مذہب پرسیاست: انسانی حقوق اور جمہوریت پر حمل

مظلوم طبقات متحد ہوکر ظلم و نا انصافی کے خلاف لڑائی کریں

ابھے کمار، دلی

 

انسانی حقوق کے جہدکار پروفیسر رام پنیانی اور ڈاکٹر جان دیال سے بات چیت
نامور مصنف اور انسانی حقوق کے سرگرم جہد کار پروفیسر رام پنیانی اور ڈاکٹر جان دیال نے بھارت کے محکوم طبقات بشمول اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوتوا فرقہ پرستی کا مقابلہ سیکولر طاقتوں کو مضبوط بنا کر ہی ہو گا۔ اس لیے ملک کی اقلیتوں اور دیگر محکوم طبقات کو ساتھ مل کرفرقہ پرستی کے خلاف اپنی لڑائی کو آگے تک لے جانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں رام پنیانی اور جان دیال نے یومِ انسانی حقوق کے موقع پر راقم الحروف سے طویل گفتگو کی۔ انسانی حقوق کو تاریخی پس منظر میں رکھتے ہوئے پروفیسر رام پنیانی نے کہا کہ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے متعلق باتیں دوسری عالمی جنگ کے بعد کرنی شروع کی تھیں اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی میں ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا۔ اس تشدد کے بعد پوری دنیا میں لوگوں کے اندر انسانی حقوق کے بارے میں بیداری پیدا ہوئی۔ جرمنی میں جو کچھ بھی ہوا اسے دیکھ کر لوگ اتنے غم زدہ تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح سے پھر کسی کا خون بہایا جائے۔ اس طرح انسانی حقوق کا تصور جو ہمارے سامنے آیا اس سب کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ ایسے انسانیت سوز واقعات دوبارہ رونما نہ ہونے پائیں۔ اس لیے جینے کے حقوق عالمی طور پر تسلیم کیے گئے، جن کو کسی بھی حالت میں منسوخ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جہاں ایک طرف ان واقعات کو پروفیسر رام پنیانی نے مثبت قدم بتلایا وہیں ان کو اس بات کا بھی دُکھ ہے کہ دنیا میں جو رجحانات دیکھنے میں آرہے ہیں وہ جمہوریت کی مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔ پروفیسر پنیانی نے کہا کہ ’’آج دنیا کے کئی ملکوں میں پیچھے کی طرف چلنے کا عمل جاری ہے۔ خاص کر اپنے ملک میں پیچھے چلنے والی بات بہت مضبوط ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ۱۹۵۰ سے ۱۹۸۰ تک کا جو سفر تھا جس کو ملک نے طےکیا، وہ جمہوریت کی سمت میں ایک چھوٹا سا قدم تھا۔ اس کے بعد سے ملک میں جو چل رہا ہے اس کے نتیجے میں جذباتی اشوز، دھرم کی سیاست، رتھ یاترا، گائے، بیف، لَو جہاد جیسے واقعات سامنے آ رہے ہیں، وہ ملک کو جمہوریت سے پیچھے کی طرف لے جا رہے ہیں‘‘۔
انسانی حقوق کے دیگر بڑے جہد کار اور تجربہ کار صحافی جان دیال نے بھی موجودہ صورت حال پر گہری فکر کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج کے زمانے میں بات کرنے کا موقع مل جائے تو بہت غنیمت ہے۔ سب جگہ خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ آدمی کی زبان کاٹ دی گئی ہے، ہونٹ سی دیے گئے ہیں، اخبار خرید لیے گیے ہیں، ٹیلیویژن غلام بن چکے ہیں، سوشل میڈیا پر پابندی کے پہرے ہیں‘‘۔
جان دیال نے اس بات پر بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا کہ ایک محکوم طبقے کو دوسرے محکوم طبقے کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اوڈیشا میں دلتوں کو آدی واسیوں کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے جبکہ اتر پردیش میں دلتوں کو مسلمانوں کے مد مقابل لایا جا رہا ہے۔ ۱۹۸۴ کے دوران بھی یہ دیکھا گیا کہ کس طرح دلتوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اس لیے دلتوں کو یہ بتلانا ہوگا کہ جدید دور میں ایک نیا ’منو کا راج‘ آیا ہے جس کی پشت پر بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں دلتوں کے حقوق پر زبردست حملہ ہوا ہے۔
آدی واسیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جان دیال نے کہا کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جل، جنگل اور زمین کو لُٹتے ہویے دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان استحصال کے خلاف بیداری آ سکتی ہے۔ مسلم اور عیسائی طبقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سسٹم ان کے خلاف اس قدر نا انصافی برت رہا ہے کہ جن کے اوپر حملے ہو رہے ہیں ان ہی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ یعنی جو لوگ مجرموں کے نشانے پر ہیں ان کو ہی مجرم بنایا جا رہا ہے۔ جان دیال نے کہا کہ ”حالت آج اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ عیسائی اپنے ہی گھر میں دعا نہیں مانگ پا رہا ہے‘‘۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اس ظلم و نا انصافی کا مقابلہ مل کر کیا جا سکتا ہے۔ تمام محکوم طاقتوں کو چاہیے کہ وہ سیکولر پلیٹ فارم پر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی کا مقابلہ کوئی اقلیتی طبقہ اپنے خود کے دم پر نہیں کر سکتا ہے۔ یاد رہےکہ ہر سال ۱۰ دسمبر کو یومِ انسانی حقوق منایا جاتا ہے۔ اس دن سال ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے متعلق ایک قرارداد اپنائی تھی جس کو یو ڈی ایچ آر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یو ڈی ایچ آرکو ’’انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کہا جاتا ہے۔ یو ڈی ایچ آر میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم سب یکساں حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو امتیازات سے آزادی کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح لوگوں کو جینے کا حق ہے، انہیں آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق بھی حاصل ہے۔ تبھی تو کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا نہ ہی کسی انسان کے ساتھ اذیت ناک اور ذلت آمیز سلوک کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی عوام کو قانونی تشخص کا بھی حق ہے۔ سب لوگ قانون کی نظروں میں برابر ہیں۔ اپنے حقوق پر حملہ ہونے کی صورت میں ہر انسان موثر قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے۔ اسی طرح عوام کو ناجائز قید یا جلا وطنی سے آزادی کا بھی حق حاصل ہے۔ یو ڈی ایچ آر میں یہ بھی کہا گیا کہ سارے انسانوں کو بنیادی حقوق ملے ہوئے ہیں جن سے انہیں کبھی بھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں مساوات کی ہی بات کہی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سب انسان برابر ہیں ان کے درمیان نسل، رنگ، صنف، قوم یا دیگر چیزوں کی بنیاد پر تعصب نہیں برتا جا سکتا ہے۔ تبھی تو دنیا کے جتنے بھی جمہوری ممالک ہیں وہاں ۱۰ دسمبر کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کا آئین بھی انسانی حقوق کی بات کہتا ہے۔ آئین نے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ نسل، ذات، برادری، جنس، زبان، مذہب وغیرہ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ الغرض، بھارت میں تمام شہریوں کو یکساں بنیادی حقوق دیے گئے ہیں جن کو کسی بھی صورت میں غصب نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے آئین کی تمہید یہ کہتی ہے کہ بھارت میں سب کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف دیا گیا ہے۔ آزادی خیال، اظہارِ عقیدہ اور عبادت کے علاوہ مساوات بھی دیے گئے ہیں۔
مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اچھا قانون ہونے کے باوجود ملک میں لوگوں کو انصاف کیوں نہیں مل رہا ہے؟ ملک کی اقلیت اور دیگر محروم طبقات اپنے آپ کو غیر محفوظ کیوں محسوس کر رہے ہیں؟ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ اکثر اوقات ان کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں۔ ملک کی حکم راں جماعت ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ تو دیتی ہے مگر جب پالیسی بنانی ہوتی ہے تو وہ اعلیٰ ذات اور بڑے سرمایہ داروں کے لیے کام کرتے ہیں۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ اقلیتوں کے جذبات اور ان کے مسائل کو سننا تو دور کی بات ہے الٹا ہر روز ان کے اوپر حملے ہو رہے ہیں۔ پوری سیاست مذہب کے میدان میں کھیلی جا رہی ہے۔ اکثریت جماعت کے خلاف اقلیتی طبقات کو دشمن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کو ملک کی ترقی میں روڑا بتلایا جا رہا ہے۔ یہ رجحانات، جس کی طرف پروفیسر رام پنیانی اوپر اشارہ کر رہے تھے، اقوام متحدہ کی یو ڈی ایچ آئی اور بھارت کے آئین کی روح کے خلاف ہے۔
(ابھے کمارجے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔ اقلیتی حقوق اور سماجی انصاف ان کے
خاص موضوعات ہیں۔)
[email protected]

ہر سال ۱۰ دسمبر کو یوم انسانی حقوق منایا جاتا ہے۔ اس دن سال ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق سے متعلق ایک قرار داد اپنائی تھی، جس کو یو ڈی ایچ آر کے نام سےجانا جاتا ہے۔ یوڈی ایچ آر کو ’’انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘ کہا جاتا ہے۔ یو ڈی ایچ آر میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم سب یکساں حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور دنیا کے تمام لوگوں کو امتیازات سے آزادی کا حق حاصل ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020