اداریہ

کورونا اموات اور شتر مرغ کی چال

معروف ہے کہ ’’اعداد و شمار کچھ بھی ثابت کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار مٹی کی مانند ہیں جسے کسی بھی طرح سے ڈھالا جا سکتا ہے تاکہ صحیح یا غلط نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔‘‘
حال میں دو طرح کے اعداد و شمار منظرِ عام پر آئے ہیں۔ ایک مرکزی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی جانب سے 5 مئی کو پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر جاری کردہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس-5) کے پانچویں دور کی قومی رپورٹ جو مرکزی وزیرِ صحت ڈاکٹر منسُکھ منڈاویہ نے گجرات کے وڈودرا میں منعقد ہونے والے ‘سواستھیا چنتن شیویر’ میں پیش کی تھی۔
دوسری رپورٹ عالمی صحت ادارہ (WHO)
کی ہے جو کورونا سے دنیا اور بھارت میں ہونے والی اموات کے چونکا دینے والے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ جسے نئے پنڈورا باکس سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کورونا اور اس کے اثرات سے دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ اموات ہوئیں۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں سرکاری اعداد و شمار نے دس گنا کم کورونا اموات کا اندراج کیا ہے۔
بھارت میں کورونا وائرس سے اصل میں 47 لاکھ اموات ہوئیں جبکہ صرف پونے میں 5 لاکھ اموات بتائی گئیں۔ بھارت نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار پر سخت تنقید کی ہے، وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا کہ کورونا وبا سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا ’ریاضیاتی ماڈل’ قابل اعتراض ہے اور اعداد و شمار کے لحاظ سے اسے ’غیر ثابت شدہ’ قرار دیتے ہوئے بعض خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے نتائج پچھلے مہینے لینسیٹ نامی سائنسی رسالے کے اعداد و شمار اور فروری میں ایک سائنس جریدے کے سروے سے ملتے ہیں جس میں کورونا سے کم از کم 32 لاکھ اموات کا اندازہ کیا گیا تھا۔ بھارتی عہدیداروں نے لینسیٹ اور سائنس اسٹڈیز میں استعمال کیے جانے والے طریقہ کار پر اعتراض کیا تھا۔ اس میں بھی اموات کی تعداد بہت زیادہ بتائی گئی تھی۔
بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قومی سطح پر کورونا سے 5 لاکھ 20 ہزار اموات ہوئی ہیں، یعنی بھارت، امریکا اور برازیل کے بعد کورونا سے اموات کی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ’زیادہ اموات میں براہ راست کورونا وبا کی وجہ سے اور بالواسطہ یعنی صحت کے نظام اور معاشرے پر وبا کے اثرات کی وجہ سے ہونے والی اموات بھی کووڈ سے وابستہ اموات کے طور پر درج کی گئی ہیں۔’ نیز طریقہ کار میں وبا سے قبل کی اوسط اموات اور وبا کے بعد کی اموات میں اضافے کی شرح کا موازنہ کرنے کے بعد جو تخمینہ نکل کر آیا ہے اس وجہ سے یہ تعداد بنتی ہے۔
بہر حال حسبِ توقع اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک میں سیاسی پارہ چڑھ گیا ہے۔ حزبِ اختلاف نے لاک ڈاؤن کے دوران آکسیجن کی قلت سے ہونے والی اموات پر حکومت کی شتر مرغ کی چال اور دیگر لا پروائیوں کی جانب توجہ دلائی اور حکمراں جماعت تو عالمی اداروں کو یوں بھی تب ہی خاطر میں لاتی ہے جب وہ وزیرِ اعظم کی تعریف یا حکومت کی کسی حصولیابی کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس-5) کے پانچویں دور کی قومی رپورٹ آبادی، صحت اور خاندانی بہبود کے کلیدی شعبوں اور متعلقہ شعبہ جات جیسے آبادی کی خصوصیات، زرخیزی، خاندانی منصوبہ بندی، بچوں اور بچوں کی اموات، ماں اور بچے کی صحت، غذائیت اور خون کی کمی، بیماری اور صحت کی دیکھ بھال اور خواتین کو بااختیار بنانا وغیرہ کے حوالے سے تفصیلی معلومات پر مشتمل ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’’این ایف ایچ ایس کے یکے بعد دیگرے منعقد ہونے والے ادوار کا بنیادی مقصد صحت اور خاندانی بہبود اور ہندوستان میں دیگر ابھرتے ہوئے شعبوں سے متعلق قابل اعتماد اور موازنہ ڈیٹا فراہم کرنا ہے۔ این ایف ایچ ایس-5 سروے کا کام 28 ریاستوں اور 8 ریاستوں کے زیر انتظام علاقوں سے ملک کے 707 اضلاع (مارچ، 2017 تک) کے تقریباً 6.37 لاکھ گھرانوں میں نمونے کے طور پر کیا گیا ہے، جس میں 7,24,115 خواتین اور 1,01,839 مردوں کو شامل کیا گیا ہے اور جس کا مقصد ضلعی سطح تک غیر منقسم تخمینہ فراہم کرنا ہے۔ قومی رپورٹ سماجی، اقتصادی اور دیگر پس منظر کی خصوصیات کے لحاظ سے بھی ڈیٹا فراہم کرتی ہے، جو کہ پالیسی سازی اور پروگرام پر موثر عمل درآمد کے نفاذ کے لیے مفید ہے۔‘‘
بات یہیں تک رہتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اب ملک میں اصل بحث اس موضوع پر نکل پڑی ہے کہ مسلمانوں میں شرحِ پیدائش میں ریکارڈ کمی درج ہونے کے باوجود اب بھی وہ زیادہ ہی بچے پیدا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ٹرول آرمی اور نفرتی میڈیا کب باز آتا ہے؟
عالمی رپورٹ پر نیوز لانڈری ڈاٹ کام میں جمنی این راؤ نے بھارتی حکومت کے موقف کی پول کھولنے والی رپورٹنگ کی ہے۔ جن ’اضافی اموات’ کا اندراج ڈبلیو ایچ او نے کیا ہے بھارت ان کو کورونا کی اموات نہیں مانتا۔ وزیر صحت نے تو اسے ’بھارت کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش’ سے تعبیر کرتے ہوئے باضابطہ ایک قرارداد ہی منظور کروا لی ہے۔
صحت امور کی صحافی بنجوت کور اور ٹورنٹو، کینیڈا کے پروفیسر پربھات جھا جیسے متعدد مطالعوں سے بڑی تعداد میں کورونا سے اموات ہونے کی تصدیق ہوتی ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت سے کافی حد تک میل کھاتے ہیں۔
آخر حکومت کو تسلیم کرنے میں تکلف کیوں ہے؟
اول تو یہ کہ عدالتوں نے ان اموات پر معاوضہ ادا کرنے حکم دیا تھا جو ملکی خزانہ پر ایک ’بوجھ’ مانا جائے گا۔ دوم وزیر اعظم نریندر مودی نے 28 جنوری 2021 کو داؤس میں منعقدہ عالمی اقتصادیات فورم میں بڑے شد و مد سے دنیا کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے کورونا کو ’شکست’ دے دی ہے۔ بلکہ اب بھارت آوروید اور ویکسین کے ذریعے دیگر ملکوں کی مدد کرنے پر کام کر رہا ہے۔ اب اگر انا اور خود سری کا مظاہرہ کرنا ہے تو کسی اور رپورٹ کو تسلیم کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟
حالانکہ اعداد و شمار اس لیے لازم ہیں کہ ان ہی کی بنیاد پر ملک کے وسائل کی تقسیم عمل میں آتی ہے۔ ان سے بے ایمانی ایک غیر جمہوری بلکہ غیر انسانی عمل ہے۔ انتظامی اور دیگر خامیوں کو دور کرنے اور حسب ضرورت حکومت کے منصوبوں کی روبہ عمل لانے میں ان سے رہنما خطوط میسر آتے ہیں۔ اب اگر حکومت ان حقائق سے آنکھ چراتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک کے عوام سے بد دیانتی کر رہی ہے اور کارپوریٹ کے اشاروں پر کام کرنے کا اس پر لگنے والا الزام شاید غلط نہیں ہے ورنہ وہ عوام کی صحت اور بہبود پر خرچ کرنے میں کبھی نہ ہچکچاتی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022