اقامت دین اور خواتین کی ذمہ داریاں

ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد

 

اللہ کا دین اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں اسلام کی ہدایات ملتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم عبادات، اخلاق اور رسومات کی حد تک اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں اور کاروبارِ دنیا اور معاملات، سیاست، معیشت و معاشرت اور عدالت میں اسلامی احکام کو فراموش کر جائیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو ۔ جو ایسا کرتے ہیں تم میں سے اس کی جزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور آخرت میں سخت ترین عذاب ہو اور اللہ تمہارے اور تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ:۸۵)
مسلمانوں کو سخت تاکید کی گئی ہے کہ وہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوں۔ ارشاد خداوندی ہے:
مسلمانو پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہوجاؤ (البقرہ ۲۰۷)
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ باطل طاقتیں ہم کو پورے اسلام پر عمل کرنے نہیں دیتیں اور دین میں مداخلت کرکے صرف مسجدوں اور اپنے گھروں میں ہی اسلام پر عمل کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ان کی معیشت ہے تو سود پر چلنے والی ہے، ان کی سیاست ہے تو بے خدا جہاں اونچ نیچ ہے اور ظلم و نا انصافی کا دور دورہ ہے۔ جس میں امیر اور زیادہ امیر اور غریب اور زیادہ غریب ہو جاتا ہے۔ عورت کی عزت و آبرو غیر محفوظ رہتی ہے اور اسے سرِ بازار رسوا کیا جاتا ہے۔ کسان اناج لاتا ہے تو منڈیوں میں اس کے مناسب دام نہیں ملتے جہاں ٹھیکہ دار کی من مانی چلتی ہے۔ رشوت کا بازار گرم رہتا ہے اور لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے۔ غنڈہ گردی اور قتل و خون کی وارداتیں ہوتی ہیں اور بیروزگاری اور بھوک و افلاس کا دورہ دورہ رہتا ہے۔ ان سب خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اسلام آیا ہے جو چین و سکون اور عزت و آبرو کی حفاظت کی گیارنٹی دیتا ہے۔ اسلام زندگی کے چھوٹے سے حصے میں محدود ہوکر رہنے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی حکومت چاہتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کا یہی مشن رہا ہے جیسا کہ ارشادِ خدا وندی ہے:
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو (الصف:۹)
اللہ کے دین کو غالب کرنے کے کام کو اقامتِ دین کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ (الشوریٰ ۱۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اقامت دین ہمارا مقصد اور نصب العین ہے اور اس فرض کی ادائیگی جہاں مَردوں کی ذمہ داری ہے وہیں خواتین کی بھی ہے کیونکہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر مرد اقامت دین کا کام کریں اور عورتیں نہ کریں تو گاڑی چل نہیں سکتی بلکہ جام ہو جاتی ہے۔ لیکن مرد اور خواتین دونوں کا دائرہ کار جدا جدا ہے۔ عورت اپنے گھر کی ملکہ ہے اور گھر کے داخلہ امور کی ذمہ دار ہے۔ اپنی ذاتی اصلاح و تربیت کے ساتھ اولاد کی پرورش اور ان میں نیک اطوار کی اٹھان ماں کی ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مسلمانو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ (التحریم:٦)
مسلمان خواتین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کو اسلامی گھر بنائیں اور اسلامی ماحول کو پروان چڑھائیں۔ گھر میں ٹی وی موجود ہو تو اسے اسلامی ٹی وی بنائیں۔ موبائل اسمارٹ فون تو آج کل بہت ہو گئے ہیں ان کو بھی مسلمان بنائیں جہاں فواحش اور بے حیائی کا چلن ہے وہاں درس قرآن اور تذکیر ہو اور اسلامی موضوعات پر سیر حاصل بحث ہو۔ وبا کی وجہ سے ملنا جلنا کم ہوگیا ہے لیکن حق کی تلقین کے کام کو نہیں رکنا چاہیے۔ اس کے لیے زوم جیسے ایپس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ خواتین اپنے اجتماعات خود چلائیں اور موقع بہ موقع معروف اسکالرس کی تقاریر سے استفادہ کریں۔اولاد کی تربیت ایک اہم ذمہ داری ہے۔ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز با جماعت کا پابند بنائیں اور اگر یہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو سختی بھی کی جا سکتی ہے جہاں تک لڑکیوں کی تربیت کا معاملہ ہے ان کے لیے خاص اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل لڑکیوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون دیا جا رہا ہے اور وہ Activa پر کالج جاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور ایسے کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جہاں مخلوط تعلیم ہے اور لڑکوں سے ان کا میل ملاپ رہتا ہے جن میں خاصی تعداد غیر مسلم لڑکوں کی بھی ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیم سے نا آشنا یہ لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور اپنا مذہب ترک کر کے ہندو مذہب اختیار کر رہی ہیں لیکن محبت کی یہ شادیاں زیادہ دن نہیں چلتیں کئی ایسے واقعات ہو رہے ہیں جس میں انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے۔ اس خرابی کی باپ سے زیادہ ماں ذمہ دار ہوتی ہے جو غیر ساتر لباس میں اپنی لڑکی کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ اسکول میں اگر ڈانس سکھایا جاتا ہے تو ماں خوش ہوتی ہے۔ دین سے نا آشنا یہ لڑکیاں جانتی ہی نہیں کہ ان کے اسلاف کیسے نیک اور صالح تھے اور خواتین کیسے زندگی کے ہر معاملے میں اسلام کے احکام پر عمل پیرا رہتی تھیں اور چلتے پھرتے قرآن کا نمونہ پیش کرتی تھیں۔
پس اپنی اولاد کو اول سے آخر تک احکامِ اسلامی کا پابند بنائیں۔ موبائل فون ان کی لڑکیوں کے پاس ہو تو اس کی نگرانی کریں کہ یہ کہاں کہاں استعمال ہوتا ہے اور ان کی نشت و برخاست کی بھی نگرانی ہو۔ آج کل ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ لڑکیاں کالج جانے کے بہانے سے اپنے عاشقوں کے ساتھ سیر سپاٹے کر رہی ہیں۔
اب لڑکوں کا حال دیکھیں تو یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کی دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ دین سے نا آشنا ہیں۔ کے بی سی ایک پروگرام ہوتا ہے جس میں مسلم لڑکے بھی شریک ہوتے ہیں اس پروگرام کے اسپانسر نے جو مشہور سُپر اسٹار ہے ایک مسلمان لڑکے سے سوال کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں سے کون نبی نہیں ہیں تو وہ مسلم لڑکا کہتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی نہیں ہیں۔ اس سُپر اسٹار کو سخت تعجب ہوتا ہے اور وہ خود جواب دیتا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام غیر نبی تھے۔
اقامتِ دین کا کام ہماری خواتین اس طرح کر سکتی ہیں کہ جو قابل اور تعلیم یافتہ ہیں وہ درس تقاریر اور مضامین کے ذریعے اسلام کی تعلیمات پیش کریں۔ جو غیر مسلم خواتین ہیں انہیں اپنی نشستوں میں ملاقاتوں میں اسلام کے تعلق سے پھیلائی گئی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے مسلم معاشرے میں جوڑے گھوڑے کی لعنت پائی جاتی ہے جس کی ذمہ دار زیادہ تر خواتین رہتی ہیں جو اپنے لڑکے کی قیمت لگاتی ہیں اور پالنے پوسنے اور تعلیمی اخراجات کا معاوضہ نکالنا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے آج ایک ایک شہر میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہوئی اپنی جوانی کو کوس رہی ہیں۔ کیا ایک ماں کا فرض نہیں ہے کہ وہ ایسی رسومات کو ختم کرنے کی کوشش کا اپنے گھر سے آغاز کریں اور لڑکے کو ایسی تعلیم دیں کہ وہ سنتِ رسول کی پیروی میں شادی کرے تاکہ شادی کے نام پر خرافات کا خاتمہ ہو؟ یہ ایک برائی ہے اور برائیوں کے طوفان میں ہماری خواتین کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت کے ایک ایک حکم کی پابندی کریں۔
رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے اگر کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے یعنی قوت کا استعمال کرے اگر قوت حاصل نہ ہو تو زبان سے برا سمجھے اور اگر اس کی بھی ہمت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
ایک اور موقع پر اللہ کے رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم تمہیں نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہوگا ورنہ اللہ کا تم پر عذاب آئے گا تم خدائے تعالیٰ سے دعائیں کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہیں ہوں گی۔
***

اقامت دین کا کام ہماری خواتین اس طرح کرسکتی ہیں کہ جو قابل اور تعلیم یافتہ ہیں وہ درس تقاریر اور مضامین کے ذریعے اسلام کی تعلیمات پیش کریں۔ جو غیر مسلم خواتین ہیں انہیں اپنی نشستوں میں ملاقاتوں میں اسلام کے تعلق سے پھیلائی گئی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020