غیر منظم اور منتشر دعوتی عمل کا محاسبہ ضروری

کثیر آبادی تک پہنچنے کےلیے درست حکمت عملی کےساتھ رفتار کار بڑھانے کی ضرورت

وسیم احمد ، دلی

 

ہمارا ملک ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ ہر مذہب میں کچھ ایسے ادارے، تنظیمیں اور افرادموجود ہیں جو اپنے مذہب کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے ، اس سے ایک دوسرے میں افہام و تفہیم کا موقع میسر ہوتا ہے ۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ مذاہب کے تعلق سے باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ملک میں جو چھوٹی تنظیمیں ہیں وہ علاقائی اور ریاستی سطح پر اس کام کو انجام دیتی ہیں لیکن قومی سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں میری نظر میں تین ہیں جن کا دائرہ کار ملک کے گاؤں اور قصبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سب سے پہلے تبلیغی جماعت کو لیتے ہیں۔ یہ ایک دعوتی گروپ ہے مگر اس کی دعوت مسلمانوں میں عبادات کی پابندیوں کی ترغیب تک محدود ہے۔ لہٰذا اس سے برادران وطن میں قرآنی پیغام پہنچانے کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی۔دوسری تنظیم جمعیت علمائے ہند ہے۔اس کا دائرہ کار وسیع ہے ۔ملک کی تقریباً تمام ریاستوں میں اس کے کارکن کام کررہے ہیں مگر اس کا رجحان برادران وطن تک قرآنی پیغام پہنچانے سے زیادہ سیاسی اور سماجی ہم آہنگی پر مرکوز ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے اپنے طور پر ملت کا بھلا کررہی ہیں اور کسی نہ کسی نوعیت سے ملت اسلامیہ کی افادیت کا موجب ہیں مگر اس سے برادران وطن میں دعوت دین کا مکمل مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ اب رہ جاتی ہے تیسری تنظیم ، وہ ہے جماعت اسلامی ہند،اس تنظیم نے دعوت کا باضابطہ ایک شعبہ قائم کررکھا ہے ۔ اس شعبے کے تحت برادران وطن سے رابطہ کیا جاتا ہے، ان تک اسلامی پیغام پہنچایاجاتا ہے ۔یہ سب کچھ ہورہا ہے، اس کے باوجود کہیں نہ کہیں کچھ خلاہے جس کے سبب اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کو ہوا مل رہی ہے ۔
اسے سمجھنے کے لیے ہمیں سات ارب انسانوں کی زمین یعنی دنیا بھرکا ایک جائزہ لینا ہوگا۔ موجودہ وقت میں مسلمانوں اور عالم اسلام کے خلاف منظم طریقے پر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ، اسلامو فوبیا کی اصطلاح ایجاد کرکے اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔مخالفین کے اس پروپیگنڈے کو وسعت دینے میں کہیں نہ کہیں ہماری اپنی کوتاہیاں شامل ہیں۔کیونکہ قرآنی پیغام کو عام کرنا اسلام کا بنیادی مقصد ہے مگرہم نے اسے ثانوی حیثیت دے دی۔ ہمارا دعوتی عمل غیر منظم اور منتشرہے اور برادران وطن کے مابین اسلام کا تعارف کرانے میں ہماری یکسوئی ناپید ہے ۔ہمیں اس عظیم عمل میں حکمت عملی، تحمل اور تدبر کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ مگر ہم اس میں بہت حد تک ناکام ہیں۔ اگرملک میں کام کرنے والی تنظیموں کا تجزیہ کیا جائے تو کسی حد تک جماعت اسلامی ہند اس پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔اس نے اقامت دین اور قرآنی پیغام کو برادران وطن تک پہنچانے کے لیے ایک شعبہ ’دعوت‘ کا قائم کررکھا ہے۔ اس شعبے کے ذریعہ ملت کو قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے اور قرآن فہمی کی ترغیب دینے کی مساعی مسلسل جاری ہے اور برادران وطن کو قرآنی پیغام سے روشناس کرانے پر عمل کیا جارہا ہے ۔ملک کے تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ افراد بالخصوص برادران وطن کو قرآن فہمی کے لیے راضی کرنا اس شعبے کا اولین مقصد ہے ، نیز برادران وطن کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنا اور ان کے اندر اسلام سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دورکرنابھی اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب سماج میں کوئی انسانیت مخالف ہوا چلتی ہے تو یہ شعبہ اس وقت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور اپنی توجہ اس کے خاتمے پر مرکوز کردتیا ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنسی اور زنا بالرضاکے جواز پر ایک فیصلہ آیا تھا۔ اس فیصلے نے ملت اسلامیہ سمیت برادران وطن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ملک کے بیشترسنجیدہ افراد اس قانون کو کالعدم قرار دینے کے لیے صدا بلند کررہے تھے مگر ’جمہوریت میں سب کوآزادی سے جینے کا حق حاصل ہے‘ کا حوالہ دے کر اسے باقی رکھا گیا۔ ایسے وقت میں علماء کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں اور اخلاقی اور سماجی طور پر اس کو کالعدم بنانے کے لیے ملک کے تمام ملی ادارے سرگرم ہوگئے۔اس موقع پر جماعت اسلامی ہند نے ایک منفرد طریقہ اختیار کیا ۔ اس نے ان سماجی خرابیوں کے خلاف ذہن سازی کرنے اور عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ یہ عمل انسانیت کے لیے تباہ کن ہے ، انگریزی زبان میں چار دعوتی فولڈ تیار کیے اور انہیں برادران وطن میں بڑے پیمانے پر تقسیم کیا۔نیز سیرت رسولؑ پر انگریزی میں کتاب تیار کرکے ان کی تقسیم عمل میں لائی گئی، اس میں بتایا گیا کہ سیرت رسولؑ معیاری زندگی کی ضمانت دیتی ہے ۔ یہ تو ایک چیلنج تھا ۔ جماعت اسلامی ہند کے سامنے جب بھی کوئی نیا چیلنج آتا ہے تو اس کا سامنا کرنے کے لیے وہ دعوتی طاقت کا سہارا لیتی ہے جس کی افادیت کا اندازہ اس کی کارکردگیوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے اور اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کا حق نوع انسان کے ہر فرد کو ہے مگر تفہیمی عمل میں کوتاہی کے سبب بنی آدم کی بڑی تعداد ان فیوض و برکات سے محروم ہے۔ لہٰذا دعوتی کام کو ان تک پہنچانے کے لیے مذکورہ شعبے کے ذریعہ سوشل میڈیاپر دعوتی ویڈیو کی تشہیر کی جاتی ہے ۔ ایک کہاوت مشہور ہے کہ عوام اپنے پیشوائوں کے طرز عمل کو جلد اور زیادہ اختیار کرتے ہیں۔ اس ذہنیت کو نظر میں رکھتے ہوئے مذکورہ شعبے کے ذمہ داران، برادران وطن کے دانشوروں اور مذہبی پیشوائوں سے مل کر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اسلامی پیغام سے انہیں آگاہ کرتے ہیں۔مساعی کو آگے بڑھاتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے اس وقت جب ’ لیو ان ریلیشن وغیرہ‘ کا طوفان ملک میں اٹھا ہوا تھا، اس کے خلاف ایک پُرمغز تقریر ریکارڈ کرائی۔ اس تقریر کا موضوع تھا ’’ بڑھتے یون اپرادھ ، کارن اور نورن ‘‘ ۔ اس تقریر میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ مذہب اسلام نے مردو عورت کے لیے جو حدیں مقرر کی ہیں اور انسانیت کو عروج بخشنے کے لیے معاشرے میں ہر جنس کے لیے جو دائرہ کار کا تعین کیا ہے ، اس کو ترک کردینا جنسی زیادتیوں جیسے جرائم کو جنم دیتا ہے۔ اس تقریر نے بڑی شہرت حاصل کی اور ہزاروں افراد نے اس سے استفادہ کیا۔ اسی طرح جب تین طلاق کو لے کر زبردست پروپیگنڈہ کیا گیا تھا۔طلاق کے سلسلے میں اسلام کے اصل نظریئے اور ہدایات کو نظر انداز کرکے مسخ شدہ حقائق کی بنیاد پر غلط تشہیر کی گئی ۔ اس کے خلاف جماعت نے اپنی سرگرمی جاری رکھتے ہوئے مختلف دانشوروں سے ملاقات کرکے اس مسئلے کی اصل صورت حال سے واقف کرایا ۔نیز مختلف بیانات کے ذریعہ حقائق سامنے لائے گئے ۔ ان سب کے باوجود ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے ۔ یہ سوال شعبہ دعوت کے سکریٹری جناب اقبال ملّا سے یہ پوچھا گیا کہ ویڈیو یا لٹریچر کے ذریعہ پیغام رسانی کا عمل شہر اور پڑھے لکھے لوگوں تک تو ممکن ہے لیکن دور دراز کے گاؤں اور ناخواندہ برادران وطن تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے ان کے پاس کیا وسائل ہیں تو انہوں نے اپنی ترتیب کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جن گاوؤں میں جماعت کے افراد ہیں ان کے ذریعہ ملاقاتوں کے ذریعہ بات پہنچائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ جماعت کے شعبہ دعوت ’ اسلام سب کے لیے ‘ آفیشیل دعوتی ویب سائٹ ، فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینل کے ذریعہ ہزاروں برادران وطن میں اسلام کا تعارف کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘اس طرح دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ہند برادران وطن میں اسلام کا پیغام پہنچانے میں جہد مسلسل کررہی ہے ،جماعت کے طرز پر اگر ملک کی دیگر ملی تنظیمیں اپنی سرگرمیوں میں قرآنی پیغام رسانی کو برادران وطن تک پہنچانے کے عمل کو اولین ترجیحات میں شامل کرلیں تو اشاعت دین کی رفتارزیادہ تیز ہوسکتی ہے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔
***

ملک کی دیگر ملی تنظیمیں اگر اپنی سرگرمیوں میں قرآنی پیغام رسانی کو برادران وطن تک پہنچانے کے عمل کو اولین ترجیحات میں شامل کرلیں تو اشاعت دین کی رفتارزیادہ تیز ہوسکتی ہے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020