قرآن فہمی کے چند بنیادی اصول

کلام الٰہی کے پیچھے چلنا ہدایت اور اس کو اپنے پیچھے چلانا گمراہی ہے

محمد سلیمان قاسمی،رامپور

قرآن کے نہ صرف مطالعہ اور فہم کے لیے بلکہ اس کی تفسیر اور تشریح کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس سے دعا کرنا بھی فہم قرآن کے لیے ضروری شرط ہے کہ اس کا کلام اس کی توفیقات کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔قرآن کے کسی ٹکڑے یا آیت کی وہی تفسیر صحیح اور درست ہوسکتی ہے جو اس کے مجموعی نظام فکر اور مجموعی تعلیمات کے مطابق ہو اور ایک ہی موضوع سے متعلق اس کے دوسرے بیانات کے خلاف نہ ہو۔
قرآن کی کسی آیت یا فقرہ کے معنی وہی درست قرار پا سکتے ہیں جو اس کے سیاق وسباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔
تفسیرِ قرآن سے متعلق کوئی روایت خواہ وہ کتنی ہی مضبوط سند سے کیوں نہ ثابت ہو، اسے قبول نہیں کیا جاسکتا جب کہ اس کا متن اور اس میں کی گئی بات قرآن کے خلاف ہو۔قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب بیان کرنا یا نکالنا ہرگز درست نہیں ہوسکتا إلا یہ کہ قرآن کے الفاظ میں اس کے لیے کوئی قرینہ ہو یا قرآن میں کسی اور جگہ اس کے لیے کوئی بات موجود ہو یا کسی صحیح حدیث میں اس کی کوئی بات بیان ہوئی ہو۔ یا قابل اعتبار تاریخ اور آثار وقرائن اور مستند علمی تحقیقات سے اس کی تائید ہو یا فقہ اسلامی کے ماخذ اس کی تائید کرتے ہوں۔
قرآن کی تفسیر کے لیے قرآن کی زبان کا ذوق پیدا کرنا بھی ضروری ہے اور کسی زبان کا ذوق برسوں کی مشق اور پِتَّہ ماری سے پیدا ہوتا ہے۔ زبان کا ذوق صرف ترجموں، تفسیروں اور کتابوں کی ورق گردانی سے پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے اس زبان کا سارا کلاسیکی لٹریچر اس کے اساتذہ کا کلام اس کے قواعد وضوابط اس کی تلمیحات، تمثیلات اور محاروں پر عبور اس کی نظم ونثر کا وسیع گہرا اور ٹھوس مطالعہ اس کی صرف ونحو، اس کا علم معانی اور بیان اس کی فصاحت وبلاغت کی باریکیاں اور لطافتیں، ان سب پر جب تک عبور نہ ہو، تب تک اس کا ذوق پیدا نہیں ہو سکتا۔
قرآن کی تفسیر کا بہترین اصول قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعہ ہے۔ القرآن یفسر بعض بعضا۔ قرآن کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں۔ متکلم اگر اپنے کلام کی خود توضیح کردے تو پھر کسی اور شخص کی نکتہ آفرینی کا نہ کوئی مقام باقی رہتا ہے اور نہ ضرورت۔ آیات قرآنی کی تفسیر دوسری آیات کے ذریعہ گویا ایسا ہی ہے کہ جیسے قائل نے خود اپنے قول کی تشریح اور متکلم نے خود اپنے کلام کی وضاحت کردی ہو۔
قرآن مجید کی اصطلاحات مثلاً صلوٰۃ، زکوۃ، صوم، حج، مومن، مسلم، متقی، محسن، کافر، مشرک، منافق، فاسق، دین، الہ، رب، عبادت اور جہاد وغیرہ کی وضاحت کرنے کے لیے قرآن کے بعد سب سے زیادہ اعتماد سنت متواترہ مشہورہ پر کرنا چاہیے۔ خود قرآن بھی اسی ثابت شدہ سنت سے ثابت ہے اور قرآن کی اصطلاحات کا صحیح اور قابل اعتماد مفہوم بھی اسی سے ثابت ہے۔ غرض کہ قرآن کی جو تفسیر خود صاحب قرآن محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہو وہی صحیح اور درست ہوگی۔
صحیح احادیث وآثار سے اگر کسی آیت یا قرآن مجید کے کسی ٹکڑے ک تفسیر ثابت ہو تو اسے نہ صرف تسلیم کرنا چاہیے بلکہ اسی کو پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ عملاً قبول کرنا چاہیے۔ بشرطیکہ وہ خود قرآنی صراحت کے خلاف نہ ہو۔ اور صحیح احادیث کی کوئی بات قرآنی صراحت کے خلاف ہو بھی کیسے سکتی ہے جب کہ کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لیے خود قرآن کسوٹی اور معیار ہے؟
کسی بھی سورہ اور آیت کو سمجھنے کے لیے اس کے الفاظ، اس کا سیاق وسباق، اس کا نظم کلام اور قرآن میں اس کے شواہد ونظائر سامنے رکھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح فہم قرآن کے دروازے کھلتے ہیں اور آدمی بہکنے اور بھٹکنے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
اسرائیلیات سے تفسیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ جو تفاسیر کا سب سے زیادہ بوگس حصہ ہیں۔ (دور جدید کی تفاسیر مثلاً تفہیم القرآن اور تدبر قرآن، اسرائیلیات سے پاک ہیں) اسرائیلیات، یہودیوں اور عیسائیوں کی من گھڑت اور میتھالوجیکل کہانیوں کو کہتے ہیں۔ ان پر قطعاً اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے جو بات ثابت ہو اسے خود قرآن اور سنت اور صحیح احادیث کی کسوٹی پر کس لینا چاہیے۔
تاریخِ عرب اور دیگر تاریخوں سے بھی قرآن مجید کی توضیح اور تفسیر میں مدد لی جا سکتی ہے لیکن خود تاریخ کے لیے بھی کسوٹی قرآن مجید ہی ہے۔
نیت کا خلوصِ تفسیر قرآن بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ طالبِ ہدایت کو قرآن سے ہدایت ملتی ہے اور اگر آدمی جستجوئے حق نہیں رکھتا اور طالبِ ہدایت نہیں ہے بلکہ وہ کوئی باطل اور فاسد غرض رکھتا ہے مثلاً وہ ناموری چاہتا ہے یا اور کوئی دنیاوی مفاد اپنے سامنے رکھتا ہے جیسے وہ قرآن میں صاحب قرآن محمد صلی اللہ علیہ و سلم میں، پیام وقرآن میں، یا نظریہ اور نظامِ قرآن میں کیڑے نکالنے کی غرض سے قرآن کا مطالعہ کرتا ہے، اس کی توضیح کرتا اور تفسیر کرتا ہے تو پھر وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور خلقِ خدا کو بھی گمراہ کرے گا۔ خلوص و للّہیت قرآن خوانی، قرآن فہمی اور قرآن دانی کے لیے بھی ضروری ہے اور اس کی تشریح، توضیح اور تفسیر کے لیے بھی ضروری ہے۔اپنے مخصوص اور محبوب افکار ونظریات کے لیے قرآن سے دلائل فراہم کرنا، یا بالفاظِ دیگر قرآن کو اپنے افکار وخیالات کی تائید کے لیے استعمال کرنا ایک انتہائی قبیح حرکت ہے۔ قرآن کے پیچھے چلنا ہدایت ہے اور قرآن کو اپنے پیچھے چلانا گمراہی ہے بلکہ یہ جراءتِ کافرانہ ہے، حرکتِ فاسقانہ ہے۔
قرآن کو برتر کلام، کلام الہیٰ تسلیم کرکے اس میں غور وفکر کرنا اور اس کی توضیح وتفسیر کا بیڑہ اٹھانا چاہیے۔
اس عزم اور قصد کے ساتھ قرآن کا مطالعہ اور اس کی تفسیر کرنا چاہیے کہ خود بھی اپنی فکر ونظر اپنے اخلاق وکردار اور اپنے انفرادی واجتماعی رویے کو اس کے مطابق ڈھالیں گے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف متوجہ کریں گے۔قرآن سے ہدایت حاصل کرنا، نصیحت لینا، عبرت حاصل کرنا آسان ہے۔ چنانچہ فرمایا وَلَقَدْ یسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکرِ فَهَلْ مِن مُّدَّکرٍ (سورہ قمر) مگر قرآن سے نکات، باریکیاں اور قانونی پوائنٹس اخذ کرنا ماہرینِ قرآن کا کام ہے علما کرام کا کام ہے فقہا عظام کا کام ہے۔
(مضمون نگار دروس القرآن کے مصنف اور کئی کتابوں کے مولف ہیں۔)

 

اس عزم اور قصد کے ساتھ قرآن کا مطالعہ اور اس کی تفسیر کرنا چاہیے کہ خود بھی اپنی فکر ونظر اپنے اخلاق وکردار اور اپنے انفرادی واجتماعی رویے کو اس کے مطابق ڈھالیں گے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف متوجہ کریں گے