محلہ لائبریری،کم عمرلڑکی کا بڑا کارنامہ

کتابوں کی شوقین مریم جمیلہ سب کے لیے مثال بن گئی

زینت اختر

 

’میں نے اپنے ابو سے کہا محلہ کے بچے اپنا زیادہ تر وقت کھیل کود اور دوسری تفریحات میں ضائع کرتے ہیں۔ اگر یہ بچے کچھ وقت کتابیں پڑھ لیں تو ان میں سے کوئی ملالہ یوسف زئی، گریٹا تھنبرگ یا ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام (سابق صدرِ ہند جنہیں میزائل مین کہا جاتا ہے) بن سکتا ہے۔ ابو نے میری یہ خواہش پوری کردی اور مزید کچھ کتابیں لاکر دیں اس طرح یہ پہلی محلہ لائبریری وجود میں آئی‘ ۔ یہ الفاظ اس بچی ہیں کہ جو آج انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے ماحول میں بچوں میں کتب بینی کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
میں بات کر رہی ہوں صوبہ مہاراشٹر کے تاریخی، علمی وادبی شہر اورنگ آباد کی دس گیارہ سال کی مرزا مریم جمیلہ کی جو ششم جماعت کی ایک طالبہ ہے مگر اس کی سوچ اور دور بینی قابل ستائش ہے، جبکہ اس عمر کی بچیاں عموماً گڑیوں کے کھیل میں مشغول رہتی ہیں۔ یہ بچی نہ صرف خود کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ہم عمر بچوں کو بھی اسی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔
بچپن اور طالب علمی کے زمانے میں ہمیں اکثر یہ روز مرہ جملہ سننے کو ملا کرتا تھا ’یہ تو کتاب کا کیڑا ہے‘ لیکن آج یہ جملہ شاید ہی کانوں سے ٹکراتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی کے نتیجہ میں گھریلو تفریح کے نت نئے آلات وسامان دستیاب ہیں۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے بعد کلر ٹی وی اور اسمارٹ ٹی وی نے لوگوں کو تفریح کی دنیا میں الجھائے رکھا تھا کہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی آمد ہو گئی۔ اب ہر ہاتھ میں ایک اسمارٹ فون ہے جو ہر فن مولا کے مصداق ٹی وی بھی ہے گیمنگ کا کھلونا بھی ہے اور رابطہ کا ذریعہ یعنی سب سے کچھ۔ اس نے نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی مطالعہ اور اچھی اچھی کتابوں سے استفادہ کرنے کے شوق کو متاثر کر دیا ہے۔ بچے جو کل تک میدانوں میں گلی کوچوں میں کھیلتے کودتے نظر آتے تھے وہ اب یہاں سے بھی غائب نظر آنے لگے۔ ایسے ماحول میں کتب بینی کی روایت اور شوق کو زندہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔
کہتے ہیں ایک اچھی کتاب سو اچھے دوستوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اچھی اچھی کتابوں کے مطالعہ سے جو سکون وراحت ملتا ہے وہ کسی اور مادی چیز سے میسر نہیں ہے۔ یعنی یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہو گا کہ کتابوں کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اچھی کتابیں جہاں انسان کے باطنی جوہروں کو ابھارتی، اس کی علمی قابلیت اور صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہیں وہیں وہ روحانی بالیدگی کا بھی ذریعہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے پرانے وقتوں میں علم دوست اور صاحب خیر حضرات کتب خانے قائم کیا کرتے تھے۔ وہ اسے بہترین صدقہ جاریہ بھی سمجھتے تھے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج بھی بہار کے مولوی خدا بخش خاں کا تذکرہ ہوتا ہے جنہوں نے پٹنہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا تھا جو انہی کے نام (خدابخش لائبریری) سے موسوم ہے۔ جس کے ایک حصہ کو گرائے جانے کے خلاف بڑا احتجاج ہو رہا ہے۔
اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والی مریم جمیلہ بھی اس سلسلہ میں ایک چھوٹی سے کاوش کر رہی ہے۔ جو نہ صرف اپنے ہم عمر بچوں میں بلکہ بڑوں میں بھی مطالعہ کا شوق بیدار کرنے کا سبب بنی رہی ہے۔ ویسے مریم کو کتب بینی کا شوق ورثہ میں ملا ہے، اس کے والد مرزا عبدالقیوم ندوی کی شہر میں کتابوں کی ایک بڑی دکان ہے۔ وہ جب بھی بچوں کی کوئی نئی کتاب یا ماہنامہ رسالہ آتا وہ اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لیے دیتے تھے۔ اس طرح مریم میں ابتدا ہی سے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور عمر کے سا تھ ساتھ اس شوق میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ اپنے والد سے ملنے والے جیب خرچ کو بچا کر رکھتی اور جو کتابوں اور رسالے اسے ملے تھے اس نے ان سبھوں کو بھی جمع کر کے حفاظت سے رکھا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے والد سے فرمائش کی کہ وہ محلہ کی دیگر بچیوں کے لیے ایک لائبریری کھولنا چاہتی ہیں۔ چونکہ لاک ڈاون اور کووڈ کی وجہ سے اسکول بند ہیں۔ زیادہ تر بچے گلیوں اور کوچوں میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اس کے والد نے فوراً حامی بھرلی۔ اس کے والد مرزا عبدالقیوم خود بھی اسکولوں میں جا جا کر بچوں کے رسالے اور سبق آموز کہانیوں کی کتابیں تقسیم کیا کرتے ہیں اور بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کے لیے مختلف ذرائع بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر اورنگ آباد کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں پورے ملک میں اردو کے سب سے زیادہ رسالے اور میگزین فروخت ہوتے ہیں۔ خاص طور سے بچوں کے مشہور ماہنامے جیسے امنگ اور بچوں کی دنیا (این سی پی یو ایل سے اشاعت پذیر) کے ملک بھر میں سب سے زیادہ قارئین ہیں۔ ڈیجیٹل ایج کے باوجود شہر میں اب بھی علم وادب کا ماحول ہے۔
مریم نے فروری میں اپنے محلہ میں اس سال کے اوائل میں ایک لائبریری قائم کی جسے ملک کے سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام سے نام سے موسوم کیا گیا۔ مریم کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور وہ جب بھی اپنے ابو کی دکان پر جاتی تو کوئی نہ کوئی نئی کتاب پڑھنے کے لیئے لے آتی۔ گزشتہ 14 نومبر کو یوم اطفال کے موقع پر جب اس کے ابو نے 150 کتابیں بطور تحفہ دیں تو اس نے اپنے ابو سے کہا کہ وہ بچوں کے لیے ایک لائبریری کھولنا چاہتی ہے۔ لائبریری کے قیام کے بہت جلد مثبت اثرات نظر آنے لگے جو بچے گلیوں اور سڑکوں پر کھیلتے تھے وہ نہ صرف یہاں آکر مطالعہ کرنے لگے بلکہ کتابیں اپنے گھر بھی لے جانے لگے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں کتب بینی کا یہ سلسلہ تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور نو محلوں میں اس طرح کی لائبریریاں قائم ہو گئیں۔
کووڈ کی دوسری لہر کے سبب لائبریری کے قیام کا سلسلہ رک گیا ہے تاہم مریم کا عزم ہے کہ وہ پورے صوبہ مہاراشٹر میں 100 محلہ لائبریریاں قائم کرے گی۔ مریم کی اس چھوٹی سی کاوش نے دوسرے بچوں میں کتب بینی کے جذبہ اور شوق کو مہمیز کیا ہے۔ وہ بچوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہے۔ اس نے ایک ایسی نظیر قائم کی ہے جس سے دوسروں بچیوں کو بھی تحریک ملے گی جیسا کے خود شہر اورنگ آباد میں اس کے اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
***

مریم کی اس کاوش نے دوسرے بچوں میں کتب بینی کے جذبہ اور شوق کو مہمیز کیا ہے ۔ وہ بچوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہے۔ اس نے ایک ایسی نظیر قائم کی ہے جس سے دوسروں بچیوں کو بھی تحریک ملے گی جیسا کے خود اورنگ آباد شہر میں اس کے اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021