متحدہ ہندوستان بمقابلہ منقسم ہندوستان : سیاسی، معاشی اور سماجی تناظر
75 سال قبل مولانا آزاد نے جو کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا
شبیر عالم
ہند۔ پاک باہمی تعاون اورآزاد خارجہ پالیسی کے ذریعہ ترقی اور بیرونی دباو سے نجات ممکن
مولانا ابوالکلام آزاد تحریک آزادی کے واحد قائد تھے جو مرتے دم تک متحدہ ہندوستان کے نظریہ پر بلا خوف لومۃ لائم ڈٹے رہے۔ وہ واحد مسلم قائد تھے جنہوں نے تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں کے نام پر بننے والی پاکستانی ریاست کے انجام کو بھی اپنی چشم بصیرت سے دیکھا اور خبردار کیا اور اسی کے ساتھ منقسم ہندوستان کو پیش آمدہ چیلنجز سے بھی آگاہ کیا۔ اس لحاظ سے غور کیا جائے تو آج تقسیم ملک کے ۷۵ سال بعد ان کی سیاسی بصیرت نے جو کچھ دیکھا تھا ہر شخص کو چشم سر سے دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کا مستقبل – مولانا آزاد کی نظر میں:
مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت نے دیکھ لیا تھا کہ تقسیم ملک کے نتائج کیا ہوں گے۔ شورش کاشمیری نے اپنی کتاب مولانا ابوالکلام آزاد – حیات و افکار کے باب بعنوان ’’اسلام اور پاکستان‘‘ میں مولانا آزاد سے کئی نشستوں میں ہونے والی گفتگو کی روداد بیان کی ہے جو تقسیم ہند سے پہلے کے دور ہنگام میں انہوں نے مختلف ایشوز پر مولانا آزاد کا مؤقف جاننے کے لیے کی تھی۔ پاکستان کے بارے میں مولانا کے تجزیہ کے اہم نکات یہ تھے:
(۱) مسٹر جناح اور لیاقت علی خان کی موجودگی تک مشرقی پاکستان کا اعتما د متزلز ل نہیں ہو گا، لیکن دونوں رہنمائوں کے چلے جانے کے بعد ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ناراضگی اور اضطراب پیدا کر سکتا ہے۔
(۲) مشرقی پاکستان کے لیے بہت طویل مدت تک مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا ممکن نہ ہو گا۔ دونوں خطوں میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے سوائے اس کے دونوں اطراف کے رہنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مسلمان کہیں بھی پائیدار سیاسی اتحاد پیدا ہی نہیں کر پائے،عرب دنیا کی مثال سامنے ہے۔
(۳) مشرقی پاکستان کی زبان، رواج اور رہن سہن مغربی پاکستان کی اقدار سے مکمل طور پر مختلف ہیں ۔پاکستان کے قیام کی گرم جوشی ٹھنڈی پڑتے ہی اختلافات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے، جو جلد ہی اپنی بات منوانے کی حد تک پہنچ جائیں گے۔
(۴) عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں یہ اختلافات شدت اختیار کریں گے اور پاکستان کے دونوں حصے الگ ہو جائیں گے۔
(۵) مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان خطے میں موجود تضادات اور اختلافات کا میدان جنگ بن جائے گا ۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کا قومیائی تشخص بیرونی مداخلت کے دروازے کھول دے گا۔
(۶) وہ وقت دور نہیں ہو گا جب عالمی قوتیں پاکستان کی سیاسی قیادت میں موجود مختلف عناصر کو استعمال کر کے اس کے حصے بخرے کر دیں گی، جیسا کہ بلقان اور عرب ریاستوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس وقت ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
(۷) اصل مسئلہ یقینی طور پر مذہب کانہیں بلکہ معاشی ترقی کاہے۔ مسلمان کاروباری قیادت کو اپنی صلاحیت اور ہمت پر شکوک وشبہات ہیں۔مسلمان کاروباری حضرات کو سرکاری سرپرستی اورمہربانیوں کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ نئی آزادی اور خود مختاری سے خوفزدہ ہیں ۔وہ دو قومی نظریے کی آڑ میں اپنے خوف کو چھپاتے ہیں اور ایسی مسلمان ریاست چاہتے ہیں، جہاں وہ بغیر کسی مقابلے کے معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکیں ،یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا کہ وہ کب تک اس فریب کاری کوزندہ رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے پیش آمدہ صورتحال اس طرح بیان کی جیسے وہ اپنی نگاہوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوں۔ مولانا آزاد نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے قیام سے ہی پاکستان کوبہت سنگین مسائل کا سامنا رہے گا۔ کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہو گا۔ پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان اور جنگ کے امکانات ہو ں گے۔ پاکستان کے صنعتکاروں اور نو دولتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار ہو گی۔
پاکستان کی واقعی صورتحال:
مولانا آزاد کا مندرجہ بالا تجزیہ و تبصرہ آج کے پاکستان کی صورتحال کی جس قدر حقیقی تصویر کشی کرتا ہے اسے بہ چشم سر دیکھا جا سکتا ہے۔پاکستان کے موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی احوال کا جائزہ لیں تو درج ذیل حقائق دن کے سورج کی طرح روشن نظر آتے ہیں:
(۱) سیاسی حالات: طویل فوجی آمریت کا دور ہو یا طویل جمہوری سیاست کا دور، حکومت اور عدلیہ فوجی قیادت کی ہدایت سے سرتابی کی جرأت نہیں کر سکتی اور اگر کوئی مقبول سیاسی قائد آزادانہ سیاسی فیصلے کرنے کی ہمت کرے تو وسیع عوامی حمایت کے باوجود اسے مسند اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس کار خیر میں حسب توفیق حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں اور ملک کی عدالتیں طوعاً یا کرھاً اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ بھٹو، بے نظیر، نواز شریف کو فوجی قیادت کے سامنے کم یا زیادہ سرنگوں نہ ہونے کی قیمت چکانی پڑی۔ ان کی سیاسی غلطیاں یا کرپشن اپنی جگہ لیکن جس چیز نے انہیں انجام سے دوچار کیا وہ بنیادی طور پر فوجی قیادت کی ناراضگی تھی۔ عمران خاں کی مثال تو بالکل تازہ ہے۔ جہاں تک فوجی قیادت کی حکمت عملی اور طریق واردات کا تعلق ہے تو اس کی پالیسی واشگاف ہے کہ بس امریکہ کو خوش رکھو اور خود کو زندہ رکھو۔
پاکستانی فوجی قیادت کی حکمت عملی: اپنے وجود کو پاکستان کا مرکزی کردار بنائے رکھنے کے لیے جس حکمت عملی پر گامزن رہی ہے اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کا موہوم خوف برقرار رکھا جائے اور اس کے لیے کشمیر مسئلہ کو زندہ رکھا جائے۔ ورنہ حقیقت پسندانہ طور پر دیکھیں تو پاکستانی فوج کو چین سے مقابلہ آرائی کر نا نہیں ہے، افغانستان اور ایران سے اسے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رہ گیا ہندوستان تو اس کے مقابلے میں پاکستان کی فوجی قوت میں اتنی سکت ہی نہیں کہ کسی طویل جنگ میں ٹک سکے۔ اسی لیے ہر جنگ کے موقع پر ہزیمت کے بعد اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی فوجی قیادت کو امریکہ سے بیچ بچاؤ کی صورت نکالنے کی خاطر منت سماجت کرنی پڑتی رہی ہے۔ ۱۹۴۸، ۱۹۶۵، ۱۹۷۱ اور ۱۹۹۹ کی جنگیں اس کی اس کمزوری کا واضح ثبوت ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو پاکستان کو ایک محدود فوجی ادارہ کی ضرورت تھی تاکہ اسے ملکی سیاست میں مداخلت سے باز رکھا جا سکتا اور پاکستانی معیشت پر دفاعی بجٹ کا بار بھی کم سے کم ہوتا۔ ملک کے اندرونی انتظام و انصرام کے لیے سیاسی حکومت کے تابع بہتر تربیت یافتہ پولیس ادارہ کی ضرورت تھی۔ محمد علی جناح نے ایک بار فوجی پریڈ کے دوران خطاب کرتے ہوئے فوجی قیادت کو متوجہ کیا تھا کہ وہ سیاسی معاملات سے دور رہیں اور فوج کو بطور ادارہ سیاسی حکومت کے تابع رہ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ لیکن سیاسی قیادت کی ناعاقبت اندیشی اور مسئلہ کشمیر کے مسلسل جذباتی سیاسی استحصال نے فوجی ادارہ کو پاکستان کے مرکزی سیاسی کردار کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی جذباتی قوم پرستی نے فوجی ادارہ کو ایٹمی ہتھیار فراہم کرکے اسے ہندوستان سے گاہے گاہے کشمکش کرتے رہنے کے لیے ایک ڈھال فراہم کردی۔ اس طرح فوجی قیادت کے لیے آسان ہو گیا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ملک کے سول اور سیاسی اداروں کو حسب ضرورت و احوال اپنی مرضی کا پابند رکھ سکتی ہے۔
پاکستان کی بقا کے خلاف ہندوستان کے حملے کا خوف فوجی قیادت کا ساختہ پرداختہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ہندوستان یہ چاہے گا کہ پاکستان کو فوجی طاقت کے زور پر اپنے اندر ضم کر لے اور نہ تو آج قومی ریاستوں کی تسلیم شدہ حقیقت کے پیش نظر ایسا ہونا ممکن ہے۔ رہ گیا کشمیر کا مسئلہ تو پاکستان کی فوجی قیادت نہ تو بزور قوت اسے لے سکتی ہے اور نہ ہی یہ اس کے مفاد میں ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ اس تجزیہ سے واضح ہے کہ فوجی قیادت کا اصلاً صرف ایک ہی ہدف قابل عمل ہے اور وہ ہے سیاسی قیادت کو دباؤ میں رکھ کر اپنے مفادات و مراعات کا تحفظ۔۔ اپنی بقا کے لیے فوجی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو اسی حد تک آزاد رکھنے کی اجازت دے جو ملک کو امریکی کیمپ سے باہر نہ جانے دے۔ پاکستان کی موجودہ اندرونی کشمکش اسی حقیقت کی غماز ہے۔
امریکی اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کو راست فوجی قیادت سے رابطہ رکھنے کے لیے سیاسی قیادت سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ ایسے احکامات بھی دے سکتا ہے جس کا نتیجہ منتخب حکومت کی تبدیلی کی شکل میں برآمد ہو۔ اگر کبھی کوئی فوجی قیادت امریکی مفادات سے انحراف کی جرأت کرے تو اس کا انجام بھی بخیر نہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی نا اہلی اظہر من الشمس ہے جس کی پیش بینی مولانا آزاد نے پاکستان بننے سے پہلے کر دی تھی۔
(۲) معاشی صورتحال: پاکستانی معیشت کے اصل مسائل کیا ہیں؟ اس کا پہلا مسئلہ تو فوجی اخراجات کا بوجھ ہے جو پاکستانی معیشت کے لیے فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے بجٹ میں اتنے بڑے فوجی خرچ کا کوئی جواز نہیں۔ اس فضول خرچی کا نتیجہ عوام کی معاشی پریشانیوں میں اضافہ کا ایک بڑا سبب ہے۔ دوسرا مسئلہ جاگیردارانہ نظام کا تسلسل ہے جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد زمین اور پیداواری وسائل سے محروم تہاری مزدور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تیسرا مسئلہ سیاسی قیادت کے ذریعہ کرپشن اور بیرون ملک دولت کی منتقلی ہے۔ چوتھی مصیبت سیاسی عدم استحکام وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے۔ جب قومی پیداوار کی افزائش کے سامنے اتنے سارے چیلنج ہوں تو ملکی معیشت کا بیرونی قرضوں پر انحصار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسٹراٹیجک اہمیت کی وجہ سے چین کی سرمایہ کاری اور اس کے رد عمل میں امریکی دباؤ کے درمیان توازن قائم رکھنا ملک کی سیاسی قیادت کے لیے آسان نہیں جب تک کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی کو مضبوط بنیادوں پر استوار نہ کر لے۔ ظاہر ہے ایسی کسی پالیسی کو ابتدا میں ہی ناکام بنانے کے لیے کبھی پاکستان کی فوجی قیادت اور کبھی سیاسی قیادت صرف امریکی اشارے پر اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ جنرل ایوب خاں کو بھی اپنے آخری دور میں اس کا شدید احساس ہوا جس کا مظہر ان کی کتاب کا ٹائیٹل “فرینڈز، ناٹ ماسٹرز” ہے۔
(۳) سماجی حالات: پاکستان کی سماجی شیرازہ بندی کو تین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اوّل لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا ٹکراؤ جس میں پاکستان منتقل ہونے والے اردو خواں طبقے نے ایک نئی عصبیت کا اضافہ کیا ہے۔ دوم مذہبی شدت پسندی سے پیدا ہونے والی دہشت گردی۔ مساجد، مقابر اور بازاروں میں دہشت گردانہ دھماکوں میں جتنے لوگ پاکستان میں مارے گئے ہیں اتنے تو ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں بھی نہیں مارے گئے۔ سوم جاگیردارانہ بندوبست کے تحت آقا اور غلام کے تقریباً مماثل سماجی طبقہ بندی جو سماجی تفریق اور محرومی کو تسلسل عطا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک نچلی سطح سے کسی سیاسی قیادت کا ابھرنا پاکستان میں دکھائی نہیں دیتا۔ چند جاگیردار گھرانے اور پھر ان کے رشتہ دار نو دولتیوں کے درمیان ہی پاکستان کی سیاست، عدالت، بیوروکریسی اور فوجی قیادت محصور ہے۔ انہیں کے درمیان قوت کی کشمکش جاری رہتی ہے۔
متحدہ ہندوستان کیسا ہوتا؟
کانگریس نے آزادی کی جنگ میں ایک آزاد متحدہ جمہوری ہندوستان کے حصول کو اپنا مقصد بنایا۔ بد قسمتی سے سیاسی پسماندگی اور جاگیردارانہ سوچ کے باعث مسلم سیاسی قیادت کی ایک قلیل تعداد ہی کانگریس میں شامل ہو سکی۔ دوسری طرف آزادی کے جذبے سے سرشار ہندو قوم پرستانہ سوچ کی ایک قلیل تعداد بھی کانگریس کا حصہ بن گئی۔ ایک طرف وہ جاگیردار مسلم سیاسی قیادت تھی جو مغلیہ سلطنت کے خمار سے باہر نہیں نکلی تھی۔ دوسری طرف وہ ہندو قوم پرستانہ قیادت تھی جو انگریزی سامراج کے ساتھ ساتھ مسلم دشمنی کے جذبات بھی رکھتی تھی۔ اس کی وجہ سے ہندو مسلم کشمکش کو انگریزوں کی ’’پھوٹ ڈالو، حکومت کرو‘‘ کی پالیسی نے مسلسل بڑھاوا دیا۔ اس ہندو مسلم قومی کشمکش نے محمد علی جناح جیسے سیکولر سیاسی قائد کو مسلم قوم پرستی پر مبنی سیاسی قیادت کرنے کے لیے آمادہ کر دیا۔ دوسری طرف اس نے متحدہ قومی تحریک کے ہمنوا مسلم قائدین کو بے وزن بنا دیا اور تیسری طرف کانگریس کی سیکولر قیادت کو ہندو قوم پرستانہ قیادت کا دباؤ جھیلنا پڑا۔
اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی متحدہ قومی سیاست کے ساتھ متحدہ ہندوستان کی تمام مسلم قیادت ہوتی تو تقسیم ہند کی نوبت ہی نہ آتی اور نہ ہی قومی کشمکش کو، چند ایک فرقہ وارانہ فسادات کے سوا، بہت زیادہ فروغ کا موقع ملتا۔ آزاد متحدہ ہندوستان کا دستور بھی ہندوستان کی تمام تہذیبی اکائیوں کو زیادہ بہتر خود مختاری دینے والا بن سکتا تھا اور جمہوری سیاست بھی زیادہ متوازن ڈگر پر گامزن ہوتی۔ ظاہر ہے جمہوری عمل میں جس طرح مختلف شناختوں کے درمیان سیاسی کشمکش فطری طور پر پختہ ہو کر توازن پیدا کرتی ہے اسی طرح فرقہ وارانہ سیاست بھی جمہوری تقاضوں کے تحت تال میل پیدا کرتی۔ سماجی سطح پر بھی فرقہ واریت پر بند باندھنا زیادہ آسان ہوتا۔ تقسیم ملک کے نتیجے میں ہندوستانی سماج میں جو فرقہ وارانہ داریاں اور نفرتیں پیدا ہوئیں وہ بھی نہ ہوتیں۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ ایک متحدہ قومی سوچ کو فروغ دینے میں ہندو اور مسلم سماج میں زیادہ توانا قیادتیں پائی جاتیں۔
معاشی ترقی کے اعتبار سے بھی متحدہ ہندوستان نہ صرف سب سے بڑی قوت کے طور پر ابھرتا بلکہ شائد جنوب مشرقی ممالک اور مشرق وسطی کے مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات میں یورپ، امریکہ اور چین پر سبقت حاصل کر لیتا۔ مسلم دنیا کے ساتھ گہرے تجارتی، معاشی اور سیاسی روابط متحدہ ہندوستان کے اندر بھی قومی ہم آہنگی کے فروغ کا ذریعہ بنتے۔ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا کی ریاستیں بطور خاص متحدہ ہندوستان کے ساتھ عسکری اتحاد کرتیں اور اس طرح ہندوستان واقعتا ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرتا جس کے خلاف چین کو کسی ایڈونچر سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا۔ خود چین میں اویغور مسلم ریاست کو چینی جبر سے نجات مل سکتی تھی۔ متحدہ ہندوستان میں اپنی صلاحیت کی بنا پر ممکن ہے ہندو قیادت نمایاں رول ادا کرتی لیکن اسی جمہوری عمل سے زیادہ بہتر اور مؤثر مسلم قیادت بھی ابھرتی۔ ہندوستانی سماج کے پسماندہ طبقات کے ساتھ سیاسی مفاہمت اور ان کی ترقی کے امکانات بھی زیادہ بڑھ جاتے۔ بحیثیت مجموعی متحدہ ہندوستان زیادہ پر امن، یک جہت اور ترقی پذیر ہوتا۔
بعد از تقسیم کا لائحۂ عمل – مولانا آزاد کی نگاہ میں:
پاکستان بننے کے بعد اسے حقیقت واقعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے مولانا آزاد نے مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا:
“تاہم پاکستان کی نئی ریاست اب ایک حقیقت ہے اور ہندوستان و پاکستان دونوں کا فائدہ و سلامتی اس میں ہے کہ باہم دوستانہ تعلقات بڑھائیں اور اشتراک عمل کریں۔ اس کے خلاف کوئی پالیسی اپنائی گئی تو وہ نئے اور بڑے مصائب وآلام کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘
بر صغیر ہند و پاک کے آئندہ لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے مولانا آزاد کا مندرجہ بالا بیان کلیدی اہمیت کا حامل ہے جو غیر منقسم ہندوستان کے کچھ کم ہی سہی لیکن بعض اہم فوائد سے بڑی حد تک ہندوستان اور پاکستان دونوں کو بہرہ ور کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مولانا آزاد نے ایک اسٹیٹس مین کی طرح دو نکات میں بر صغیر ہند و پاک کی ترقی کا فارمولا سمیٹ دیا:
(۱) دوستانہ تعلقات کی مضبوطی
(۲) اشتراک عمل اور باہمی تعاون کا فروغ
اور اسی کے ساتھ اس دو نکاتی پالیسی سے انحراف کے نتائج سے بھی آگاہ کر دیا ہے کہ دونوں ممالک کو آلام و مصائب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ صرف المیہ نہیں آلام اور صرف مصیبت نہیں مصائب۔ لہذا! دونوں ممالک کی سیاسی قیادتیں واجپائی جی کے تجویز کردہ فارمولے کے مطابق مسئلہکشمیر کو ایک طے شدہ مدت تک سرد بستہ میں ڈال کر باہمی تعلقات استوار کرنے اور اشتراک عمل اور باہمی تعاون کا ایجنڈا مرتب کرنے پر صرف کریں تو دونوں ممالک کو معاشی ترقی اور سیاسی و سماجی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔ انہیں عالمی طاقتوں کے دباؤ سے نکل کر آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے عالمی کردار ادا کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 مئی 2022