عید رمضان اورہماری انفرادی و اجتماعی

محمد خالد،لکھنٔو

اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی عبادتوں کے عوض بطور انعام عید کا مبارک دن عطا فرمایا ہے اور اس دن کو ’عید الفطر‘ کی حیثیت دے کر پوری امت مسلمہ کے لیے خوشی منانے کا دن قرار دیا ہے یعنی نمازِ عید سے قبل ہر ایک کو اپنے پاس پڑوس میں رہنے والے غرباء ومساکین کو بھی عید کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہم اللہ جل شانہ کے تحفہ عید کو اس طرح منائیں کہ اپنے اہل وعیال کی عید کی خوشیوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ صدقہ فطر اور دیگر صدقات کے ذریعہ اپنے پڑوس کے مستحق افراد خصوصاً بچوں کو عید کی خوشی حاصل کرنے کا موقع فراہم کریں۔ اللہ کریم ہم سب کو ہر قسم کی افراط وتفریط اور شیطانی فتنوں سے محفوظ رکھے اور اپنی زندگی کے سبھی معاملات کو اپنی ہدایت اور نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ نے قرآن پاک میں ہمارا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو(سورۃ آل عمران:آیت؍ ۱۱۰) اس آیت کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اللہ کے نزدیک ہر اعتبار سے قوی مومن پسندیدہ ہے۔ معاشی قوت کے لیے بھی اللہ نے بہترین اصولوں سے نوازا ہوا ہے۔ اللہ نے بہت وضاحت کے ساتھ ہر قسم کی ذخیرہ اندوزی اور خود غرضی سے منع فرمایا ہے۔ مال ودولت کا ضرورت سے زیادہ روکنا پسندیدہ عمل نہیں ہے کیوں کہ دولت میں جب ٹھہراؤ نہیں ہوگا تو معاشرے میں غربت اور افلاس ہوگا۔ شاید اس قلیل تعداد کو ہی سامنے رکھ کر زکوٰۃ کو صرف ڈھائی فیصد ہی رکھا گیا ہے کیوں کہ جب ہم اللہ کی ہدایت کے مطابق عمل کریں گے تو پھر ہمارے درمیان ایسے لوگ کم ہی ہوں گے جن کو زکوٰۃ کی رقم سے مدد کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اللہ کے ذریعہ بتائی گئی زکوٰۃ کی اکثر مدات سے انسان کا مستقل نہیں بلکہ وقتی طور پر ضرورت مند ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
اللہ کے دیے ہوئے معاشی اصولوں کے عملاً فقدان کے باعث ملت اسلامیہ کی بڑی تعداد معاشی کمزوری کا شکار ہے جس پر قابو پانے کے لیے رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی رقم کا خوب جوش وخروش کے ساتھ استعمال تو کیا جاتا ہے مگر عام دنوں میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں غربت بدستور باقی رہتی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے قیام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کی منصوبہ بندی کے ساتھ ہی عام دنوں میں دولت کے حصول اور استعمال پر بھی گفتگو ہونا چاہیے۔ اسلامی معاشی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور لوگوں کو مال کی ذخیرہ اندوزی کے بجائے مال کو سرکولیشن میں رکھنے پر متوجہ کیا جائے کیوں کہ اسی میں فرد اور معاشرے کی بھلائی ہے۔
عام طور پر زکوٰۃ رمضان میں ہی ادا کی جاتی ہے کیونکہ رمضان المبارک میں کیے گئے کار خیر کا ثواب ستر فیصد مانا جاتا ہے مگر ہمیں یہ بھی احساس رہنا چاہیے کہ اس ستر فیصد کی بنیاد عام دنوں میں حاصل ہونے والا ایک فیصد ثواب ہی ہے۔ لہٰذا بنیاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے تو عمارت بھی خوب مضبوط ہوگی انشاء اللہ۔
الحمد للہ ملت اسلامیہ میں دین کی تعلیمات حاصل کرنے کا مزاج پیدا ہوا ہے اور دینی اجتماعات کے ساتھ ہی آن لائن دینیات اور عربی زبان سیکھنے کا شوق پایا جاتا ہے مگر چونکہ رمضان المبارک تقویٰ اور تزکیہ وخود احتسابی کا مہینہ ہے لہٰذا ہم کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان بڑھی ہوئی دینی سرگرمیوں کے باوجود ہمارے افراد اخلاقی طور پر تنزلی کا شکار کیوں ہیں۔ ہم کو معاشرے میں عزت کیوں حاصل نہیں ہے۔ نبی کریم صلوسلم عل کا امتی ہونے کا شرف ہمیں حاصل ہے اور سبھی انسانوں کی خیر خواہی ہماری دینی ذمہ داری ہے اس کے باوجود برادران وطن ہم سے بد دل اور بدگمان کیوں رہتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو رمضان المبارک کی سعادتوں کی برکت سے زندگی کے ہر معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لینے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔