قرآن کی بدولت فاطمہ سبریمالا کی زندگی میں انقلاب

شر میں خیر کا پہلو۔ اسلام مخالف مہم ہدایت کا سبب بن گئی

چنئی: (دعوت نیوز ڈیسک)

دین اسلام کی فطرت میں اتنی لچک ہے کہ مخالف لہریں جتنی تیز ہوں گی یہ اتنا ہی مستحکم و منظم ہو جاتا ہے اور جتنی بھی اس کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں ی اتنا ہی ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ازل سے لے کر اب تک اس کے خلاف جتنی بھی سازشیں کی گئیں وہ تمام کی تمام بے سود ثابت ہوئیں اس کے بر خلاف اسلام نے اپنے دامن میں ہر پناہ چاہنے والے کو پناہ دی ہے۔ چنانچہ چند دن پہلے جنوبی ہند کی ریاست تمل ناڈو کی معروف موٹیویشنل اسپیکر، سماجی کارکن اور معلمہ مسز سبریمالا نے اسلام کے دامن میں پناہ لے لی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت کا پرچار دیکھ کر انہوں نے خود اپنے طور پر قرآن کے مطالعے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں، میں نے خود سے سوال کیا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں پائی جاتی ہے چنانچہ میرے اندر تجسس پیدا ہوا اور بغیر کسی تعصب کے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ اب مجھے حقیقت معلوم ہوئی، اب میں اسلام سے خود سے بھی زیادہ محبت کرتی ہوں۔
مکہ مکرمہ سے عمرہ ادا کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں مسز سبریمالا جے کندھن نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا اور اپنا نام فاطمہ سبریمالا رکھا اور کہا کہ مسلمان ہونا حقیقت میں ایک بہت بڑا اعزاز اور فخر کی بات ہے۔
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن کے مصداق فاطمہ سبریمالا نے کہا کہ مسلمانوں کے پاس ایک بہترین کتاب ہے لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے اس کو اپنے گھروں میں چھپا رکھا ہے؟ دنیا کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے ہر مسلمان سے قرآن کا تعارف کروانے کی درخواست کی ہے۔
محترمہ فاطمہ سبریمالا قبول اسلام سے قبل بھی اپنے ضمیر کی آواز کا ساتھ دیتے ہوئے سماجی نا انصافیوں کے خلاف متواتر اپنی آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ ان کی پیدائش تمل ناڈو کے ضلع مدورائی میں اے سوامی اور کلائیاراسی کے گھر 26 دسمبر 1982 کو ہوئی تھی۔ انہوں نے مسٹر جیاکانتن سے شادی کی۔ ان کے بیٹے کا نام جیاچولن ہے۔فاطمہ سبریمالا نے اپنی تعلیم دنڈیگل، تمل ناڈو میں حاصل کی اور 2002 میں ضلع کڈالور کے کٹومنارگوڈی کے قریب ایلیری اسکول میں بطور اسکول ٹیچر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ انہوں نے سرکاری اسکول ٹیچر کے طور پر اپنی نوکری یہ کہتے ہوئے چھوڑ دی کہ قوم کی خدمت ان کی ملازمت سے زیادہ اہم ہے۔
فاطمہ سبریمالا پورے ہندوستان میں ایک ہی تعلیمی نظام لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نیٹ (NEET) کے امتحان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے وہ یہ دلیل دیتی ہیں کہ جب پورے ہندوستان میں کوئی مشترکہ تعلیمی نظام نہیں ہے تو نیٹ تمام ہندوستانی طلبا پر یکساں لاگو کیسے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے نیٹ کے خلاف بھوک ہڑتال کی اور اصرار کیا کہ جب تک ہندوستان میں مشترکہ تعلیمی نظام نافذ نہیں ہو جاتا اسے ختم کر دینا چاہیے۔ تمل ناڈو کی یہ معروف عوامی شخصیت 2002 سے کئی سماجی خدمات میں اپنا حصہ ادا کر چکی ہے۔ وہ تعلیمی مساوات کے ساتھ ساتھ لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہیں جس کے لیے انہوں نے تمل ناڈو میں 2017 میں ’’وژن 2040‘‘ کے نام سے ایک تنظیم شروع کی۔ اس تنظیم کا مقصد لڑکیوں و بچوں کا تحفظ اور واحد تعلیمی نظام لانا ہے۔
فاطمہ سبریمالا معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ لڑکیوں میں اپنے تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے انہوں نے تمل ناڈو کے دیہی علاقوں میں تقریباً چھ لاکھ لڑکیوں سے ملاقات کی۔ فاطمہ نے بچیوں کے تحفظ پر ایک کتاب بھی لکھی اور اسے پانچ ہزار اسکولی لڑکیوں میں تقسیم کیا۔انہوں نے کوئمبتور میں جنسی زیادتی کے ایک کیس میں ہلاک ہونے والی لڑکی کے خاندان کے لیے ایک لاکھ روپے کی امداد بھی کی۔ ایک موٹیویشنل اسپیکر کے طور پر سبریمالا دو ہزار سے زیادہ لیکچرز دے چکی ہیں۔ وہ دو سو سے زیادہ پلیٹ فارمز پر پینل اسپیکر ہیں اور وینڈر ٹی وی، نیوز 7 ٹی وی، جیا ٹی وی وغیرہ پر کئی ٹی وی پروگراموں کو ماڈریٹ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی تقریریں کاروبار کے لیے نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کے لیے ہیں۔ ان کا موجودہ مشن سرکاری اسکولوں کے طلباء کو عوامی مقررین میں تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے ہزاروں طلباء کو اسٹیج تقریروں کے لیے تیار کیا ہے۔ وہ طلبا کو مقررین میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں اور پورے تمل ناڈو میں اسکولوں، ثقافتی تہواروں اور ادبی مقامات پر ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں جہاں وہ طلبا کو اسٹیج پر بولنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔فاطمہ سبریمالا نے ’’گھر واپسی نہیں‘‘ کے نعرے کے ساتھ ایک مہم شروع کی جس میں وہ وعدہ کرتی ہیں کہ وہ کچن میں کھڑی خواتین کو اسمبلی میں بھیجیں گی۔ انہوں نے حقوق نسواں کے مقاصد کے ساتھ ایک سیاسی جماعت ’’ویمنز لبریشن پارٹی‘‘ (WLP) بھی بنائی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو بچے پیدا کرنے والے کھلونوں اور باورچی خانے کی مشینوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ویمنز لبریشن پارٹی دقیانوسی تصورات کو توڑ دے گی اور تمل ناڈو میں خواتین کی حیثیت کو بدل دے گی۔

 

***

 ’’میں نے خود سے سوال کیا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں پائی جاتی ہے چنانچہ میرے اندر تجسس پیدا ہوا اور بغیر کسی تعصب کے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ اب مجھے حقیقت معلوم ہوئی، اب میں اسلام سے خود سے بھی زیادہ محبت کرتی ہوں۔‘‘


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022