لکشدیپ: متعدد بی جے پی لیڈران اور کارکنوں نے فلمساز عائشہ سلطانہ کے خلاف ملک بغاوت کے مقدمے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دیا

نئی دہلی، جون 12: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق لکشدیپ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد لیڈروں اور کارکنوں نے جمعہ کے روز فلمساز عائشہ سلطانہ کے خلاف درج بغاوت کے مقدمے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔

ایک ملیالم نیوز چینل پر ڈیبیٹ کے دوران سلطانہ نے مرکزی خطے میں کورونا وائرس کیسوں میں اضافے کے لیے ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڈا پٹیل کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ مرکز لکشدیپ کے عوام کے خلاف پٹیل کو حیاتیاتی ہتھیار (bio-weapon) کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

بی جے پی لکشدیپ یونٹ کے سربراہ سی عبد القادر حاجی کو سخت الفاظ میں لکھے گئے ایک خط میں 12 بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں نے کہا کہ سلطانہ کے خلاف مقدمہ ’’جھوٹا اور بلاجواز‘‘ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد سلطانہ کے مستقبل کو تباہ کرنا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ جزیرے میں موجود بی جے پی کارکنان پوری طرح واقف ہیں کہ کیسے پٹیل کے متنازعہ قواعد شہریوں میں شدید تکلیف کا باعث بنے ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ لکشدیپ کے بی جے پی قائدین انتظامیہ اور ضلعی کلکٹر کی مختلف غلطیوں پر پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔‘‘

سلطانہ کے خلاف شکایت عبد القادر حاجی نے ہی ’’ملک دشمن‘‘ تبصرے اور ’’مرکزی حکومت کی محب وطن کی امیج کو داغدار کرنے‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے درج کروائی تھی۔ بی جے پی لیڈروں نے اس پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ فلمساز صرف جزیروں پر لوگوں کے حقوق کے لیے اور ایڈمنسٹریٹر کے ’’غیر سائنسی اور غیر ذمہ دارانہ فیصلوں‘‘ کے بارے میں بات کر رہی تھی۔

دی ٹیلی گراف کے مطابق بی جے پی کے بِترا جزیرہ یونٹ کے سابق چیف عبدالحمید بھی مستعفی ہونے والوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا ’’اس (عائشہ سلطانہ) کی بات کو محض نظر انداز کرنے کے بجائے انھوں نے جا کر ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ جب یہ پارٹی ہمارے لیے کام نہیں کرسکتی تو ہمیں اس پارٹی کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘

بِترا جزیرے سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک اور لیڈر اسحاق حمید نے کہا کہ انھوں نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے ایک نیوز چینل کو بتایا ’’جب قیادت نے عائشہ کے خلاف شکایت درج کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں مطلع نہیں کیا گیا۔‘‘

پچھلے مہینے بھگوا پارٹی کے یوتھ ونگ کے آٹھ ممبران نے بھی پٹیل کے ’’غیر جمہوری اقدامات‘‘ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

معلوم ہو کہ لکشدیپ کے رہائشیوں نے کوویڈ 19 کے معاملات میں اضافے کے لیے پٹیل کے فیصلوں کو مورد الزام قرار دیا ہے۔ تقریباً ایک سال کے لیے مرکزی خطہ وبا سے پاک تھا۔ پہلا کورونا وائرس کیس لکشدیپ میں 18 جنوری کو سامنے آیا تھا۔

پٹیل کے دوسرے متنازعہ قواعد و ضوابط میں مجوزہ گائے ذبیحہ پر پابندی، یونین ٹریٹریری میں غنڈہ ایکٹ، جہاں ملک میں سب سے کم جرائم کی شرح ہے، اور زمین کے ترقیاتی قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی تجویز پیش کرنے والا ایک مسودہ قانون شامل ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے مرکزی خطے سے متعلق پٹیل کے فیصلوں پر تنقید کی ہے اور انھیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اس پر مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے اور جزیرے کے علاقے کے ورثہ کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ سیاست دانوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ گجرات کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے پٹیل لکشدیپ کی بڑی مسلم آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔