لاک ڈاون کے دو سال بعد بھی مشکلات برقرار
ظفیر احمد، کولکاتا
گزشتہ دو سالوں میں کورونا کی پہلی دوسری اور تیسری لہر نے دنیا کی معاشی حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بھارتی معیشت پر بھی اس کے زور دار جھٹکے لگے ہیں۔ لیکن ہماری معیشت اپنی لچک کی وجہ سے کسی حد تک سنبھلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ گزشتہ دسمبر v2021تک مختلف اشاریے مثلاً برآمدات، ریل کا کرایہ، کوئلہ کی پیداوار اور کھاد کی فروخت، انرجی کی کھپت، سمنٹ کی پیداوار، پورٹ کارگو ٹرافکس وغیرہ کرونا قہر کے پہلے کی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ دسمبر تک گزشتہ چھ ماہ سے ماہانہ جی ایس ٹی سے وصولی ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہی رہی۔ جنوری میں نیشنل اسٹیٹسیکل آفس (این ایس او) نے جی ڈی پی کی شرح نمو 9.2فیصد تک رہنے کا اندازہ لگایا مگر امیکرون کی لہر اور روس و یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر صورتحال تشویشناک بن گئی ہے لیکن اکثر معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ 2022-23میں معیشت کم از کم 7فیصد کی شرح سے بڑھنے والی ہے۔ حقیقی ترقی چار مختلف ذرائع سے آتی ہیں۔ سرمایہ کاری، کھپت، سرکاری اخراجات اور کل برآمدات ، یہ سب ترقی کے ضروری اجزا ہیں۔ مالی سال 2021-22کی دوسری سہ ماہی میں اشیا اور خدمات کے برآمدات میں 19.6فیصد کا اضافہ درج کیا گیا تھا جو گزشتہ سال کے اسی سہ ماہی کے مقابلے میں بہتر تھا۔ اسی دوران سرکاری خزانے میں اضافہ ہوا اور حکومت نے سپلائی چین کی اصلاح کے لیے چند اقدامات کیے اس کے باوجود فی الوقت نجی کھپت تشویشناک ہے۔ کورونا قہر میں سب سے زیادہ متاثر کھپت کا شعبہ ہی رہا۔ جس کی وجہ سے معیشت سستی کی طرف گامزن نظر آرہی ہے۔ سرمایہ کے ساتھ اخراجات گزشتہ سال میں ترقی کا اہم ذریعہ رہا ہے اور حکومت نے اسے مضبوط اور بہتر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ لیکن ترقی کو رفتار دینے کے لیے مرکز اور ریاستوں کو سرمایہ کاری بہتر طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہمہ جہت اثرات معیشت میں دیکھنے کو ملیں گے۔ اس سے روزگار کے مواقع پید ہوں گے۔ بھارت میں کورونا کی دوسری لہر کے فوراً بعد تیسری لہر نے سبھوں کو متفکر کردیا تھا۔ کیونکہ اس سے معیشت کے تعلق سے اندیشے پیدا ہونے لگے لیکن ملک گیر ٹیکہ کاری مہم کی وجہ سے تیسری لہر کا اثر معیشت پر کم ہی پڑا۔ فی الوقت ہماری معیشتRepair Mode میں نظر آتی ہے۔ اس لیے مزید لاک ڈاون کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ گزشتہ سال 2020-21میں بہتری کے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے کہ کورونا کی دوسری اور تیسری لہر کے جھٹکوں نے قہر برپا کردیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 23کروڑ لوگ خط افلاس کے نیچے گرگئے۔ آزادی کے بعد پہلا موقع تھا جب ہمارے ملک میں غریبوں کی تعداد کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ ہمارے ملک میں بغیر منصوبہ بندی کے لگائے گئے سخت ترین لاک ڈاون کی زد ہوٹل، ریسٹورنٹ، ایرلائنس، سیاحت، جیم اور چھوٹے کاروباروں وغیرہ پر پڑی۔ اس سے بھی زیادہ اس لاک ڈاون کی مار کاریگروں پر پڑی ، دستکاری سے جڑے لوگوں کا پختہ ڈاٹا ہمارے پاس نہیں ہے۔ مختلف معلومات سے ان کا تخمینہ 70لاکھ سے دو کروڑ تک بتایا جاتا ہے کووڈ 19 کے قہر کی وجہ سے کم از کم 90فیصد لوگوں کو کام سے ہاتھ دھونا پڑا اور 20فیصد لوگوں کی سالانہ آمدنی کم ہوکر محض ایک چوتھائی ہی رہ گئی ہے۔ روزگار کا حال تو اور بھی برا حال ہے میں گاوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ کئی لوگوں کی سفر کے دوران بڑی تعداد میں جانیں بھی گئیں۔ لاک ڈاون کے خاتمہ کے بعد شرح بے روزگاری 20فیصد تک پہونچ گئی جو کرونا کی دوسری لہر تک 25.9فیصد ہوگئی۔ لڑکیوں میں شرح بے روزگاری لڑکوں (مردوں) کے مناسبت سے 31فیصد ہوگئی۔ اب تو بے روزگاری کے ساتھ کمر توڑ مہنگائی نے عام لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ خاص طور سے جاریہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ تیل کی قیمتوں میں اچھال نے لوگوں کو بدحال کر رکھا ہے۔ تقریباً چار ماہ بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے او رپکوان گیس کی قیمت میں یکبارگی 50روپے فی سلنڈر کا اضافہ کردیا گیا۔ عام لوگوں تک مہنگائی کا کیا حال رہے گا اسے محض خوردہ اور تھوک اشاریے سے نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف تیل کمپنیاں اپنے خسارہ کے بھرپائی میں لگ گئی ہیں۔ موڈیزانویسٹرس سروسز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی ایندھن فروخت کرنے والی کمپنیاں آئی او سی بی پی سی ایل اور ایچ پی سی ایل کو 5ریاستوں میں انتخابات کے دوران ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے ٹیکس میں تقریباً 2.25بلین ڈالر (19000کروڑ روپے) کا نقصان ہوا۔ یہ خسارہ کمپنیاں عوام سے ہی وصو ل کریں گی جس سے عوام کے جیب پر کافی دباو بڑھے گا۔ مگر جیب کیسے بھرا جائے گا ہماری حکومت کے پاس کوئی ٹھوس اور واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔
دوسرے محاذ پر دو سال قبل لگائے گئے لاک ڈاون کے اثرات انتہائی پر آشوب (disastrous) ثابت ہورہے ہیں۔ آج بھی اس کے اثرات محنت کشوں اور خاص طور سے مہاجر مزدوروں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکتوبر 2020میں Right to Food Campaign اور اس کی معاون تنظیموں نے پہلا ہنگر واچ سروے (HW-1) جاری کیا جس کا مقصد کمزور عوام کی معاشی آفتیں اور بھوک کی تکالیف کو تحریری شکل دے کر اس سے نجات پانے کے لیے راستے ہموار کرنا تھا۔
2021میں گرچہ ملک میں کوئی لاک ڈاون نہیں لگایا گیا پھر بھی کرونا کی دوسری لہر نے زندگی کے ہر محاذ کو متاثر کیا۔ فی الوقت فی کس آمدنی ابھی تک ماقبل کورونا کی آمدنی تک نہیں پہنچ پائی ہے جہاں تک غذائی عدم طمانیت کا سوال ہے تو شہری علاقے میں 87فیصد اس کے شکار ہوئے 28فیصد لوگوں کو بدترین غذائی عدم طمانیت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 76فیصد اس مصیبت سے دوچار ہوئے اور 24فیصد لوگوں کو بدترین غذائی عدم طمانیت سے سابقہ پڑا۔ تقریباً ایک تہائی لوگوں نے کہا کہ ان کے کبنے کے لوگوں کو کئی دن بھوکے ہی سونا پڑا ہے حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-5) کے مطابق کم عمر بچوں کے سکڑن (Stunting) اور ان کے وزن کی کمی میں معمولی سی بہتری آئی جبکہ عورتوں میں خون کی کمی (Anemia) کی شکایت عام ہے اس لیے بہت ضروری ہے کہ ملک میں بھوک کے مسائل کودور کرنے کے لیے جلد از جلد اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کے لیے ضروری وسائل بھی فراہم کیے جائیں۔
واضح رہے کہ کورونا قہر نے ملک کے باشندوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق کروڑوں لوگ اس مرض سے متاثر ہوئے اور 5لاکھ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی۔ ملک طبی بحران میں مبتلا ہوگیا۔ ملک کی معیشت میں تقریباً ایک چوتھائی کی تنزلی دیکھی گئی۔ غربا اور مہاجر مزدوروں کو بڑے مصائب سے دوچار ہونا پڑا۔ تجزیہ کاروں نے دو لاکھ کنبوں کے 10لاکھ افراد پر کنزیومر پیراموٹرس ہاوس ہولڈ سروے میں بہت گہرائی سے تجزیہ کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ افلاس اور عدم مساوات نے ملک کی معاشی سرگرمیوں کو تقریباً ختم کرکے رکھ دیا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ہماری آبادی کا ایک حصہ انتہائی غربت کی خلیج میں جاگرا۔ ہماری حکومت کے پاس معاشی ترقی کے لیے صاف و شفاف پالیسی نہیں تاکہ ملک سے افلاس اور عدم مساوات کا خاتمہ ممکن ہو۔
***
***
فی الوقت فی کس آمدنی ابھی تک ماقبل کورونا کی آمدنی تک نہیں پہونچ پائی ہے جہاں تک غذائی عدم طمانیت کا سوال ہے تو شہری علاقے میں 87فیصد اس کے شکار ہوئے جبکہ 28فیصد لوگوں کو بدترین غذائی عدم طمانیت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 76فیصد اس مصیبت سے دوچار ہوئے اور 24فیصد لوگوں کو بدترین غذائی عدم سلامتی سے سابقہ پڑا۔ تقریباً ایک تہائی لوگوں نے کہا کہ ان کے کبنے کے لوگوں کو کئی دن بھوکے ہی سونا پڑا ہے حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS-5) کے مطابق کم عمر بچوں کے سکڑن (Stunting) اور ان کے وزن کی کمی میں معمولی سی بہتری آئی جبکہ عورتوں میں خون کی کمی (Anemia) کی شکایت عام ہے اس لیے بہت ضروری ہے کہ ملک میں بھوک کے مسائل کودور کرنے کے لیے جلد از جلد اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کے لیے ضروری وسائل بھی فراہم کیے جائیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 تا 09 اپریل 2022