شکریہ اور وضاحت

محی الدین غازی

مراسلہ نگار کا بہت شکریہ کہ انھوں نے موضوع کے کچھ دوسرے پہلو بھی قارئین کے سامنے پیش کیے۔ دراصل قرآن مجید کے جو نمونے مضمون میں پیش کیے گئے ہیں وہ مختلف جہتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ تمام نمونے طاقت ور خواتین کے ہیں کم زور خواتین کے نہیں ہیں۔ اور دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس دین کے تقاضوں کی فکر کرنے والی خواتین کے نمونے ہیں، دین اور دین کے تقاضوں سے غافل ہوکر صرف اور صرف دنیوی ذمے داریوں میں منہمک اور مشغول رہنے والی خواتین کے نمونے نہیں ہیں۔ ان نمونوں میں خواتین کہیں تنہا اور کبھی مردوں کے ساتھ دین کے راستے پر چلتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن وہ مردوں پر انحصار نہیں کرتی ہیں۔ مراسلہ نگار کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہر عورت اپنی طبیعت و صلاحیت کے مطابق کام کرے گی، چناں چہ فاطمہؓ نے مکہ کی صعوبتوں اور مصیبتوں میں اللہ کے رسولﷺ کا ساتھ دیا، اور ام عمارہؓ نے مدینہ میں جنگ کے میدانوں میں اللہ کے رسولﷺ کا ساتھ دیا۔ اسی طرح مراسلہ نگار کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ دینی جدوجہد میں مصروف مردوں کو گھر کی طرف سے سکون اور مدد پہنچانا بھی اس جدوجہد میں شرکت ہے۔ اصل میں جذبہ دینی جدوجہد کا ہوگا تو دنیوی مشاغل دینی جدوجہد سے غافل نہیں کریں گے، اور ہر فرد اپنے دائرہ امکان میں زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرے گا، خواہ اس جدوجہد کی صورت کچھ بھی ہو۔ بہرحال دینی کاموں اور دنیوی کاموں میں وہاں ضرور فرق ہوجائے گا جہاں ایک فرد معرکہ حق و باطل سے بے پروا ہوکر اور دین کی پکار کو سنی ان سنی کرکے لذت کام ودہن کے انتظام میں مصروف رہے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور خواہ وہ اپنے لیے کرے یا اپنوں کے لیے۔