مابعد حقیقت، جعلی خبریں اور میڈیا

India Misinformed کا تعارف

عرفان وحید

زیر نظر کتاب ان مضامین کا انتخاب ہے جو معروف فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز میں گذشتہ چند برسوں میں شائع ہوئے۔ یہ تمام مضامین ان جعلی خبروں اور افواہوں کے تجزیے اور تردید پر مبنی ہیں جو وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ کتاب کے مدیر اور آلٹ نیوز کے بانی پرتیک سنہا کے مطابق آلٹ نیوز کی داغ بیل 2017 میں ہونے والی بہیمانہ لنچنگ سے چند مہینے پہلے فروری 2017 کو احمد آباد کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ڈالی گئی۔ اس ویب سائٹ کا مقصد سوشل میڈیا اور ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا میں پھیلائی جانے والی غلط اطلاعات اور پروپیگنڈے کا سدباب کرنا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ہمارے ایک اولین فیکٹ چیکنگ تجزیے میں دکھایا گیا کہ کس طرح گواٹے مالا میں ایک نوجوان عورت کو مبینہ طور پر کسی ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مارنے کی پاداش میں زندہ جلائے جانے کی حساس ویڈیو یہ بتاکر شیئر کی گئی کہ مذکورہ خاتون ایک مارواڑی خاندان کی ہندو عورت تھی جسے مسلمان زندہ جلا رہے تھے۔ تب سے اب تک ہم نے ایک ہزار سے زیادہ تجزیے رقم کیے ہیں اور ہندوستان میں سب سے زیادہ وائرل ہونے والی جعلی خبروں کو ڈاکومنٹ کیا ہے۔ ‘‘ [1]

انڈیا مس انفورمڈ (India Misinformed: The True Story، مدیران پرتیک سنہا، سمیہ شیخ، ارجن سدھارتھ، ہارپر کولنز پبلشرز انڈیا، 2019، صفحات 304) میں جملہ 82 تجزیے ہیں جنھیں گیارہ فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ فصلیں اس طرح ہیں: فرقہ ورانہ نزاع کا فروغ، برانڈ مودی کی تشکیل، راہل گاندھی–پسندیدہ ہدف، وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نشانہ، دیگر سیاست دان جنھیں نشانہ بنایا گیا، غلط تاریخی دعوے، مین اسٹریم میڈیا، عام افراد، جعلی پول اور اکاونٹ، متفرقات اور سائنس۔ سنہا کے بقول گذشتہ دو برسوں میں تلبیسِ اطلاعات (misinformation) کا ایک واضح پیٹرن ابھرا ہے۔ ’’دائیں بازو کے پروپیگنڈے کا محور بڑی حد تک مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی غلط اطلاعات پر مبنی ہے۔سنہا لکھتے ہیں: “ خواہ کرکٹ میں پاکستان کے جیتنے پر مسلمانوں کے جشن منانے کی جعلی ویڈیو ہوں، یا امرتسر ٹرین حادثے میں ٹرین کے ہندو ڈرائیور کو مسلمان قرار دے کر اسے سوچی سمجھی سازش قرار دینا۔ مقصد ایک ہی ہے کہ اقلیتوں کو ایک مخصوص رنگ میں پیش کرکے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث دکھایا جائے۔ ”

مشتے نمونہ از خروارے، انڈیا مس انفورمڈ میں جن جعلی خبروں کو حقائق کی بنیاد پر رد کیا گیا ہے ان میں سے چند دعوے دیکھتے چلیں:

دعویٰ:  ہندوستان میں پناہ گزیں روہنگیا کی آبادی 11 کروڑ ہو چکی ہے۔ نیز ملک میں غیر قانونی طور پر 8 کروڑ بنگلہ دیشی در انداز موجود ہیں۔

حقیقت: آلٹ نیوز نے ثابت کیا کہ اعداد و شمار جعلی ہیں۔ پورے میانمار کی جملہ آبادی بھی اس تعداد سے نصف سے کم ہے۔ مزید برآںستمبر 2017 میں پارلیمنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں وزارت داخلہ کے وزیر مملکت کرن رجیجو نے اطلاع دی تھی کہ ہندوستان میں محض 40 ہزار روہنگیا پناہ گزیں مقیم ہیں۔

دعویٰ:  امرتسر ٹرین ایکسیڈنٹ کوئی حادثہ نہیں تھا، بلکہ ’ٹرین جہاد ‘ تھا جسے امتیاز علی نامی مسلمان نے انجام دیا۔

حقیقت: یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مذکورہ ٹرین کے ڈرائیور کا نام اروند کمار تھا ۔ ہندوستانی خبر رساں ادارے اے این آئی نے ڈرائیور اور ٹرین کے دستاویزحاصل کرکے اس کی تصدیق کی۔

دعویٰ:  بھدوہی اتر پردیش میں سوامی وویکا نند کی مورتی کی مسلمانوں نے بے حرمتی کی۔

حقیقت:  بھدوہی پولیس سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے اس معاملے کی تحقیق کرنے پر پایا گیا کہ پریم چندر گوتم نامی ایک شخص اس معاملے میں قصوروار ہے۔ اسے حراست میں لے لیا گیا۔

دعویٰ:  2016 میں نیشنل کرائم ریکارڈبیورو کے اعداد و شمار کے مطابق عصمت دری کے 96 فیصد واقعات میں مسلمان ملوث تھے۔

حقیقت:  تحقیق کرنے پر پایا گیا کہ قومی کرائم ریکارڈ بیورو عصمت دری کے اعداد و شمار کو مذہب کی بنیاد پر جاری نہیں کرتا۔

دعویٰ:  سوشل میڈیا پر ایک انفو گرافک میں دعویٰ کیا گیا کہ وزیر اعظم مودی کی مختلف مساعی کی معروف مارکیٹنگ گورو فلپ کوٹلر، آکسفرڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر لوئیس رچرڈ، عالمی بنک کے سربراہ جم یونگ کم نیز مائکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے توصیف و ستائش ہے۔

حقیقت: آلٹ نیوز نے مذکورہ تمام سرکردہ شخصیات کے دفاتر سے رابطہ کیا اور اس خبر کے حوالے سے استفسار کیا۔ بل گیٹس کو چھوڑ کر بقیہ تین افراد کے دفاتر نے میل کا جواب دیا اور مذکورہ انفوگرافک کی تردید کی۔ البتہ میڈیا میں بل گیٹس کے حوالے سے بھی ایسی کوئی معتبر خبر نہیں پائی گئی۔

دعویٰ:  وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کرکے لکھا: جب انگریزوں نے بھگت سنگھ کو گرفتار کیا تھا تو ایک بھی کانگریسی لیڈر ان سے ملنے جیل نہیں پہنچا۔

حقیقت:  آلٹ نیوز نے اس ٹویٹ کو بے بنیاد قرار دیا۔ جواہر لعل نہرو نے اپنی خود نوشت سوانح میں بھگت سنگھ سے جیل میں ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی کانگریسی لیڈروں نے ملاقات کی تھی۔

دعویٰ:  میرٹھ میں متعدد مسلم خواتین نے رام مندر کی تعمیر کی حمایت میں جلوس نکالا۔

حقیقت: رپورٹ گمراہ کن ہے۔ مذکورہ خواتین آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں مسلم راشٹریہ منچ نیز راشٹریہ ایکتا مشن کی رکن تھیں۔

دعویٰ:  مرکزی وزیر ہرش وردھن نے ٹویٹ کیا: اسٹیفن ہاکنگ کے بقول ویدوں کا نظریہ آئن اسٹائن کے نظریے سے بہتر ہے۔

حقیقت:  اسٹیفن ہاکنگ نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔

■ ■ ■

ہم عہد مابعد حقیقت (post-truth era) میں جی رہے ہیں۔ اس عہد میں بیشتر لوگ حقیقی اور معروضی اطلاعات کی جستجو کرنے اور ان پر یقین کرنے کے بجائے ان اطلاعات پر یقین کرنے کا میلان رکھتے ہیں جو ان کے جذبات اور ذاتی اعتقادات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ لوگوں کے اطلاعات کے حصول میں ان کی نفسیات کی ادراکی جہت (cognitive) کے مقابلے میں جذباتی جہت (affective) کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ پوسٹ ٹرتھ عہد کی اسی خصوصیت کی وجہ سے جعلی خبروں کی ترسیل و ابلاغ ایک ناگزیر حقیقت بن چکی ہے، اور جعلی خبروں اور اطلاعات کے ابلاغ کا سدباب کرنا نہایت مشکل ہوگیا ہے۔

اطلاعات کی تشکیل و ابلاغ ہمیشہ ہماری زندگی اور معاشرے کا اہم جز بنے رہیں گے اور یہ ہماری فکر اور دنیا کے ساتھ ہمارے رویے کو بھی متاثر کرتے رہیں گے۔ تاہم جتنی زیادہ اطلاعات تک ہماری رسائی ہوگی، معیاری اطلاعات کو چننا اور اپنی زندگی اور انفرادی ضرورتوں کے لیے انھیں استعمال کرنا اتنا ہی مشکل ہوگا۔ جعلی خبروں کی تشکیل و ترسیل کے اس ڈسکورس میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ جے روزن (Jay Rosen) جو نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر اور میڈیا کے ناقد ہیں، ہمیں فیک نیوز اور ’’متبادل حقائق‘‘ کے ذریعے پیدا کردہ ’الجھن‘ (production of confusion) سے خبردار کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں ’’مخاطب کے ذہن میں الجھن پیدا کرکے اقتدار کی حامل قوتیں کنٹرول حاصل کرتی ہیں اور الجھن پیدا کرنے والی اطلاعات کو سننے کے بعد مخاطب کو ان منطقی سوالات کی پروا نہیں رہتی جو حقائق کی جستجو کے لیے اٹھتے ہیں۔‘‘[2]

الجھن کی پیداوار برسر اقتدار قوتوں کی میڈیا کے عمیق قواعد (deep grammar) یا تجارتی ماڈل خبروں کے اداروں کو اپنی مرضی سے چلانے میں معاون ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ خبر رساں اداروں کو ان کے انٹرویو لینے، ان سے دستاویزات اور معلومات حاصل کرنے اور اطلاعات بہم پہنچانے کے لیے ان کی ضرورت ہے۔ روزن کے مطابق میڈیا کی یہ ڈیپ گرامر (یعنی نیوز اداروں کو چلانے کے پیچھے کا تجارتی ماڈل) انھیں اپنی اخلاقیات کو نظر انداز کرنے اور معیار سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردیتا ہے اور وہ جعلی خبروں کی تردید اس طرح نہیں کرتے جیسا کہ کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے پر وہ اطلاعات کے ان مآخذ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جن کی وجہ سے وہ مسابقتی دوڑ میں اپنا وجود قائم رکھتے ہیں۔

جعلی اطلاعات (fake information or alternative facts) کی دو ادراکی سطحیں ہیں: تلبیسِ اطلاعات (misinformation) اور تدلیسِ اطلاعات (disinformation) ۔ انھیں ایک ہی سکے کے دو پہلو سمجھیں۔ تلبیس یا مِس انفارمیشن ہر وہ اطلاع ہے جو نامکمل ہوتی ہے[3] تاہم غیر یقینی، مبہم اور ذو معنی بھی ہوتی ہے۔ البتہ تلبیس سیاق و سباق کے لحاظ سے سچ، درست اور معلومات افزابھی ہوسکتی ہے۔[4] آکسفرڈ ڈکشنری نے ڈِس انفارمیشن کی تعریف ’’قصداً غلط اطلاعات کی ترسیل‘‘ کے طور پر کی ہے۔

انڈیا مس انفورمڈ میں پرتیک سنہا کہتے ہیں کہ افواہوں اور جعلی خبروں کا ایک تھیم وطن پرستی پر مبنی ہے۔ تاریخی حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنا بھی جعلی خبروں کا محبوب موضوع ہے۔ صحافیوں، سماجی کارکنان، لبرلز اور ہر اس شخص کو ہدف بنانا بھی خاص موضوع ہے جو دائیں بازو کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں یا ان کی نکتہ چینی کرتا ہے۔ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی اقتدار کی حصول یابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھی جعلی خبریں پھیلانے والوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ آلٹ نیوز نے نوٹوں کی منسوخی کے اقدام کو نوبیل انعام یافتہ دانش ور اور بین الاقوامی رہ نماؤں کے ذریعے سراہے جانے کی جعلی خبروں کی تردید کی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ تمام جعلی خبریں دائیں بازو کے خیمے سے ہی پیدا ہوتی ہوں۔ آلٹ نیوز نے ان خبروں کا بھی تجزیہ کیا ہے جو اپوزیشن کے کیمپوں سے وضع کی جاتی ہیں اور انھیں عام کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات مسلم ہے کہ اس کی رسائی اور وسعت اتنی نہیں جتنی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کی ہے۔

انتخابات کے دوران جعلی خبروں کا بازار خوب گرم ہوتا ہے اور دونوں جانب سے سیاسی پارٹیاں غلط اطلاعات کی خوب تشہیر کرتی ہیں جو معاشرے میں مزید خلیج پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ مغربی بنگال میں فسادات کے دوران ایک فلم کی تصویر کو یہ بتاکر خوب شیئر کیا گیا کہ مسلمانوں کے ذریعے ایک ہندو عورت کی حرمت پامال کی جارہی ہے۔

سوشل میڈیا ہر قسم کی اطلاعات، خواہ وہ جعلی ہوں یا تصدیق شدہ، پھیلانے کا اہم ذریعہ ہے۔ چنانچہ یہ انفارمیشن اوورلوڈ (information overload) میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اطلاعات خواہ پڑھی جائیں یا نہ پڑھی جائیں انتہائی سرعت سے آگے بھیجی جاسکتی ہیں۔ TL;DR ایک مقبول مخفف بن گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ طوالت کی وجہ سے پورا نہیں پڑھا گیا۔ گویا یہ قاری کو ایسے مواد کو شیئر کرنے اور اس پر تبصرہ کرنے کا حق دے دیتا ہے جس کو اس نے تحقیق و تصدیق تو دور پورا بھی نہیں پڑھا۔ یہ رویہ سوشل میڈیا میں فیک نیوز کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کرتا ہے جسے کسی مخصوص پروپیگنڈا کی مستقل اشاعت کے ذریعے راے عامہ کی ہم واری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ نازی جرمنی میں ہٹلر کے پروپیگنڈا منسٹر جوزف گوئبلز سے دو مشہور اقوال منسوب ہیں ، اگرچہ بعض محققین کو اس میں اختلاف ہے کہ یہ گوئبلز کے اقوال نہیں ہیں: ’’اگر آپ کسی جھوٹ کو بار بار دہراتے رہیں تو نہ صرف لوگ اس پر یقین کرلیں گے بلکہ آپ خود بھی اس پر یقین کرنے لگیں گے۔ ‘‘ نیز ’’پروپیگنڈا تب ثمرآور ہوتا ہے جب اس سے متاثر ہونے والے افراد سمجھنے لگیں کہ وہ اپنی مرضی اور شعور سے اس پر عمل پیرا ہیں۔ ‘‘

مصنف شِوَم شنکر سنگھ، جو بی جے پی کے سابق انتخابی مشیر اور کتاب How to Win An Indian Election کے مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ انتخاب جیتنے کے لیے سیاسی پارٹی یا کسی سیاست دان کو رائے عامہ پر کنٹرول ضروری ہے۔ یہ کنٹرول انتخاب جیتنے کے بعد بھی ضروری ہے کیونکہ نظام میں تبدیلی کے لیے رائے عامہ کا ہم وار ہونا ضروری ہے۔ ایسا صرف تبھی ممکن ہے جب مستقل پیغامات اور پروپیگنڈا کا استعمال کیا جائے۔ اس کام کے لیے سوشل میڈیا لوگوں کی رائے عامہ اور ڈسکورس کو رخ دینے میں سب سے موثر وسیلہ ہے۔ بی جے پی نے فیس بک، ٹوئٹر اور وہاٹس اپ گروپس کو مختلف مسائل پر رائے عامہ کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا ہے بلکہ وہی طے کرتی ہے کہ کن مسائل پر گفتگو کی جائے۔

اس کام کے لیے منصوبہ بند طریقے سے وہاٹس اپ، فیس بک اور ٹوئٹر پر فرضی ناموں سے اکاؤنٹ تشکیل دیے جاتے ہیں۔ پرتیک سنہا نے زیر نظر کتاب میں لکھا ہے کہ متعدد فیکٹ چیکنگ ویب سائٹیں سرگرم ہونے کے بعد جعلی خبروں کی تشہیر کرنے والے محتاط ہوگئے، تاہم جعلی ناموں سے نئے اکاؤنٹ تیزی سے بننے لگے۔ فیس بک پر پیشہ ورانہ انداز میں معیاری انفوگرافکس اور ویڈیو شیئر کی جانے لگیں۔ آلٹ نیوز نے ایسے گروپس بھی دریافت کیے جو سیاسی فیس بک پیج خریدنے اور بیچنے کا کام کرتے تھے۔ بعض مقبول موضوعات جیسے انڈین آرمی،معروف کرکٹ کھلاڑی جیسے ویرندر سہواگ، دائیں بازو کے بڑے لیڈر جیسے نریندرمودی، یوگی آدتیہ ناتھ وغیرہ کے لیے مختص پیج اور گروپس انتہائی اونچے داموں میں فروخت ہوئے جن کو فالو کرنے والوں کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں میں تھی۔ [5]

ان گروپس کے ذریعے نہایت سرعت سے کسی بھی خبر کو پورے ملک میں پھیلایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں فیک نیوز کو تیزی سے مشتہر کرنے والا سب سے مؤثر پلیٹ فارم وہاٹس اپ ثابت ہوا ہے ۔ اس کی اثر پذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014 سے 2018 کے درمیان گوکشی اور بچوں کے اغوا سے متعلق افواہوں کی وجہ سے 41 لوگوں کو ہجومی تشدد میں قتل کردیا گیا۔ [6]

ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی فیک نیوز کی ترسیل کے ساتھ ساتھ انھیں صارفین کے لیے قابلِ یقین بنانے کی سمت میں بھی کام کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) کے استعمال سے ایسا مواد، ویڈیو اور تصویریں، تیار کی جاسکتی ہیں جو حقیقی لگتی ہیں۔ اسے ڈیپ فیک ٹکنالوجی کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایسی ویڈیو اور تصاویر کی تیاری ممکن ہے جن میں لوگوں کو ایسی باتیں کہتے ہوئے دکھایا جاسکتا ہے جو انھوں نے کبھی نہ کہی ہوں اور ایسے کام کرتے ہوئے دکھایا جاسکتا ہے جن کے کرنے کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔انٹرنیٹ پر ایسی بہت سی ڈیپ فیک ویڈیو موجود ہیں جو وائرل ہوئیں۔ مثلاً امریکی سابق صدر اوباما کی صدر ٹرمپ کو گالی دینے کی ویڈیو، مارک زکربرگ کا اعتراف کرنا کہ فیس بک کا اصل مقصد لوگوں کے ذہن کو بدلنا اور ان کا استحصال کرنا ہے، وغیرہ۔ یہ چیلنج اتنا سنگین ہے کہ ایک امریکی سینیٹر مارکو روبیو کے بقول:

’’اگلے زمانے میں اگر آپ کو امریکہ کو خوف زدہ کرنا ہوتا تو آپ کو دسیوں بحری بیڑوں، جوہری ہتھیاروں اور طویل فاصلے کی میزائلوں سے لیس ہونے کی ضرورت پڑتی تھی، لیکن آج اس کام کے لیے محض ایک حقیقی نظر آنے والی فیک ویڈیو ہی کافی ہے جو اتنی تباہ کن ہوسکتی ہے کہ ہمارے انتخابات کو تہس نہس کردے، اور ہمارے ملک کو ایسے داخلی بحران سے دوچار کردے کہ اس سے ہم انتہائی کم زور ہو جائیں۔‘‘ [7]

اور ٹکنالوجسٹ اس بات سےپوری طرح متفق نظر آتے ہیں۔ ڈیپ فیک کے عالمی سطح کے چوٹی کے ماہر ہانی فرید کہتے ہیں:

’’اگر ہم دنیا کے مختلف حصوں سے حاصل ہونے والی اطلاعات ویڈیو، آڈیو، تصاویر اور اطلاعات پر حتمی بات نہ کہہ سکیں تو یہ قومی سلامتی کے لیے ایک انتہائی سنگین خطرے کا اشارہ ہوگا۔ ‘‘[8]

2018 کے اواخر میں محض ایک ویڈیو کے ڈیپ فیک ہونے کے شبہ کی بنیاد پر ایک ملک کی حکومت غیر مستحکم ہوگئی تھی۔ گیبون کے صدر علی بونگو چند مہینوں سے عوامی طور پر نظر نہ آئے۔ افواہیں گرم ہونے لگیں کہ وہ یا تو بہت بیمار ہیں یا چل بسے۔ ان خدشات کے ازالے کے لیے ان کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ نئے سال کے موقع پر ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کریں گے۔ ان کے خطاب کی ویڈیو میں بونگو خاصے اکھڑے اکھڑے سے نظر آئے اور ان کی تقریر بھی میکانکی محسوس ہوئی۔ چنانچہ ان کے سیاسی مخالفین نے افواہ اڑادی کہ ویڈیو ڈیپ فیک تھی اور بونگو انتقال کر چکے ہیں۔ یہ افواہیں سوشل میڈیا میں بہت تیزی سے پھیل گئیں اور ملک کی حالت غیر مستحکم ہوگئی۔ ایک ہفتے کے اندر فوج نے اس ویڈیو کی بنیاد پر حکومت کا تختہ الٹنے (coup) کی کوشش کی، تاہم ناکام رہی۔ اس کے بعد بونگو عوام میں آئے اور اپنا قلم دان سنبھال لیا۔ [9]

فیک نیوز کے سلسلے میں مصنف اویو اوادیا (Aviv Ovadya) حقیقت کے تئیں ایک طرح کی لاتعلقی (reality apathy) کے سلسلے میں خبردار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ معلوم کرنا کہ کیا حقیقت ہے اور کیا نہیں، بہت مشکل امر ہے۔ چنانچہ آپ اپنے سابقہ اعتقاد پر قائم رہتے ہیں۔ ‘‘[10] دوسرے الفاظ میں اسے اطلاعاتی تعصب (information bias) کہا جاسکتا ہے یعنی مخاطب کے ذاتی میلانات اور تعصب کی وجہ سے اطلاعات کو اخذ کرنا اور ان سے اثر لینا۔ مصنف شوم شنکر کہتے ہیں کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے الگورتھم اس تعصب کو مزید مستحکم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اگر صارف دائیں بازو والے افکار کی جانب میلان رکھتا ہے اور اسی طرح کی خبریں اور اطلاعات پڑھتا اور شیئر کرتا رہا ہے تو ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ اسے متبادل نظریے کی حامل اطلاعات مل سکیں۔ چنانچہ ایسے فرد تک فیکٹ چیکنگ والی اطلاعات کی رسائی نہیں ہوپاتی۔ گویا فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ کے صارفین بھی وہی ہیں جو پہلے سے جعلی خبروں سے محفوظ ہیں یا دائیں بازو سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔

اس تناظر میں ایک ایسی دنیا میں جہاں اب یقین کی بنیاد مشاہدے پر نہیں رہی کسی بڑے گروہ کا حقیقت سے اتفاق کرلینا ایک دشوار بات ہے، اسے تعمیری مکالمے کی طرف موڑنا دشوار تر امر ہے۔

■ ■ ■

فیک نیوز کے اس طوفان بے تمیزی میں سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان کی تشہیر کرنے والوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ ٹوئٹر پر ایسے سینکڑوں اکاؤنٹ موجود ہیں جنھیں جعلی خبریں نشر کرنے میں سرگرم پایا گیا۔ ان اکاؤنٹس کو مرکزی وزرا یہاں تک کے وزیر اعظم مودی کے ذریعے فالو کیا جاتا ہے۔ متعدد اکاؤنٹ ایسے بھی ہیں جن کے چلانے والوں کی تصویریں وزیر اعظم مودی کے ساتھ ان کے پروفائل پیج کی زینت ہیں۔ سنہا کے بقول اگر تلبیسِ اطلاعات کو اسی طرح سیاسی سرپرستی حاصل رہی تو جعلی خبروں کا یہ طوفان تھمنے والا نہیں۔

میگسیسے ایوارڈ یافتہ معروف صحافی رویش کمار نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا ہے۔وہ کہتے ہیں:

دنیا کی کسی بھی جمہوریت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے شہری کتنے باخبر اور چوکس ہیں۔ شہریوں کی اس باخبری کو جعلی خبروں سے بڑی ہوشیاری سے بدلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ محب وطن ہیں، جبکہ کچھ لوگ ملک کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ افسوس کہ اس احساس کو جعلی خبروں کے ذریعے گڑھا جارہا ہے، تاکہ آپ خود کو حق بجانب سمجھتے ہوئے سامنے والے کے جھوٹ کی حمایت کرسکیں… کسی بھی حکومت کی کاردگی کے جائزے کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ اس کے دور میں میڈیا کتنا آزاد اور حقائق کے تعلق سے کتنا سنجیدہ ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو شہریوں کو حکومت سے پہلے خود اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ واقعی شہری ہیں بھی یا نہیں۔ اس کتاب کو پڑھیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے ساتھ کیسا فریب کیا گیا ہےاور کیسا فریب کیا جاسکتا ہے۔

انڈیا مس انفورمڈ ایسے منتخب تجزیوں کا عجائب خانہ ہے جو آنے والے وقت کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عجائب خانے کی سیر ہمارے لیے باعثِ عبرت بھی ہے اور ایک ایسے ملک کے باشندے ہونے کی حیثیت سے باعثِ عار بھی جسے اپنی تہذیبی و اخلاقی روایات پر فخر ہے۔ ■

حوالے:

  1. Sinha, Pratik, Sumaiya Shaikh, and Arjun Sidharth, eds. India Misinformed: The True Story. HarperCollins Publishers India, 2019.
  2. As quoted in: Cooke, Nicole A. Fake news and alternative facts: Information literacy in a post-truth era. American Library Association, 2018.
  3. Fox, Christopher. "Information and misinformation. An investigation of the notions of information, misinformation, informing, and misinforming.” (1983).
  4. Karlova, Natascha, and Jin Ha Lee. 2011. “Notes from the Underground City of Disinformation: A Conceptual Investigation.” Proc. American Society for Information Science and Technology 48, no. 1: 1–9.
  5. Sinha, Pratik, Sumaiya Shaikh, and Arjun Sidharth, eds. India Misinformed: The True Story. HarperCollins Publishers India, 2019.
  6. Indiaspend – https://factchecker.in
  7. https://www.csoonline.com/article/3293002/deepfake-videos-how-and-why-they-work.html
  8. https://edition.cnn.com/interactive/2019/01/business/pentagons-race-against-deepfakes/
  9. https://www.washingtonpost.com/politics/2020/02/13/how-sick-president-suspect-video-helped-sparked-an-attempted-coup-gabon/
  10. https://www.washingtonpost.com/technology/2019/06/12/top-ai-researchers-race-detect-deepfake-videos-we-are-outgunned/