معاصر دنیا اور دعوت اسلامی

ڈاکٹر محمد رفعتؒ

مرحوم ڈاکٹر محمد رفعتؒ کا شمار ہندوستان کی اسلامی تحریک کے فکری قائدین میں ہوتا ہے، جماعت اسلامی ہند کی متعدد ذمے داریوں کے علاوہ ڈاکٹر فضل الرحمن فریدیؒ کے بعد ماہ نامہ زندگی نو کے دس سال تک مدیر رہے، اپریل ۲۰۰۹ سے اگست ۲۰۱۹ تک اس رسالے کے ذریعہ تحریک وملت کی فکری رہ نمائی کا پیغام نشر کرتے رہے۔ ان کے اشارات کو قدر اور شوق کی نگاہوں سے پڑھا جاتا تھا۔ ۸ ؍جنوری ۲۰۲۱ کو پینسٹھ سال کی عمر میں وہ اپنے بے شمار چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے، اللہ مرحوم کی خدمات قبول فرمائے اور جنت میں اونچا مقام عطا کرے۔درج ذیل تحریر مرحوم کی ایک غیر مطبوعہ تقریر ہے جو انھوں نے دسمبر ۲۰۱۵ میں حیدرآباد میں منعقد ہونے والے کل ہند اجتماع ارکان جماعت اسلامی ہند میں کی تھی۔( ادارہ)
دنیا کے حالات، ملک کے احوال اور ہندوستان میں امت مسلمہ کی صورت حال نے دعوتِ اسلامی کے سلسلے میں بعض اہم سوالات کی جانب اہل دانش کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ جن اہم میدانوں میں عملی سرگرمی مطلوب ہے ، ان میں سے ایک دعوت اسلامی کا میدان ہے۔
یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ دینی ذمہ داریوں میں ایک اہم بنیادی اور کلیدی ذمہ داری اللہ کی طرف انسانوں کو بلانا ہے۔اس پکار کو دعوتِ دین یا دعوت اسلام کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن (فصلت: ۳۳)
اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہو سکتی ہے،جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور یہ اعلان کرے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
نبی ﷺ پوری نبوی زندگی میں انسانوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ آپ کے بعد یہ فریضہ ہر دور میں باشعور مسلمانوں نے انجام دیا ہے۔ چاہے حالات نرم اور سازگار رہے ہوں یا سخت اور ناموافق؎
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لَآ اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
فکری اساس
تاریخ کا کوئی دور اربابِ عزیمت سے خالی نہیں رہا۔ چناں چہ فریضۂ دعوت امت کے با شعور افراد ادا کرتے آئے ہیں۔ تاہم باخبر افراد جانتے ہیں کہ دعوت الی اللہ کا کام اصولاً ایک بنیادی کام ہونے کے باوجود ہر دور میں کچھ نئے چیلنج لے کر آتا ہے۔ زمانے کی ہر کروٹ کے ساتھ کچھ نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ چناں چہ ضروری ہے کہ دعوت اسلامی کا کام انجام دینے والے، ان چیلنجوں کا شعور رکھیں اور ابھرنے والے سوالات کا جواب فراہم کریں۔ تبھی ان کا کام مؤثر اور نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کی دعوتی مساعی کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ جماعت نے اقامتِ دین کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے، اس کے تقاضے متعین کیے ہیں اور کام کے میدانوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان امور کی تفصیل پالیسی و پروگرام میں بیان کی گئی ہے۔ ان کاموں میں پہلا کام دین کی دعوت ہے۔ یہ فریضہ خاص طور پر غیر مسلموں کے درمیان انجام دینا ہے۔ اسی طرح مسلمان معاشرے کی تعمیر، ہمہ جہت جدوجہد کی متقاضی ہے۔ سرگرمی کے دیگر اہم دائرے بھی توجہ چاہتے ہیں۔ یعنی ملک و ملت کے مسائل کا حل، خدمت خلق اور کارکنوں کی تربیت و تنظیم۔
عملی مساعی کے تفصیلی کاموں کی یہ فہرست ذہن میں رہنی چاہیے، گرچہ وہ عموماً مستحضر نہیں رہتی ہے، اور اس وقت سامنے آتی ہے جب منصوبے بنانے والے ضروری کاموں کی فہرست بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح منصوبہ بندی میں آسانی ہوتی ہے۔ پھر کوششوں کا جائزہ لینے میں بھی سہولت ہوتی ہے۔ لیکن دائروں کے اس تعین کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ کام ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں میں ایک ہی اسپرٹ کام کرتی ہے۔ اگر ایک میدان میں پیش رفت ہو تو دوسرے دائروں میں اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی برعکس بات بھی صحیح ہے، یعنی اگر ایک میدان کو اہل خیر نظر انداز کردیں تو پھر دوسرے کام بھی متأثر ہوجاتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مختلف مساعی میں جو اصول اور نظریہ کارفرما ہے، وہ ایک ہی ہے۔ جس طرح دعوت کے میدان میں گفتگو کی بنیاد فکر اسلامی ہے، اسی طرح سیاست میں بھی سرگرمی کی اساس فکر اسلامی ہونی چاہیے۔ یہی بات بطور مثال خدمت خلق اور ملک و ملت کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بھی درست ہے۔ اس فکری وحدت کے تقاضے بسا اوقات نظر کے سامنے نہیں رہتے۔ جائزہ بتاتا ہے کہ اس پہلو سے خاصی غفلت موجود ہے۔ عنوان خواہ دعوت دینِ ہو یا کوئی اور مفید سرگرمی، اسلامی مزاج یہ چاہتا ہے کہ اسلامی فکر و نظریے کے مطابق کوششوں کو انجام دیاجائے۔ اس سیاق میں نئے چیلنجوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
دعوت اور داعی گروہ
حالات نت نئے سوالات داعیان حق کے سامنے لاتے ہیں، یہ سوالات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ سوالات کا ایک حصہ دعوت دین سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی کن نکات کو بیان کریں؟ کیسے بیان کریں؟ کیا استدلال ہو؟ کن امور پر زور دیں؟ بہ الفاظ دیگر دعوت کے ذیل میں کیا کہا جائے؟ اسلام کی ترجمانی کرنے والوں کی گفتگو کا پیغام (content)کیا ہو؟
سوالات کی ایک دوسری قسم بھی ہے، جو خود دعوت دینے والوں سے متعلق ہے۔ دعوت کا کام اصولاً ساری امت کے کرنے کا کام ہے۔ اگرچہ عملاً اس وقت جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی جیسی کوششیں اسے انجام دے رہی ہیں۔ دعوت کے ساتھ مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اس رہ نمائی کا ایک رخ عملی ہے۔ یعنی کارکنان دعوت دین کے کام کو آگے بڑھ کر انجام دیں اور اس طرح عملًا نمونہ پیش کرکے رہ نمائی کریں۔ دعوت دین کا کام جس حد تک بھی منظم انداز میں انجام پا رہا ہے (ہمارے ملک میں ہو یا ملک کے باہر) اس میں اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کا بڑا حصہ ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دعوت دین کی مساعی کی قیادت دینی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے۔
اس ضمن میں جو سوالات توجہ چاہتے ہیں، وہ دعوت دینے والوں سے متعلق ہیں (چاہے اسلامی تحریکیں ہوں یا پوری امت مسلمہ ہو) دیکھنے کی ضرورت ہے کہ داعیانِ حق کی صورت حال کیا ہے؟ وہ کن پریشانیوں اور الجھنوں میں گرفتار ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے سوالات کو کارِ دعوت سے غیر متعلق نہیں کہا جاسکتا۔ غیر فطری بات ہوگی کہ داعی کو جو مسائل درپیش ہیں، ان سے تعرض نہ کیا جائے اور دعوتِ دین کی بحث میں داعی کو نظر انداز کر دیا جائے، یہ دونوں طرح کے چیلنج اس وقت اہل حق کے سامنے موجود ہیں۔ ایک کا تعلق ہماری دعوت کے پیغام سے ہے، یعنی کیا کہا جائے اور کیسے کہا جائے؟ اور دوسرے چیلنج کا تعلق دین کی خدمت کرنے والی جماعتوں اور تنظیموں اور امت مسلمہ کی کیفیت سے ہے۔
دعوت کے نکات
اللہ کی طرف دعوت کی معنویت، دعوت کے بنیادی نکات اور دعوتی طریقۂ کار کی تفصیلات، یہ تمام امور قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ان کی تشریح سیرت نبوی ﷺمیں ہمارے سامنے آتی ہے۔ مختصراً اس کی یاد دہانی کی جا سکتی ہے۔ اللہ کی طرف دعوت یہ ہے کہ انسانوں سے کہا جائے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائیں اوراس کی ہدایت کی پیروی اختیار کریں۔ جب اس دعوت کو سننے والا قبول کر لے تو الٰہی ہدایت کی تفصیلات ان کے سامنے پیش کی جانی چاہییں۔ اساسی امور کے علاوہ دعوت حق کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی رودادِ دعوت میں اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے، توحید کی دعوت دیتے تھے، اللہ کے ساتھ شرک کی مدلل تردید کرتے تھے، آخرت پر ایمان لانے کی تلقین کرتے تھے۔ ان سب کاموں کے علاوہ وہ انسانی معاشرے کا جائزہ بھی لیتے تھے، جو ان کے قریب موجود تھا۔ اس ضمن میں اپنی قوم کا بھی وہ جائزہ لیتے تھے، سماج میں موجود خرابیوں کی نشان دہی کرتے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے تھے، خصوصاً نمایاں اخلاقی برائیوں سے باز آنے کی تلقین کرتے تھے۔ انبیاء کی دعوت کا یہ پہلو رودادِ دعوت میں شامل ہے۔ نبیوں نے اس پر بھی توجہ کی ہے، جس طرح دعوت کے ان بنیادی نکات پر کی ہے۔ (یعنی توحید کا اثبات، شرک کی تردید اور آخرت کی جواب دہی کا استحضار)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کی سعی اسلامی دعوت کا لازمی جزء ہے۔ اللہ کے نبیوں نے اپنے مخاطبین کو معروف کی تلقین کی ہے اور منکر سے روکا ہے۔’ معروف‘ کے مفہوم میں اخلاقی خوبیاں شامل ہیں۔ اسی طرح ’منکر‘ کی اصطلاح جن برائیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، ان میں اخلاقی خرابیاں سر فہرست ہیں۔ دعوت اسلامی کے یہ نکات انبیاء علیہم السلام کی سیرت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس اسوے کی روشنی میں ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ نئے چیلنجوں اور نئے سوالات سے کس طرح تعرض کیا جائے۔
باطل افکار و نظریات
بیسوی صدی کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے (اور صحیح ہے) کہ اس صدی پر مشتمل دور، نظریات اور فلسفوں کا دور تھا۔ ان افکار اور فلسفوں کا پس منظر مغربی ہے۔ یعنی یہ نظریات یورپ میں ابھرے اور پھر مغربی دنیا، جس میںامریکہ شامل ہے، ان افکار نے ارتقاء کے مراحل طے کیے۔ اس دوران مغرب کے ہاتھ میں دنیا کی امامت اور لیڈرشپ رہی۔ چناںچہ جو کچھ مغربی دنیا میں انسانیت پر گزرا وہ بالواسطہ طور پر ساری دنیا کے انسانوں پر بھی گزرا، جو سوالات وہاں اٹھے، وہ باقی دنیا میں بھی بحث کا موضوع بنے، جو باتیں وہاں کی گئیں ان کا اثر ساری دنیا نے قبول کیا۔ افکار و نظریات کے چرچے کا یہ دور ختم تو ہورہا ہے، مگر ختم ہوا نہیں ہے۔ خاص طور پر ہمارے ملک کی حد تک تو جدید فلسفوں کے اثرات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ جو خیالات و نظریات اب مغرب میں غیر مقبول ہیں، تیسری دنیا کے بڑے حصے پر اب بھی ان کا طلسم چھایا ہوا ہے۔ یہ کیفیت ہمارے ملک کی بھی ہے۔
اس دور کی اسلامی تحریکوں کے لٹریچر نے ایک تاریخی کام انجام دیا، یعنی متعین باطل نظریات کو بحث کا موضوع بنایا اور ان کی مدلل تردید کی۔ یہ علمی کام ابھی حالات سے غیر متعلق (out of date) نہیں ہوا ہے۔ یہ سمجھنا صحیح نہ ہوگا کہ نظریات باطلہ کا انہدام ہو چکا۔ تاریخ کی گردش سے وہ نظریات خود ختم ہوگئے۔ اب ان کی تردید پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ یہ خیال درست نہیں، خصوصاً تیسری دنیا کے سیاق میں اس رائے کو حالات کا صحیح مطالعہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح، مسلمانوں اور ہندوستان کے سیاق میں مغربی نظریات کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دیکھنے کی بہرحال ضرورت ہے کہ رواں صدی میں ان نظریات نے کیا نیا رخ اختیار کیا ہے؟ کیا نئے دلائل فراہم کیے گئے ہیں؟ ان کی تائید میں کیا نئی باتیں اہل مغرب کہنے لگے ہیں؟ داعیانِ حق کو ان امور کا شعور ہو اور اس کی مؤثر تردید کرسکیں۔ تب دین کی ترجمانی ہوسکے گی۔
کارِ دعوت سے متعلق ہر کارکن جانتا ہے کہ یہ کام بڑا وسیع ہے۔ اس کام کا بنیادی ذریعہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ ہماری مجلسوں میں اس کی بار بار یاد دہانی بھی ہمیں کرائی جاتی رہی ہے اور وہ انسانوں سے انفرادی ربط اور گفتگو ہے۔ ہندوستان کروڑوں کی آبادی کا ملک ہے۔ یہاں ہر سطح کے لوگ آباد ہیں۔ ذہنی صلاحیت، فکری پس منظر اور رجحانات کے اعتبار سے بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ یہ ساری آبادی جدید نظریات و فلسفوں سے واقف یا ان سے متأثر نہیں ہے۔ البتہ تعلیم یافتہ طبقے پر ان نظریات کا اثر پڑا ہے۔ ملک کے کار فرما عناصر، جن کا تعلق حکومت اور پالیسی سازی سے ہے اور جو ذرائع ابلاغ کی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں، وقت کے غالب فکری رجحانات سے متأثر ہیں۔
حق کی دعوت کے مخاطبین کا دائرہ وسیع ہے۔ چناں چہ ہر قسم کے سامعین کے اعتبار سے کوئی متعین تفصیلی رہ نمائی نہیں کی جاسکتی کہ داعیانِ حق ان سے کیا کہیں؟ اس سلسلے میں اصولی رہ نمائی قرآن و سنت میں ملتی ہے۔ کارکنان کے لیے رہ نمائی کافی ہے، آغاز کیا جاسکتا ہے۔ داعی اس بات کو یاد رکھیں کہ انھیں انسانوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مخاطب کون ہے؟ ذہنی اعتبار سے کس سطح کا ہے؟ اسی لحاظ سے اس سے بات کرنی ہوگی۔ انفرادی ربط کی اہمیت کا ذکر ہو چکا ہے، وہ بھی ذہن میں تازہ رہنا چاہیے۔
داعی کو خاص طور پر ان چیلنجوں پر غور کرنا ہے، جن کا تعلق ذہین طبقے سے ہے، جو کار فرما طبقہ ہوتا ہے۔ جس کی رائے مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خیالات کا دنیا پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ چناں چہ پہلی گزارش چیلنجوں کے عنوان کے تحت یہ ہے کہ اسلامی تحریک نے جدید دور کے غلط نظریات کی تردید کا جو کام کیا تھا، وہ کام جاری رکھنا چاہیے اور اس میں تازگی لانی چاہیے۔ اس کی تفصیلی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہر باطل نظریے میں کچھ حق اور صداقت کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ اور اس بنا پر بسا اوقات اس کی تردید میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس دشواری کا حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں آخر میں آپ کے سامنے کچھ عرض کیا جائے گا۔
اباحیت کا چیلنج
اب ایک دوسرے چیلنج پر غور کرنا چاہیے۔ پچھلی صدی ختم ہوئی اور نظریات و فلسفوں کے اثرات مدھم پڑے تو علمی دنیا میں یہ بات کہی جانے لگی (جو ایک حد تک صحیح ہے) کہ اب نظریات و افکار کا دور ختم ہوا۔ گویا دنیا ایک فکری انتشار کے دور میں داخل ہورہی ہے۔ فکری انتشار کے ساتھ ثقافتی و تہذیبی انتشار کا تذکرہ بھی شروع ہوا۔ جب انسانوں کو مستحکم فکری بنیاد میسر نہ ہو تو ثقافتی انتشار کا ظہور فطری ہے۔ چناں چہ اس نعرے کو مقبولیت حاصل ہوئی کہ انسان اور انسانی گروہ اپنے معاملات میں جو کچھ بھی کریں وہ درست ہے۔ تہذیب و ثقافت کے دائرے میں جو کچھ بھی وہ کرنا چاہیں، اس کے لیے وہ آزاد ہیں۔ پرانے معیارات (اور نئے معیارات بھی جو دورِ جدید کے یورپ نے اختیار کیے تھے) دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ہر انسان اور ہر انسانی گروہ آزاد ہے۔ کھانے پینے میں، تہذیب و تمدن میں، آدابِ معاشرت میں، خاندانی روابط میں، غرض سارے انسانی معاملات میں لوگ آزاد ہیں۔ جس طرح کا رویہ چاہیں اختیار کریں۔ یہ صورت حال نظریات کے چیلنج کے مقابلے میں شدید تر ہے۔ جو گمراہی نظریے کی شکل میں سامنے نہ آئی ہو، بلکہ ثقافت اور تہذیب کی شکل اختیار کیے ہوئے ہو، اس کے مقابلے کے لیے تقریروں اور کتابوں سے کام نہیں چلایا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ تقریروں، کتابوں اور فولڈروں کی بھی ضرورت پیش آئے گی، لیکن جاہلیت سے نپٹنے کے لیے اصل ضرورت زندہ معاشرے کی ہوگی۔
مسلمان سماج
ہندوستان میں اور پوری دنیا میں مسلمانوں کو بڑے شدید حالات کا سامنا ہے۔ یہ بلا شبہ درست ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر بڑی عنایتیں بھی کی ہیں۔ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا ہے کہ مسلمانوں کا سماج ابھی تک ایک زندہ سماج ہے۔ ان کا معاشرہ مستحکم ہے۔ ان کے آپس کے روابط تازہ اور زندہ ہیں۔ نہ صرف ایک ایک ملک کے اندر بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ما بین روابط قائم ہیں۔ مسلمان حکم رانوں کے عمومی حالات یقینا تشویشناک ہیں، ان کی غفلت اور نالائقی کا جو کچھ بھی شکوہ آپ کریں بجا ہے۔ لیکن مسلمان سماج میں یک رنگی موجود ہے۔ مسلمان کے دل اسلام سے وابستہ ہیں، ان کے اندر یہ شعور ہے کہ وہ ایک عالمی امت ہیں۔ اپنی تہذیبی اور ثقافتی قدریں ان کو یاد ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہمارے لیے نمونہ بنی ﷺ ہیں۔ خلافت راشدہ کا دور ہمارا مثالی دور ہے، تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمانوں میں یہ تہذیبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اس کے عملی اثرات سماج میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مسلمان خاندان اب بھی بڑی حد تک انتشار سے محفوظ ہیں۔ عملی غفلت کے باوجود، حیا اور عفت کی قدریں اب بھی ان کے یہاں پسندیدہ ہیں۔
اہل ایمان کے سامنے موجودہ دنیا، تہذیبی و ثقافتی انتشار کا چیلنج سامنے لائی ہے۔ اس کے مقابلہ کے لیے داعیانِ حق کو کچھ کرنا ہوگا، تقریریں بھی کرنی ہوں گی، کتابیں بھی لکھنی ہوں گی، لیکن سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہوگی کہ مسلمانوں کی تہذیب اور زندہ سماج سے غیر مسلموں کا ربط قائم ہو اور اس کے راستے تلاش کیے جائیں۔ ظاہر ہے یہ کام مسلمانوں ہی کو کرنا ہوگا۔ آج ایک حجاب موجود ہے، لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نہیں جانتے، تاریخی اسباب کی بنا پر یہ کیفیت ہے کہ غیر مسلم، مسلمانوں کو نہیں جاننا چاہتے اور بہت سے مسلمانوں کے اندر بھی یہ ناپسندیدہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا اور ان کے درمیان یہ حجاب باقی رہے۔ دنیا ہماری طرف متوجہ نہ ہو۔ متوجہ ہوگی تو شاید اس کی جانب سے کچھ جارحانہ اقدامات ہوں گے۔ تاہم دعوتِ حق کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو دیکھنے کا موقع سب کو دیں۔ اس معاشرے میں بہت سی خوبیاں ہیں، جو خرابیاں موجود ہیں مسلمان ان کی اصلاح کریں۔ اصلاح یوں بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
عصرِ حاضر کے تہذیبی اور ثقافتی انتشار کا صحیح جواب ایک زندہ معاشرہ ہے، جو صالح قدروں کی عکاسی کرے۔ جماعت کے پالیسی و پروگرام میں اسلامی معاشرے کا تذکرہ موجود ہے۔ اسلامی ثقافت کو زندہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اسلامی تہذیب کے مظاہر خاص طور پر نوجوانون کی زندگی میں آئیں، یہ ہماری اسلامی دعوت کی کام یابی کے لیے ضروری ہے۔
اسلام کے بارے میں سوالات
دنیا کی موجودہ فضا میں، دین اسلام کے بارے میں بعض سوالات سامنے آئے ہیں۔ سوالات غلط فہمی پر مبنی ہو سکتے ہیں، مگر جب سوالات منظرعام پر آ جائیں تو پھر ان کا جواب دیا جانا چاہیے۔
اللہ کے فضل سے پوری مسلم دنیا میں اسلامی تحریکیں موجود ہیں، واضح الفاظ میں ان کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ دنیا کی اور خود اس ملک کی تعمیر اسلام کے مطابق ہونی چاہیے۔ تعمیر کا مفہوم جامع ہے، جس کے دائرے میں آئین، دستور، سماج، قانون، نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ سب شامل ہیں۔ ان سب دائروں میں زندگی کی تعمیر اسلام کے مطابق ہونا مطلوب ہے۔ اس پروگرام میں اب تک اسلامی تحریکوں کو زیادہ کام یابی نہیں مل سکی ہے۔ تاہم دنیا اس پروگرام سے واقف ہے۔ مسلمان بھی جانتے ہیں کہ اسلامی تحریکیں یہ خاکہ لے کر سامنے آئی ہیں ۔ پھر باخبر غیر مسلم اور دنیا کے مفسد عناصر بھی اس تصور سے واقف ہیں۔ اس لیے کہ تحریکوں کی جانب سے واضح پیغام دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس صورت حال نے بعض سوالات پیدا کیے ہیں۔
دورِ جدید کے مسلمانوں نے جن بزرگوں کے لٹریچر سے استفادہ کیا ہے، ان میں سید قطب شہیدؒ بھی شامل ہیں۔ انھوں نے دعوتِ اسلامی کی ترتیب کے سلسلے میں اپنی یہ رائے بیان کی ہے کہ پہلے لوگوں کے دل اللہ کی حاکمیت کے آگے جھکنے چاہئیں۔ (لوگوں سے مراد غیر مسلم اور مسلمان دونوں ہیں) سید قطب شہید کے تجزیے کے مطابق اللہ کی حاکمیت کے تصور کو مسلمان بھی بھلا چکے ہیں۔ چناں چہ ضروری ہے کہ پہلے دلوں میں اللہ کی حاکمیت راسخ اور جذب ہو جائے، اس کے بعد داعیانِ حق شریعت کی تفصیلات پیش کریں، اسے انجام دیں، اس سلسلے میں جس نئی تحقیق اور اجتہاد کی ضرورت ہو، وہ بھی اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے اللہ حاکمیت کا شعور ضروری ہے۔ اگر قبل از وقت کارِ اجتہاد میں لگ گئے اور اپنی توانائی کا ایک حصہ اس سوال کا جواب دینے میں لگایا کہ ملک کی تعمیرِ نو اسلام کے مطابق کیسے ہوگی؟ تو یہ اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں ہوگا۔
سید قطب شہیدؒ نے جو رائے ظاہر کی تھی اس پر آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ دنیا میں اسلامی تحریکوں کی بات اس وقت جتنی اجنبی تھی، اب اتنی اجنبی نہیں ہے اور عالم اسلام میں تعمیرِ نو کا آغاز بھی شیاطینِ عالم کی مزاحمت کے باوجود کچھ نہ کچھ نظر آنے لگا ہے۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلم ملکوں کے دستور، حکومتیں اور سماج، یہ سب اسلام سے یکسر بے نیاز ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے اچھے خاصے اثرات انھوں نے قبول کیے ہیں۔ اور مزید اثرات پڑنے کے امکانات موجود ہیں۔ چناں چہ اب اس کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظام کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔ مثلاً سود کی حرمت پر مبنی اسلام کا معاشی نظام کیا ہے؟ آج کی دنیا کے حالات مسلمان ملکوں کی کیفیت اور تیسری دنیا کے احوال کے سیاق میں، اس کی تفصیل سوچنے اور بیان کرنے کا وقت آگیا ہے۔ دعوتِ اسلامی کے تعارف کے وسیع ہونے کے ساتھ ہمارے اظہارِ خیال پر اب دنیا نے سوالات پیش کیے ہیں۔ بعض سوالات سے مسلمان تعرض بھی کر رہے ہیں اوران پر گفتگو بھی کر رہے ہیں۔ تاہم یہ گفتگو اطمینان بخش نہیں ہے۔
زیر بحث سوالات میں سب سے اہم سوال وہی ہے جس سے آپ واقف ہیں، جو کہ اسلام کے تصورِ جہاد سے متعلق ہے۔ آج جہاد بحث اور اعتراض کا موضوع بنا دیا گیا ہے۔ اس کیفیت کا عمل مسلمانوں کی طرف سے سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد نے جہاد کے لفظ کا استعمال ہی چھوڑ دیا ہے۔ اگر وہ بہ تکلف یہ اصطلاح استعمال بھی کرتے ہیں تو جہاد کے محض محدود معانی بیان کرتے ہیں اور یہ طرز گفتگو دین میں تحریف ہے۔ جن مسلمانوں کا یہ رد عمل ہے، وہ یقیناً غیر معقول ہے۔ دوسرا رد عمل بعض مسلمانوں اور مسلمان گروہوں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ وہ نامناسب حرکتیں کر رہے ہیں، جن کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔ یہ امر تحقیق طلب ہے کہ ان کی طرف منسوب کی جانے والی باتوں میں کتنی صداقت ہے۔ اگر نامناسب حرکتیں ہو رہی ہیں تو یہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ مخلص اہل ایمان کی جانب سے جس رد عمل کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ داعیانِ حق اسلام کی اصطلاحوں کا استعمال کسی تکلف کے بغیر کریں۔ مثلاً جہاد کی اصطلاح بلا جھجک استعمال کریں بغیر تکلف کے، چاہے شر پسندوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ جہاد کی صحیح تشریح اہل ایمان پیش کریں، جیسا کہ مولانا مودودیؒ نے تقریباً ایک صدی پہلے یہ کام انجام دیا تھا۔ ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ مولانا نے جو بات اس کتاب میں کہی تھی، وہ بات بالکل صحیح ہے۔ اہل علم اور محققین اس کا مطالعہ کرکے اپنا اطمینان کر سکتے ہیں۔ تاہم اسلامی اصطلاحات کے تعارف کے لیے یہ ایک کتاب کافی نہیں ہے، بلکہ کتابوں کی تحقیق اور تفصیلی تصنیفات کی ضرورت ہے۔ اسلام کا تصور جہاد، دور جدید میں اس کے تقاضے، شرائط، حدود اور آداب کو دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ مسلمانوں کو ان سے واقف کرانا چاہیے اور غیر مسلموں کو بھی۔
دعوت کی ترتیب کا لحاظ اصولاً صحیح ہے۔ ہم خود کہتے ہیں کہ جب ہم اسلام کا تعارف کرائیں گے، تو پہلے اسلام کی تفصیلات بیان کرنا مناسب نہیں۔ پہلے توحید رسالت اور آخرت کا تذکرہ ہونا چاہیے۔ لیکن جب فضا میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں سوالات اٹھ چکے ہوں اور لوگ ان کے جوابات جاننا چاہتے ہوں، تو پھر یہ ضروری ہے کہ ان سوالات پر بھی گفتگو کی جائے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال جہاد کا موضوع ہے۔
مسلمانوں کا حال
دعوت کے نکات اور اسلام کے سلسلے میں پوچھے جانے والے سوالات کے علاوہ، خود یہ موضوع بھی قابل غور ہے کہ آج کی دنیا میں دعوت دینے والوں کا (یعنی امت مسلمہ کا اور اسلامی تحریکوں کا) کیا حال ہے؟ ان کی کیا کیفیت ہے؟ ان کی کیفیت کے بہت سے پہلو ہوسکتے ہیں۔ ان سے تعرض نہ کرتے ہوئے صرف اس پہلو پر ہمیں توجہ کرنی چاہیے کہ جو سوالات دنیا میں اٹھتے ہیں، ان سے مسلمان خود کیا اثر لیتے ہیں؟ مثلاً ایک غیر مسلم جہاد کو نہیں جانتا۔ غلط فہمی کی بنا پر وہ سمجھتا ہے کہ جہاد بڑے ظلم کا نام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کیفیت سے ہم مسلمان بھی متأثر ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں واقعی جہاد ظلم کا نام تو نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے مسلمان خود بھی نہیں جانتے کہ جہاد کی معنویت کیا ہے؟ تو محض بات اتنی نہیں ہے کہ آپ کا مخاطب کچھ باتیں پوچھ رہا ہے اور آپ کو کچھ باتیں اسے بتانی ہیں۔ بلکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر ایمان، علم اور یقین کی مطلوبہ کیفیت میں کمی آ چکی ہے۔ فضا میں گونجنے والے سوالات نے ان کی فکر و فہم کو متأثر کر دیا ہے۔ چناں چہ یقین کی کیفیت کو بحال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر بھی ضروری ہے کہ عصر حاضر کے سوالات پر بحث کی جائے، غیر مسلموں سے پہلے خود مسلمانوں کا دین پر اطمینان ضروری ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس دین پر وہ ایمان لائے ہیں اس نے کوئی تعلیم ایسی نہیں دی ہے، جو غیر معقول ہو، جو انسانیت کے خلاف ہو، جو انصاف کے خلاف ہو اور جو ظلم پر مبنی ہو۔ سب سے پہلے امت کا دین پر اطمینان اور یقین بحال ہونا چاہیے اور اس کے لیے عوام و خواص کے درمیان تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔
دنیا کے ہر کام کی طرح دعوت اسلامی کا کام بھی تیاری چاہتا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ تیاری کے اعتبار سے دعوت دینے والوں کی کیا کیفیت ہے؟ دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے علم و تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا میں جو کچھ پوچھا جا رہا ہے۔ اس کا معقول، محققانہ، علم و استدلال پر مبنی جامع جواب اچھی پیش کش کے ساتھ اہل حق فراہم کریں۔ مسلمانوں کو بھی بتائیں، خصوصاً ان کے نوجوانوں کو بھی بتائیں اور غیر مسلم دنیا کو بھی بتائیں۔
البتہ اس کے لیے تیاری محض علمی نہیں ہوتی۔ بلکہ تیاری دوسرے پہلوؤں سے بھی درکار ہے۔ بنیادی تیاری یہ ہے کہ داعی کا اللہ سے گہرا تعلق ہو۔ داعی کی زندگی میں جو اللہ سے مطلوب تعلق کا اعلیٰ ترین نمونہ انبیاء علیہم السلام کی زندگیاں ہیں، اس تعلق باللہ کی جھلک، اس کیفیت کا پرتو، امت مسلمہ کے افراد میں اور اسلامی تحریکوں کے وابستگان میں نظر آئے، تبھی وہ داعی الی اللہ کی پوزیشن میں ہوسکتے ہیں، تب ان کی زبان میں تاثیر ہوگی۔ وہ تقریر کریں تو لوگ متأثر ہوں گے، وہ کوئی بات کہیں تو غور سے سنی جائے گی، ان کی بات دلوں میں اترے گی، محض علمی تیاری سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی، دعوت کے لیے زندہ تعلق درکار ہے۔ اللہ سے تعلق کے استحکام کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے، خود تنظیمی دائرے میں بھی اور پوری امت کے دائرے میں بھی۔ اللہ سے تعلق کی وہ کیفیت جو دنیا کے ہر معاشرے سے بڑھ کر آج بھی مسلمان معاشرے میں پائی جاتی ہے، اس کیفیت کو زیادہ زندہ، زیادہ متحرک اور زیادہ توانا بنانے کی ضرورت ہے۔
عملی شہادت حق
داعی اپنے پورے وجود سے دین کی دعوت دیتا ہے۔ وجود سے مراد صرف ایک شخص کا وجود نہیں ہے، (ایک ایک شخص کے بارے میں تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ایک شخص قول سے بھی دعوت دیتا ہے اور عمل سے بھی) بلکہ پوری امت مسلمہ کا اجتماعی وجود مراد ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر کیا کہتی ہے؟ مسلمان دعوت کے عنوان سے کوئی جلسہ کریں اور اسلام کا تعارف کرائیں تو یہ ہمارے جلسوں کا اور باتوں کا چھوٹا سا حصہ ہوگا۔ لوگ محض اس جلسے سے اثر نہیں لیں گے، بلکہ یہ بھی دیکھیں گے کہ باقی باتیں آپ کیا کرتے ہیں؟ جب ملک کے مسائل پر آپ بات کرتے ہیں تو آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا فکرپیش کرتے ہیں اور کس نظریہ کا حوالہ دیتے ہیں؟ جب مسلمانوں کے مسائل پر آپ بات کرتے ہیں، تب آپ کس بنیاد پر گفتگو کرتے ہیں؟ جب آپ کوئی ڈیلیگیشن اور وفد لے کر لوگوں سے ملنے جاتے ہیں تو کیا آپ اسلام کی گفتگو بھی کرتے ہیں؟ یا محض اپنے مسائل بتاتے ہیں؟ کیا آپ اسلامی فکر و نظریہ کا بھی حوالہ دیتے ہیں؟ کیا آپ کی گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اللہ کو ماننے والے لوگ ہیں؟ ہمارے اجتماعی وجود کے یہ سارے پہلو ہیں۔ جب ہم حالات و مسائل پرگفتگو کرتے ہیں تو دنیا اس کو زیادہ سنتی ہے۔ دعوتی تقریر تو ایک آدھ سن لیتی ہے۔ باقی تقریریں، مسلمانوں کے مطالبات، ان کا موقف، مسلمانوں کی تنظیموں کی قراردادیں، انجمنوں اور پارٹیوں کی کارراوئیاں، ان کی کارکردگی اور ان کی سر گرمیاں، ان کے جلسے، پوری امت مسلمہ کے مشاغل، یہ زیادہ واضح زبان میں ہمارے ما فی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری چند دعوتی تقریریں ان سب کے مقابلے میں زیادہ اثر نہیں ڈال سکتیں، اگر ان کا رنگ دوسرا ہو۔
دعوت کا حق ادا کرنا ہے تو امت مسلمہ کے پورے وجود کو اسلام سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ محض جماعت اسلامی کے نام کی ایک تنظیم کا وجود کافی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری ہر تنظیم اسلام کی نمائندہ ہو۔ ہمارا ہر جلسہ اسلام کا ترجمان ہو، ہمارا ہر ادارہ اسلامی قدروں کا آئینہ دار ہو۔ جب امت کا وجود ایسا ہوگا، تب ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ دنیا میں دعوت دین کا کام ہوگا۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی تقریر شہادت حق میں اس طرف توجہ دلائی ہے۔ ہمیں دنیا میں عملی شہادت جو دینی ہے، وہ شہادت امت کے اجتماعی عمل سے دینی ہے۔ عملی شہادت صرف ایک فرد کے عمل کا نام نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی عمل کا نام ہے۔ اگر مسلمان اجتماعی عمل کو درست کر لیں، تو دعوت دین کے کام میں تیزی آسکتی ہے اور حق دنیا میں پھیل سکتا ہے۔
اسلامی اصطلاحیں
ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ گفتگو میں دینی اصطلاحیں استعمال کریں۔ اس کا التزام مشکل ہے۔ یہ کام علمی تیاری اور محنت چاہتا ہے۔ مسلمانوں کا اپنی اصطلاحوں میں گفتگو کرنا، یہ اس دشواری کا بھی حل ہے جس کا آپ کے سامنے ذکر کیا گیا تھا۔ دشواری یہ تھی کہ ہر باطل نظریہ کچھ صداقت بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ کمیونزم میں کچھ صداقت کے پہلو موجود ہیں، اگر آپ اس کی کلی تردید کریں تو یہ مشکل کام ہے۔ اسی طرح سیکولرزم میں بعض صداقت کے پہلو بھی موجود ہیں، اس کی کلی تردید مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس دشواری کا اچھا خاصا احساس ہے۔ اسی طرح کا معاملہ تکثیریت، پلورزم اور دوسرے نظریات کا ہے۔ ہر نظریہ انسان کی بعض ضرورتوں کے جواب میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔ اس لیے صداقت کا کچھ نہ کچھ جزء اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر مسلمان دینی اصطلاحوں میں بات نہیں کریں گے، تو اپنی بات کو نہیں سمجھا سکیں گے۔ کسی رائج مغربی اصطلاح کی تائید کریں یا تردید، دونوں صورتوں میں ہمارا موقف واضح نہیں ہوتا اور دعوت اسلامی کا حق ادا نہیں ہوتا۔ پلورزم کی کلی تائید اور پلورزم کی یکسر تردید دونوں ہمارے موقف کی نمائندگی نہیں ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا اپنا موقف ہے کہ جو انسان ایک جگہ رہتے ہوں مگر ان کے الگ الگ مذہب ہوں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا معاملہ کریں؟ تو اس سوال کے جواب میں اسلام اپنا موقف رکھتا ہے۔ اسے اسلام ہی کی اصطلاحوں میں بیان کرنا چاہیے۔
چناں چہ ضروری ہے کہ مسلمان تیاری کریں اور یہ حوصلہ پیدا کریں کہ کہ دنیا کو اپنی اصطلاحوں سے روشناس کرائیں گے۔ داعیانِ حق ان اصطلاحوں میں گفتگو کرنا سیکھیں اور دلائل فراہم کرکے اپنی دعوت کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامی اصطلاحوں کا یہ امتیاز ہے کہ ان میں صداقت ہی صداقت ہے، باطل کی کوئی آمیزش نہیں ہے، ان اصطلاحات میں اندرونی ٹکراؤ نہیں ہے۔ جب مسلمان اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کرتے ہیں تو مکمل حق انسانوں کے سامنے آتا ہے۔ اس حق کو ہمیں پیش کرنا چاہیے۔ یہ انسانیت کی حقیقی ضرورت ہے۔