فرقہ وارانہ خليج اور منافرت کے خلاف جدوجہد کا عزم

آل انڈيا مسلم مجلس مشاورت تمام مظلوموں کے آئيني حقوق کے تحفظ کے لیے کمربستہ

سبطين کوثر

دلي ميں منعقدہ کانفرنس ميں اتحاد اُمّت، فسطائيت،نسل کشي اور اقليتوں کے مسائل پر غور و خوض اور اعلاميہ کي منظوري
’ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا لائحہ عمل‘کے زير عنوان اس کانفرنس ميں شہريوں کے دستوري حقوق، ثقافتي شناخت کے تحفظ اور سماج ميں ہم آہنگي برقرار رکھنے جيسے امور پر غوروخوض کيا گيا۔ کانفرنس ميں مختلف رياستوں سےقائدين ملت، سرکردہ دانش ور، ماہرين سماجيات و اقتصاديات و سياسيات نے شرکت کي۔ ان شخصيات ميں مسلم مجلس مشاورت کے صدر نويد حامد،امير جماعت اسلامي ہند جناب سيدسعادت اللہ حسيني، مرکزي جمعيت اہل حديث کے اميرمولانااصغر امام مہدي سلفي،ندوہ العلماء کے موقراستاد مولانا عتيق احمد بستوي، اتحاد ملت کونسل کے صدر مولانا توقير رضا، مسلم پرسنل لا بورڈ کي ممبر عظمي ناہيد، آل انڈيا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ايکزيکيوٹيو ممبر ڈاکٹر سيد قاسم رسول الياس، مجلس مشاورت کے نائب صدر ملک معتصم خاں، مجلس مشاورت کے جنرل سکريٹري مولانا عبد الحميد نعماني، دہلي يونيورسٹي کے پروفيسر اور مشہور تجزيہ نگار پروفيسر اپوروانند، ممبر پارليمنٹ کنور دانش، پروفيسر علي خاں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کےمجلس عاملہ کے رکن مولانا ياسين عثماني نے سامعين کو خطاب کيا اور حالات حاضرہ پر روشني ڈالي۔
مولانا توقير رضا خاں نے مسلمانوں کے ساتھ ہورہي ناانصافيوں کے خلاف پورے ملک ميں جيل بھرو تحريک چلانے کي اپيل کي۔ ممتاز تجزيہ نگار و کالم نويس پروفيسر اپوروانند نے کہا کہ موجودہ وقت ميں کھلے عام اقليتوں کي عبادت گاہوں پر دعويٰ کرنے جو مذموم سلسلہ چل پڑا ہے، يہ ملک کے ليے اچھي علامت نہيں ہے۔ رکن پارليمان کنور دانش نے کہا کہ ملک کے اہم اداروں ميں ايسے لوگ آگئے ہيں جو ملک کي تاريخ کو بدلنا چاہتے ہيں۔ مولانا اصغر علي امام مہدي سلفي نے کہا کہ ابھي جو حالات ہيں وہ يہ بتانے کے ليے کافي ہيں کہ اس کي انتہا کيا ہوگي اور ملک کس سمت کي طرف بڑھ رہا ہےاور ہم پر اس ملک کو بچانے کي کتني بڑي ذمہ داري عائد ہوئي ہے۔ پروفيسر علي خان نے کہا کہ ہم آپس ميں ايک دوسرے پر کفر کا فتويٰ لگانے کے بجائے اتحاد کو فروغ دينے پر زور ديں۔ مولانا عتيق احمد اور مولانا ياسين عثماني نے تمام مسالک ميں وسعت نظري اور اتحاد قائم کرنے کي اپيل کي۔ پہلے دن کا اجلاس دو سيشنوں پر محيط تھا۔
تمام ہي مقررين نے ملک کي عدل و قسط اور مساوات کي کم زور ہوتي ہوئي ڈور پر الگ الگ زاويوں سے تقريريں کيں اور منظم طور پر ملک ميں جمہوريت، امن اور دستوري بالادستي کے استحکام کے ليے لائحہ عمل تيار کرنے پر زور ديا۔ کانفرنس ميں تقريباً 18 رياستوں سے سرکردہ شخصيات نے شرکت کي۔ ان شخصيات نے ملک ميں خوف و ہراس بالخصوص امت مسلمہ کو دباؤ، بے کلي اور خوف کے سايے سے باہر نکالنے کے ليے ٹھوس اقدامات اور لائحہ عمل مرتب کرنے کي وکالت کي۔
امير جماعت اسلامي ہند جناب سيد سعادت اللہ حسيني نے اپنے خطاب ميں دو اہم ترين امور کي طرف توجہ دلائي۔ پہلا يہ کہ امت مسلمہ کے اندر حوصلہ اور اعتماد پيدا کيا جائے، مايوسي اور خوف کے ماحول سے انہيں جلد از جلد باہر نکالنے کي تدبيريں کي جائيں۔ امير جماعت نے کہا کہ اس وقت جو حالات ہيں، وہ ہمارے ليے کوئي نئے نہيں ہيں۔ 1857 سے لے کر اب تک تاريخ کے مختلف ادوار ميں اس طرح کے حالات کا ہم نے کاميابي سے سامنا کيا ہے، شرارِ بو لہبي سے چراغِ مصطفوي کي کشمکش، يہ فطرت کا اٹل اصول ہے۔ کبھي يہ کشمکش تيز ہوگي، کبھي اس کي رفتار کم ہوگي، کبھي اس کشمکش ميں اہل اسلام کا پلڑا بھاري ہوگا، کبھي ان کا پلڑا کم زور ہوگا ليکن يہ کشمکش ہميشہ جاري رہے گي۔ اس سے ہم کبھي گھبرائيں نہيں۔ اس سے ہم پريشان نہ ہوں۔ ميں سمجھتا ہوں کہ اس وقت کے حالات کا سب سے زيادہ تشويشناک پہلو يہ ہے کہ يہ حالات نئے نہيں ہيں۔ ليکن ان حالات کے نتيجے ميں جو مايوسياں اور خوف کي کيفيت نظر آرہي ہے، اس صورت حال کا ہميں مقابلہ کرنا ہے اور اس سے امت کو ہميں نکالنا ہے۔ يہ قوموں کے ليے سب سے بڑي مصيبت ہوتي ہے۔ اگر اميد کي لَو روشن رہے تو قوميں اپني کم مائيگي ميں بھي امکانات کي چنگارياں تلاش کرليتي ہيں ليکن اگر يہ بجھ جائے اور ڈر و خوف پيدا ہوجائے تو پھر چھوٹي چيز بھي ڈر پيدا کرتي ہے۔ اس سے نکالنے کي کيامہم ہوسکتي ہے اور کيا طريقہ ہوسکتاہے،اس کے ليے ہم کيا کرسکتے ہيں؟ اس پر ہميں غور کرنا ہے۔
دوسري اہم چيز ان حالات ميں جو سب سے زيادہ ضروري ہے، وہ ہے استقامت۔ ہم اپنے اصولوں، دين و ايمان اور دعوت پر چٹان کي طرح استقامت کے ساتھ کھڑے ہوجائيں۔ استقامت،ظلم و ناانصافي کي مزاحمت کا سب سے طاقتور راستہ ہے۔ امت کے اندر استقامت اور حوصلہ پيدا کرنا اس وقت کي اہم اور بڑي ضرورت ہے اور يہ تبھي ہوگا جب امت ميں بے خوفي پيدا ہوگي۔ ہميں اس مہم اور تحريک کو پورے ملک ميں چلانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہي ايک اہم کام اور بھي ہے جس کا تعلق ملک کے عام انسانوں اور برادران وطن سے ہے۔ ايک طاقتور مہم پورے ملک ميں برپا کرنے کي ضرورت ہے، وہ ہے دلوں کو اور دماغوں کو جيتنے کي مہم۔ يہ يقين بھي ہمارے اندر ہونا چاہے کہ اس وقت ملک ميں جو کچھ بھي ہورہا ہے، اس کي پشت پرايک چھوٹي سي اقليت ہے۔ اسي اقليت نے پورے ملک کو يرغمال بنا رکھاہے۔يہ امت مسلمہ کا رول ہوگا کہ آگے بڑھ کر عام انسانوں کو ان يرغماليوں سے نجات دلائے۔ اس کي ہم سب کو کوشش کرني ہے۔ ظاہر ہے اس کا طريقہ يہي ہوگا کہ ہم ملک کے کونے کونےميں پھيل جائيں، بڑے پيمانے پر روابط قائم کريں۔ انسانوں کے دلوں پر دستک ديں اور ان کو بتائيں کہ کس خطرناک راستے پر يہ ملک جارہاہے، اس سے بچانا اس ملک کے ليے، اس ملک کي بقاء کے ليے اور سارے انسانوں کي بقاء کے ليے کتنا ضروري ہے۔ يہ تمام کام اس وقت ہمارے سامنے ہے اور ہم سب کو مل کر اسے کرنا ہے۔ يہ کام ہم اس مہم کے ذريعہ کرسکتے ہيں۔ ان تمام کاموں کو کرنے کے ليے سب سے زيادہ ضروري يہ ہے کہ ہم سب کے درميان گہرا تال ميل اور مضبوط اتحاد ہو، صرف نمائشي اتحاد نہ ہو۔ اب ہمارے درميان مسلکي اختلافات نہيں ہيں، جو ہيں وہ اس راہ ميں رکاوٹ نہيں بنيں گے۔ البتہ سياسي اختلاف کو بھي ختم کرکے ايک اسٹيج پر آنا ہوگا۔ يہاں ملک گير سطح کے قائدين موجود ہيں۔ سب کوہر ہفتہ يا پندرہ دنوں ميں ايک ساتھ بيٹھ کر سبيليں نکالني ہوں گي۔يہاں پر مختلف رياستوں کے قائدين آئے ہوئے ہيں۔انہيں اپني اپني رياستوں ميں بار بار بيٹھنا ہوگا اور ہر مسئلے کے حوالے سے ديکھنا ہوگا کہ ان حالات کا سامنا کيسے کيا جاسکتا۔ ہمارا عزم يہ ہو کہ جن باتوں پر قائدين کا اتفاق ہوگا،ہم ان پر پوري تندہي سے کام کريں گے۔
کانفرنس ميں اتحاد اُمّت، فسطائيت اور نسل کشي، آئيني حقوق کو درپيش خطرات اور اقليتوں کي تعليم سے متعلق مسائل جيسے موضوعات پر ماہرين اور سماجي کارکنان کے مابين مذاکرات بھي منعقد ہوئے اور ايک اعلاميہ منظور کيا گيا ہے۔
يہ اعلاميہ يو ں تو سابقہ اعلاميوں کي ہي طرح نظر آتا ہے۔ کئي تنظيموں نے اس طرح کے اعلاميے پہلے بھي جاري کيے ہيں ليکن مختلف مکاتب فکر کے عمائدين ان پرُآشوب حالات ميں جس طرح ايک پليٹ فارم پر نظر آئے اور جس طرح سے انھوں نے مسلم مجلس مشاورت کي دعوت پر لبيک کہا اس سے يہ اميد قوي تر ہوجاتي ہے کہ اس کے مثبت نتائج ضرورمرتب ہوں گے۔
نمائندہ دعوت نے اعلاميہ ميں منظور شدہ متفقہ نکات کے تعلق سے مسلم مجلس مشاورت کے صدر نويد حامد سے خصوصي بات چيت کي۔ بات چيت کے دوران صدرِمشاورت نے واضح انداز ميں کہا کہ کانفرنس ميں جن نکات پر تمام ہي سرکردہ شخصيات متفق ہوئيں اوراس کا جوحتمي اعلاميہ مرتب کيا گيا اس پر کام بھي شروع کرديا گيا ہے۔يہ محض نشستن و گفتن و برخاستن نہيں ہوگا بلکہ اس پر صد في صد عمل کيا جائے گا۔ اور اس تعلق سے لائحہ عمل مرتب کيا جا رہا ہے۔
حکومتي عتاب کے شکار اورحق گوئي و بے باکي کا مظاہرہ کرنے والے افراد جو ان دنوں قيد و بند کي صعوبتيں برداشت کر رہے ہيں ان کي رہائي اور ان کے ليے قانوني چارہ جوئي اور ديگر اعانت کے سوال پر نويد حامد نے بتايا کہ مشاورت راست طور پر کسي بھي مقدمے کي پيروي نہيں کرتي ليکن جو تنظيميں ان افراد کي رہائي کے ليے کوششيں کر رہي ہيں ان کے شانہ بہ شانہ مشاورت کام کر رہي ہے۔ اور ان کي دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کي جا رہي ہے اور ہر چيز ميڈيا کے سامنے نہيں لائي جاسکتي۔
مولانا توقير رضاخان کي ’جيل بھرو تحريک‘ کے تعلق سے انھوں نے کہا کہ يہ ان کي ذاتي رائے تھي، اکابرين اس بات پر متفق ہوئے ہيں کہ جمہوري طريقے سے احتجاج، عوام کو ساتھ لے کر اپني بات جمہوري انداز ميں رکھنے کي کوششيں نيز ديگر ايشوز پر اپنے حقوق کي لڑائي دستوري پيرائے ميں لڑي جائے گي اور اس کے ليے آگے کي منصوبہ بندي کرني ہے۔
بلڈوزر کي سياست اور فرقہ وارانہ مظالم کے شکار بے قصور شہريوں کے حقوق کا تحفظ نيز نفرت انگيز تقارير، نسل کشي کي کھلي دھمکيوں،ميڈيا و سوشل ميڈيا پرنفرت انگيز پروپيگنڈے کو روکنے کے ليے کس طرح کي تدابير اختيار کي جا رہي ہيں؟ اس سوال پر نويد حامد نے کہا کہ اس کے ليے کانفرنس کے اختتام کے بعد تين خصوصي کميٹياں تشکيل دي گئي ہيں۔ سيکولر ذہن رکھنے والے برادران وطن کے ساتھ تبادلہ خيال کيا جائے گا۔ملک کي الگ الگ رياستوں ميں ان کے ساتھ ڈائيلاگ کيا جائے گا اور انہيں درپيش خطرات سے آگاہ کيا جائے گا۔ انہيں ايک ساتھ چلنے پر آمادہ کيا جائے گا تو پھر اس طرح کے حالات سے نمٹنے ميں آساني ہوگي۔ اس کميٹي کا سربراہ جماعت اسلامي ہندکے شعبہ ملي و ملکي امور کے سکريٹري ملک معتصم خان کو بنايا گيا ہے۔
مسلم تنظيموں کے ذمہ داروں اور قائدين سے گفت و شنيد کرنے، ان کي آراء لينے اور ان کے درميان بہتر تال ميل قائم کرنے کے ليے ايک دوسري کميٹي بھي بنائي گئي ہے جس کي کنوينر عظمي ناہيد کو بنايا گيا ہے۔ ان کے ذمے مسلم عمائدين کے ساتھ ساتھ مسلم خواتين کے ساتھ تبادلہ خيال کرنا، ان ميں اسلامي شعائر اور ديني مزاج کو پختہ تر کرنا نيز خواتين کو درپيش مسائل کے حل کے ليے غوروفکر کرنا شامل ہيں۔
تيسري کميٹي کي تشکيل کا مقصد يہ ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کے مسائل، ان کے جذبات و احساسات اور ان کو لاحق پريشانيوں کو سمجھے اور اس کے حل کے ليے کوششيں کرے۔ اس کے ليے باضابطہ ايک کيمپين بھي چلايا جائے گا جس کا عنوان ہوگا۔ ’Dialogue with Muslim Youths‘ اس مہم کي قيادت عامر ادريسي کريں گے۔ جناب نويد حامد نے بتايا کہ تينوں کميٹياں تين ماہ کے اندر اپني تفصيلي رپورٹ بھي پيش کريں گي اور اس رپورٹ کے تناظر ميں آئندہ کي حکمت عملي وضع کي جائے گي۔
انھوں نے مزيد بتايا کہ ايک خصوصي نگران کار کميٹي بھي تشکيل دي گئي ہے۔ ملک بھر سے پانچ سرکردہ شخصيات جملہ امور کي نگراني کريں گي اور اپني گراں قدر آراو خيالات اس ضمن ميں پيش کريں گي تاکہ مقصد کے حصول کا جو ہدف متعين کيا گيا ہے اس تک ان کي رہ نمائي ميں پہنچا جا سکے۔ کميٹي ميں امير جماعت اسلامي ہند جناب سيد سعادت اللہ حسيني، امير شريعت کرناٹک مولانا صغير احمد،مولاناحکيم محمود دريابادي،رکن مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا حفيظ بستوي و مولانا ياسين عثماني(نائب صدر، آل انڈيا ملي کونسل) شامل کيے گئے ہيں۔
ميڈيا ميں اقليتوں کي آواز بننے، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگيز پروپيگنڈے کي سرکوبي کرنے نيزطبقاتي و فرقہ وارانہ کشمکش کو فروغ دينے کي مذموم حرکتوں پر لگام لگانے سے متعلق لائحہ عمل تيار کرنے کے سوال کے جواب ميں جناب نويد حامد نے کہا کہ مشاورت اپنے طور پر ميڈيا کا ايک شعبہ قائم کرے گي۔ انھوں نے مزيد کہنا تھا کہ جو ميڈيا ہاوسزمسلم مخالف، فسطائيت کو فروغ دينے والے نہيں ہيں اور جمہوري اور صحافتي اقدار کا خيال رکھتے ہيں وہاں اپني بات رکھنے اور مسلمانوں کا دفاع کرنے جو افراد جاتے ہيں ان کي ٹريننگ کے ليے نيشنل ورک شاپ کے انعقاد کا فيصلہ کيا گيا ہے۔ اس ميں انہيں يہ تربيت دي جائے گي کہ کس مسئلے پر، کن امور پرکيا بات کرني ہے، بڑے ميڈيا ہاؤسز کے پروپيگنڈے کا کيسے مدلل جواب دينا ہے اور امت کا دفاع کيسا کرنا ہے۔ انھوں نے مزيد کہا کہ ہر تنظيم سے يہ گزارش کي گئي ہے کہ وہ چند باشعوراور حالات سے آگاہ رہنے والے افراد کا ايک پينل ترتيب ديں اور ہر تنظيم ايک ترجمان مقرر کرے جو ميڈيا کے سوالوں کا حالات کے مطابق اور دستور ہند کے تناظر ميں جواب دے۔
يہ کہنے ميں کوئي تامل نہيں ہے کہ مسلم مجلس مشاورت کے بينر تلے ملک کي سرکردہ شخصيات جن ميں ہر طبقے کے افراد شامل ہوں گے، کو ساتھ لے کر چلنے، ان سے تبادلہ خيال کرنے، ان کے ساتھ وقفے وقفے سے ڈائيلاگ کا اہتمام کرنے نيز برادران وطن کو عملي طور پر ان مہمات سے جوڑنے کے ليے جس طرح کا لائحہ عمل مرتب کيا گيا ہے اگر اس پر صد في صد عمل آوري ہوتي ہے تو وطن عزيز سے انشاءاللہ نفرت کے بادل چھٹيں گے اور ملک ميں رواداري، بھائي چارہ، آپسي ميل محبت کا دور دورہ ہوگا نيز مسلمانوں کي ايک بڑي آبادي جو في الوقت ابتر حالات سے نبرد آزما ہے اور ان پر عرصہ حيات تنگ کيا جارہا ہے انہيں بھي راحت نصيب ہوگي اور وہ بھي ملک کي ترقي اور خوشحالي ميں اسي طرح اپنا گراں قدر تعاون پيش کريں گے جيسا کہ آزادي کے بعد سے اب تک کرتے رہے ہيں۔ کيوں کہ کوئي بھي ملک اپني آبادي کے کسي بھي ايک طبقے کو نظرانداز کرکے نہ تو ترقي کر سکتا ہے اور نہ ہي امن و امان قائم رکھ سکتا ہے۔اور يہي سوچ مسلم مجلس مشاورت اور اس سے منسلک تمام ملي تنظيموں کي مدد سے برادران وطن کے ذہنوں ميں پيوست کرني ہوگي اور يہي اس ملک کے مستقبل کي تابناکي کي ضمانت ہے۔

 

***

 کل ہند مجلس مشاورت نے تمام ہندوستاني شہريوں بالخصوص مسلمانوں اور محروم و کم زور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے دستوري اور قانوني حقوق کے تحفظ کے ليے عدالتي، سياسي،سماجي اور ديگر تمام قانوني راستوں کا استعمال کرنے کا فيصلہ کيا ہے نيز سياسي انتقام کا نشانہ بننے والے اُن تمام بے گناہوں کي مدد کرنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کيا ہے جو انصاف کي خاطر لڑنے کي پاداش ميں قيد ہوئے ہيں۔ يہ بات اس اعلاميہ کا حصہ ہے جسے دہلي کے انڈيا اسلامک کلچرل سنٹر ميں20 اور 21 مئي کو منعقدہ مسلم مجلس مشاورت کي دو روزہ کانفرنس ميں منظور کيا گيا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022