بابِ توبہ: کتابِ اصلاح کا اہم ترین باب

(توبہ کرنے والے توبہ کے الفاظ سے نہیں، بلکہ توبہ والی زندگی سے پہچانے جاتے ہیں)

محی الدین غازی

ایک رات مالک بن دینارؒ کے گھر میں چور گھس آیا۔ اس نے وہاں کچھ نہیں پایا، بوسیدہ سی چٹائی اور پرانے سے لوٹے کے سوا وہاں کچھ نہ تھا، وہ نکلنے لگا تو مالکؒ نے آواز دی اور سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا، مالکؒ نے کہا: تمھیں یہاں دنیا تو ملی نہیں، تو کیا آخرت کا کچھ سامان پسند کروگے، اس کے دل میں بات اتر گئی، اور اس نے کہا: ہاں، انھوں نے کہا، لوٹے میں پانی ہے وضو کرو، دو رکعت نماز پڑھو اور اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرو۔ دو رکعت کے بعد اس نے رات بھر عبادت کرنے کی اجازت مانگی، اور پھر یہ ہوا کہ دونوں نے رات بھر ایک ساتھ تہجد پڑھی، صبح مالکؒ مسجد کے لیے نکلے تو وہ بھی ساتھ تھا، ان کے شاگردوں نے پوچھا یہ کون ہے آپ کے ساتھ؟ انھوں نے کہا: یہ ہمیں چرانے آیا تھا ہم نے اسے ہی چرا لیا۔ (یہ قصہ امام ذہبی اور دیگر شخصیت نگاروں نے ذکر کیا ہے)

اصلاح کا مشن پارساؤں کو جمع کرلینے کا کام نہیں، بلکہ گناہ گاروں کو توبہ کے راستے اپنا بنالینے کا کام ہے۔

اگر آپ اپنی اصلاح کے لیے فکر مند ہوگئے ہیں، تو جان لیں کہ سب سے پہلے آپ کو توبہ کے طہارت بخش چشمے میں نہانا ہے، اور پھر آخر دم تک توبہ کی پاکیزہ کیفیت اور حالت کو ساتھ رکھنا ہے۔ توبہ جتنی سچی اور خالص ہوگی اصلاح اتنی ہی گہری اور ہمہ گیر ہوگی۔ اگر آپ دوسروں کی اصلاح کا مشن لے کر اٹھے ہیں تو آپ کو سب سے زیادہ قوت کے ساتھ توبہ کا صحیح تصور اور سچی رغبت پیدا کرنی ہے۔ دنیا کا کوئی اصلاحی مشن توبہ کے صحیح، تسلی بخش اور امید افزا تصور کے بغیر کامیاب ہوہی نہیں سکتا ہے۔

اگر صالحین اور مصلحین کی ایک جماعت تشکیل پاتی ہے تو اس جماعت کا حقیقی اثاثہ وہ تائبین ہوں گے جو غفلت اور کوتاہی کی اپنی پچھلی روش پر توبہ کرکے اس جماعت میں شامل ہوں گے۔ توبہ کے تجربے سے گزرے بغیر اس جماعت میں جو شامل ہوگا، یا جو اس جماعت میں شامل ہونے کے بعد توبہ کے تجربے سے نہیں گزرے گا، وہ اس جماعت کا ایک بے روح پرزہ ہوگا۔ قرآن مجید میں تمام مومنوں کو توبہ کرنے کی تلقین کی گئی: وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِیعًا أَیهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (اے مومنو، تم سب اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ النور:31) معلوم ہوا کہ فرد اور جماعت دونوں کی کامیابی کا راستہ توبہ سے ہوکر گزرتا ہے۔

توبہ کا ایک ناقص طریقہ جزوی توبہ کا طریقہ ہے، یعنی صرف کچھ گناہوں سے توبہ کرنا، یہ طریقہ بہت عام ہے، کسی تذکیر یا تنبیہ کی وجہ سے آدمی کا دھیان اپنے کسی ایک گناہ کی طرف جاتا ہے، اسے اس پر ندامت ہوتی ہے، وہ اس سے توبہ کرتا ہے، اللہ سے معافی مانگتا ہے، اسے دوبارہ نہیں کرنے کا عہد کرتا ہے، اور اس عہد پر قائم بھی رہتا ہے۔ لیکن اپنی توبہ کو وہ صرف اس ایک گناہ یا ایسے کچھ گناہوں تک محدود رکھتا ہے۔ باقی کتنے گناہوں نے اس کی زندگی میں گہرے بِل بنا رکھے ہیں، اور لگا تار انڈے بچے کررہے ہیں، اس کا خیال اسے نہیں ستاتا ہے۔ قرآن مجید پوری اور مکمل توبہ کا طریقہ سکھاتا ہے کہ آدمی ایسی توبہ کرے کہ اپنی زندگی کے ہر گناہ سے تائب ہوجائے، وہ ایک گناہ سے پاک ہونے ہی کا عہد نہیں کرے، بلکہ پوری زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزارنے کا عہد کرے۔ اور اس عہد پر زندگی بھر قائم رہنے کی کوشش کرے۔ اس دوران جب جب کوئی گناہ سرزد ہوجائے اس سے سچی توبہ کرتا رہے۔ غرض توبہ کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کسی ایک گناہ کے لیے بھی مسکن نہیں بنے۔ اگر کوئی چھوٹا سا گناہ بھی زندگی میں بل بناکر رہنے لگتا ہے، تو انڈے بچے ضرور کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہ بھولیں کہ چھوٹے گناہ کے پیٹ سے بڑے سے بڑے گناہ بھی جنم لے لیتے ہیں۔

گناہوں کو قسطوں میں چھوڑنے کا تصور غلط ہے، یہ وہ منصوبہ ہے جو کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتا ہے۔ توبہ یک بارگی شفٹنگ کا تقاضا کرتی ہے، گناہوں والی زندگی سے توبہ والی زندگی میں منتقل ہوجانا توبہ ہے۔ ایک ہی جست میں گندگی اور غلاظت بھرے کھڈ سے باہر نکل کر اچھی طرح نہا دھو کر پاکیزہ مقام پر چلے جانا ہی پاک ہونا ہوتا ہے۔ ہاں جب کسی انتہائی مجبوری کی وجہ سے گندی سے پوری نجات ممکن ہی نہیں ہو تو جتنا ممکن ہو اس قدر ضرور پاک صاف ہوجائے، اور پورے طور پر نکلنے کی کوشش جاری رکھے۔ لیکن پوری پاکی ممکن ہو مگر پھر بھی آدمی کچھ پاکی پر قناعت کرلے، یہ توبہ کی روح کے خلاف ہے۔

توبہ کے سلسلے میں ایک ناقص تصور یہ ہے کہ توبہ کو محض معافی کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، معافی کا عام مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے جرم یا مجرمانہ زندگی کو ترک کردے، اور عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے لگے۔ لیکن توبہ کا مطلب اس سے بہت اعلی ہوتا ہے، توبہ کا مطلب ہوتا ہے کہ آدمی گناہوں والی زندگی ترک کردے، اور پھر اللہ والی زندگی گزارنے لگے۔ توبہ بہت عالی شان لفظ ہے، قرآن مجید میں لفظ توبہ کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا، اللہ کی طرف لوٹ جانا، اور اللہ کا ہوجانا۔

جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے اس وقت اس کی توجہ اللہ کی طرف سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے، وہ اللہ سے اتنا زیادہ غافل ہوجاتا ہے گویا وہ ایمان ہی سے دور ہوگیا ہو۔ حدیث پاک میں اس کی بڑی صاف وضاحت کی گئی ہے:

عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے، اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، جب چوری کرتا ہے، اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے، جب شراب پیتا ہے اس وقت وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا ہے۔ ابن عباسؓ سے ان کے شاگرد عکرمۃ نے پوچھا: ایمان کیسے اس سے چھین لیا جاتا ہے، انھوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ڈال کر پھر الگ کرلیا اور کہا اس طرح، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ڈال لیا اور کہا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس اس طرح لوٹ آتا ہے۔ صحیح بخاری (باب اثم الزناۃ)

معلوم ہوا کہ گناہوں سے توبہ کا مطلب ایمان کی واپسی ہوتا ہے۔

توبہ کرنے کا مطلب اپنے ایمان کی تجدید کرنا، اللہ کی طرف دوبارہ متوجہ ہوجانا اور ایک نئی مومنانہ اور پاکیزہ زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ توبہ زندگی میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی ہوتی ہے۔ توبہ صرف ایک گناہ سے نہیں ہوتی بلکہ خراب طرز زندگی اور غلط سمت سفر سے ہوتی ہے۔ توبہ کرنے والا صرف اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے والا نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ توبہ کرکے اللہ والا بن جاتا ہے۔ اس کی زندگی عام انسانوں کی سی نہیں بلکہ عام انسانوں سے بہت مختلف، بہت پاکیزہ اور بہت اعلی ہوجاتی ہے۔

سورہ ہود میں نبیوں کی دعوت کے تذکرے ہیں، اس سورت میں نوٹ کرنے کی خاص بات ایک ہی مفہوم کے یہ چار جملے ہیں:

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیهِ [هود: 3] (قرآن کا پیغام)

(اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ)

وَیا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیهِ [هود: 52] (ھودؑ کا پیغام)

(اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو)

فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیهِ [هود: 61] (صالحؑ کا پیغام)

(تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ)

وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیهِ [هود: 90] (شعیبؑ کا پیغام)

(اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ)

ان میں سے سے پہلی آیت میں قرآن مجید کی دعوت کا ذکر ہے، پھر تین آیتوں میں تین نبیوں کی دعوت کا ذکر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبیوں کی دعوت میں استغفار اور توبہ کی دعوت کو بہت بنیادی مقام حاصل تھا۔ چاروں مقامات پر ایک ہی دعوت ہے، وہ یہ کہ رب سے استغفار کرو، پھر رب کی طرف لوٹ آؤ۔ استغفار سے آدمی اپنے گناہوں سے پاک ہوتا ہے، اور توبہ سے نیکیوں والی زندگی گزارنے لگتا ہے۔

توبہ کی تکمیل صالحیت سے ہوتی ہے

توبہ اپنا عملی ثبوت مانگتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آدمی اس گناہ کو دوبارہ نہ کرے، جس سے اس نے توبہ کی ہے۔ یہ ضروری لیکن ناکافی ثبوت ہے، اصل ثبوت یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں صالحیت اور صالح اعمال کی بہار آجائے۔

قرآن مجید میں توبہ کو اصلاح کی راہ کے اہم ترین سنگ میل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور توبہ کی قبولیت کے لیے توبہ کے بعد صالحیت اور اعمال صالحہ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا:

فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ یتُوبُ عَلَیهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ

(پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہو جائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ المائدة: 39)

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ یتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا (اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے۔ الفرقان: 71)

وَإِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى (ہاں بیشک میں انھیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راه راست پر رہیں۔ طه: 82)

یہ حقیقت پسندی کا تقاضا بھی ہے، ایک شخص اللہ کی نافرمانی کرکے اللہ کے غضب کا سزاوار ہوجاتا ہے، اب اگر وہ نیک اعمال کے ذریعے اللہ کو خوش کرنے کا جذبہ تو نہیں رکھتا ہو، اور چاہے کہ محض توبہ کے نام پر زبانی جمع خرچ سے اللہ اس سے راضی ہوجائے تو یہ جھوٹی امید باندھنا ہوگا۔

اور یہ پورے طور پر قرآن مجید کے اصلاحی مشن سے ہم آہنگ بات ہے۔ اللہ کی طرف سے بندوں کو خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح میں ان سے مدد لے سکیں۔ گناہ کرکے آدمی اپنے آپ کو بہت نیچے گرادیتا ہے، ایسے میں اگر وہ پستی سے بلندی کا سفر کرنے پر تو آمادہ نہ ہو، لیکن توبہ کرنے والوں کے بلند مقام کی خواہش رکھے، تو ظاہر ہے اس کی یہ خواہش قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے، کیوں کہ شخصیت کی تعمیر وترقی میں ایسی بے ثمر توبہ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ توبہ تو اصل میں اس کی ہوتی ہے جو توبہ کے پروں سے قابل رشک بلندیوں میں پرواز کرنے لگتا ہے۔

عام طور سے توبہ کی قبولیت کی شرطوں میں اس کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے، لیکن قرآن مجید عمل صالح کی اس شرط کو بار بار ذکر کرتا ہے۔

توبہ کرنے کی جگہ دنیا ہے

قرآن مجید میں توبہ کا ذکر صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہے، آخرت کی زندگی کے لیے توبہ کا ذکر ہمیں قرآن مجید میں کہیں نہیں ملتا ہے۔ قرآن مجید جب دنیا میں لوگوں کو اپنی اصلاح کرنے کی دعوت دیتا ہے، تو توبہ کے دروازے پورے طور پر کھلے ہوئے دکھاتا ہے، قُلْ یا عِبَادِی الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ یغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (اے نبیﷺکہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ الزمر: 53)لیکن ہمیں قرآن مجید میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے کہ آخرت میں جو لوگ توبہ کریں گے ان کی توبہ قبول کی جائے گی۔

توبہ کا نظام مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہے

اصل بات یہ ہے کہ اللہ پاک کا کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا ہے، اس نے یہ کائنات بنائی، اور اس میں زندگی اور موت کا نظام بنایا، اور اس نظام کا مقصد طے کیا انسانوں کے عمل کا امتحان۔ اس امتحان کے تحت توبہ کا نظام رکھا، تاکہ انسانوں کو امتحان کے دوران اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا پورا پورا موقع حاصل رہے۔ یہ امتحان موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے، اور اسی کے ساتھ اس امتحان کا ذیلی نظامِ توبہ بھی ختم ہوجاتا ہے، پھر نہ عمل کے لیے وقت رہتا ہے اور نہ توبہ کے لیے۔

جب توبہ کا مقصد اصلاح ہے، تو مرتے وقت توبہ کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا، ایسی بے مقصد توبہ کو اس نظام کائنات میں کیسے جگہ مل سکتی ہے، جس نے اس کائنات کو بے مقصد نہیں بنایا۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ توبہ کے سلسلے میں قرآن مجید میں ایک طرف تو اتنی کشادگی ہے کہ توبہ کرنے والوں کے سارے گناہ معاف کرنے کا بار بار اعلان عام ہوتا ہے، دوسری طرف ایسی سختی بھی ہے کہ موت کے سر پر آجانے کے بعد پھر توبہ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے جاتے ہیں۔

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ فَأُولَئِكَ یتُوبُ اللَّهُ عَلَیهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِیمًا حَكِیمًا (17) وَلَیسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السَّیئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِینَ یمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا

(ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق انھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہوکرکوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی، اور اسی طرح توبہ اُن کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ا یسے لوگوں کے لیے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے۔ النساء: 17، 18)

قرآن مجید کی تعلیم یہ ہے کہ مرتے دم توبہ کرنے کے بجائے مرتے دم تک توبہ کرتے رہنا ہے۔

دارالامتحان کی رونق توبہ سے ہے

اگر اللہ پاک نے توبہ کی اس عظیم نعمت سے نوازا نہ ہوتا تو دنیا کا یہ امتحان نہایت مشکل ہوجاتا، اور لوگوں کو کامیابی کی امید دور دور تک نظر نہ آتی، پھر یہاں مایوسی کا اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا۔ توبہ نہ ہوتی تو جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ غفلت اور سرکشی میں گزار چکے ہیں، ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا کہ خوف اور مایوسی سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیں، یا اپنی باقی زندگی بھی اسی ڈھب پر گزارتے رہیں اور اپنی ابدی ہلاکت کا پورا سامان کرلیں۔

دنیا دار الامتحان بھی ہے، اور دار التوبۃ بھی ہے۔ توبہ کی آمیزش سے امتحان کی کیفیت بہت بدل جاتی ہے۔ مایوسی کے اندھیروں کی جگہ امید کی روشنی پھیل جاتی ہے، اور کامیابی کے امکانات بہت روشن نظر آنے لگتے ہیں۔

امید کا راستہ توبہ ہی سے ہوکر گزرتا ہے

ایک مومن خوف اور امید کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، جب وہ اپنے گناہوں کو دیکھتا ہے اور گناہوں کے انجام کو سوچتا ہے تو خوف سے کانپ اٹھتا ہے، خوف کی یہ کیفیت اگر ہمیشہ رہے تو آدمی اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے۔ لیکن خوف کے اس عالم میں اسے امید کا سہارا توبہ سے ملتا ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ غفور اور رحیم ہے، اس کے حضور توبہ کے ذریعہ تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو اسے قرار آجاتا ہے، وہ توبہ کے عظیم الشان دروازے کو کھلا دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اور امید سے سرشار ہوکر توبہ کے دروازے میں داخل ہوجاتا ہے۔ گناہوں کا خوف اور توبہ کی امید مل کر ایک انسان کی زندگی کو بے حد حسین اور پاکیزہ بنادیتے ہیں۔ خوف اور امید کے اس شخصیت ساز حسین امتزاج کو توبہ سے الگ کرکے دیکھنا بہت بڑی اور خطرناک غلطی ہے۔ توبہ کے راستے پر چلے بغیر اللہ کی رحمت سے امید لگانا بہت بڑی بھول ہے۔ قرآن مجید میں توبہ نہیں کرنے والوں کے لیے امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی گئی ہے۔ قرآن مجید میں امید کا بہت سامان ہے، مگر وہ سب توبہ کرنے والوں کے لیے ہے۔ اور یہی قرآن مجید کے اصلاحی مشن سے ہم آہنگ بات ہے۔ جو شخص توبہ نہیں کرتا ہے، وہ اپنی اصلاح نہیں کرتا ہے، اور اپنے گناہوں پر ہٹ دھرمی دکھاتا ہے، ایسے شخص کو توبہ کے بغیر کامیاب ہوجانے کی امید دلانا اس کی ہٹ دھرمی کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ ویسے بھی جسے خوف ہی نہیں ہو، اسے امید کی بھی کیا ضرورت ہے۔

عوام میں یہ رویہ عام ہے کہ جب کسی کو اس کے گناہوں کے انجام سے ڈرایا جاتا ہے، تو وہ بڑے اطمینان سے کہتا ہے کہ اللہ رحیم ہے۔ یہ رویہ خطرناک حد تک غلط ہے، اور بہت بڑی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔ اللہ بے شک غفور اور رحیم ہے مگر ان کے لیے جو توبہ کرلیں۔ اللہ پاک نے صاف اعلان کردیا ہے:

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِینَ یؤْمِنُونَ بِآیاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَیكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ

(جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو "تم پر سلامتی ہو تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ بڑی مغفرت کرنے والاہے بڑی رحمت والا ہے۔ الأنعام: 54)

توبہ نہیں کرنا، مگر اپنے لیے توبہ کرنے والوں کے انجام کی امید رکھنا جھوٹی امیدوں میں شمار ہوتا ہے، اور یہ اپنے آپ کو بہت بڑا دھوکا دینا ہے۔

توبہ کی راہ سے رکاوٹیں ہٹائیں

قرآن نے توبہ کو بہت آسان بناکر پیش کیا ہے، بڑے سے بڑا گناہ گار انسان خود توبہ کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے، اور کسی کی مدد کے بغیر خود ہی اسے انجام دے سکتا ہے۔ قرآن کا مقصد یہ ہے کہ توبہ کا انتظام ہر انسان کو میسر رہے، اور ہر ایک کے سامنے اس کا دروازہ کھلا رہے۔

قرآن گناہ گار کو در بدر بھٹکنے کے بجائے فوری طور پر توبہ کا راستہ دکھاتا ہے، کیوں کہ یہی وہ طریقہ ہے جو اسے بدل سکتا ہے اور اسے گناہوں کے راستے سے نیکی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔

قرآن کے طریقے پر اصلاح کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ گناہ گار کے ساتھ وہی آسان رویہ اختیار کریں جو قرآن میں صاف صاف نظر آتا ہے۔ توبہ کے عمل کو مشکل نہ بنائیں، اور نہ ہی توبہ کے راستے کو دور کریں۔ کسی کا گناہ ہمیں اس قدر غصے اور ناراضگی میں مبتلا نہ کردے کہ ہم اسے توبہ کی طرف راغب کرنے کی اپنی ذمہ داری کو بھول جائیں، یا اسے توبہ کے لیے ناقابل سمجھنے لگیں۔ گناہ سے شدید نفرت کا صحیح تقاضا یہ ہے کہ گناہ سے توبہ کے لیے رغبت اور آسانی پیدا کردی جائے۔

“نکال باہر کرنا” آخری چارہ کار ہے

ایسا بہت ہوتا ہے کہ کوئی بڑا گناہ کردینے پر باپ اپنے بیٹے کو گھر سے نکال دیتا ہے، مدرسہ طالب علم کا نام خارج کردیتا ہے، تنظیمیں اپنے افراد کے خلاف تعطیل واخراج کی کارروائیاں کرتی ہیں۔ اور ایسا بسا اوقات باہر والوں کے دباؤ میں بھی کیا جاتا ہے، کیوں کہ ایسا نہ کرنے پر باہر والے گناہ گاروں اور مجرموں کی پرورش کرنے اور انھیں پناہ اور رفاہ دینے کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہاں ٹھیر کر سوچنا اور قرآن مجید کی روشنی میں اپنے رویے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

گناہ گار خواہ اپنا ہو یا پرایا ہو، عام فرد ہو یا اہم ذمہ دار ہو، اس کے سلسلے میں ہماری پہلی اور سب سے بڑی ذمہ داری اسے توبہ کے دروازے سے نیکی کے راستے پر لانا ہے۔ ہمیں سب سے پہلی اور سب سے زیادہ فکر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی ہونی چاہیے۔

فوراً نکال باہر کرنے کا فیصلہ ہم سے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے بیشتر مواقع چھین لیتا ہے، پھر وہ باہر نکل کر ہم سے دور اور باہر کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ اور اندر کے تربیتی مواقع ہم سے سوال کرتے رہ جاتے ہیں کہ پھر ہمارا کیا مصرف ہے؟

جب کہ ہمیشہ کے لیے نکال باہر کرنے کا فیصلہ تو قرآن کی اس تعلیم کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے جو گناہ گاروں اور توبہ کرنے والوں کے سلسلے میں قرآن دیتا ہے۔ توبہ کرکے نیک بن جانے والوں کو قریب کرنا اللہ کا طریقہ ہے، اور بندوں کو بھی یہی طریقہ زیب دیتا ہے۔ اور اسی میں انسانوں کی بھلائی بھی ہے، ورنہ انسانی سماج توبہ اور اصلاح کی برکتوں سے محروم ہوجائے گا۔

کسی اصلاحی ادارے یا جماعت کے کسی فرد سے گناہ سرزد ہونے پر چشم پوشی کی روش اختیار کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے، اس سے نہ صرف اس ادارے یا جماعت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، بلکہ اس کا اصلاحی کردار بھی خطرے میں پڑجاتا ہے، اس لیے گناہوں کی جڑیں گہری ہونے سے پہلے فوری کارروائی کرنی ضروری ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ ایسی کارروائی اپنے پہلے مرحلے میں توبہ اور اصلاح کی تلقین وترغیب کی صورت میں ہو، اخراج جیسی انتہائی کارروائی کو آخری چارہ کار کے طور پر اختیار کیا جائے، جب توبہ واصلاح کی کوشش بے اثر ہوجائے۔

گناہ کتنا ہی بڑا ہو، اگر وہ عادت بن کر فطرت کو مسخ نہیں کرچکا ہے، تو توبہ کے امکانات بہت زیادہ روشن ہوتے ہیں، ان امکانات کو روبہ عمل لا کر گناہ گار شخص کو توبہ اور نیکی سے ہم کنار کرنا ذرا مشکل نہیں ہوتا ہے، اور وہ شخص جو گناہوں پر نادم اور تائب ہو کر نیک اور صالح بنتا ہے، وہ اکثر عام لوگوں کے مقابلے میں نیکی اور پرہیزگاری کا زیادہ اعلی کردار پیش کرتا ہے، اگر اس سے اس کا موقع چھین نہ لیا جائے۔ اسلامی تاریخ میں صالحین کی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مسلمان رہتے ہوئے بھی گناہوں میں مبتلاتھے، مگر انھوں نے توبہ کے چشمے میں غسل کیا، اور پھر تقوی کا بہترین لباس زیب تن کرلیا، اور ان کی توبہ اور پرہیزگاری لوگوں کے لیے نمونہ بن گئی۔

جب تک مرض لاعلاج ثابت نہ ہوجائے علاج کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ سماج کی اصلاح کی فکر رکھنے والوں کو ہمیشہ یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ توبہ کا دروازہ بند کرنے کا مطلب اصلاح کا دروازہ بند کرلینا ہے، اور توبہ کا راستہ مشکل بنانے کا مطلب اصلاح کا راستہ دشوار کرلینا ہے۔

ایک اصلاحی جماعت کے لیے یہ خوبی کی بات ہونی چاہیے کہ اس کے افراد کو جماعت کے اندر رہتے ہوئے توبہ اور اصلاح کے بہترین مواقع حاصل رہتے ہیں، گناہ سرزد ہوجانے کی صورت میں توبہ اور اصلاح کے لیے انھیں کہیں باہر نہیں جانا پڑتا ہے۔ بہترین طبی وسائل اور صلاحیتوں سے آراستہ اطباء کی ٹیم کا اگر کوئی فرد بیمار ہوجائے تو اسے اپنی اس ٹیم کے ذریعہ علاج پانے اور شفایاب ہوجانے کے بعد اس ٹیم کا فعال حصہ بنے رہنے کا حق ضرور ملنا چاہیے۔

توبہ کرنے والے کی عزت کی جائے

قرآن میں ہمیں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کرنے کے بعد توبہ کرلے تو اسے عزت کا مقام ملنا چاہیے۔ ہاں یہ توبہ اس کی زندگی سے اچھی طرح ظاہر ہو یہ ضروری ہے۔ کسی گناہ گار شخص کی توبہ کا علم اس سے نہیں ہوتا ہے کہ اس نے دوبارہ وہ گناہ نہیں کیا، بلکہ اس سے ہوتا ہے کہ اس کی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی۔ وَاللَّذَانِ یأْتِیانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَحِیمًا (اور تم میں سے جو اس زنا کے فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انھیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ النساء:16)

گناہ گار شخص کو ایک طرف یہ امید دلائی جائے کہ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اسے معاف کردے گا، اور جنت میں اسے اعلی مقام حاصل ہوگا۔ دوسری طرف اسے یہ امید بھی حاصل رہے کہ اگر وہ توبہ کرلیتا ہے، اور ایک نئی پاکیزہ زندگی گزارنے لگتا ہے تو اسے دنیا میں بھی باعزت مقام حاصل ہوجائے گا، اور گاہے گاہے اس کی پرانی فائلوں کو کھول کھول کر اسے رسوا نہیں کیا جائے گا۔

توبہ کرنے والوں کو رسوا کرنے کی دو شکلیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ کسی شخص سے گناہ سرزد ہو، وہ لوگوں کے علم میں آئے، بعد میں وہ توبہ کرلے، اور نیکی کی زندگی اختیار کرلے، پھر بھی لوگ اسے عزت نہ دیں اور اس کے پرانے گناہ کا حوالہ دیتے رہیں۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے ماضی میں کوئی گناہ ہوا ہو، جو کسی کے علم میں نہ ہو، اس دوران وہ توبہ کرکے نیک بن جائے، مگر بعد میں کبھی اس کے گناہ کا چرچا ہوجائے اور لوگ اس کی توبہ اور راست روی کو فراموش کرکے اس پرانے گناہ کی بنیاد پر ذلیل کرنے لگ جائیں۔ توبہ کرنے والوں کو رسوا کرنا توبہ کے عظیم کردار کو مجروح کرتا ہے، اور یہ نہ صرف فرد بلکہ پورے انسانی سماج کے حق میں بہتر نہیں ہے۔

گناہ کے بعد توبہ کرکے صالحیت کا راستہ اختیار کرنے والوں کو گھر، خاندان اور سماج میں، ادارے اور تنظیم میں عزت کا مقام دیا جائے یہ ضروری تو ہے، مگر اس کے لیے کشادہ ظرفی درکار ہوتی ہے، اور بندوں کا ظرف کشادہ ہوسکتا ہے، اگر وہ قرآن مجید میں یہ دیکھ لیں کہ کیسے کیسے گناہ گاروں کو اللہ کس قدر اپنے قریب کرلیتا ہے، جب وہ توبہ کرلیتے ہیں، اور نیک بن جاتے ہیں۔

قرآن میں گناہوں کے بعد توبہ کا دل نواز ذکر

قرآن مجید کا ایک خاص انداز یہ ہے کہ وہ کسی سنگین جرم کا تذکرہ کرتا ہے، اس کی سنگینی کو بہت شدت کے ساتھ بتاتا ہے، دنیا اور آخرت میں اس کی شدید سزاؤں کا ذکر کرتا ہے، اس بیان کے دوران اللہ کا شدید غضب اس طرح ظاہر ہورہا ہوتا ہے کہ گویا اس کے غضب کی تاب نہ لاکر ابھی زمین اور آسمان پھٹ پڑیں گے۔

لیکن اس کے فوراً بعد ہی اللہ تعالی توبہ کا ذکر کرتا ہے، اور توبہ کرنے والوں کو اپنی مغفرت اور رحمت کا یقین دلاتا ہے۔ یہ اسلوب رحمت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے، کہ پورے وجود میں امید کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔

جرم کی سنگینی کا بیان، اللہ کے غضب کا بیان، اور پھر توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے کا بیان، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورے وجود کو جلا کر رکھ دینے والی خوف کی سخت دھوپ ہو اور اس کے بعد جلتے ہوئے وجود پر سکون بخش مندیل رکھ دینے والی امید کی ٹھنڈی چھاؤں آگئی ہو۔

قرآن مجید میں توبہ کو نہایت خطرناک گناہوں اور گھناؤنے جرائم کے بعد ذکر کیا گیا ہے، نیچے کچھ مثالیں ذکر کی جاتی ہیں، غور سے دیکھیں کہ یہ جرائم کتنے شدید ہیں، ان جرائم پر اللہ کی ناراضگی کتنی شدید ہے، ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے سزائیں کتنی شدید ہیں، اس کے باوجود اگر وہ توبہ کرلیں تو ایسے مجرموں کے لیے اللہ کی مغفرت اور رحمت کے دروازے کس طرح پورے پورے کھلے ہوئے ہیں۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَیدِیهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ (38) فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ یتُوبُ عَلَیهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ

(مرد چور اور عورت چور، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا وبینا ہے۔ پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہو جائے گی، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ المائدة: 39)

وَالَّذِینَ یرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (4) إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ

(اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ پکےفاسق ہیں۔ سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں کہ اللہ ضرور (اُن کے حق میں) غفور ورحیم ہے۔ النور:5)

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یقَتَّلُوا أَوْ یصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَیدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ ینْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْی فِی الدُّنْیا وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ۔ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَیهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ

(جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ ودو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے. مگر جو لوگ توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ المائدة: 33-34)

إِنَّ الَّذِینَ یكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَینَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَینَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتَابِ أُولَئِكَ یلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَیلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ۔ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَینُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَیهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیم۔

(جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہ نمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اُسے بیان کرنے لگیں، اُن کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔البقرة: 159، 160)

كَیفَ یهْدِی اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِیمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَینَاتُ وَاللَّهُ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ۔أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَیهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ ۔ خَالِدِینَ فِیهَا لَا یخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ ینْظَرُونَ ۔ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۔

(کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا. ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پھٹکار ہے. اِسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی. البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو اِس کے بعد توبہ کر کے اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔آل عمران: 86:89)

إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیرًا۔ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِینَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ وَسَوْفَ یؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِینَ أَجْرًا عَظِیمًا ۔

(یقین جانو کہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو اُن کا مدد گار نہ پاؤ گے. البتہ جو اُن میں سے تائب ہو جائیں او ر اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دیں، ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ النساء:145،146)

كَیفَ یكُونُ لِلْمُشْرِكِینَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِینَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ یحِبُّ الْمُتَّقِینَ ۔ كَیفَ وَإِنْ یظْهَرُوا عَلَیكُمْ لَا یرْقُبُوا فِیكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً یرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ۔ اشْتَرَوْا بِآیاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا یعْمَلُونَ۔لَا یرْقُبُونَ فِی مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ ۔ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِی الدِّینِ وَنُفَصِّلُ الْآیاتِ لِقَوْمٍ یعْلَمُونَ ۔

(اِن مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز اُن لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے. مگر اِن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں. انھوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کر لی پھر اللہ کے راستے میں سدراہ بن کر کھڑے ہو گئے بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے. کسی مومن کے معاملہ میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا اور زیادتی ہمیشہ انھی کی طرف سے ہوئی ہے. پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں۔ التوبة: 7–11)

وَالَّذِینَ لَا یدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا یقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یزْنُونَ وَمَنْ یفْعَلْ ذَلِكَ یلْقَ أَثَامًا۔ یضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یوْمَ الْقِیامَةِ وَیخْلُدْ فِیهِ مُهَانًا۔ إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ یبَدِّلُ اللَّهُ سَیئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفوراً رَحِیمًا۔

جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔ قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ الفرقان:68-70)

یہ کچھ مثالیں ہیں، اس کی کہ اللہ کی رحمت توبہ کرنے والوں کو کس طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ پورا قرآن مجید اس طرح کی بشارتوں کا اعلان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے پورے قرآن مجید میں کسی بھی چھوٹی یا بڑی غلطی کے سلسلے میں اپنی اصلاح کا صرف ایک ہی طریقہ بتایا ہے، اور وہ ہے توبہ۔

اور قرآن مجید میں کوئی ایک بھی ایسا جرم یا گناہ نہیں ملتا ہے جس پر توبہ کرنے والوں کے لیے توبہ کی قبولیت کا وعدہ نہ کیا گیا ہو۔

توبہ کا تصور قرآن مجید کا اعجاز

قرآن مجید کا جس پہلو سے مطالعہ کیا جائے، یہ یقین دل میں راسخ ہوتا ہے کہ قرآن اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے۔ قرآن مجید میں توبہ کا دروازہ اس قدر کشادہ ہے کہ ایک انسانی ذہن اتنے کشادہ دروازے کا تصور ہی نہیں کرسکتا ہے۔ قرآن مجید کا توبہ کا تصور مکمل طور پر قرآن مجید کے اصلاحی مشن سے ہم آہنگ ہے، اور اس سے صرف اصلاح کا کام لیا جاسکتا ہے، فرد اور سماج پر اس کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں پڑتا ہے۔ اس تصور کے ثمرات انسانوں کے لیے ہمیشہ مفید رہیں گے، نقصان دہ کبھی نہیں ہوسکتے۔ یہ تصور کسی جھوٹی امید اور بے بنیاد خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنے دیتا۔ یہ تصور دنیا سے فرار کے بجائے دنیا میں صالح بن کر رہنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ یہ تصور دنیا کو جرائم اور مظالم سے پاک کرنے کا زبردست امکان رکھتا ہے۔ یہ تصور دنیا کے حسن وجمال میں اضافہ کرنے اور اسے خیر اوربھلائی کا گہوارہ بنانے والا ہے۔ یہ تصور خوف اور امید کے درمیان بہت مناسب اور ثمر آفریں توازن رکھتا ہے۔ یہ تصور رب اور بندوں کے بیچ کسی کو حائل نہیں ہونے دیتا ہے۔ یہ تصور ہر سفارش سے بے نیاز صرف دل کے اخلاص پر قائم ہے۔ اس تصور میں دل کو تسلی ملتی ہے اور عقل کو اطمینان ملتا ہے۔ یہ تصور اتنا ٹھوس اور دو ٹوک ہے کہ اسے کسی مذہبی اجارہ داری یا دنیوی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن مجید کا توبہ کا تصور رب رحیم کی رحمت اور دین حق کی صداقت کا آئینہ دار ہے۔■