خبرونطر

پرواز رحمانی

سی اے اے
وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار پھر دہرایا ہے کہ شہریت کا ترمیمی قانون سی اے اے نافذ ہوکر رہے گا۔ اس بار انہوں نے وقت بھی مقرر کردیا ہے کہا ہے کہ کورونا کی بیماری ختم ہونے کے بعد سی اے اے نافذ ہوجائے گا۔ اعلان کے لیے وزیر داخلہ نے مغربی بنگال کو منتخب کیا ہے جہاں وہ دو روزہ دورے پر گئے تھے۔ دورے کا مقصد 2024کے لوک سبھا کے انتخابات کے لیے پارٹی کو ازسر نو مضبوط بنانا ہے۔ مغربی بنگال اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کو ترنمول کانگریس کے ہاتھوں شرمناک شکست ہوئی تھی حالانکہ اس نے تمام جتن کر ڈالے تھے۔ اب وہ نئے حوصلے کے ساتھ مغربی بنگال میں اترنا چاہتی ہے اور مسلم تارکین وطن کو بہت بڑا ایشو بتانا چاہتی ہے۔ سلی گوڑی میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کورونا کے ختم ہونے کے بعد پہلا بڑا اقدام سی اے اے کے نفاذ کا ہوگا۔ یہ نہیں بتایا کہ کورونا کب ختم ہوگا۔ اندازاً بھی نہیں۔ شہری قانون کے ذکر کا ایک مطلب شاید یہ بتانا بھی ہو کہ اس قانون کو کسان قانون کی طرح واپس نہیں لیا جائے گا۔ اسے ہر صورت میں نافذ کیا جائے گا، یہ اس لیے کہ اس قانون کا پہلا اور واحد ہدف مسلم شہری ہیں اور مسلمانوں سے متعلق کوئی بھی قانون بنانا آج کل بہت آسان ہے۔

قانون ناقص ہے
شہریت کا ترمیمی قانون خالصتاً مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر وضع کیا گیا ہے، یعنی مسلم ملکوں میںاگر غیر مسلموں (ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بودھ، جین) کو پریشان کیا جارہا ہو، ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہو اور وہ بھارت آنا چاہیں تو آسکتے ہیں، انہیں شہریت دی جائے گی۔ اس فہرست میں مسلمان نہیں ہیں، کیوں کہ مسلم ملکوں میں مسلمانوں کو پریشان نہیں کیا جاتا۔ لیکن غیر مسلم ملکوں میں ہراساں کیے جانے والے مسلمانوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ سرحدی پڑوسی ملک برما میں مسلم شہریوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ ان سے کوئی ہمدردی کا اظہار نہیں ہے۔ یہ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ انسانیت یا انسانی ہمدردی کا ہے ہی نہیں، ملک میں صرف ہندتوا کو مضبوط کرنے کا ہے۔ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش وغیرہ سے ہندو شہریوں کو بلاکر ان کی آبادی بڑھانا مقصود ہے۔ اس کے علاوہ اس مضحکہ خیز قانون کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ لیکن اپنی موجودہ شکل میں یہ قانون ہندتوا کے مقاصد پورے نہیں کررہا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال آسام ہے جہاں کی فہرست سے 19 لاکھ افراد کو غیر قانونی شہری قرار دیا گیا تھا مگر جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں 16لاکھ’ غیر مسلم (زیادہ تر ہندو) ہیں مسلمان صرف تین لاکھ نکلے اور یہ ان کی اپنی فہرست ہے۔

حکمراں اور کریں بھی کیا؟
کئی ماہرین بتاچکے ہیں کہ سی اے اے عملی چیز نہیں ہے۔ یہی حال یکساں سول کوڈ کا ہونے والا ہے(اگر اس کا مسودہ قانون عام ہوگیا) کامن سول کوڈ کے بار بار ذکر کا مقصد محض مسلمانوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنا ہے ۔ یہ بھی عملی چیز نہیں ہے۔ لیکن ان دونوں قوانین سے بہرحال باخبر اور چوکنا رہنا ضروری ہے۔ ہندتوا کے پٹارے میں شرانگیزیاں بہت سی ہیں جس پارٹی کے پاس مثبت پروگرام نام کی کوئی چیز نہ ہو وہ اور کیا کرے گی۔ برسوں کے مختلف آزمودہ حربوں سے اس نے اقتدار پر قبضہ تو کسی طرح کرلیا اور اپنے منفی ایجنڈے پر آگے بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن عوام کو مطمئن اور یکسو کرنے کے لیے اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ لہذا یہ منفی اور متنازعہ مسائل اٹھا کر ہی وہ خود کو زندہ رکھ رہی ہے۔ شریف اور سنجیدہ شہریوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ بڑا آزمائشی دور ہے۔ نہایت دور اندیشی کے ساتھ ان مسائل کا سامنا کرنا ہے۔ اندرا گاندھی کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو ملکی مسائل بتاکر بیان کرتی تھیں۔ موجودہ حکمراں گروہ کا طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ ایک مخصوص طبقے کے مسائل کو پورے ملک کے مسائل بتاکر عام شہریوں کو فریب دے رہا ہے اور جو سب سے مثبت اور روشن چیز ملک میں موجود ہے یعنی شریعت اسلامی اسے اپنا دشمن گردانتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022