہ اس سلسلے میں عام طور پر دور نبوت کے چیدہ چیدہ واقعات اور سرگرمیوں سے ہم اپنے ایمانی جذبہ کو تازہ کرتے رہے ہیں۔

دوسرے موضوع پر تحریک اسلامی سے وابستہ چند مرد و خواتین سماجی کارکنان کے مراسلات جو ان کے غور و فکر اور عملی تجربات کے عکاس ہیں بلاشبہ قارئین کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ ظاہر ہے مختصر مراسلات میں مراسلہ نگاروں کے لیے ممکن نہ تھا کہ روایتی سماج کی روش بدلنے کی اہمیت، طریق کار اور دیگر سماجوں میں آنے والی فعالیت نسواں کی پیش رفت اور پیچ و خم سے سیکھ لینے کی متعین نشان دہی کر سکیں۔ تاہم یہ موضوع گاہے گاہے اعادہ کا متقاضی ہے۔

نظریہ ارتقا دنیا کے تمام مذہبی حلقوں میں اس لحاظ سے مطعون رہا ہے کہ اس سے انسان کی امتیازی حیثیت بشکل اشرف المخلوقات پر ضرب لگتی ہے۔ سماجیاتی فکر کی سطح پر تو مختلف زبانوں میں نثری اور شعری ذخیرہ کافی ہے لیکن سائنسی تحقیق کے میدان میں اس نظریہ بشمول مسلسل نئی تحقیقات و ترمیمات کے بالمقابل متبادل سائینسی نظریہ کس حد تک اور کتنے مضبوط شواہد و دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے معلوم نہیں ہے۔ اس موضوع پر جو مضمون شامل ہے اس میں سائنسی شواہد کے حوالے سے قدرے عام فہم گفتگو کی گئی ہے جو ہمارے جیسے متعلقہ فیلڈ سے تعلق نہ رکھنے والے لوگوں کو نئی آگاہی بخشتی ہے اور ظاہر ہے کسی مؤقر اردو رسالہ کے لیے یہ ایک قیمتی مضمون ہے۔

لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ اس کا متبادل سائنسی نظریہ ماہرین کے درمیان کتنا قابل قبول ہوا ہے اور آیا کوئی متبادل پیش کیا گیا ہے بھی یا نہیں، اس کی معلومات تو ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

تاثرات بشکل مکتوب نے کچھ زیادہ ہی طوالت اختیار کر لی جس کے لیے رسماً معذرت خواہ ہوں ہاں ایک بات بتادیں کہ زندگئ نو کے رسائل و مسائل کم از کم میرے جاننے والے قارئین کے درمیان سب سے زیادہ معتبر سمجھے جاتے ہیں جو اس رسالہ کے علمی وقار کا مظہر ہے۔

***

محمد انس مدنی، رفیق ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ

ماہ جون کا شمارہ شروع سے آخر تک مکمل پڑھا۔ اس کے سارے ہی مضامین پسندآئے ۔ چند مضامین اپنے عنوان پر فکر، مواد اور اسلوبِ بیان کے لحاظ سے نہایت قیمتی ہیں۔ اشارات “سازشیت، سازشی نظریات اور اسلامی فکر” اپنے عنوان پر شاید اردو زبان میں پہلی پیش کش ہو۔ یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ اس کا کم ازکم ہندی اور انگریزی زبان میں ترجمہ فی الفور ہونا چاہیے۔ اس میں سازشی نظریوں کی قسمیں، قبول ورد کا معیار، اس نظریے کے ذہن پر منفی اثرات پر تفصیلی اور مدلل گفتگو کی گئی ہے۔ البتہ اس تحریر میں سازشی نظریے کی پہلی قسم کہ “وہ نظریات جو ٹھوس دلائل و شواہد کے ساتھ ثابت شدہ ہوں” کی مثال یہ دی گئی ہے کہ عراق جنگ کا مقصد عام تباہی کے ہتھیاروں کا اتلاف نہیں بلکہ تیل کے ذخائر پر کنٹرول تھا، اب ناقابل ترید شواہد سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ یہاں یہ بات عرض ہے کہ اس کے پیچھے سازش تھی یا نہیں اس کی حقیقت تو بعد میں ہی واضح ہوئی پہلے مرحلے میں خبروں میں جیسا بیان کیا جا رہاتھا، ویسا ہی عام لوگ سمجھ رہے تھے۔ دوسری بات یہ کہ کسی واقعہ یا حادثہ سے متعلق کوئی بھی سازش پہلے مرحلے میں ہی بے نقاب نہیں ہوجاتی ۔ اس کے لیے طویل غور وفکر اور تحقیق کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس کے پیچھے کوئی سازش تھی یا نہیں۔ کسی واقعے، حادثےا ور نظریےپر غور وفکر اور تحقیق کی ایک مدت گزر جانے کے بعد ہی اس کے سازش ہونے یا نہ ہونے کےثبوت وشواہد فراہم ہوسکتے ہیں۔ بہر حال اس مضمون سے غور وفکر کےنئے زاویے اور نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔

اس شمارے میں دوسرا مضمون“رخصت ورعایت رب کریم کا تحفہ اور دین حق کا امتیاز” ہے۔ یہ مضمون مواد، در وبست اور انداز بیان کے لحاظ سے بہت مفید اور اہم ہے۔ ہمارے یہاں دین میں رخصت کے تصور سے فرار شائبہ محسوس ہوتا ہے یا فرار کی شکل نکالی جاتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جدید مفکرین فقہی رخصتوں کے نام پر راہ فرار کی دانستہ اور غیردانستہ کوششیں کر تے ہیں۔ اس مضمون کی یہ دو باتیں “رخصت دینی تقاضوں سے فرار کا نام نہیں ہے، بلکہ ہر طرح کے مشکل اور غیر معمولی حالات میں بھی دین پر حسب ہدایت عمل پیر ارہنا ہے۔” اور“ قرآن مجید میں رخصتوں اور رعایتوں کا بیان بڑے اہتمام کے ساتھ کیا گیا ہے، تاہم یہ بات بھی ذہن مین رہے کہ رخصتوں اور رعایتوں کا یہ بیان جذبہ اطاعت کو بڑھانے والے اسلوب میں ہے۔ ” نے مضمون کو مکمل ہی نہیں رخصتوں کے نام پر راہ فرار اختیار کرنے اور دکھانے والوں کے لیے دروازہ بند کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ بھی بقیہ مضامین“ تحریک اسلامی اور فروغ انسانی وسائل” اور “معاشیات کی اصلاح: مشکلات اور رکاوٹیں”، “کیا عورت کے لیے مسجد میں کوئی جگہ ہے یا اسے مسجد سے روکنا ہی افضل ہے ”بھی بہت عمدہ ہیں۔ شمارے کا آخری کالم “رسائل ومسائل” ہمیشہ کی طرح عصری مسائل میں دینی رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کے جوابات علمی استدلال واستشہاد، مسائل کی دینی و عقلی توجیہ کے ساتھ مزاجِ دین و شریعت پر مشتمل ہوتے ہیں۔

زندگی نو کا شمارہ اب نئی زندگی، نئی آن وشان کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ مشمولات، مضامین کی ترتیب، کاغذ کا معیار اور سرورق سب کا معیار اچھا ہو گیا ہے۔ “فکری مباحثہ” کے کالم کا اضافہ بھی بہت مفید ہے، اس سے کئی اہل علم کی ایک عنوان پر مشترکہ چیزیں جمع ہو جاتی ہیں۔ البتہ اب تبصرے کا کالم بالکل نہیں آرہا ہے شاید اس کی وجہ صفحات کی قلت اور مضامین کی کثرت ہو۔ بہرحال یہ کالم برابر آنا چاہیے اس سے نئی کتابوں کا تعارف ہوتا رہتا ہے۔ چاہے اس کے لیے صفحات کا اضافہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

■ ■ ■

مسجد اورخواتین

عمارہ فردوس، معلّمہ انڈراسٹینڈ قرآن اکیڈمی، جالنہ مہاراشٹر

ماہ جون ٢٠٢٠ کا زندگی نو مطالعہ کیا جس میں زیر بحث مضمون “کیا عورت کے لیے مسجد میں کوئی جگہ ہے؟” پر مدیر محترم نے قارئین کی تجاویز طلب کیں تو میں نے بھی اپنے احساسات قلم بند کرنے کا ارادہ کرلیا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ روز اول ہی سے اسلام میں مسلم معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مساجد کا بہت اہم رول رہا ہے۔ کیونکہ عہد نبوی میں نہ صرف عبادتیں بلکہ زندگی کے سارے دینی و دنیوی معاملات مساجد میں طے پاتے تھے ۔ بلا کسی تفریق و تخصیص کے معاشرے کا ہر فرد مسجد سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر نماز جیسی اہم عبادت ،جو ہماری اجتماعیت کی بھی عکاس ہے ،مساجد ہی سے وابستہ ہے ۔ اس طرح مسجد کے اس بنیادی کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ البتہ زمانے کی رفتار، اختلافات کے سیلاب اور قوموں کے عروج و زوال نے انسانی مزاجوں اور امت کے افکار پر ایسے اثرات مرتب کیے جس سے کئی دینی معاملات متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انھیں میں سے ایک اہم دینی مسئلہ خواتین کے مساجد میں داخلہ کی اجازت و ممانعت سے تعلق رکھتا ہے۔ جس پر غور کرنےکے بعد چند ضروری اور اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔

1۔ اول تو یہ کہ عصرحاضرمیں کی مساجد کی تعمیر اس طرز سے نہ ہوسکی کہ باجماعت نماز کے لیے خواتین کا کوئی علیحدہ انتظام موجود ہو ، اور اگر ہوبھی تو اس طرح کی مساجد شہر کے تمام محلوں میں قائم نہ ہوسکیں کہ خواتین کو دوردراز سے آنے کی زحمت سے بھی بچایا جا سکے ۔ اور اس کی بنیادی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ امت نے مساجد کو اپنے اختلافات و انتشار کی بنیاد پر الگ الگ فرقوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ چنانچہ اس مسئلے کی اہمیت و ضرورت کا احساس پیدا کرنے اور اس طرح کے دینی معاملات کو مسلکوں سے اوپر اٹھ کر طے کرنے کے لیے مسلسل ذہن سازی اور پیہم جدو جہد درکار ہے۔

2۔ ہم عہد نبوی سے موجودہ زمانے کا موازنہ کریں تو نہ صرف حالات مختلف نظر آتے ہیں ، بلکہ طرز زندگی میں بھی نمایاں فرق نظر آئےگا ۔ جیسے اس زمانے میں شیر خوار بچوں کے لیے اکثر دائیوں کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ آبادی کے اعتبارسے بھی ایک نمایاں فرق تھا۔ اور روشنی کا معقول انتظام نہ ہونے کی بنا پر گزرگاہوں پر فرد کی شناخت نہ ہوپانا ، اور اس طرح نماز کی صفوں میں معمولی سی دوری بنائے رکھنا بھی کافی ہوجاتا تھا۔ جیسا کہ بعض احادیث سے مردوں کی صفوں کے پیچھے عورتوں کی صفوں کا ذکر ہے۔ اور حضرت عائشہؓ سے مروی حدیث میں اس بات کا اشارہ ہے کہ فجر کے وقت اندھیرے کی وجہ سے خواتین کو کوئی نہیں پہچان سکتا تھا۔ اس طرح اس موازنہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں مساجد میں عورتوں کا پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرنا ایک مشکل مسئلہ ہے۔ کیوں کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک عورت کے لیے اپنے ننھے بچوں یا شیر خوار بچہ کو ساتھ لے کر مسجدوں میں حاضری ممکن ہے ؟ اس دور میں دینی شعور سے واقف ہر مسلم خاتون اپنی اس خواہش کے باوجود اسے عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے۔ اور رہی بات صرف جمعہ کی، تو آج بھی بہت سی خواتین دور دراز سے ایسی مساجد میں پہنچتی ہیں جہاں خواتین کا علیحدہ نظم ہو۔

3۔ عہد نبوی میں خواتین کے مساجد میں آنے کے معمول اور اس کی فضیلت واہمیت سے کوئی انکار نہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جس معاملہ کی صرف اجازت ہو اس کو نہ ہی وجوب کا درجہ دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ممانعت کا۔

لہذا احادیث کے مطابق جہاں حضرت عائشہؓ نے زیب وزینت کے اظہار کا مسئلہ اور ایک دوسری حدیث میں ام حمید ؓ کی اپنے شوہر سے اجازت نہ ملنے کا مسئلہ ہے ،اسی طرح اس طرز کے موجودہ زمانہ میں مسلم خواتین کے بے شمار مسائل بھی ہیں۔ ان پر بھی غوروفکر کرنا وقت کی اشدّ ضرورت ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ مساجد جو تربیت کے اہم مراکز ہیں، ان میں خواتین کی واپسی ہونی چاہیے ، اور انھیں آباد رکھنے میں خواتین بھی برابر کی حصہ دار ہیں ۔لیکن ہمارے معاشرے کی خواتین کی بڑی اکثریت مذکورہ مسائل کی وجہ سے ایسے دینی امورمیں خواہش رکھنے کے باوجود عمل کرنے سے قاصر ہیں۔

■ ■ ■

اسلامی تحریک میں خواتین کی فعال شرکت

ناز آفریں، ریسرچ اسکالر شعبہ اردو، رانچی یونیورسٹی،[email protected]

’اسلامی تحریک میں خواتین کی فعال شرکت ‘ پر محترمہ عطیہ صدیقہ صاحبہ کی تجاویز ومشورے زیر مطالعہ ہیں۔ موصوفہ نے جن مسائل وامکانات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اس سلسلے میں مثبت فکر کے ساتھ چند باتیں عرض ہیں۔ اگر مسلمان خواتین آزادی نسواں کے مغربی تصور سے مرعوب ہیں تو اس کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے مضبوط ومربوط اور مکمل تصور ان کے سامنے مدلل پیش کیے جائیں۔ یعنی یہ نہ کہا جائے کہ آپ مغربی تصور کو چھوڑ دیں ، البتہ اسلامی تصور نسواں کو حقیقی روپ میں ضرور پیش کیا جائے، تاکہ وہ خود اس جانب مائل ہوں۔ اس کے لیے تحریر وتقریر ناکافی ہے۔ جو چیز انھیں مائل کرسکتی ہے وہ خود فرد کا اسلامی ماڈل بننا ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ مغربیت کا تصور نسواں، اسلام کے آزادی نسواں کے تصور کے سامنے ماند پڑجائے۔ یہ کام انتہائی مشقت طلب ہے۔ لہذا اس فیلڈ میں اعلی نصب العین رکھنے والی خواتین وطالبات جرأت مندی کے ساتھ آگے بڑھیں تاکہ حتی المقدور کامیابی نصیب ہو۔

تحریک اسلامی کے پاس اعلی تعلیم یافتہ، باشعور باعمل، جدیدیت کی حامل خواتین وطالبات کی بڑی ٹیم موجود ہے۔ انھیں صرف لائن اپ اور فالو اپ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نکتہ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ حالیہ واقعات وحادثات میں جماعت اسلامی ہند اور اس کی ذیلی تنظیموں نے خدمت خلق کی خاطر جس پرخلوص جذبے کے ساتھ کام کیا ہے، یقینا یہ ایک خوش آئند تبدیلی کا پیش خیمہ ہے، سوشل میڈیا پر یہ ٹاپ 10میں شمار ہوسکتا ہے۔ لیکن دعوت دین واصلاح معاشرہ کا ٹرینڈ سرفہرست ہو ہمیں اس پر عمل آوری کی کوشش کرنی ہے۔ اگر خواتین درس قرآن میں دل چسپی نہ لیں، دوسری خواتین کو دل چسپی نہ لینے دیں، تو یہ بات تشویش ناک ہے۔ اگر کسی سے رنجش کے سبب ایسا ہے ، تو اسے فوری طور پر دور کرنے ضرورت ہے۔

لیڈرشپ کا فقدان کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انتخاب کے وقت دستوری قائدانہ اوصاف کو ملحوظ نہ رکھا جائے۔ ان اوصاف سے صرف نظر احبا پروری اور والدین یا دیگر رشتہ داروں کے تحریکی بیک گراؤنڈ کی بنا پر ہوتا ہے۔ بسا اوقات نا اہل لیڈر منتخب ہو جاتی ہیں، کیوں کہ ان کے رشتہ دار تحریک کے لیے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتخاب کے وقت فرد کے اندر دستوری یا تحریکی لحاظ سے قائدانہ رول کی صلاحیت رہی ہوم تاہم اب تعلیمی و معاشی اور ازدواجی ذمہ داریوں میں توازن برقرار نہ رکھا جا رہا ہو۔ اس محاذ پر ہر فرد خود اپنا محتسب ہو تبھی قائدانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی ہو سکتی ہے، بصورت دیگر مطلوبہ سرگرمی انجام نہ دینے کے سبب تحریک میں لیڈر شپ کا فقدان جیسے الفاظ گردش کرنے لگتے ہیں! لیڈر شپ پر فائز با اختیار خواتین و طالبات اگر مثبت فکر اورخلوص نیت کے ساتھ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا استعمال نہیں کرتیں تو یہ تحریک اسلامی کے ساتھ بے وفائی ہے یا بخیلی؟ تحریکی بزرگ خواتین اگر ذرا سی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبات کو تنظیمی کاموں میں فیصلہ سازی کا اختیار دیں، ان کی کچھ غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیکھنے کی آزادی دیں تو بہتر تبدیلی کی توقع ہے۔ مگربعض بزرگوں کو ایسا لگتا ہے کہ کم عمر طالبات ناتجربہ کار اور جلد باز ہیں۔ انھیں نئے اقدام اور چیلنج قبول کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ صلاحیتوں کو صحیح پلیٹ فارم نہ ملنے کی وجہ سے تحریکی امور میں خواتین و طالبات کی صلاحیتیں بھی محدود دائرے میں مقید ہو جاتی ہیں ، اور بعض نا اہل یا غیر ذمہ دار افراد کا انتخاب تحریک کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوتا۔ خواہ کاغذی رپورٹ کچھ بھی کہے، عملی میدان میں اس کے اثرات نہیں ملتے۔

جماعت اسلامی کی رواں میقات میں چھے ماہ ہی خیر و عافیت سے گزرے ہوں گے کہ ملی و ملکی مسائل نے منصوبے کا رخ دوسری جانب موڑ دیا ۔ البتہ حالات کا دعوتی پہلوؤں سے تجزیہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ دعوتی سرگرمیوں کے لیے بے شمار مواقع مل رہے ہیں۔“پالیسی پروگرام میں کچھ کاموں کو حالات کے مطابق انجام دینے کی گنجائش ہو، ان سے ذرہ برابر بھی ہٹنا گوارہ نہیں کیا جاتا۔ ” ان کے جملے میں بڑی صداقت ہے لیکن اب اس سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ رواں میقات میں خواتین کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے، اور حالات حاضرہ کے مد نظر بھرپور تعاون بھی ملے گا۔ کیوں کہ امیر جماعت اسلامی ہند خود اس بات کے شدید خواہش مند ہیں کہ خواتین پوری فعالیت کے ساتھ تحریک اسلامی کے لیے سعی و جہد کریں۔

تحریک اسلامی میں خواتین کی فعال شرکت پر مدیر زندگی نو نے محترم سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب ’خواتین میں اسلامی تحریک‘ کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ اگر اس کتاب کے بعض مضامین مثلاً ’’اسلامی تحریکات اور خواتین ‘‘، ’’ ہندوستان میں خواتین کی سماجی فعالیت‘‘، ’’خواتین اور سماجی فعالیت‘‘، ’’عالمی اسلامی تحریکات‘‘، ’’ خواتین کا امپاورمنٹ‘‘، ’’ہندوستان میں خواتین کے ایشوز‘‘، ’’ ہندتوا اور خواتین ‘‘ اور ’’خواب دیکھیے اور دکھائیے‘‘ وغیرہ پر منصوبہ بند طریقے سے عملی اقدام کیے جائیں تو خواتین کی فعال شرکت پر بحث کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ کیوں کہ خود کتاب اس بات کی تصدیق کرتی ہے:

یہ کتاب ایک مشن کا حصہ ہے، خواتین کو سماج میں ان کا حقیقی مقام دلانے کا مشن، وہ مقام جو اللہ رب العزت نے خواتین کے لیے اوّل روز سے طے کر دیا تھا اور جس مقام پر عہد نبوی کی مسلم خواتین پوری اسلامی شان کے ساتھ فائز نظر آتی ہیں۔ جہاں خواتین کے لیے ’’سب کچھ ہے، حقوق بھی ہیں اور تحفظ بھی، احترام بھی ہے اور آزادی بھی، مجبوریوں کا لحاظ بھی ہے اور بھرپور مواقع بھی۔ ‘‘ (خواتین میں اسلامی تحریک، سید سعادت اللہ حسینی، ص:7)

اوربقول مصنف:

اس طرح اسلام کی اصولی دعوت کے فروغ اور تحریک کی عملی پیش رفت، دونوں کے لیے خواتین کے درمیان صحیح رخ پر انقلابی کام نہایت ضروری ہے۔ یہ کام خواتین ہی کے ذریعہ انجام پانا ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیادی فریم ورک کی تشکیل کا کام ہر رخ سے ہونا ہے۔ خواتین میں کام کا انداز کیا ہو؟ اپروچ کیا ہو؟ اہداف کیا ہوں؟ ایشوز کیا ہوں؟ فی الحال کیا رکاوٹیں درپیش ہیں؟ ان کا ازالہ کیسے ہو؟ یہ سوالات صرف خواتین کی تحریک کے لیے نہیں پوری تحریک اسلامی کے لیے نہایت اہم ہیں، (خواتین میں اسلامی تحریک ص:11)

مذکورہ مضامین کے ساتھ سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب ’’اقامت دین کی شاہراہ‘‘ کا مطالعہ بھی انتہائی ضروری اور مفید ہے۔ ان دونوں کے مطالعے سے ہندوستان میں دعوتی نظریات و نفسیات کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی، جس سے اقامت دین کی راہیں ہم وار ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔

■ ■ ■