بہزادؔ لکھنوی:منفرد لب و لہجہ کا شاعر

روحانی سوز و گداز سے معمور شاعری۔نعتیہ کلام میں والہانہ شیفتگی نمایاں

احتشام الحق آفاقی

 

شاعری کی منفرد اور یکتا صنفِ سخن نعت گوئی میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے شعرا میں سرفہرست نام سردار حسین خاں معروف بہ بہزادؔ لکھنوی کا بھی ہے۔ وہ نعت گوئی کے میدان میں منفرد لب و لہجہ اور انداز بیان کے لیے جانے جاتے ہیں۔ محسن کاکوروی نے اردو میں جس نعتیہ قصیدہ نگاری کی بنیاد رکھی تھی یہ اسی ڈگر کے رہرو ہیں۔ انہوں نے سرکار دو عالمﷺ کی مدح سرائی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ نعت گوئی میں جہاں زبان وبیان و فنی نکات کو برتنا لازمی ہوتا ہے وہیں جس ذات کی مدح و توصیف بیان کی جارہی ہے اس سے دلی لگاؤ، انسیت اور عقیدت و احترام کا ہونا بھی لازمی جزو ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی شاعر اپنے کلام کے ذریعے عروج حاصل نہیں کرسکتا۔ دراصل حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ صنفِ سخن اس ذات گرامی کے نام منسوب ہے جو تمام جہانوں میں یکتا و یگانہ ہے، جس کے لیے دونوں عالم کی تخلیق ہوئی، جسے معراج کا دولہا بننے کا شرف حاصل ہوا، جس کی رسائی جبرئیل امین سے بھی آگے ہے۔ اسی مناسبت سے نعت گوئی کو تمام اصناف پر فوقیت و اولیت حاصل ہے۔ مدحت محبوب کبریا میں سرشار ہو کر بہزادؔ کہتے ہیں:
وہی تو ہیں وجہ بنائے دو عالم
بھلا ان کا کس شے پہ احساں نہیں ہے
رسائی نہیں اس کی ذات خدا تک
جسے ذات احمدؐ کا عرفاں نہیں ہے
بہزادؔ لکھنوی سنہ۱۹۰۰ء میں لکھنؤ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر کی مالی حالات بہتر نہ ہونے کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ جیسے تیسے ابتدائی درجوں تک تعلیم اسکول میں پائی۔ ذاتی مطالعہ کی بنیاد پر اردو، فارسی اور انگریزی زبان میں اچھی خاصی استعدا د پیدا کرلی تھی۔ کثیر کتب بینی سے وہ اس قابل ہو گئے کہ انڈین ریلوے میں ٹی ٹی آئی کی ملازمت مل گئی۔ شاعری کا شوق لکھنؤ کے ماحول سے وراثت میں پایا تھا۔ وہ لکھنؤ میں اس وقت پیدا ہوئے جب وہاں سامعین سے زیادہ شاعر ہوا کرتے تھے۔ بہزادؔ جب تیرہ چودہ برس ہی کے تھے، اپنے محلہ کے ایک مشاعرہ میں شریک ہو گئے اور شعرا کے صف میں جا کر بیٹھ گئے۔ جب شمع گردش کرتے ہوئے ان تک پہنچی تو بے ساختہ کانپنے لگے۔ استاد شعراء کی محفل میں انہیں پہلی بار اپنا کلام پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ سامعین اور بڑے شعرا کی حوصلہ افزائی نے آگے کی راہیں ہموار کیں۔ ریڈیو پاکستان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شمیم رحمانی کو بتاتے ہیں:
’’ میرا نام سردار حسین تھا۔ سردار مجھے پسند نہیں تھا اور میں اسے بدلنا چاہتا تھا۔ مجھے اسکول کے دنوں ہی میں طلسم ہوش ربا پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک جادوگر کا نام بہزاد تھا۔ یہ نام مجھے پسند آیا اور میں نے سردار کی جگہ بہزاد اپنا نام رکھ لیا۔ پھر یہی میرا تخلص ہو گیا۔ شاعری کا ذوق بھی مجھے طلسم ہوش ربا پڑھنے کے بعد محسوس ہوا۔ میں نے بارہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور یہ اسی طلسم ہوش ربا کا فیضان تھا۔ اس داستان میں جو غزلیں تھیں وہ میں پڑھا کرتا تھا۔ ان غزلوں کو پڑھنے کے بعد ظاہر ہے معنی اور مطلب تو سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن ہجر اور وصل کے معنی سمجھنے لگا تھا یعنی یہ کہ ہجر میں رونا ہوتا ہے، آہ و زاری ہوتی ہے اور وصل میں ایک کیف ہوتا ہے، لذت ہوتی ہے۔ ہجر میں تارے گن گن کر سحر کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ میں شعر کہہ لیا کرتا تھا اور موزوں کہتا تھا۔‘‘
عرفان عباسی تذکرہ شعرا اتر پردیش میں بہزاد لکھنوی کا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ … میں نے پہلی بار بہزادؔ لکھنوی کو صدیق بک ڈپو امین آباد لکھنؤ میں دیکھا تھا اور جس عجیب و غریب چیز نے سب سے پہلے متوجہ کیا وہ ان کے گلے میں لٹکتی ڈوری کا پھندنا تھا۔ متوسط قد دبلا پتلا جسم، بکھرے بال، چہرے پر چھٹکی داڑھی، آنکھوں پر سیاہ شیشوں والا چشمہ، شیروانی پاجامہ میں ملبوس، پیر میں دلی والا جوتا، ایک ہاتھ لٹکتی ہوئی ڈوری میں الجھا ہوا اور دوسرے میں لپٹا ہوا کاغذ۔ یہ اس وقت کا ظاہری حلیہ ان بہزادؔ صاحب کا تھا جنہیں ریڈیو پر سنتا تھا اور تصور کے پردے پر ان کی شخصیت کی نہ جانے کیسی کیسی تصویریں ابھرا کرتی تھیں‘‘
بہزاد ؔ لکھنوی کم تعلیم یافتہ ہونے کے سبب سب سے پہلے ریلوے میں ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ جسمانی اعتبار سے وہ اس قدر کمزور اور ناتواں واقع ہوئے تھے کہ مشکل ڈیوٹی انجام دینا ان کے بس سے باہر تھا۔ چنانچہ ان کے ایک خیر خواہ ذوالفقار علی بخاری نے آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازمت دلا دی۔ جہاں وہ ہر جمعہ کو تلاوتِ قرآن کریم کے بعد بلا ناغہ نعت سرور کونینؐ ترنم میں سناتے۔ ان کی نعت گوئی کی شگفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا گھر نہیں ہوتا جہاں پر ان کی نعت نہ سنی جاتی تھی۔ وہ نعت کے فی البدیہہ اشعار بھی کہتے۔ وہ عام دنوں میں اگر کسی شناسا کے یہاں چلے جاتے تو لوگ ان کے ارد گرد نعت سننے کے لیے جمع ہو جاتے اور بغیر نعت سنے ٹس سے مس نہیں ہونے دیتے۔ بہزادؔ لکھنوی کی نعت گوئی کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے سعید احمد اکبر آبادی رقم طراز ہیں: ’’حضرت بہزاد اُن خوش نصیب شاعروں میں سے ہیں جن کو قدرت نے زبان دانی اور قدرتِ کلام کے جوہر کے ساتھ ایک دل درد مند اور روحانی سوز و گداز کی دولت سے بھی نوازا ہے۔ شعر پڑھتے وقت آپ کی آنکھوں میں جو آنسو چمکتے رہتے ہیں اور چہرہ پر جو والہانہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ آپ کے دل کے حقیقی سوز و گداز کی آئینہ بردار ہوتی ہے۔ اسی بنا پر آپ کی نعتوں کی یہ عام خصوصیت ہے کہ ان میں ایک خاص طرح کی التجائیت، استرحام اور کرم طلبی پائی جاتی ہے جو سلاست بیان کے ساتھ مل کر سننے والوں کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی اور اربابِ وجد و حال اسے سن کر سر دھننے لگتے ہیں۔
انہوں نے نعت گوئی سے قبل صنف شاعری کے دیگر اصناف سخن پر بھی خوب طبع آزمائی کی۔ خصوصی طور پر ان کی غزلوں کو عوام و خاص میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس زمانہ میں ان کی کئی غزلیں عوام میں اس قدر مقبول تھیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور جوان گلیوں میں گنگنایا کرتے۔ اسی مقبولیت کی بنا پر انہوں نے فلمی دنیا یعنی مایا نگر ی میں بھی قسمت آزمائی کی اور کئی فلموں کے لیے نغمے اور گیت لکھے۔ لیکن جو ایک بار اس در کا منگتا ہوجائے اسے کسی دربارمیں چین و سکون میسر نہیں آتا چاہے خزانہ قارون ہی کیوں نہ اس کے قدموں پہ پڑا ہو۔ سفرِ حج سے واپسی کے بعد وہ بالکل بدل گئے۔ نعت گوئی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی، سارے جہان سے رشتہ توڑ کر اسی دربار کے درباری بن گئے۔ وہ مدینہ طیبہ سے واپس آئے تو ادھورے واپس آئے جسم تو وطن لوٹ آیا لیکن دل و روح وہیں رہ گئے۔ اس کسک کو وہ نعت میں یوں بیان کرتے ہیں:
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
بہزادؔ لکھنوی کا سفر حج کا واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ وہ سرکاردو عالمﷺ کے حضور میں جب بھی نعت پڑھتے، مدینے کی آرزو دل میں رکھتے۔ توشہ سفر پاس نہ تھا جس کی بنا پر یہ سفر تکمیل کو پہنچتا اور آرزو پوری ہوتی۔ ریڈیو پاکستان میں معمولی ملازمت کرتے تھے۔ اسی کمائی میں جیسے تیسے گھر چلتا تھا۔ کہتے ہیں اگر انسان کا عزم مصمم بلند ہو، نیت پختہ ہو تو کوئی بھی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔چنانچہ ایک دن ایک سندھی سیٹھ ریڈیو پاکستان کے دفتر میں بہزادؔ لکھنوی سے ملنے آئے۔ اتفاق سے بہزادؔ صاحب وہاں نہیں ملے۔ وہ سفر پر باہر گئے ہوئے تھے۔ سندھی سیٹھ وہیں ان سے ملنے کے اشتیاق میں قیام پذیر ہو گئے۔ جب بہزاد صاحب سے ملاقات ہوئی تو سندھی سیٹھ نے کہا ’’بہزادؔ صاحب میرا جی چاہتا ہے کہ آپ روضہ ٔ حضورؐ پر ہو آئیں اور ساتھ ہی حج بھی کرلیں‘‘ بہزادؔ نے کہا ’’میں غریب آدمی ہوں اخراجات کہاں سے لاؤں‘‘ انہوں نے کہا ’’میں اخراجات آپ کی خدمت میں نذر کردوں گا‘‘ لیکن وہ اس سفر پر اکیلے نہیں جا سکتے تھے۔ اس امیر آدمی کی محبت ان پر اس قدر غالب تھی کہ انہوں نے تین لوگوں کے سفرِ حج کا انتظام کر دیا۔ اس طرح بہزادؔ کی یہ آرزو پوری ہوئی۔ اس سفر کے مکمل روداد کو انہوں نے انتہائی دلچسپ انداز میں اپنے نعتیہ مجموعہ کلام ’’نغمہ روح‘‘ میں قلم بند کیا ہے۔
بہزادؔ لکھنوی کی ادبی خدمات میں بیانِ حضور ایک منفرد کتاب ہے۔ اس میں حضورﷺ کی سیرت منظوم ہے۔ اس منظوم سیرت پاک کی ضخامت ۱۹۲صفحات ہے۔ اس کے متعلق یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ منظوم سیرت کو بہزادؔ لکھنوی نے شاہد احمد دہلوی کی تحریک پر صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا۔ عنوانات کے تحت بہزادؔ صاحب نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ سیرتِ پاک کو دلکش اور منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ شاہد احمد دہلوی ’’بیان حضور‘‘ کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں ’’حضرت بہزادؔ کی نعتوں میں ایک خاص نوع کی والہانہ شیفتگی نمایاں ہے اور اسی سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر بہزادؔ صاحب سیرت رسولؐ کو نظم کردیں تو یہ نہ صرف اُن کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا بلکہ اس کتاب کی اشاعت سے مسلمانوں کی ایک بڑی ضرورت بھی پوری ہو گی‘‘ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں نغمہ روح، نغمہ نور، موجِ طہور، کیف و سرور، موجِ نور، کرم بالائے کرم، بت کدہ، چراغ طور، آہِ نا تمام، بستانِ بہزاد، نغماتِ بہزاد، کفر و ایمان قابل ذکر ہیں۔
ذیل میں ان کے نعتیہ کلام کے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:
رسائی نہیں اس کی ذات خدا تک
جسے ذات احمدؐ کا عرفاں نہیں ہے
پھر مچلنے لگا ہے دل بہزادؔ
خاتم الانبیاءﷺکی یاد آئی
وہ نقش پا ہے محراب النبی میں
مزا سجدوں کا اس جا آ گیا ہے
نظر میں اس کی کیا مستی کونین
جو دل کیف حضوری پا گیا ہے
مالکِ جن و بشر، باعث نورِ قمر
میم سے ہے جن کا نام، ان پہ درود اور سلام
زائر ارضِ رسول، التجا کرلے قبول
اتنا ہے میرا پیام، اْن پہ درود اور سلام
یوں تو جینے کو ہم جی رہےہیں مگر
جاں مدینے میں ہے دل مدینے میں ہے
کیا مہر و مہ و نجم اور کیا انس و جاں
ہے اسی سمت مائل دل دوجہاں
منفرد لب و لہجہ کے نعت گو شاعر بہزادؔ ؔلکھنوی نے۱۰؍ اکتوبر ۱۹۷٤ کو ۷٤ برس کی عمر میں وفات پائی اور کراچی پاکستان میں خلد آشیاں ہوئے۔
[email protected]
***

انہوں نے نعت گوئی سے قبل صنف شاعری کے دیگر اصناف سخن پر بھی خوب طبع آزمائی کی۔ خصوصی طور پر ان کی غزلوں کو عوام و خاص میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس زمانہ میں ان کی کئی غزلیں عوام میں اس قدر مقبول تھیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور جوان گلیوں میں گنگنایا کرتے۔ اسی مقبولیت کی بنا پر انہوں نے فلمی دنیا یعنی مایا نگر ی میں بھی قسمت آزمائی کی اور کئی فلموں کے لیے نغمے اور گیت لکھے۔ لیکن جو ایک بار اس در کا منگتا ہوجائے اسے کسی دربارمیں چین و سکون میسر نہیں آتا چاہے خزانہ قارون ہی کیوں نہ اس کے قدموں پہ پڑا ہو۔ سفرِ حج سے واپسی کے بعد وہ بالکل بدل گئے۔ نعت گوئی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی، سارے جہان سے رشتہ توڑ کر اسی دربار کے درباری بن گئے۔ وہ مدینہ طیبہ سے واپس آئے تو ادھورے واپس آئے جسم تو وطن لوٹ آیا لیکن دل و روح وہیں رہ گئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020