وبا کے دوران نوجوانوں کی انسانی خدمات۔ امیدکی ایک نئی کرن

خدمت خلق کی حوصلہ افزائی کے ساتھ دعوتی کام کا شعور بیدار کرنے کر ضرورت

ابونقیب

 

سلسلہ ہے کہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اس کورونا کی وبا کو اپنے پاوں پسارے ہوئے لیکن مسلم نوجوانوں کا انسانوں کی خدمت کا شوق ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہر دن کہیں نہ کہیں ہاسپٹلس کھولے جا رہے ہیں، کہیں آکسیجن سپلائی کی جارہی ہے تو کہیں دواوں کا انتظام کا جا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مرنے والوں کی آخری رسومات کی تکمیل کا کام اس قدر بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ جسے دیکھ کر سارا ملک حیران وششدر ہے۔ نہ صرف مسلمانوں کی مدد کی جا رہی بلکہ غیر مسلموں کی مدد کے لیے بھی یہ نوجوان تیار ہو رہے ہیں۔ اگر یہ کام مسلم نوجوان نہیں کرتے تو نہ جانے کتنی ندیاں لاشوں سے بھر جاتیں۔ وبا کی پہلی لہر میں مہاجر مزدوروں کو کھانا کھلانے کی بات ہو یا دوسری لہر میں مریضوں کے علاج ومعالجہ میں تعاون اور میتوں کو ٹھکانے لگانے کی بات ہو، مثالیں بے شمار ہیں مضمون ان کی شمولیت کی اجازت نہیں دیتا۔ نوجوانوں کی طرف سے یہ جذبہ انفرادی سطح پر، شہر اور محلے کی سطحوں پر اور ملک کی نامور تنظیموں کی طرف سے بھی سامنے آیا۔ اس کے علاوہ ایس آئی او اور یوتھ ونگ کے کام زیادہ جوش وجذبہ کے ساتھ انجام پا رہے ہیں۔ ایس آئی او نے میڈیکل ہیلپ سنٹر کے ذریعہ پورے ملک میں شاندار کام کیا ہے جو نیشنل میڈیا کے لیے بھی توجہ کا باعث رہا ہے۔ یہ واضح ہو رہا ہے کہ مسلم نوجوانوں میں خدمت خلق کا بے پناہ جذبہ اور جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ان قوتوں کو منظم کرنے اور ان کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے دو تین برسوں میں مہاراشٹر، کیرالا اور حیدر آباد میں آئے سیلابوں کے موقع پر یوتھ ونگ اور ایس آئی او کا کام قابل تعریف رہا ہے۔
انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے عمل کو ہرمذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے انسانیت کی خدمت کو بہترین اخلاق اور عظیم درجہ کی عبادت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ساری مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا اور فرمایا کہ وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے زیادہ مفید ہو۔ ان نوجوانوں کے سامنے اپنے اسلاف کی شاندار مثالیں ہیں۔ وقت کا رسول ایک بڑھیا کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ دشمن عورت جو اوپر کچرا ڈالتی تھی اس کی عیادت کے لیے وقت نکال رہا ہے۔ اپنے اپنے دور کے امراء المومنین کسی کی بکریوں کا دودھ دوہ رہے ہیں تو کوئی بے سہارا بڑھیا کے گھر جھاڑو لگا رہا ہے تو کوئی یتیم بچوں کے لیے اناج کی بوری اپنے پیٹھ پر لادے جا رہا ہے۔ کوئی مال سے لدے اپنے سارے اونٹ غریبوں میں تقسیم کر رہا ہے تو کوئی کنواں خرید کر عوام الناس کے لیے وقف کر رہا ہے۔ کوئی غلاموں کو آزاد کر رہا ہے تو کوئی مسکین کو کھانا کھلا رہا ہے اور یتیم کی کفالت کر رہا ہے۔ امن ہو یا جنگ ہر حال میں ہمارے اسلاف نے خدمت خلق کی بے مثال نظیریں پیش کی ہیں۔
خدمت خلق کیوں؟
یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگوں کے خدمت خلق کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں جیسے مختلف سیاسی پارٹیاں خدمت خلق کا کام اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لیے کرتی ہیں۔ بہت سے کارپوریٹ ہاوسز بھی آج خدمت خلق کے کام انجام دے رہے ہیں ان میں بیشتر کا مقصد سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کا گھناونا چہرہ چھپانے کی ایک کوشش ہوتا ہے۔ کارپوریٹ اداروں کو (Corporate Social Responsibility) کے معاہدے کی وجہ سے کچھ سماجی کام دکھانے پڑتے ہیں۔ وہ ایسے کاموں کے ذریعے ٹیکس بھی بچا لیتے ہیں۔ لیکن یہ کارپوریٹ انڈسٹریز ماحولیات کا جو ناقابل تلافی نقصان کر رہی ہے اس کے مقابلے میں ان کی یہ معمولی خدمت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعض لوگ خدمت کے کام نام ونمود کے لیے کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ خلوص اور درد کے ساتھ بھی یہ کام کرتے ہیں۔
موجودہ حالات میں مسلم نوجوانوں نے جس تڑپ اور جوش وجذبہ سے خدمت خلق کے کاموں کو انجام دیا ہے اسے ایک وژن دینے کی ضرورت ہے۔کورونا کی لہر ابھی تھمی نہیں ہے، مستقبل کے بارے میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں وہ بھیانک ہیں۔ خدا کرے کہ وہ سب جھوٹ ثابت ہوں۔ لیکن خدانخواستہ اگر اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو نوجوانوں کو دوبارہ منظم طریقے سے تیار رہنا ہو گا تاکہ پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے اس کام کو انجام دیا جا سکے۔اس وبا نے بہت سے معاشی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیا ہے۔ بہت سے لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں، بہت سوں کی معیشت کمزور ہوگئی ہے، بہت سے بچے یتیم اور بہت سی عورتیں بیوہ ہو گئی ہیں، بہت سے مرد اپنی بیویوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ مستقل بیماری کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان نوجوانوں کو ان مسائل کا سروے اور تجزیہ کرنا ہو گا اور اس کا مستقل حل ڈھونڈنا ہو گا۔ اب ملی جماعتوں اور ان کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی قوت کا صحیح استعمال کر کے ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔ ملت کے دانشور اور صاحب ثروت لوگ باہر آئیں اور اپنا مال اور صلاحیتیں اس راہ میں خرچ کریں اور خدمتِ انسانیت کا بہترین منصوبہ بنائیں۔ اس کا پہلا فائدہ تو خود ان کی قوم کو ہو گا۔ مسلمانوں کی غربت کا ازالہ، روزگار کی فراہمی، یتیموں و بے سہارا لوگوں کی امداد، غریب بچوں کی تعلیم وغیرہ ایسے سینکڑوں کام ہیں جو باقی ہیں۔مسلمانوں کے صاحبِ حیثیت لوگوں کے عطیات وزکوٰۃ کی رقم کی غیر مناسب طریقے سے تقسیم کو اب روکنا ہو گا۔ اب اس کا استعمال ملت کی خوشحالی اور ترقی کے لیے کرنا ہو گا۔ اب ضرورت ہے کہ ہر ریاست اور اس کے تمام بڑے شہروں میں فلاحی ادارے قائم ہوں۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں این جی اوز قائم کیے جائیں۔ پہلے سے قائم این جی اوز کے ساتھ تعاون اور اشتراک کی شکلیں نکالی جائیں۔ باشعور افراد کو یہ سوچنا ہو گا کہ حکومت کی اسکیموں سے ان نوجوانوں کو کس طرح جوڑا جائے۔اب ان نوجوانوں کے کاندھوں پر ملت کی اصلاح کا بوجھ بھی ڈالنا ہو گا۔ ان کے سامنے صحیح تصورِ دین کی وضاحت کرنی ہو گی۔ امت میں سے جہیز، خرچیلی شادیاں، تجارت میں بد دیانتی، بے حسی اور کاہلی جیسی بیماریوں کو نکالنے میں یہ نوجوان نمایاں رول ادا کر سکتے ہیں۔ اب ہماری تجارتوں کو فروغ دینا پڑے گا، مسجدوں کی آرائشوں سے زیادہ اسپتال، تعلیم اور روزگار کے سنٹرس قائم کرنے ہوں گے۔ ہمارے سارے شادی خانے یا تو روزگار فراہمی کے سنٹرس بن جائیں یا اسمال اسکیل انڈسٹری میں تبدیل ہو جائیں۔ یہ کام اگر نوجوان کرنا شروع کر دیں تو بہت ممکن ہے کہ حالات جلد تبدیل ہو جائیں۔اس کے علاوہ برادران وطن کی ان ہنگامی حالات میں مدد اور خدمت کے نتیجہ میں ان کے دل نرم ہوں گے۔ جو لوگ نفرت کا ماحول گرم رکھنے میں مصروف ہیں وہ بھی اس بات کے قائل ہوں گے کہ مسلم نوجوان قوم وملک کا ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کا اثاثہ ہیں۔ اس سے ملک کے باشندوں کے درمیان محبت اور اعتماد کی فضا بحال ہو گی۔
خدمت خلق کے اس عظیم الشان کام کے ساتھ ان نوجوانوں میں دعوتِ دین کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے غیر مسلموں کی لاشیں تو اٹھائیں لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی اس طرح مدد کے ساتھ ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات کا پیش کرنا کتنا ضروری ہے؟ اگر یہ کام نہ کیا جائے تو اس ملک میں ہمارا وجود ہی بے معنی ہو جائے گا۔ دعوتِ دین کا کام ہمارے اوپر فرض ہے اس سے غفلت اور لاپروائی ہمارے لیے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث ہے۔ خدمت خلق کے ذریعہ نہ صرف ہم دنیا میں لوگوں کا بھلا کر سکتے ہیں بلکہ اسلام کے آفاقی پیغام کو ان تک پہنچا کر ان کی آخرت بھی کامیاب کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے ذریعے انجام دیے گئے خدمت خلق کے ان کاموں کو یاد رکھا جائے گا اور اس کے بہتر نتائج بھی انشاء اللہ بہت جلد ہمارے سامنے آئیں گے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
***

ہمارے نوجوانوں نے غیر مسلموں کی لاشیں تو اٹھائیں لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی اس طرح مدد کے ساتھ ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات کا پیش کرنا کتنا ضروری ہے؟ اگر یہ کام نہ کیا جائے تو اس ملک میں ہمارا وجود ہی بے معنی ہو جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021