تــــذکیـــــــر

اقامت دین کا مفہوم اور تقاضہ

سیف اللہ ، راجستھان

 

قران مجید میں اللہ کا فرمان ہے:’’اللہ نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کی تاکید اس نے (نوح علیہ السلام)کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی ہےاور جس کی تاکید ہم نے ابراھیم، موسی اور عیسی (علیہم السلام) کو کی تھی کہ دین کی اقامت کرو اور اس میں متفرق نہ ہو‘‘۔ (سورہ الشوریٰ آیت 13)
یعنی انبیاء کی بعثت اور دین خداوندی کے نزول کا بنیادی منشا یہ رہا ہے کہ اللہ کے دین کی اقامت کی جائے۔
سورہ الکہف میں فرمایا گیا ہے:
’’تو ان دونوں نے اس (بستی) میں ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی تو انھوں نے اسے قائم کیا‘‘۔ (سورہ الکہف 77)
اس آیت میں دیوار کی ’’اقامت‘‘ کا مفہوم ہے،اسے گرنے سے بچالینا اور اسے کھڑا کردینا-
’’اور انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولواور تول میں کمی نہ کرو‘‘۔(سورہ الرحمان 9)
یہاں وزن کی ’’اقامت‘‘کا مطلب ہے ٹھیک ٹھیک تولنا-
سورہ المائدہ میں فرمایا گیا ہے:’’اور اگر وہ تورات، انجیل اور ان تمام کتابوں کو جو ان کے رب کی طرف سے ان کی طرف نازل ہوئیں قائم کرتے تو وہ اپنے اوپر سے کھاتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے، ان میں ایک گروہ راہ اعتدال پر ہے اور ان میں کے بہت سے لوگ بہت برے کام کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ المائدہ 66)
اس آیت میں تورات، انجیل اور اللہ کی دوسری کتابوں کی اقامت کا مطلب ہے پوری زندگی میں ان پر ٹھیک ٹھیک عمل اور’’انفرادی و اجتماعی‘ زندگی کے دونوں پہلووں میں احکام الہی کا مکمل نفاذ۔ اسی سورہ میں فرمایا گیا ہے:’’کہدو اے اہل کتاب ! تم کچھ بھی ہدایت پر نہیں ہو جب تک کہ تم تورات، انجیل اور ان کتابوں کو جو تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہیں، قائم نہ کرو‘‘۔ (سورہ المائدہ 68)
اس آیت میں بھی تورات، انجیل اور کتب الہی کی اقامت ہے- اور یہی اللہ کے دین کی اقامت ہے- مراد اللہ کے تمام احکام کی تعمیل اور ان کا مکمل نفاذ ہے۔
قران میں ’اقامت‘ کے ان استعمالات سے واضح ہوا کہ اقامت دین کا مفہوم ہے’اللہ کے دین پر کما حقہ عمل کرنا، احکام الہی کا پاس و لحاظ کرنا، پورے خلوص و یکسوئی اور استقامت کے ساتھ اللہ کے دین کا حق ادا کرنا اور زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں دین حق کو قائم و نافذ کرنا۔
دین پر انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں میں عمل، دین کے معاشی، سیاسی اور اجتماعی احکام کی تعمیل، حدود و تعزیرات کا نفاذ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اسلامی قانون کے مطابق نظام عدالت کا قیام اور اسلامی ریاست کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب کہ زمام اقتدار اہل حق کے ہاتھوں میں ہو اور اللہ کا دین مغلوب نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول دین کی صرف دعوت دینے کے لیے نہیں بلکہ اسے نافذ و غالب کرنے کے لیے آئے تھے جیسا کہ سورہ الصف میں فرمایاگیا ہے:’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (سورہ الصف 9)
اوراسی مقصد کی تکمیل کے لیے امت مسلمہ پر دین کو غالب کرنے، جہاد فی سبیل اللہ کی ذمہ داری عائد کی گئی اور صاف الفاظ میں بتادیا گیا کہ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد ہی وہ دنیا میں اللہ کی نصرت اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے نجات اور جنت کی ابدی نعمتوں کے مستحق ہوسکتے ہیں، چنانچہ اسی سورہ میں آگے فرمایا گیا ہے:’’اے ایمان والو! کیا میں تمھیں ایسی تجارت بتاوں جو تمہیں (خدا کے) دردناک عذاب سے نجات دے- اللہ اور اس کے رسول پر (سچا) ایمان لاو اور اس کی راہ میں اپنے مال اور جان سے(پوری) جدو جہد کرو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے’ اگر تم جانو! اس صورت میں وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور وہ تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور ہمیشگی کی جنتوں کے اندر عمدہ اور پاکیزہ محلات میں داخل کرے گا- یہی عظیم الشان کامرانی ہے اور ایک اور چیز، جو تم محبوب رکھتے ہو(ملے گی) اللہ کی مدد اور قریبی فتح- اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کو اس کی بشارت دےدو‘‘(سورہ الصف 10 تا 13)
ہر دور کے اہل ایمان سے جو اللہ کے دین پر ایمان لائے، دین کی اقامت کا مطالبہ کیا گیاہے اس راہ پر متحد و متفق ہو کر چلنے کو کہاگیاہے، یہی راہ دنیا و آخرت کی کامرانی کی واحد راہ ہے اور یہی ہر مسلمان اور پوری امت مسلمہ کا نصب العین اور مقصد حیات ہے- اللہ تعالیٰ عظیم مقصد یعنی اقامت دین کے لیے مسلمانوں کو زندگی کی آخری سانس تک جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021