ریاستوں کا حصہ’’ دیگر مقاصد‘‘ کے لیے استعمال کیا گیا: سی اے جی رپورٹ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

مرکزی حکومت نے جی ایس ٹی فنڈز کے معاملے میں ریاستوں کو دھوکہ دیا ہے۔ سی اے جی کا کہنا ہے کہ فنڈز کہیں اور استعمال ہوئے ہیں۔ مرکز نے جی ایس ٹی کی رقم کو دوسرے مدات میں استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے محصولات کی وصولیوں میں اضافہ دیکھا گیا اور مالی خسارے کو بڑھا کر دکھایا گیا ہے۔ جی ایس ٹی معاوضہ سیس ایکٹ کے تحت جمع کیے گئے فنڈز کا ایک حصہ نریندر مودی حکومت نے دو سال تک منتقل نہیں کیا جو ریاستی حکومتوں کو معاوضہ دینے کے لیے طے تھا ۔دی انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت نے سال 18–2017 اور 19–2018 میں جی ایس ٹی سیس کا استعمال کسی اور مد میں کیا۔ کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے پایا کہ مرکزی حکومت نے جی ایس ٹی قانون کی خلاف ورزی کی اور جی ایس ٹی معاوضے کے سیس کے 47,272 کروڑ روپے جو ریاستوں کے لیے مختص تھے اس میں مرکزی حکومت نے دھوکہ بازی کی اور اس سیس کو کسی اور مد میں استعمال کر لیا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کی وجہ سے ریاستوں کو جو ٹیکس وصول ہونا تھا وہ نہ ہونے پر اس کی تلافی اس سے کی جانی تھی۔ اس رقم کا کسی اور مد میں استعمال کرنا جی ایس ٹی قانون 2017 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آڈیٹر نے کہا کہ مرکز نے اس رقم کو ’’دوسرے مقاصد‘‘ کے لیے استعمال کیا جس کی وجہ سے ’’آمدنی میں اضافہ اور مالی خسارے کو بڑھا کر دکھایا گیا‘‘۔ یقینی طور پر یہ شارٹ کریڈٹ جی ایس ٹی معاوضہ سیس ایکٹ، 2017 کی خلاف ورزی ہے۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سی اے جی اکاونٹس 19–2018 کے متعلق رپورٹ پیش کرتے وقت اس بات کو محسوس کیا گیا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے پارلیمنٹ کو کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت ریاستوں کو جی ایس ٹی قانون کے نفاذ سے ٹیکسوں کی عدم وصولی پر ان کو کنسالیڈیٹڈ فنڈ آف انڈیا سے اس کی تلافی کرسکیں۔
جی ایس ٹی ریاستوں کو معاوضہ (کمپنزیشن ٹو اسٹیٹس) ایکٹ جولائی 2017 تا جون 2022 کے تحت ریاستوں کو ضمانت دی گئی ہے کہ اگر جی ایس ٹی قانون کے نفاذ میں ریاستیں ٹیکس کا نقصان اٹھاتی ہیں تو مرکز معاوضہ کے طور پر اس کی تلافی کرے گا۔ مرکزی حکومت کا ٹیکس وصولی کا تخمینہ یہ تھا کہ ریاستوں کو کم از کم 14 فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول ہوگا۔ اگر ریاستوں کو طے شدہ تخمینے کے مطابق ٹیکس وصول نہیں ہو پاتا تو ایسی صورت میں مرکز ریاستوں کی اس کمی کو بطور معاوضہ اداکرے گی۔ در حقیقت یہ معاوضہ بھی مرکزی حکومت اس رقم میں سے ادا کرتی ہے جسے اس نے بطور لگژری سیس کے وصول کیا تھا۔ ایسی اشیاء جو لگژری ہوں حکومت اس پر الگ سے لگژری سیس عائد کرتی ہے اس جمع شدہ رقم میں سے ریاستوں کے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے ۔ جمع شدہ معاوضہ سیس کنسالیڈیٹڈ فنڈ اف انڈیا میں جمع ہوتا ہے اور پھر اسے پبلک اکاؤنٹ آف انڈیا میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں پر ریاستوں کا ایک جی ایس ٹی معاوضہ سیس اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے اسی اکاؤنٹ میں جمع شدہ فنڈز سے ریاستوں کو دو ماہی معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
سی اے جی نے پایا کہ مرکز نے جی ایس ٹی معاوضہ فنڈ میں سیس کی رقم منتقل نہیں کی اس کے بجائے مرکز نے ان فنڈز کو کنسالیڈیٹڈ فنڈ آف انڈیا (سی ایف آئی) میں ہی برقرار رکھا اور بعد میں اسے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ سی اے جی نے کہا ’’جو رقم سیس کے ذریعہ وصول ہوئی اسے بھی سی ایف آئی میں برقرار رکھا گیا جس کی وجہ سے یہ رقم دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے دستیاب ہو گئی‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2018-19کے بجٹ میں90,000 کروڑ روپے ریاستوں کے لیے رکھے گئے تھے اور اتنی ہی رقم ریاستوں کو بطور معاوضہ جاری کرنے کے لیے مختص کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے جی ایس ٹی معاوضہ سیس کے طور پر سال بھر میں95,081 کروڑ روپے وصول کیے لیکن ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے صرف 54،275 کروڑ روپے ہی اس فنڈ میں منتقل کیے ہیں۔
سی اے جی نے مزید کہا ’’اس فنڈ میں سے حکومت نے 69,275 کروڑ روپے (اوپننگ بیلینس کے 15,000 کو ملا کر) ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں (یو ٹی) کو معاوضے کے طور پر ادا کیے جس کے نتیجے میں حکومت کو 35,275 کروڑ روپیو کی بچت ہوئی۔ حکومت نے مزید 20,725 کروڑ روپیوں کی مزید بچت کی کیونکہ ریاستوں کو ان کو ملنے والے کل 90,000 کروڑ روپیوں میں سے اس نے صرف 69,275 کروڑ روپے ادا کیے جب کہ یہ رقم بھی اسے ریاستوں کو بطور معاوضہ کے ادا کرنی تھی‘‘۔آڈیٹر نے مزید کہا کہ آڈٹ کے مشاہدے کو وزارت خزانہ نے قبول کرلیا ہے اور کہا ہے کہ ’’سیس کی جو رقم وصول ہوئی ہے اور جو پبلک اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کی گئی ہے اسےآئندہ سال منتقلی کردی جائے گی۔‘‘سی اے جی نے جی ایس ٹی معاوضہ سیس کے اکاؤنٹنگ کے طریقہ کار پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ طریقہ اکاؤنٹنگ کے اصولوں کے خلاف بھی ہے۔ جب کہ اکاؤنٹنگ کے منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق جی ایس ٹی معاوضہ سیس کو پبلک اکاؤنٹس کے ہیڈ 2047 میں ڈیبٹ کرنا تھا لیکن وزارت خزانہ نے اسے دیگر مالیاتی خدمات کی گرانٹ کے ہیڈ 3601 میں منتقل کیا جو کہ انتہائی غلط طریقہ کار ہے۔ اس غلط طریقہ کار کی وجہ سے جی ایس ٹی کی رقم کو امداد یا گرانٹس کے زمرہ میں ڈال دیا گیا جب کہ جی ایس ٹی معاوضہ سیس کی رقم ریاستوں کا حق ہے کوئی امداد نہیں۔ وزارت خزانہ فوری طور پر اس پر کارروائی کرے اور اس کی اصلاح کرتے ہوئے ریاستوں کو جو رقم ادا شدنی ہے وہ ادا کرے۔ کیرالا کے وزیر خزانہ تھامس ایساک نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’’سی اے جی کی رپورٹ نے مرکزی حکومت کے دُہرے معیار کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے جب کہ اس نے غیر قانونی طور پر جی ایس ٹی معاوضہ سیس کی رقم کو کسی اور مد میں استعمال کیا جب مالی حالات اچھے نظر آئے تو اس نے بجٹ کو سرپلس بتایا اور جیسے ہی مالی حالات بے قابو ہو گئے تو اس نے عارضی خسارہ ظاہر کرتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ لیا‘‘
مغربی بنگال کے وزیر خزانہ امیت میترا نے کہا ’’مودی سرکار سی اے جی کے ہاتھوں ریاست کے لیے ٹیکس معاوضہ فنڈ سے 47,272 کروڑ روپے چھپانے کے الزام میں رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے اس نے براہ راست سی ایف آئی میں جی ایس ٹی ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور ساتھ ہی اس نے محصولات کی وصولی کو بڑھا کر دکھاتے ہوئے عوام کو دھوکا دیا۔ یہ انتہائی شرمناک حرکت ہے‘‘ ۔جی ایس ٹی معاوضے کی عدم ادائیگی کے معاملے پر متعدد ریاستیں مرکزی حکومت سے نبرد آزما ہیں جب کہ مرکزی حکومت نے ان سے اس کا وعدہ کیا تھا۔
جب ملک مالی بحران کا شکار تھا تو مرکزی حکومت نے ریاستوں کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ادھار لے کر اس خسارے کو پورا کریں لیکن ریاستوں نے اس مشورہ کو مکمل طور پر خارج کردیا کہ وہ اس نازک موقع پر ادھار لیں۔
سی اے جی کی آڈٹ میں یہ بات پائی گئی ہے کہ دیگر سیس اور لیویز کے ذریعہ سے 19-2018 میں مرکزی حکومت نے 35 سیس، لیویز اور دیگر معاوضوں سے جو 2,74,592 کروڑ روپے وصول کیے تھے اس میں سے صرف 1,64,322 کروڑ روپے ہی متعلقہ بورڈز اور ریزرو فنڈز کو منتقل کیے گئے اور باقی رقم CFI میں ہی رکھی گئی۔جب کہ ریزرو فنڈ رہتا ہی اس لیے ہے کہ مخصوص و ناگہانی حالات میں اسے استعمال کیا جائے۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے اور وہ ریاستوں کے ساتھ بد دیانتی کر رہی ہے۔سی اے جی کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس رقم کو ریزرو فنڈز میں منتقل نہیں کیا جس کی وجہ سے ریاستیں مالی بوجھ کا شکار ہوگئیں اگر حکومت سیس اور لیویز کی رقم ریزور فنڈز میں جمع کرتی تو ریاستوں کے خسارے میں کمی واقع ہوتی اور انہیں مالی مشکلات سے نجات مل جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت ریاستوں کے اختیارات کو ختم کرنا چاہتی ہے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے جس مقصد کے لیے سیس کی رقم وصول کی تھا وہ تو اسی مقصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے کسی اور جگہ وہ استعمال نہیں ہوسکتی تو پھر حکومت نے اس رقم کو کس مد میں استعمال کیا؟ اس کی کوئی وضاحت وزیر خزانہ نے نہیں دی۔ کہیں حکومت نے اسے اپنے سیاسی فائدوں کے لیے تو استعمال نہیں کیا؟ حکومت کو اس پر واضح بیان دینا چاہیے۔ اسے اس رقم کا حساب دینا چاہیے صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چل سکتا۔

مغربی بنگال کے وزیر خزانہ امیت میترا نے کہا ’’مودی سرکار سی اے جی کے ہاتھوں ریاست کے لیے ٹیکس معاوضہ فنڈ سے 47,272 کروڑ روپے چھپانے کے الزام میں رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے اس نے براہ راست سی ایف آئی میں جی ایس ٹی ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور ساتھ ہی اس نے محصولات کی وصولی کو بڑھا کر دکھاتے ہوئے عوام کو دھوکا دیا۔ یہ انتہائی شرمناک حرکت ہے‘‘ ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020