غصہ پر قابو پانے اور نفس کی تربیت کےلیے اہم کتاب

Lets not kill each other

کتاب : Lets not kill each other
مصنفہ : کنیزفاطمہ
مبصّر : سہیل بشیرکار ،بارہمولہ
صفحات :48
قیمت (کنڈل ایڈیشن) :499 روپے

خوش گوارزندگی کے لیے غصہ سے بچنا بے حد ضروری
دنیا کا ہر ذی شعور انسان غصے کے مضر اثرات ونتائج سے واقف ہے۔ تجربہ بتاتاہے کہ غصے سے کیا جانے والا ہر کام اپنے ساتھ خسارہ اور پچھتاوا ہی لاتاہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر تعمیر سیرت کے حوالے سے قرآن مجید نے غصے کوزیر کرناپرہیزگاروں کی صفت بتایا ہے ۔ غصہ ہر ایک کو آتا ہے۔ غصہ آنا فطری ہے لیکن اللہ نے اسے انسان کے لیے آزمائش بنایا ہے، شیطان بار بار بندے کو غصہ کے لیے اکساتا ہے۔ اس طرح غصہ پر قابو پانا کے لیے مستقل محنت کی ضرورت ہوتی ہے، بارہاایسادیکھنے میں آتاہے کہ انسان حتی المقدورکوشش کرتاہے کہ غصہ نہ کرے لیکن حالات اس کے اندراس قدر ارتعاش پیداکردیتے ہیں کہ وہ غصے پر قابو نہیں پاتا۔ بعدازاں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔غصے کی اسی غیرمعمولی قوت کو دھیان میں رکھ کر جدید سائنس نے اس ضمن میں کئی طرح کے کورسز بھی ترتیب دیے ہیں جن میں لوگوں کو غصے کے وقت اپنے حواس پر قابو رکھنا سکھایا جاتا ہے، معمولی معمولی چیزیں غصہ نہ دلائے؛ اس کے لیے تکنیک سکھائی جاتی ہے۔ بحیثیت امت مسلمہ ہمیں بھی جدید اورسائنٹفک اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
’’ ایک دوسرے کے قاتل نہ بنیں‘‘(Lets not kill each other)غصے کوقابومیں لانے کے لیے کنیز فاطمہ کی ایک انتہائی مفید گائیڈ بک ہے۔ کنیز فاطمہ پیشے کے اعتبارسے ایک کونسلر،NextGen parenting کی بانی رکن،اور لائف کوچ کی حیثیت سے بھی اس طرح کے مسائل کاگہرا علم رکھتی ہیں۔ مذکورہ کتاب کو انہوں نے آٹھ ابواب میں تقسیم کیاہے۔پہلے باب کو’’غصہ:جاننے لائق ضروری معلومات ‘‘کے عنوان کے تحت باندھا گیاہے اور اس میں مصنفہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے آئینے میں ضرور دیکھیں اور پتہ لگائیں کہ کیاان کاشماران تین قسم کے لوگوں میں تو نہیں ہوتا جن میں پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو بہت کم وقت میں تناؤ اور غصے کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں؛ دوسرا، وہ لوگ جو چیزوں کو جب اپنی منصوبہ بندی اورتدبیر کے مطابق ہوتاہوا نہ دیکھ پاتے ہیں تو غصے سے آگ بگولہ ہوجاتے ہیں؛ اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا جو غصہ آنے پر ماراماری ، ناشائستہ الفاظ اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ آگے مصنفہ غصے کی جذباتی کیفیت کوبیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ غصہ اپنی فطرت میں ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن صرف اس حدتک جب تک یہ اپنے مقررہ دائرے سے باہر نہ نکلے۔ اس کے بعد وہ غصے سے جڑے دیگر اہم مسائل جیسے کہ غصے سے پیداہونے والے اثرات، غصہ دلانے والے عوامل، غصے کی مختلف کیفیات اور غصے کے مہلک بن جانے کی وجوہات پر بحث کرتی ہے ۔ مصنفہ کا یہ ماننا حقیقت پرمبنی ہے کہ غصے پرقابوپانے کے طریقے ،جس کو ہم عرف عام میں Anger Managmentکہتے ہے؛ دورجدید کی ایک اہم ضرورت اختیار کرگیاہے۔خاص کر جب مختلف تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوا کہ ہر تین میں سے ایک فرد کو اس کی ضرورت ہے۔ اس باب میں آگے مصنفہ ان توہمات کے بارے میں بات کرتی ہے جوغصے کو لے کر ہمارے سماج میں عام پائے جاتے ہیں اور ان توہمات کی وجہ سے ایک شخص غصہ قابو پانے پر محنت نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر ایسے دعوے کہ غصہ موروثی ہوتاہے، غصہ پی جانا انسان کے لیے نقصان دہ ہوتاہے، مرد غصے کے معاملے میں ہمیشہ خواتین سے آگے ہوتے ہیں اور یہ کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان اور زیادہ غصیلا ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ باب کے آخرمیں مصنفہ نے انگریزی کے پہلے تین حروف اے۔بی اور سی کی ترتیب سے غصے کی ابجد تیار کی ہے۔ جس کے تحت اے، اینگر ٹِرگر(Anger trigger) کی نمائندگی کرتاہے،یعنی وہ بنیادی وجہ جوغصہ دلانے میں بنیادی کردار اداکرتاہے۔ بی، انسان کے Behaviourکی عکاسی کرتاہے اور سی ،غصے سے جنم لینے والے نتائج یعنی Consequencesکی علامت ہے۔ باب ختم کرنے سے پہلے کنیز فاطمہ قاری کو مشق کرانے کے لیے اسے ترغیب دیتی وہ کاغذقلم پکڑے اور غصے کے حوالے سے اپنے تجربات کو قلمبندکرنے کی کوشش کرے۔
کتاب ( گائیڈ بک) کے دوسرے باب کاعنوان ہے’’کیاغصہ ہر صورت میں ایک پریشان کن مسئلہ ہے؟ ‘‘مصنفہ نے اس باب کا آغاز قرآن کریم کی سورةآل عمران کی آیت ۴۳۱سے کیاہے۔ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں یعنی پرہیزگاروں کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ غصے کو پی جانے والے اور درگزرسے کام لینے والے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے مصنفہ قارئین پرزور دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہرانسان کے لیے اس بات کاپتہ لگانا نہایت ضروری ہے کہ ایسی کون سی چیزہے،جواس کوغصہ دلانے کی وجہ بنتی ہے۔ وہ کوئی شئے بھی ہوسکتی ہے، کوئی بات یاکسی کا کوئی ردعمل بھی ہوسکتا ہے اوراس کاصحیح ادراک کرنے کے لیے ہرفرد کو اپنی سطح پر غوروفکر سے کام لینا چاہیے ۔ مزید وہ اُن مختلف کیفیات کی وضاحت بھی کرتی ہیں،جوغصے کے وقت انسان پر طاری ہوجاتی ہیں۔مثلاً کہیں ایسا تونہیں کہ غصہ آنے کے پیچھے دراصل کسی کے تئیں محبت کے شدید جذبات کارفرما ہوں ؟یاپھر غصہ آپ کو دکھی کردیتاہو،آپ کوکسی خوف کی نفسیات میں مبتلا کردیتاہویا پھر آپ میں احساسِ برتری یادوسروں کے متعلق طنزیہ سلوک اپنانے پراُبھارتاہو؟اس کے لیے ضروری ہے کہ ہرشخص اس بات پرغورکرے کہ غصہ آتے وقت اُس کے ذہن میں کس کی تصویر گھوم رہی ہوتی ہے؟کیا وہ دفترمیں جس کے ماتحت کام کررہاہوتاہے،اس کی شکل ہوتی ہے؟ اپنے بیوی /شوہراوربچوں کی؟ یاپھراپنے دوستوں یا ہمسایوں کی؟اس بات کو جاننے کے لیے کہ آپ کاغصہ نارمل ہے یا ابنارمل ،مصنفہ آگے آٹھ نکات پرمبنی ایک پیمائشی اصول وضع کرتی ہیں ، جس کے تحت ہرفرد اپنے غصے کی نوعیت کو ناپ سکتاہے کہ اس سلسلے میں وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ ماہ میں آپ کوکتنی دفعہ غصہ آیا؟ہفتے میں ایک یادوبار، تین سے پانچ باریاپھر ایک باربھی نہیں؟پیمائش کے بعدیہ پتہ لگانے کے لیے کہ کسی فرد کاغصہ ، غصے کی کون سی قسم سے تعلق رکھتاہے، مصنفہ نے غصے کی دس اقسام گنوائی ہیں ۔ راقم کا ماننا ہے کہ غصے کی اقسام بیان کرتے وقت اگر ان کی کچھ مثالیں بھی شامل کردی جاتی توقاری کے سامنے بات اورزیادہ واضح ہوکر سامنے آتی۔ باب کے اختتام پر مصنفہ قارئین کو مشق کراتی ہیںکہ غصہ آتے وقت وہ اپنی کیفیات کوکیساپاتے ہیں؟ کیاوہ ٹھیک سے بات نہیں کرپاتے؟پریشان رہتے ہیں؟ بھاری پن محسوس کرتے ہیں؟ وغیرہ۔ اس کیفیت سے واقف ہوناقاری کے لیے بہت ضروری ہے۔
’کیا غصے پر قابو پانا ممکن ہے؟‘‘ کتاب کے چوتھے باب کاعنوان ہے مصنفہ اس باب کی شروعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابوداؤد میں درج حدیث سے کرتی ہے جس میں رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ’’غصہ شیطان کی طرف سے ہے۔ شیطان آگ سے پیداکیاگیاہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کسی کوغصہ آئے تو وضو کرلیناچاہیے‘‘ ۔ کنیز فاطمہ کایہ تجزیہ بہت اہم ہے کہ ہمارا یہ سوچنا کہ ہمارے اندرغصہ پیداہونے کی وجہ فلاں شخص ہے، ایک نہایت ہی غلط استدلال ہے۔ کیونکہ ہوناتویہ چاہیے کہ ایسے شخص کے بارے میں ہم اپنی رائے درست کریں اور یہ جان لیں کہ فلاں شخص میرے لیے صرف منفی خیالات رکھتاہے، اس لیے ایسے شخص کی وجہ سے خود پر غصے جیسی کیفیت مسلط کردینا اپنا ہی نقصان ہے۔ اس نقطے پر پہنچ کر مصنفہ پانچ بندروں پر کی گئی ایک تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں
سائنسدانوں کی ایک جماعت نے پانچ بندروں کوایک کمرے میں بند کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کمرے میں ایک سیڑھی رکھ دی اور اس کی چوٹی پر کچھ کیلے رکھ دیے۔ کیلے کھانے کے لیے جب بھی بندروں میں سے کوئی ایک بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا،تو سائنسدان چھت پرلگے پانی کے ایک شاور کو کھول دیتے۔ پانی برسنے کی وجہ سے باقی بندروں کوکافی تکلیف ہوتی،جب کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا پانی ان پر گر جاتا جس سے سب کو تکلیف ہوتی جس کی وجہ سے وہ پھر کسی بندر کو دوبارہ سیڑھی پر چڑھنے سے روک دیتے۔ اُن کی دانست کے مطابق ایساکرکے وہ پانی کوبرسنے سے روک دیتے تھے۔ کچھ دیر بعد کمرے سے پانی کا والو ہٹادیا گیا اور تجربے کادوسرامرحلہ شروع ہوا۔ پانی کی بوچھاڑ نہ ہوتے ہوئے بھی ، بندروں میں سے کوئی بھی سیڑھی پرچڑھنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ جب کافی وقت تک کمرے میں کسی طرح کی کوئی حرکت یا پیش رفت نہیں ہوئی تو سائنسدانوں نے ان بندروں میں سے ایک کو نکال کر اس کی جگہ نیابندرگروہ میں شامل کردیا۔ اب چونکہ نیابندرسابقہ مشاہدے سے بے خبر تھا،اُس نے آتے ہی سیڑھی پرچڑھنے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کر باقی سارے بندر اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے مارنے لگے۔ بیچارہ بندر مارکھاکرایک طرف کونے میں سمٹ گیا اوروجہ معلوم نہ ہونے کے باوجودبھی دوبارہ سیڑھی چڑھنے کاخیال ترک کردیا۔ سائنسدان ایک کے بعد ایک بندربدلتے گئے؛ نیا بندر آتے ہی سیڑھی پرچڑھنے کی کوشش کرتا لیکن دوسرے بندر اسے گھسیٹ کر نیچے لاتے اور زدوکوب کانشانہ بناتے۔ بالآخر وہ بھی دوسرے بندروں کی تقلید میں نئے آنے والے بندروں کومارناشروع کردیتا ۔ ایسا کرتے کرتے اب کمرے میں سارے نئے بندرجمع ہوگئے تھے، لیکن پھر بھی ان میں سے کوئی سیڑھی کی طرف بڑھنے کی جرات نہ کرتا۔ اگر ممکن ہوتا اور ان بندروں سے کوئی پوچھتا کہ تم ایساکیوں کررہے ہو؟تو یقینا ان کاجواب کچھ اس طرح کاہی ہوتا کہ ہم نے تو اپنے اسلاف اور بڑوں کو ایساکرتے دیکھاہے بعینہ اسی طرح انسان بھی ماضی کے کچھ مشاہدات کو اپنے اوپر حاوی کرلیتاہے جبکہ وہ مخصوص مشاہدات اپنے مخصوص وقت میں ایک مخصوص معانی لیے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے معنی اور اثرات بدل جاتے ہیں لیکن ہم ان کی اصل کو جانے بغیر ان کے اثرات کو ہمیشہ اپنے اوپر حاوی کیے رکھتے ہیں۔ نتیجتاً ہم اُن سے کبھی خلاصی حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے.
پانچواں باب’’خوبصورت ازدواجی زندگی کوکامیاب بنانے کے اصول‘‘ سے بحث کرتاہے۔ گزشتہ باب کی طرح اس باب کاآغاز بھی مصنفہ نے حضور کی ایک حدیث مبارک جو کہ ترمذی شریف میں درج ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں؛ ’’تم میں بہترین انسان وہ ہے جواپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہواور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے زیادہ بہترہوں‘‘۔ ازدواجی زندگی کے حوالے سے مصنفہ کا ماننا یہ ہے کہ ابتدامیں قریب قریب ہرایک شادی شدہ جوڑے کے بیچ کافی حدتک لگاؤ اور انسسیت ہوتی ہے ،لیکن رفتہ رفتہ یہ تعلق کمزورپڑنے لگتاہے اوردونوں کے درمیان مختلف قسم کے مسائل سراُٹھاناشروع کردیتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مصنفہ کچھ عملی تدابیر بتاتی ہیں جن سے رشتے میں گرمجوشی پیدا ہوگی ۔ اس سلسلے میں پہلی تجویز وہ یہ دیتی ہیں کہ چونکہ ہرایک انسان کی دلچسپی کامحور الگ ہوتاہے، اور ایسا ہونافطرت کے عین مطابق بھی ہے۔ لہٰذا میاں بیوی کوچاہیے کہ اگر وہ اپنی دلچسپی کو دوسرے کی دلچسپی میں نہ ڈھالیں لیکن ایک دوسرے کی خواہشات ،جذبات اور امنگوں کااحترام کریں۔ دوسری اہم تجویز وہ یہ دیتی ہیں کہ شادی کے اوائل میں جوڑا ایک دوسرے کومختلف قسم کے سرپرائزس دے کرخوشی کااحساس دلاتاہے لیکن زندگی کی گہماگہمی میں الجھ کر یہ سلسلہ کمزور ہو کر رک جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں میں سے کسی کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا۔ جبکہ باہمی رشتے کو مضبوط رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسے سرپرائزس کی اہمیت بہت زیادہ ہے؛ اس لیے یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے ۔ تیسری بات، کبھی بھی رشتہ توڑنے کی دھمکی نہ دیں،ایسا کرنے سے رشتوں میں ڈرکا عنصر شامل ہوجاتاہے،اور ڈر پر قائم کیے جانے والے رشتے زیادہ دیرنہیں چل سکتے۔ چوتھی چیز ویک اینڈ پر کسی خوبصورت اور حسین جگہ کاانتخاب کرکے تفریح کے لیے جایاکریں۔اور پانچویں اور سب سے اہم بات، ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کا خیال کریں،صرف اپنے حقوق کارونا نہ روتے رہیں، ذمہ داری کا احساس رشتوں میں مٹھاس لاتا ہے۔
کتاب کے چھٹے باب میں وہ ’’غصے پرکیسے قابو پایاجائے‘‘جیسے اہم موضوع پر گفتگو کرتی ہیں۔ مصنفہ کے مطابق غصے پر قابوپانے کے دو طریقے ہیں،ایک قلیل مدتی اور دوسرا طویل مدتی۔ قلیل مدتی تدابیر ایسے ہی کام کرتی ہیں جیسے درد میں پین کِلر(pain killer) کی دوائی۔ اس ضمن میں وہ کچھ تدابیر بتاتی ہیں جیسے کہ جس جگہ غصہ آجائے ،وہاں سے باہر نکل جانا، وضو کرنا، دو سانسوں میں بیس تک کی گنتی گننا، گھرمیں کوئی جانور پالنا،اگر کھڑا ہوتو بیٹھ جانااوربیٹھا ہوتولیٹ جانا۔ لیکن مصنفہ ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہیںکہ انسان کے مطمح نظرہمیشہ طویل مدتی تدابیر ہونی چاہئیں جن کے اثرات بہت دیر تک قائم رہیں ، جو شخصیت کا حصہ بن جائیںاس سلسلے میں مصنفہ کئی ٹکنیکس بتاتی ہیں۔جن کے استفادہ سے مسلسل فائدہ کی امید ہے۔
ساتواں باب بچوں کے حوالے سے بہت اہم ہے ،اس لیے کہ عنوان کے تحت وہ ’’بچوں کی تربیت اور غصے سے چھٹکارا‘‘ جیسے حساس موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے اپنی تجاویز کو ترتیب وار نکات میں بیان کرکے قارئین کے سامنے ایسے اصول رکھتی ہیں جن سے گھر کاماحول ایسا بنے جہاں بچوں کا مزاج غصیلا نہ بن جائے ۔ مصنفہ نے اس ضمن میں جو تدابیر پیش کی ہیں،وہ عملی اعتبارسے آسان بھی ہیں اورقابل عمل بھی۔
انسانی زندگی میں ٹین ایج کی کافی اہمیت ہے۔کتاب کاآٹھواں اورآخری باب ’’ٹین ایج اور غصے سے نمٹنے کالائحہ عمل‘‘کے موضوع پر ہے عمرکے تمام ادوارمیں نوعمری کو الگ سے موضوع ِبحث بنانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ زندگی کاوہ دورہوتاہے جس میں انسان کے مزاج کے لیے ایک طرح سے بنیادی خمیرتیارہوتا ہے۔ اس ضمن میں مصنفہ نے جو نکات تجویز کیے ہیں، راقم کا ماننا ہے کہ اگر اُن پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کیاجائے تو نتائج کا سامنے آنا کافی حدتک لازمی ہے۔ اس باب میں وہ مزید کچھ تکنیکوں،جوکہ دماغی ورزشوں پرمشتمل ہیں؛ کا تعارف بھی کراتی ہیں ،جن سے غصے کو قابو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان میںLong Tail Breathing Exercise, Cool Blue Breathingاور 3B’sشامل ہیں۔ مصنفہ ان میں سے ہرایک تکنیک کے فائدے بھی الگ سے گنواتی ہیں۔
راقم کا ماننا ہے کہ اس کتاب کو ایک کورس کی حیثیت سے لینا زیادہ مفید ہوگا۔ لیکن اس کے لیے کتاب کا پرنٹ ایڈیشن زیادہ مفید ہے اور اس کا استفادہ بھی زیادہ ہوگا، کتاب تقاضا کرتی ہے کہ باب کے آخرمیں کچھ مشقیں اور گرافکس وتصاویر بھی ہوں۔ امید ہے پرنٹ ایڈیشن میں یہ چیزیں شامل کی جائیں گی تاکہ کتاب صحیح معنوں میں ایک گائیڈبک کی حیثیت اختیار کرلے ۔ ساتھ ہی چھپائی اور ایڈٹنگ میں جو غلطیاں رہ گئی ہیں ،جیسے کہ کتاب کاسائز(A4) کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ،اس کا کثیررنگی نہ ہونااور صفحہ نمبر نہ دینا،ان کی تلافی بھی کتاب کوزیادہ مفید بنانے میں کارگر ثابت ہوگی ۔ کتاب پروفشنل شخص سے ایڈیٹنگ کا تقاضا چاہتی ہے۔ ان چند خامیوں کے باوجود،کتاب میں مصنفہ نے anger managmentجیسے اہم موضوع کو جس خوش اسلوبی سے الفاظ کاجامع پہنایاہے،اس کے لیے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ موضوع کی اہمیت کومدّ نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہوتاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی زندگی کو خوش گوار اور پرسکون بنانے کے لیے دیے گئے اصولوں سے رہنمائی حاصل کریں۔امید ہے کہ داعی حضرات اس کتاب سے استفادہ کریں گے تاکہ ان کو دعوت کے میدان میں بہت فائدہ ملے۔
***

 

***

 ’’ ایک دوسرے کے قاتل نہ بنیں‘‘(Lets not kill each other)غصے کوقابومیں لانے کے لیے کنیز فاطمہ کی ایک انتہائی مفید گائیڈ بک ہے۔ کنیز فاطمہ پیشے کے اعتبارسے ایک کونسلر،NextGen parenting کی بانی رکن،اور لائف کوچ کی حیثیت سے بھی اس طرح کے مسائل کاگہرا علم رکھتی ہیں۔ مذکورہ کتاب کو انہوں نے آٹھ ابواب میں تقسیم کیاہے۔پہلے باب کو’’غصہ:جاننے لائق ضروری معلومات ‘‘کے عنوان کے تحت باندھا گیاہے اور اس میں مصنفہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خوداحتسابی کے آئینے میں ضرور دیکھیں اور پتہ لگائیں کہ کیاان کاشماران تین قسم کے لوگوں میں تو نہیں ہوتا جن میں پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو بہت کم وقت میں تناؤ اور غصے کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں؛ دوسرا، وہ لوگ جو چیزوں کو جب اپنی منصوبہ بندی اورتدبیر کے مطابق ہوتاہوا نہ دیکھ پاتے ہیں تو غصے سے آگ بگولہ ہوجاتے ہیں؛ اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا جو غصہ آنے پر ماراماری ، ناشائستہ الفاظ اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ آگے مصنفہ غصے کی جذباتی کیفیت کوبیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ غصہ اپنی فطرت میں ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن صرف اس حدتک جب تک یہ اپنے مقررہ دائرے سے باہر نہ نکلے۔ اس کے بعد وہ غصے سے جڑے دیگر اہم مسائل جیسے کہ غصے سے پیداہونے والے اثرات، غصہ دلانے والے عوامل، غصے کی مختلف کیفیات اور غصے کے مہلک بن جانے کی وجوہات پر بحث کرتی ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022