فرقہ واریت کا وائرس ، دوسرا خوفناک چیلنج

2 لاکھ کروڑکےٹیکس خسارہ کی پابجائی متبادل ذرائع سے ممکن

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

حکومت نے ملک بندی کے قوانین میں نرمی لاتے ہوئے دو قابل ذکر کام کیے۔ ایک تو مہاجر مزدوروں کی گھر واپسی کا نظم کیا اور دوسرا شراب کی دکانیں کھولنے کا حکم دیا۔ ننگے بھوکے مزدور مسافروں سے ریل کا کرایہ وصول کرنے پر اتنی شدید تنقید ہوئی کہ ان کا سفر فوراً مفت ہوگیا لیکن جہاں تک شراب کا سوال ہے ملک کے شرابیوں نے 40 دن شراب پیے بغیر کاٹ دیے لیکن ہماری عظیم حکومتیں شراب فروخت کیے بغیر ایک دن بھی نہیں گزار سکیں۔ ملک بندی میں نرمی کے پہلے دن پورے ملک کے تقریباً 600 اضلاع میں شراب کی دکانیں کھل گئیں کیوں؟ کیوں کہ ریاستی حکومتوں نے مرکز پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ شراب سے جو ٹیکس وصول کرتی ہیں اگر وہ ٹیکس وصول نہ کیا گیا تو وہ بیٹھ جائیں گی۔ اب تمام ریاستوں کو تقریبا 2 لاکھ کروڑ روپے ملے ہیں۔ ٹیکس شراب کی فروخت سے آتا ہے۔ پہلے دن ہی 1000 کروڑ روپیوں کی شراب بیچی گئی۔کچھ ریاستوں نے آرڈر کرنے پر گھروں تک شراب کی بوتلیں پہنچانے کا بھی انتظام کیا ہے۔ ملک بھر سے لاکھوں شرابی شراب کی دکانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ دو گز جسمانی فاصلہ بنائے رکھنے کے اصولوں کی دھجیاں اڑائیں گئیں۔ ایک ایک دوکان پر دو کلومیٹر لمبی لائنیں لگ گئیں۔ ہر آدمی نے کئی کئی بوتلیں خرید لیں ۔جب پولیس نے انہیں ایک دوسرے سے دور کھڑے ہونے کے لیے دھمکایا تو بھگدڑ اور مار پیٹ کی تصویریں بھی دیکھی گئیں۔
یہ سب عجیب وغریب مناظر ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز پر بیرونی ممالک میں بھی لاکھوں افراد نے دیکھے ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہوا کہ ہندوستان میں اتنی بڑی تعداد میں شرابی رہتے ہیں۔ میرے کچھ غیر ملکی دوستوں نے مجھے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ ہندوستان ہے یا شرابیوں کا ملک ہے؟ ان کے ذہن میں ہندوستان کی شبیہ وہ ہے جو مہارشی دیانند، ویویکانند اور گاندھی کی وجہ سے بنی ہوئی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہندوستان میں تقریبا 25 سے 30 کروڑ شرابی ہیں یعنی ہر پانچ میں سے ایک شخص شرابی ہے جب کہ یوروپ اور امریکہ میں 80 سے 90 فیصد افراد شرابی ہیں۔
آج بھی ہندوستان میں عام آدمی شرابی کو ٹیڑھی نظروں سے ہی دیکھتا ہے۔ ہندوستان میں پہلے شراب چھپ چھپا کر پی جاتی تھی۔ شراب بنانے والے محلوں کے کسی کونے میں رہتے تھے لیکن اب ہندوستان کے بڑے ہوٹلوں، بستیوں اور بازاروں کی دکانوں میں بھی دھڑلے سے شراب فروخت کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی لمبی لمبی قطاروں نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ اب ہندوستان میں صرف بہار، گجرات، ناگالینڈ، میزورم اور لکشادیپ میں شراب پر پابندی ہے۔ دوسرے تمام صوبے شراب پر بھاری ٹیکس لگا کر پیسہ کما رہے ہیں۔ دہلی سمیت کچھ ریاستوں نے تو ان دنوں شراب پر اور زیادہ ٹیکس بڑھا دیا ہے۔
تقریباً تمام ہندوستانی پارٹیوں کے قائدین شراب کی فروخت کی حمایت کرتے ہیں۔صرف نتیش کمار کی جے ڈی یو اس کی مخالفت کرتی ہے۔ اپنے آپ کو گاندھی، جئے پرکاش، لوہیا اور ونوبھا بھاوے کے پیروکار کہنے والے نیتاوں کی زبان پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک میں اور متعدد ریاستوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے حامیوں کی حکومتیں ہیں لیکن وہ بھی پیسوں کے لیے اپنا ایمان بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر ان کی خاموشی بھارتی آئین کے آرٹیکل 47 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ آئین کے بنیادی اصولوں میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ حکومت کو نشیلی چیزوں پر پابندی کے لیے پوری کوشش کرنی چاہیے۔ کانگریس، جنتا پارٹی اور بی جے پی کی حکومتوں کے آخری 73 سالوں کے دوران ہندوستان میں شراب نوشی ستر سے اسی گنا بڑھ چکی ہے۔
جہاں تک الکحل سے 2 لاکھ کروڑ کمانے کی بات ہے اس خسارے کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے پورا کیا جا رہا ہے۔ اور اگر بھارت پانی کی طرح سستا ہوا غیر ملکی تیل خرید کر اسے اپنے ذخائر میں جمع کرلے تو وہ شراب کے ذریعے ہونے والی آمدنی کو ٹھکرا سکتا ہے۔ اور اگر دنیا بھر میں کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے اپنی دوائیں آیورویدک کاڑھے اور ہون سامگری کو بیچ سکے تو اس سے اربوں اور کھربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ اس کورونا بحران سے پیدا ہوئے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ شراب پر مکمل پابندی عائد کرسکتا ہے۔ موت سے ڈرا کر شرابی کو بھی اس پابندی کا قائل کرلیا جا سکتا ہے۔ 40 دن سے جاری اس لاک ڈاؤن کے دوران لاگو عارضی نشہ بندی، مستقل نشہ بندی میں تبدیل ہوسکتی تھی۔
کیا شراب پینے سے انسان کی قوت مدافعت گھٹتی ہے یا بڑھتی ہے؟ کورونا وائرس سے مرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد شرابیوں کی ہے۔ یوں بھی ہر سال ہندوستان میں شراب پینے کی وجہ سے ڈھائی لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ شراب لاکھوں جرائم کا باعث بنتی ہے۔ ملک میں 40 فیصد قتل شراب پینے سے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ نشے میں ہی عصمت ریزی کرتے ہیں۔ کار حادثات اور شراب نوشی کا بھی رشتہ پرانا ہے۔ روس اور امریکہ جیسے ممالک میں شراب اور زیادہ ظلم کرتی ہے۔ یہ وہ موقع تھا جب ہندوستان ان ممالک کے لیے ایک رول ماڈل بن جاتا لیکن وہ بھی شراب سے حاصل ہونے والی آمدنی کی چکا چوند میں بہہ رہا ہے۔ ملک میں نہ تو ایسے رہنما موجود ہیں اور نہ ہی ایسی تنظیمیں جو آج کے دن نشہ بندی کے لیے احتجاجی تحریک چلائیں ستیہ گرہ کریں اس کے خلاف مظاہرے اور دھرنے دے سکیں۔ سنسکار بنانا قانون بنانے سے بھی بھی بڑی چیز ہے۔
شراب پینے سے انسان کا ضمیر باطل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔ جب تک وہ نشے ہوتا ہے، اس کے اور جانور کے مابین تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی فطری صلاحیتیں گُم ہو جاتی ہیں اور فضول خرچی بڑھ جاتی ہے۔ یہ چیز شرابیوں کے خاندان اور ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔
***

 

ہر سال ہندوستان میں شراب پینے کی وجہ سے ڈھائی لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ شراب لاکھوں جرائم کا باعث بنتی ہے۔ ملک میں 40 فیصد قتل شراب پینے سے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ نشے میں ہی عصمت ریزی کرتے ہیں۔ کار حادثات اور شراب نوشی کا بھی رشتہ پرانا ہے۔