مضبوط خاندان مضبوط سماج

محی الدین غازی

انسانی سماج کے سب سے زیادہ حسین اور دل کش نظارے خاندان کے دائرے میں نظر آتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کی محبت، ماں باپ کی شفقت، چھوٹوں سے پیار، بڑوں کا احترام، بیماروں کی تیمار داری، معذوروں کی مدد، بوڑھوں کو سہارا، ایک دوسرے کے کام آنا، سب کو اپنا سمجھنا، خوشی اور غم کے مواقع پر جمع ہوجانا۔ غرض خاندان ایک چھوٹا سماج ہوتا ہے، اور یہ چھوٹا سماج جتنا زیادہ مضبوط اور خوب صورت ہوتا ہے، بڑے سماج کے لیے اتنا ہی زیادہ مفید اور مددگار ہوتا ہے۔
اللہ کے دین کی برکتوں کا سب سے کم محنت سے سب زیادہ ظہور خاندان کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے اقامت دین کی راہ کے بہت سے تجربات اور مشاہدات ممکن ہوجاتے ہیں۔ گھر بھی ایک درجے کی ریاست ہوتی ہے اور اسے مثالی اسلامی ریاست بنانا اقامت دین کے سفر کی ایک اہم منزل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جہاں ریاست کے امام کو اس کی ذمے داری یاد دلائی وہیں گھر کے افراد کو بھی ان کی ذمے داریاں یاد دلائیں۔ آپ نے فرمایا:
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْؤولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا۔
(تم سب ذمے دار ہو اور تم سب اپنی رعایا کے سلسلے میں جواب دہ ہو۔ امام ذمے دار ہے اور اپنی رعایا کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔ اور مرد اپنے اہل خانہ میں ذمے دار ہے اور وہ اپنی رعایا کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں ذمے دار ہے اور وہ اپنی رعایا کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندان میں مرد کی حیثیت بھی ذمے دار کی ہے اور عورت کی حیثیت بھی ذمے دار کی ہے، اور ان کا گھر ان کے لیے رعایا کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہتر خاندان کی تشکیل کی ذمے داری اور جواب دہی دونوں پر عائد ہوتی ہے۔
مضبوط خاندان کی ٹھوس بنیادیں
دور جدید میں جب کہ ہر چیز کی مادی توجیہ کی جاتی ہے، یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خاندان محض ایک سماجی رواج ہے جو وقتی ضرورتوں کے تحت وجود میں آیا اور جب وہ ضرورت باقی نہیں رہے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی انسان کے ارتقا کا تقاضا ہے۔ اسلام اس تصور کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا ہے۔ وہ خاندان کو نوع انسانی کا ایک ناگزیر عنصر مانتا ہے، جس سے علیحدگی اور دوری نوع انسانی کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ ہے۔
اسلام میں خاندان کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور اس کی مضبوطی کے لیے ٹھوس اور گہری بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔
رشتے ناطے امتحان ہیں
اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان کی زندگی ایک امتحان ہے اور رشتے اس امتحان کا ایک اہم حصہ ہیں۔ امتحان کی نفسیاتی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں آسان سوالوں کو انسان خوش دلی سے حل کرتا ہے اور مشکل سوالوں کو درست طریقے سے حل کرنے کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کردیتا ہے۔ رشتوں کو امتحان مان لینے کا نفسیاتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ہر رشتے کو خوبی کے ساتھ نباہ لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ اس کے لیے اسے کتنی ہی مشقت اٹھانی پڑے۔ دشوار صفت رشتے نباہ لینے میں اسے کامیابی ملتی ہے تو وہ اسی طرح خوش ہوتا ہے جس طرح ایک مشکل سوال حل کرلینے پر خوشی حاصل ہوتی ہے۔
امتحان کا تصور رشتوں کے ساتھ تعامل کی کیفیت کو بالکل بدل دیتا ہے۔ پھر انسان مسائل سامنے آنے پر رشتوں سے فرار نہیں اختیار کرتا ہے بلکہ رشتوں کو نباہنے کی ذمہ داری کو قبول کرتا ہے۔
رشتے انسان کا امتیاز ہیں
خاندان اور رشتوں کا جو نظام انسان کو حاصل ہے وہ صرف انسانوں کا امتیاز ہے، اور انسانی شرف کی ایک علامت ہے۔ رشتوں کا یہ نظام حالات و ضروریات کے تحت انسانوں کی اپنی اختراع نہیں ہے، بلکہ زندگی کے دیگر امتیازی انتظامات کی طرح یہ خاص انسانی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا امتیازی انتظام ہے جو انسانوں کو خصوصی طور پر عطا کیا گیا ہے۔ انسانی ضرورتوں کی تکمیل غول اور جھنڈ سے پوری نہیں ہوسکتی ہے، اسے قدم قدم پر رشتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
تمام رشتے اللہ نے بنائے ہیں
رشتے اللہ نے بنائے ہیں، اس لیے انھیں خاص تقدس اور احترام حاصل ہے۔ ان کو توڑنا یا ان کی بے حرمتی کرنا اللہ کے حدود سے تجاوز کرنا اور اللہ کی نافرمانی کرنا ہے۔ اسی لیے اللہ کی ناراضگی کا خوف رشتوں کا سب سے بڑا محافظ ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو زمین میں خلافت کا جو بڑا مقام عطا کیا ہے، اس کے لیے خاندان اور رشتوں کے اس نظام کا ہونا لازمی تھا۔ ان رشتوں کے ساتھ صحیح تعامل کرتے ہوئے انسان خلافت کی ذمہ داری کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشتوں کو نباہنے کا فطری جذبہ ہونے کے باوجود اللہ تعالی اس کی بار بار تاکید بھی کرتا ہے۔
تمام رشتے محبت واحترام کے رشتے ہیں
جب تمام رشتوں کا ایک سرا اللہ سے ملتا ہے، اس معنی میں کہ اللہ رشتوں کا خالق ہے، اور اس نے رشتوں کی پاس داری کا حکم دیا ہے، تو پھر بلا تفریق تمام رشتوں کی پاس داری ضروری قرار پاتی ہے۔ رشتوں میں مراتب کا فرق تو ہوسکتا ہے، لیکن رشتوں میں ایسی تفریق جائز نہیں ہے کہ کچھ رشتوں کو باقی رکھا جائے اور کچھ کو ختم کردیا جائے۔ غرض خرابی انسانوں کے اندر تو ہوسکتی ہے، لیکن خود رشتوں میں کوئی ایسی خرابی نہیں پائی جاتی کہ کسی رشتے کو نفرت کا رشتہ قرار دیا جائے۔
رشتے انسان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہیں
یہ اللہ کی حکمتِ تخلیق ہے، اور انسان پر اس کا بہت بڑا کرم ہے کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو دو بڑے خاندانوں کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ پیدا ہوتے ہی اسے دو بڑے خاندانوں سے تعلق عطا ہوجاتا ہے۔ یہ پیدا ہونے والے انسان پر اللہ کی خصوصی عنایت ہوتی ہے۔ جو لوگ خاندان کے ادارے سے باہر، شادی کے بغیر، ناجائز طریقے سے بچے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں وہ اس پیدا ہونے والے بچے پر اس پہلو سے بھی ظلم کرتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ اپنے خاندان سے کٹے رہتے ہیں اور پیدا ہونے والے بچوں کو دو خاندانوں کی خوش گوار فضا نہیں مہیا کرتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو ان کے پیدائشی اور بنیادی حق سے محروم کردیتے ہیں۔ ہر بچے کا حق ہے کہ اسے نانیہال اور دادیہال دونوں حاصل ہوں، اور والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچے کو اس حق سے محروم نہ ہونے دیں۔
رشتے انسان کی بھلائی کے جذبے کو تکمیل کے مواقع فراہم کرتے ہیں
انسان کے اندرون کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب وہ بیرونی دنیا سے جڑے ہوئے اپنے اندر موجود متنوع جذبوں کی تکمیل کرتا ہے۔ خاندان کی دنیا میں ایک انسان کو اپنے بہت سے جذبوں کی تکمیل کا موقع حاصل ہوتا ہے، اور یہ تمام مواقع اس کے ارد گرد بہت قریب ہوتے ہیں۔ بڑے بوڑھوں کے ساتھ تعلق، چھوٹے بچوں کے ساتھ تعلق، ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ تعلق، شفقت کا جذبہ، خدمت کا جذبہ، محبت کا جذبہ، غم بانٹنے اور خوشی میں شریک کرنے کا جذبہ، دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش ہونے کا خوب صورت احساس، دوسروں کے دکھ کو دور کرنے کا ناقابل بیان لطف۔ غرض نیکی اور بھلائی کے بہت سے جذبے جو انسانوں کی خصوصیت ہیں اپنی تکمیل کا سامان خاندان کی دنیا میں آسانی سے پالیتے ہیں۔
رشتے تکافل وتعاون کی بڑی ضرورت کو پورا کرتے ہیں
تکافل انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے، تکافل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ آپس میں معاہدہ کرلے کہ اس گروہ میں کسی کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو سب مل کر اس کے نقصان کی تلافی کردیں گے۔ جتنے لوگ کسی ایک تکافل کے معاہدے میں شریک ہوتے ہیں وہ سب ایک دوسرے کی حسب معاہدہ کفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اس نظام کی افادیت سے انکار نہیں ہے، تاہم مادہ پرست دنیا میں تکافل کا یہ نظام تجارت کاری کے تحت آجاتا ہے، اورعام طور سے استحصال کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو خاندان کی صورت میں تکافل کا فطری اور جذبات سے بھرپور نظام عطا کیا ہے۔ مضبوط خاندان میں حادثات اور حالات کا شکار ہونے والا ہر فرد اپنی طرف بہت سے ہاتھوں کو بڑھتا ہوا پاتا ہے۔ مضبوط خاندان میں رہنے والا فرد سکون اور اطمینان کی زندگی گزارتا ہے، اور اس کے دل کو بے شمار اندیشے خوف زدہ اور پریشان نہیں رکھتے ہیں۔
رشتے سماج میں انسان کی حصے داری کو یقینی بناتے ہیں۔
خاندان کے افراد کی طرف کفالت کا ہاتھ بڑھانے والے ایک طرح سے سماجی کفالت میں حصہ لیتے ہیں۔ اسے اس طرح سمجھا جائے کہ اگر کسی خاندان میں ایک یتیم کی کفالت کا انتظام نہیں ہوپاتا ہے تو وہ یتیم پورے معاشرے پر بوجھ ہوتا ہے۔ جب کہ اگر یتیم کی کفالت کا خاندان کے اندر ہی انتظام ہوجائے تو معاشرے پر یہ بوجھ نہیں پڑتا ہے۔ غرض یہ کہ اگر ہر خاندان کے افراد مل جل کر اپنے مسائل کو خود حل کرنے لگیں تو سماج میں مسائل کی شرح بہت کم رہ جائے گی۔ اسی طرح اگر اعلی اقدار کی تخم ریزی اور ان کے پودوں کی سیرابی خاندان کے اندر ہی ہوتی رہے تو ہر خاندان معاشرے کے لیے باعث خیر و رحمت بن جائے۔
رشتے انسان کو خوشی اور غم بانٹنے کا پلیٹ فارم دیتے ہیں
انسان تنہا خوشی نہیں مناسکتا ہے، اسے خوشی منانے کے لیے انسانوں کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے۔ انسان تنہا غم بھی نہیں سہار سکتا ہے، غم سہارنے کے لیے غم کو بانٹنے والے درکار ہوتے ہیں۔ خاندان مل جل کر خوشی منانے اور مل جل کر غم بانٹنے کے لیے ایک فطری پلیٹ فارم دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے زندگی کی صورت گری ایسی کی ہے کہ اس میں بوجھ بھی بہت ہیں اور خوشیاں بھی بہت ہیں۔ زندگی کا بوجھ تنہا اٹھانا ممکن نہیں ہوتا ہے، زندگی کا سکھ بھی تنہا حاصل کرلینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ مضبوط خاندان اسے یقینی بناتا ہے کہ انسان زندگی کا بوجھ بھی آسانی سے اٹھالے اور زندگی کے سکھ بھی حاصل کرسکے۔
مضبوط خاندان کے خد و خال
خاندان کو مضبوط بنانے کے لیے عقل کے تقاضے بھی بھرپور رہ نمائی کرتے ہیں، تاہم دینی رہ نمائی ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے طاقت ور محرک ہوتی ہے۔ یہ دینی محرک انسان کو مشکل سے مشکل حالات میں مضبوط موقف اختیار کرنے پر آمادہ رکھتا ہے۔ عقل کے سامنے دنیا کی سعادت ہوتی ہے، جب کہ دین دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ صرف عقل کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت خواہشات اور حادثات کا صدمہ برداشت نہیں کرپاتی ہے۔ دین کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت بہت ٹھوس اور مستحکم ہوتی ہے، ہر جھٹکے کو برداشت کرلیتی ہے۔ غرض مضبوط خاندان کی تشکیل عقل کا تقاضا بھی ہے اور دین کا تقاضا بھی ہے۔ عقل بھی رہ نمائی کرتی ہے اور دین بھی رہ نمائی کرتا ہے۔ مومن کی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہ دونوں سے فیض اٹھاتا ہے۔
مضبوط خاندان میں اعلی اصولوں کی پاس داری ہوتی ہے
اجتماعی معاملات میں عدل اسلام کا سب سے اہم اصول ہے، اس اصول کو برتنے میں سب لوگ شامل ہوجائیں تو خاندان مضبوط ہوجاتا ہے۔ خاندان کے تمام افراد کے درمیان عدل کیا جائے، مردوں اور عورتوں میں یا بیٹیوں اور بہوؤں یا دیگر افراد کے درمیان ایسا فرق جو ظلم کی حد تک پہنچ جائے اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے اور خاندان کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ عدل ہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ خاندان کے مشترک فیصلے مشاورت اور باہمی رضامندی سے ہوں۔ اجتماعی زندگی میں من مانی کرنے کا رویہ ایک طرح کا ظلم ہوتا ہے اور بہت دنوں تک رشتوں کو برقرار نہیں رہنے دیتا ہے۔ غرض خاندان کا اعلی اقدار اور اصولوں سے رشتہ جتنا مضبوط رہے گا خاندان کی کڑیاں اسی قدر مستحکم رہیں گی۔
مضبوط خاندان میں لطیف جذبات کی رعایت کی جاتی ہے
جذبات کو نازیبا الفاظ بھی ٹھیس پہنچاتے ہیں اور ناروا خاموشی بھی۔ بڑی باتوں کا جتنا اثر جذبات پر پڑتا ہے کچھ اتنا ہی اثر چھوٹی باتوں کا بھی پڑتا ہے۔
جذبات ہر انسان کے ساتھ ہوتے ہیں اور انسان کی کم زوری یہ ہے کہ اسے صرف اپنے جذبات عزیز ہوتے ہیں۔ رشتوں کی کم زوری کا بڑا سبب جذبات کی یہ انانیت ہے۔ جب لوگ اپنے جذبات کے ساتھ دوسروں کے جذبات کا بھی خیال رکھتے ہیں تو رشتے بے انتہا مضبوط ہوجاتے ہیں۔
مضبوط خاندان میں سب کی کوشش رشتوں کو بچانے کی ہوتی ہے
دو افراد میں تلخی ہوجائے اور باقی لوگ اس تلخی کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو تلخیوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ رشتوں میں خرابی اس وقت بڑھتی ہے جب دوسرے لوگ اسے بڑھانے میں حصہ لیتے ہیں۔
تلخیوں کو بڑھانے اور رشتوں کے خرمن میں چنگاریوں سے شعلے بھڑکانے کا شوق بہت خراب ہوتا ہے۔
مضبوط خاندان میں حسن اخلاق اور سمجھ داری کی حکومت ہوتی ہے
خاندان ایک ایسی اجتماعیت ہے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ تعلق و تعامل اور دوسرے کے رویے پر بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے۔ حسن اخلاق اور سمجھ داری ہر اجتماعیت کے لیے ضروری ہوتی ہے، لیکن خاندان کی اجتماعیت تو ان دونوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتی ہے۔
خاندان کے تقریبا تمام ہی مسائل کی پشت پر یا تو کسی کی ناسمجھی کارفرما ہوتی ہے یا کسی کی اخلاقی پستی ہوتی ہے۔ ناسمجھی کا علاج سمجھ داری سے ہوتا ہے اور اخلاقی پستی کا مداوا اخلاقی بلندی سے ہوتا ہے۔ خاندان کو مضبوط بنانے کے لیے سمجھ داری اور اخلاق کی عام سطح کو بلند کرنے کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے۔
مضبوط خاندان میں رخنوں کو بھرنے کا انتظام ہوتا ہے
رخنے تو ہر خاندان میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن مضبوط خاندان میں انھیں بڑھنے نہیں دیا جاتا ہے بلکہ انھیں بھرنے کے لیے بھی لوگ آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ کوئی فرد بیماری کی وجہ سے اپنی ذمے داری ادا نہیں کرپاتا صحت مند لوگ اس کی اس کمی کو پورا کردیتے ہیں، نادار کی طرف سے ہونے والی کوتاہی کی تلافی مال دار کردیتے ہیں، ناسمجھ کی طرف سے ہونے والی غلطیوں کا مداوا سمجھ دار کردیتے ہیں۔ بد اخلاق کی طرف سے ہونے والی بدتمیزی کو اعلی اخلاق والے ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس کے لیے احسان کی صفت مطلوب ہوتی ہے۔ اسلام اس صفت کی بہت زیادہ ہمت افزائی کرتا ہے۔
مضبوط خاندان میں ایجابی اپروچ ہوتی ہے
منفی سوچ خاندان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔ مثبت سوچ اور ایجابی اپروچ سے خاندان کی فضا خوش گوار اور اس کی دیواریں پائیدار رہتی ہیں۔ شوہر اور بیوی سے لے کر بڑے خاندان تک بے شمار مسائل ایجابی سوچ کے نتیجے میں یا تو پیدا ہی نہیں ہوتے ہیں یا شروع ہی میں ختم ہوجاتے ہیں۔ علیحدہ خاندان اور مشترک خاندان کی بحث ہو، پرانے رواجوں اور نئے فیشنوں کے بیچ ٹکراؤ ہو، کاموں کی تقسیم اور مراتب کے فرق کا مسئلہ ہو، مزاجوں اور طبیعتوں میں میل نہ ہوپانے کی دشواری ہو، غرض ایسی بہت سی الجھنیں مثبت سوچ اور ایجابی اپروچ کے ذریعے خوبی سے حل کی جاسکتی ہیں۔
خاندان کا سررشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ
یوں تو خاندان بہت سے رشتوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے، لیکن خاندان کا مرکزی رشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ ہوتا ہے، اسی رشتے سے پھر باقی تمام رشتے وجود میں آتے ہیں۔ یہ رشتہ انسان خود قائم کرتا ہے اور اسے ختم کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ رشتہ قائم ہوتا ہے تو دو بڑے خاندانوں کے بیچ قربت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے تو بہت سے رشتے موتی کے دانوں کی طرح دور دور بکھرجاتے ہیں۔ انسانی زندگی کا اور انسانی خاندانوں کا سفر اسی رشتے کی بدولت جاری وساری ہے۔ اگر خاندان کے تمام لوگ اپنی توجہ اس رشتے کو محفوظ اور مضبوط بنانے پر مرکوز رکھیں تو پورے خاندان میں مضبوطی آتی ہے۔
دورِ جدید میں یوں تو پورے خاندان کا ادارہ شدید خطروں سے دوچار ہے، لیکن سب سے زیادہ خطرہ شوہر اور بیوی کے رشتے کو درپیش ہے۔ پہلے ساس اور بہو کے جھگڑے اور مشترکہ خاندان کے مسائل کا چرچا زیادہ ہوتا تھا، لیکن اب تو سب سے بڑا مسئلہ خود شوہر اور بیوی کے باہمی تعلقات کا بنا ہوا ہے۔ پہلے جہیز وغیرہ کی تباہ کاریاں زیادہ سننے کو ملتی تھیں مگر اب شوہر اور بیوی کے بیچ تناؤ خاندانوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
بڑھو اسلام کی طرف
دکھوں کے مارے انسان کو خاندان کے آغوش کی جتنی ضرورت پہلے تھی اس سے کہیں زیادہ آج ہے۔
خاندان میں در آئی خرابیوں کی اصلاح ہوتی رہے، چاہے وہ کتنی ہی پرانی ہوں۔ اس کے اندر سے ظلم اور گھٹن کے اسباب کو دور کیا جائے، چاہے ان اسباب کو کتنا ہی تقدس ملا ہوا ہو۔ خاندان کے اندر اعلی قدروں کو فروغ دیا جائے۔ یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے۔ تاہم کسی بھی حوالے سے خاندان سے بیزاری درست نہیں ہے۔ یہ جائے پناہ سے وہ راہ فرار ہے جس کے آگے کوئی جائے پناہ نہیں۔
آج انسانیت کو بہت بڑا خطرہ نئی نسل میں بڑھتی ہوئی خاندان سے بیگانگی اور شادی کے رشتے سے بیزاری سے درپیش ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے دین اسلام کی تعلیمات اور اللہ کی دی ہوئی عقل کی تجلیات کو ساتھ لے کر انسانیت کو اس خطرے سے بچایا جاسکتا ہے۔