غیر سامی ادیان میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے افکار کا مطالعہ

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات ( قسط 20)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

ڈاکٹر محمد حمیداللہ ( 1908-2002) کی علمی وتحقیقی فتوحات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ انہوں نے قرآن و ترجمہ قرآن ، قفہ و اصول فقہ، حدیث و تخریج حدیث ، قانون بین الممالک اور سیرت رسول ﷺ کے متنوع اور جدید جہات سے دنیائے علم و ادب کو واقف کرایا۔ یوں تو انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کے تمام گوشوں اور نکات کو اجاگر کردیا۔ البتہ سیرت رسول ﷺ پر ان کی جملہ تحقیقات اور علمی کاوشیں وقیع اور جامع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو مجدد سیرت جیسے القاب سے اصحاب علم و فضل یاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی تصنیفات وتالیفات کئی زبانوں میں دستیاب ہیں۔ انگریزی ، عربی اور اردو کے علاوہ فرنچ، جرمن، اطالوی، ترکی جیسی زبانوں پر بھی قدرت حاصل تھی۔ یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو عموماً علماء کے یہاں نہیں پایا جاتا ہے۔ یہی شناخت اور منفرد و جداگا نہ تحقیقی شعور ان کے علمی رتبہ و فضل کو بڑھاتا ہے۔ سیرت پر آپ کی معروف کتابیں ۔ محمد رسول اللہ،( یہ کتاب اصل فرنچ میں لکھی تھی لیکن اب اس کا اردو ترجمہ محمد رسول اللہ کے نام سے ہوگیا ہے) عہد نبوی کا نظام حکمرانی، عہد نبوی کے میدان جنگ، محمد ﷺ کی سیاسی زندگی، الوثائق السیاسیۃ معروف و متداول ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر حمیداللہ نے قانون بین الممالک پر نہایت اہم کتاب تصنیف کی اور پہلی مرتبہ قانون بین الممالک جیسی اصطلاح سے دنیا کو متعارف کرایا۔ گویا آپ کی علمی و فکری جہات کے شعبے گونا گوں ہیں۔ آپ کی تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ زبان سلیس اور سادہ ہے اور قاری کے دل و دماغ کو پوری طرح متوجہ کر لیتی ہیں۔ کتاب و تحریر کا ہر ہر لفظ تحقیق و تفتیش سے مملو نظر آتا ہے۔ جس موضوع کو اٹھا کر دیکھ لیجیے وہ اپنے آپ میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر حمیداللہ کی تقابل ادیان خصوصاً غیر سامی ادیان کے متعلق افکار کا مطالعہ مقصود ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی تحقیقات میں تقابل ادیان پر مستقل کوئی کتاب نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے متعدد کتب میں تقابل ادیان کے متعلق جگہ جگہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ مثلآ خطبات بہاول پور، رسول کریم ﷺ کی سیاسی زندگی، introduction of Islam , تراجم قرآن وغیرہ میں کچھ بحثیں ملتی ہیں۔ اسی طرح جن حضرات نے ڈاکٹر حمیداللہ کی سیرت و سوانح پر گفتگو کی ہے انہوں نے بھی ڈاکٹر حمیداللہ کے مطالعہ ادیان کے گوشے کو تشنہ چھوڑا ہے۔ اس پر ایک مضمون راقم کی نظر سے گزرا ہے۔’’ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا مطالعہ ادیان ومذاہب۔‘‘
تقابل ادیان کی طرف متوجہ ہونے کے اسباب
اگر آپ کی کتب اور جملہ تحریروں کو بغور دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ کی تحریری کاوشوں میں تقابل ادیان پر بڑی مفید بحثیں ملتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مطالعہ ادیان کی طرف آپ کی توجہ کیسے مبذول ہوئی؟ اس بابت یہ کہنا صحیح ہے کہ ایک تو آپ متعدد زبانوں کے ماہر تھے اس بناء پر دیگر تہذیبوں اور ان کا مذہبی ودینی لٹریچر نظر سے گزرا ہو گا اس لیے تقابل ادیان پر آپ نے اپنی کتابوں میں اظہار خیال کیا ہے۔ اسی طرح آپ مغربی تہذیب سے ایک زمانے تک وابستہ رہے۔ ان کی تہذیب ان کے عقائد و نظریات اور دین و مذہب کو جاننے کی کوشش کی۔ چنانچہ پروفیسر عبد القیوم قریشی نے خطبات بہاول پور کے تعارف میں (واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب 2001 میں ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد سے شائع ہوئی ہے۔ اسی پر پروفیسر موصوف نے انتہائی اہم تعارف لکھا ہے) ڈاکٹر حمیداللہ کی تقابل ادیان میں دلچسپیوں کے محرکات و اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے۔’’ ڈاکٹر صاحب السنہ شرقیہ یعنی اردو فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی ، فرانسیسی، جرمن اطالوی وغیرہ زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ چنانچہ مختلف اقوام وادیان کے تاریخی اور تقابلی مطالعے کی بدولت آپ کے مقالات اور تصانیف کا علمی و تحقیقی مرتبہ نہایت بلند ہے۔ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں ان کو اسی لسانی مہارت سے بڑی مددملی۔‘‘(خطبات بھاول پور صفحہ 15) ڈاکٹر محمد عبداللہ اپنے ایک مقالے میں’’ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا مطالعہ ادیان ومذاہب‘‘ میں تحریر کرتے ہیں ’’مغرب کے مسیحی پس منظر کے پیش نظر ڈاکٹر محمد حمیداللہ اپنی تصنیفات کے ذریعے اسلام اور دیگر مذاہب بالخصوص مسیحیت کا تقابلی جائزہ پیش کرتے رہے۔ فرانس کے بعض اشاعتی اداروں نے مختلف دینیاتی و مذہبی مسائل پر ایسی کتب شائع کی ہیں جن میں مختلف مذاہب کے علماء کی تحریریں کہ جن میں مصنفین نے اپنے مذہب کا موقف پیش کیا ہے، شامل کی گئی ہیں۔ محمد حمیداللہ ایسی متعدد کتب کے شریک مصنف ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب حضرت ابراہیم علیہ السلام پر شائع ہوئی ہے تین ابواب پر مشتمل اس کتاب کا ایک باب ڈاکٹر صاحب کے قلم سے نکلا ہے۔ جبکہ بقیہ دو ابواب یہودی اور عیسائی علماء کے ہیں۔ اس باب میں انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت ورسالت اور ان کی دعوت تعلیمات کو اسلامی ماخذ کی روشنی میں اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب اپنی علالت سے قبل مسیحی اور اسلامی ماخذ کی روشنی میں حضرت حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات بھی تصنیف کر رہے تھے۔ نیز ڈاکٹر صاحب دعوت اسلام کے سلسلے میں دیگر مذاہب خصوصاً مسیحیت کے تقابلی مطالعہ پر بڑا زور دیتے تھے‘‘۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی تہذیب میں رہائش اور متعدد زبانوں سے واقفیت ڈاکٹر حمیداللہ کے لیے مطالعہ تقابل ادیان کا سبب بنے۔ چونکہ راقم کو ڈاکٹر حمیداللہ کے غیر سامی ادیان کا مطالعہ پیش کرنا ہے، سطور ذیل میں ان کو ملاحظہ کیجیے۔
مذاہب عالم کے مصلحین
اگر ڈاکٹر حمیداللہ کی تحریروں کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مطالعہ ادیان کے حوالے سے نہایت دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنی معروف کتاب
introduction of Islam (واضح رہے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ سید خالد جاوید مشہدی نے کیا ہے اور یہ لاہور سے 2013 میں شائع ہوچکا ہے۔) میں مذاہب عالم کے مصلحین کے متعلق رقم طراز ہیں:’’ انسانی تاریخ میں ایسی شخصیات کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنی قوموں کی سماجی اور مذہبی اصلاح کے لیے وقف کردیں۔ ایسے افراد ہر دور اور ہر ملک میں موجود رہے ہیں۔ ہندوستان میں ویدوں کے تخلیق کار تھے وہاں گوتم بدھ بھی تھے۔ چین میں اس شخصیت کا نام کنفیوشس جبکہ کہ ایران میں اویستا تھا۔ سر زمین بابل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو جنم دیا جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین مصلحین میں ہوتا ہے۔ اہل یہود اپنے پیغمبروں اور مصلحوں کی ایک طویل لڑی پر بجا طور پر نازاں ہیں ان میں موسی، سیموئیل، داود، سلیمان اور عیسی علیہم السلام کے اسماء گرامی غابل ذکر ہیں‘‘ ( اسلام کیا ہے؟ صفحہ 17) البتہ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان انبیاء پر نازل ہونے والے صحیفے اور کتب پوری طرح مسخ ہوچکی ہیں ۔
ہندو مت کی کتب
ڈاکٹر محمد حمید اللہ اپنی کتاب خطبات بہاولپور میں ہندومت کی کتب کے متعلق نہایت دلچسپ بات لکھتے ہیں ۔
’’مجوسیوں کا مذہب زرتشت کی لائی ہوئی کتاب اوستا پر مبنی ہے۔ اوستا کے بارے میں کچھ معلومات ہیں۔ زرتشت کی کتاب اس وقت کی ژند، زبان میں تھی کچھ عرصہ کے بعد ایران پر دوسری قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زبان وہاں رائج ہوئی۔ پرانی زبان متروک ہوگئی نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں مٹھی بھر عالم اور متخصصین کے سوا ژند زبان جاننے والا کوئی نہ رہا۔ اس لیے زرتشتی مذہب کے علماء نے نئی زبان پاژند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا صرف دسواں حصہ موجود ہے۔ باقی غائب ہوچکا ہے۔ اس دسویں حصے میں بھی کچھ چیزیں عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہر حال دنیا کی ایک اہم کتاب کو اوستا کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک نہیں پہنچ سکی‘‘ ۔(خطبات بہاول پور ،صفحہ 2)اس کے بعد ہندو مت کی کتب کے متعلق لکھتے ہیں ’’ ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائی جاتی ہیں اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ ہیں۔ ان مقدس کتابوں میں وید، پران، اپنشد اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کتابیں ایک ہی نبی پر نازل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئی ہوں بشر طیکہ وہ نبی ہوں۔ ان میں خصوصاً پران نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے ملتے ہیں۔ پران وہی لفظ ہے جو اردو میں پرانا یا قدیم ہے۔ اس کی طرف قرآن مجید میں ایک عجیب وغریب اشارہ ملتا ہے وانہ لفی زبر الاولین۔ اس چیز کا پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا پران سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ بہر حال دس پران ہیں ان میں بھی آخری نبی کے بارے میں پیشین گوئی موجود ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ 3) ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ نے ہندو مت کا بڑی بارک بینی سے مطالعہ کیا تھا تبھی وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوؤں کا صرف ویدوں کے متعلق یہ دعویٰ ہے کہ وہ الہامی ہیں۔ بقیہ کتابوں پر ان کا اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر حمیداللہ کا یہ کہنا کہ وید کے علاوہ اپنشد اور پران کے متعلق بھی ہندوؤں کا دعویٰ الہامی ہونے کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر حمیداللہ کا یہ درست خیال نہیں ہے۔ یہ ان کا اپنا نظریہ ہے اور اس سےاختلاف کی پوری گنجائش ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے دیگر مذاہب کی کتب کے متعلق روادارانہ اور معتدل رویہ اپنایا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں ’’اگر میں کسی یہودی یا کسی عیسائی کو یہ کہوں کہ تیرا مذہب جھوٹا ہے، تیری نجات کا واحد ذریعہ یہ ہی کہ تو اسلام قبول کرے، تیرے پاس جو کتابیں ہیں وہ لغو اور جلا دینے کے قابل ہیں تو اسے دکھ ہوگا اور غالباً وہ جوش غضب سے اس قدر مغلوب ہو جائے گا کہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں میری کوئی بات سننے یا ماننے کے لیے تیار نہ ہوگا ۔ اس کے بر خلاف اگر اسے یہ کہوں کہ تمہارا دین بھی سچا ہے، تمہارے ہاں کی کتاب بھی سچی ہے، وہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب ہے اور وہی اللہ جس نے تمہیں یہ کتاب دی اس نے ایک آ خری کتاب بھی بھیجی ہے، تم اس کو پڑھو اور غور کر کے دیکھو کہ اس میں کیا بیان ہوا ہے، وہ نسبتاً زیادہ خوش دلی کے ساتھ پڑھنے اور غور کر نے کے لیے تیار ہوگا۔ اسی طرح اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لانے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس میں بھی وہی فراخ دلی، وسیع القلبی، تحمل رواداری کا پہلو نظرآتاہے‘‘ (ایضاً صفحہ 161-162) یقیناً موصوف کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ آج ہمارے رویے میں اعتدال و میانہ روی سے زیادہ ترشی، تلخی آ گئی ہے اور مصلحت و موقع شناسی مفقود ہو چکی ہے۔ جبکہ وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم فراخ دلی اور وسیع القلبی کا عملی مظاہرہ کریں۔
عبادت کا تصور
یہ سچ ہے کہ دنیا کے ہر دین و تہذیب میں عبادت کا تصور پایا جاتا ہے۔ عبادت کرنے کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ اسی اعتبار سے وہ اپنی اس مذہبی رسم کی ادائیگی کرتے ہیں چنانچہ ڈاکٹر حمید اللہ نے غیر سامی ادیان میں عبادت کے متعلق بھی لکھا ہے ’’ہندوستان میں جب آریا آ ئے تو انہوں نے اپنی زرعی معیشت میں گائے کو سب سے زیادہ مفید اور منفعت بخش پایا تو خدا کی اس سب سے بڑی نعمت کے گن گانے لگے اور خدا کی نعمتوں کی سب سے بڑی علامت کے طور پر اس احترام کرنے لگے۔ اللہ ایک منعم ہے لہٰذا اس کا شکر ادا کرنے کے لیے وہ اس کی سب سے اچھی عمر کی تعریف کرتے ہیں اور اس کا ادب کرتے ہیں یوں بالواسطہ وہ اللہ کا ادب کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کی تعریف کرنا چاہتے ہیں‘‘ ( ایضاً صفحہ 173) روزے کا مفہوم ہندوؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے لکھا ہے۔ ’’ ہندوؤں کے یہاں روزے ہیں لیکن زمانہ اور تعداد معین نہیں اور لزوم بھی کم ہے۔ بانیان مذہب کی تاریخ پیدائش اور سورج گرہن اور چاند گرہن جیسے اثر انداز کرشمہ ہائے قدرت کے موقعوں پر دین دار لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ اور سہ پہر کے تقریباً تین بجے افطار کرلیتے ہیں ‘‘(ایضا صفحہ 177) اسی طرح حج کے متعلق گویا ہیں ’’دوسری قوموں کا حج یا تو اپنے کسی بزرگ کسی ولی کسی بانی مذہب کی زیارت کرنا ہے۔ یا مظاہر قدرت اور عجائبات میں سے کسی بہت عجیب چیز کی زیارت کرنا ہے۔ چنانچہ ہندو دریائے گنگا کے منبع کی زیارت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں بڑا ثواب ہے۔ دریائے گنگا اور جمنا کا سنگم الہ آباد کے مقام پر ہے۔ اس کی زیارت میں بڑا ثواب سمجھتے ہیں‘‘ ( ایضاً 176-177)
تناسخ ارواح کا مفہوم
ہر مذہب کے یہاں دوزخ اور جنت کا تصور پایا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص دنیا میں اچھے عمل کرے گا تو اس کو اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اجر عطا کیا جائے گا۔ اگر کوئی فرد بدی اور کریہہ چیزوں میں لت پت رہے گا تو اس کو اسی طرح کا بدلہ ملے گا۔ ہندو مت میں بھی اس بابت نظریہ ملتا ہے۔ اس نظریہ کو ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنی کتاب خطبات بہاول پور میں بیان کیا ہے ’’ہندوؤں اور بدھ مت والوں کا تصور اس کے بارے میں کچھ اور ہے ۔ یہ دلچسپ ضرور ہے لیکن ظاہر ہے کہ اسے مسلمان قبول نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کا وجود ازل سے ابد تک صرف اتنا ہی ہے جتنا ایک بلبلے کا وجود جو دریا میں موج تلاطم سے پانی کی سطح سے اچھل پڑتا ہے پھر آن کی آن میں دوبار ہ گر کر دریا کے پانی میں غائب ہو جاتا ہے۔ انسان کی ہستی بھی اس کائنات کے محض ایک جزو کی ہے۔ اسی طرح ان کا تصور تناسخ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اچھا کام کرے تو اسے جزا ملے گی اور اگر برا کا کرے گا تو سزا ملے گی۔ ہندوؤں کے عقائد کے مطابق وہ سزا اس برائی کی نوعیت کے مطابق ہوگی۔ اگر اس نے تھوڑی برائی کی ہے مثلاًوہ بادشاہ ہے تو مرنے کے بعد غلام کے طور پر پیدا ہوگا اگر اس نے اس سے بھی زیادہ برائی کی ہے تو وہ مرنے کے بعد کتا یا بلی بن جائے گا۔ اس کی برائی اگر اس سے بھی زیادہ ہے تو وہ درخت بنے گا۔ اس سے بھی بڑی برائی ہے تو وہ پتھر بن جائے گا۔ جمادات، نباتات، حیوانات یہ سب ارتقاء کی مدارج ہیں۔ اسی لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی پتھر بننے کی سزا دی گئی تو اس پتھر کو ارتقاء کے ذریعے سے صدیوں کی مدت کے بعد درخت کا موقع ملے گا۔ اگر درخت اپنی مدت حیات میں مفید کام کرتا ہے تو اس درخت کو صدیوں بعد جانور بننے کا موقع ملے گا۔ اگر شودر کی حیثیت سے انسان اچھے کام کرتا رہے اور فرائض انجام دیتا رہے تو وہ مرنے کے بعد ویش بنے گا۔ اس کے بعد کشتری بنے گا۔ اس کے بعد برہمن بنے گا۔ اگر برہمن کی حیثیت سے اپنی زندگی اچھی گزاری تو مرنے کے بعد خدا کی ذات میں ضم ہو جائے گا۔ جس طرح کہ وہ بلبلہ پانی میں دوبارہ گرا اور پانی بن گیا۔ اگر برہمن نے زندگی برائی کے ساتھ گزاری تو اسے وہی سزا ملے گی اور یہ ان کا آواگون یا تناسخ کا تصور ہے۔‘‘)ایضاً صفحہ 168-(169
بدھ مت کا ذکر قرآن میں ہے ؟
ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی کتاب خطبات بہاولپور میں ایک انتہائی اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
’’قرآن مجید میں ایک ایسے پیغمبر کا بھی ذکر آیا جسے ہم ہندوستان سے متعلق کہہ سکتے ہیں۔ ان کے متعلق قرآن و حدیث میں تفصیلی صراحت موجود نہیں ہے اگرچہ بعض محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں جو بھی لکھا ہے وہ قابل اعتماد نہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے استاد مولانا مناظر احسن گیلانی انہیں کفل کہتے تھے غالباً اس سے مراد گوتم بدھ ہے اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ ذوالکفل کے لفظی معنی کفل والے کے ہیں۔ اور کفل ’’کپل وستو‘‘ کی معرب شکل ہے یہ بنارس کے قریب ایک شہر ہے۔ جس میں گوتم بدھ پیدا ہوئے تھے اس کی مزید تائید کے لیے وہ سورہ التین کی آیات 1تا 3 کی طرف اشارہ کرتے تھے جس میں تمام مفسرین کے خیال میں چار پیغمبروں کا ذکر آیا ہے زیتون سے حضرت عیسیٰؑ کی طرف اشارہ ہے، سینا سے حضرت موسیٰؑ کی طرف، بلد الامین سے حضور اکرمؐ کی طرف۔
والتین کیا ہے؟ بعض لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد حضرت ابراہیمؐ ہیں لیکن حضرت ابراہیمؐ اور دوسرے نبیوں کی زندگیوں میں انجیر کو کوئی اہمیت نہیں رہی جبکہ مولانا مناظر احسن گیلانی فرماتے تھے کہ گوتم بدھ کے ماننے والوں کا متفقہ بیان ہےکہ گوتم بدھ کو جنگلی انجیر کے نیچے نروان حاصل ہوا تھا۔ اس سے وہ استنباط کرتے تھے کہ قرآن مجید میں جہاں دنیا کے بڑے مذاہب کا ذکر ہے وہاں بدھ مت کا بھی ذکر ایک بہت لطیف انداز میں کر دیا گیا ہے۔ گوتم بدھ کے حالات چونکہ عربوں کو تفصیل سے معلوم نہیں تھے لہٰذا اس پر زور نہیں دیا گیا‘‘ (ایضاً صفحہ 275-276) اس اقتباس کے ذیل میں کہنا ہے کہ یہ ڈاکٹر حمیداللہ کی اور مولانا مناظر احسن گیلانی کی اپنی ذاتی رائے ہے۔
اہل علم کو اس سے اختلاف کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ میری خواہش ہے اس پر مزید تحقیق آنی چاہیے۔ اگر کوئی اہل علم اس سلسلے کو آگے بڑھائیں تو بڑی نوازش ہوگی۔
خوش آئند اقدام
ڈاکٹر حمید اللہ نے تقابل ادیان اور تہذیبی تنوع پر کئی اہم مقالے بھی لکھے ہیں جن کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا کہ انہیں ادیان و مذاہب اور اقوام کے رسو م ورواج اور تہذیبوں کے متعلق کافی گرفت تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں تقابل ادیان جیسی علمی بحثیں گاہ بگاہ مل جاتی ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنے فرانسیسی ترجمہ قرآن میں بھی مذاہبِ عالم سے متعلق بڑی دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر حمیداللہ نے اُردو زبان کے ہندو شاعر پنڈت جگن ناتھ آزاد کی نعتیہ شاعری کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ہے۔ جو Hommage a Mahomet کے نام سے معروف ہے۔ اس کی پہلی اشاعت 1990 میں ہوئی ہے۔ اس سے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ صرف مذہبی اہل علم یعنی مسلمان ہی نبی کریم ﷺ کی توصیف نہیں کرتے ہیں بلکہ ہندوؤں نے بھی آپؐ کی شان میں نعت و توصیف پیش کی ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ کے افکار کی افادیت
مذکورہ مباحث کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ نے مطالعہ ادیان کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں ان میں اعتدال اور بلا کا توازن پایا جاتا ہے۔ یقیناً ان سے قومی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے مذکورہ بالا افکار علمی نقطہ نظر سے اہم ہیں وہیں ان کی افادیت و معنویت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ غیر سامی ادیان پر حمیداللہ کی جو آراء پیش کی گئی ہیں وہ اہل علم و فکر اور مطالعہ ادیان کے ماہرین کو کئی اعتبار سے غور و فکر کے پہلو فراہم کرتی ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے ان علمی نکات کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور معاشرے میں اس کی افادیت کو بیان کیا جائے۔ ہو سکتا ہے ان آراء پر کسی کو اتفاق نہ ہو مگر علمی سنجیدگی اور روایت کو فروغ دینے کے لیے ایک بار پھر سنجیدہ بحث کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]
***

غیر سامی ادیان پر حمیداللہ کی جو آراء پیش کی گئی ہیں وہ اہل علم و فکر اور مطالعہ ادیان کے ماہرین کو کئی اعتبار سے غور و فکر کے پہلو فراہم کرتی ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے ان علمی نکات کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور معاشرے میں اس کی افادیت کو بیان کیا جائے۔ ہو سکتا ہے ان آراء پر کسی کو اتفاق نہ ہو مگر علمی سنجیدگی اور روایت کو فروغ دینے کے لیے ایک بار پھر سنجیدہ بحث کرنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21