لاک ڈاؤن میں خدمت انسانی کی سچی کہانیاں

جھوٹی خبروں اور افواہوں کے درمیان اوجھل کچھ دل پذیر مناظر کی ایک جھلک! (قسط -4)

شجاعت حسینی،حیدرآباد

عالمی وبا کے کٹھن ایام کے بیچ انسانیت دوستی کی انوکھی تصویروں پر مشتمل جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا اس کیچوتھی کڑی پیش ہے۔ اس سلسلے کامقصد، پس منظر اور تسلسل سمجھنے کے لیے پچھلی قسطیں ضرور ملاحظہ فرمائیے۔
59) دلوں کو دہلادینے والی وہ سیکڑوں تصویریں اب عام ہیں ، جن میں بلبلاتے اور بلکتے وہ ننھے معصوم بچے نظر آتے ہیں جو خالی پیٹ، چلچلاتی دھوپ میں پھٹی ایڑیوں کے ساتھ مجبور والدین کے ہم راہ دو چار نہیں بلکہ سیکڑوں کلومیٹر خود کو گھسیٹنے پر مجبور ہیں ۔ پردیس میں پردیسیوں کی خدمت میں جٹے دھنوانوں کے لیے خصوصی اڑانیں اور دیش کے ان غریب خدمت گاروں کے لیے سر چھپانے کا سائبان بھی مہنگا سودا! یوں محسوس ہوتا ہےکہ وقت کے سرمایہ داراور ان کے سیاسی آقاغریب مزدوروں اور قبائلیوں کو شاید انسان ہی نہیں سمجھتے۔ ان سیاسی اکھاڑوں تک ڈاکٹر مکرم کی کرم گستری کی حکایت ضرور پہنچنی چاہیے۔
تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد گنگارام ( ضلع محبوب آباد تلنگانہ) کے میڈیکل افسر ڈاکٹر محمد مکرم ابھیافطار بھی نہ کرپائے تھے کہ انھیں اطلاع ملی کہ ایک دور افتادہ دیہات پولارمکی قبائلی خاتون کوحمل کی پیچیدگیوں کے باعث فوری طبی مدد کی ضرورت ہے۔
محبوب آباد کی واحد ایمبولنس دستیاب نہ تھی۔ ڈاکٹر مکرم افطار کی پروا نہ کرتے ہوئےاپنی کار لیے گاؤں کی سمت چل پڑے۔ یہ علاقہ دو پہاڑیوں میں محصور انتہائی دورافتادہ اور دشوار گزار مقام مانا جاتا ہے جہاں بی ایس این ایل کا نیٹ ورک بھی بمشکل کام کرتا ہے۔ اس علاقے میں انتہائی غریب کویا قبائل رہتے ہیں ۔ ان غریبوں کی بے لوث خدمت کرنے کے اعتراف میں 35 سالہ ڈاکٹر مکرم کو دو مرتبہ بہترین میڈیکل افسر کا اعزاز مل چکا ہے۔ 20 کلومیٹر پہاڑی ڈرائیونگ کے بعد جب وہ گاؤں پہنچے تو بجلی کی سپلائی بند تھی اور گاؤں میں تاریکی چھائی تھی۔ اندھیرے میں قبائلی علاقے میں ایک نامانوس پتہ ڈھونڈھنا بڑا چیلنج تھا۔ ڈاکٹر مکرم نے ہمت نہ ہاری، اندھیرے میں کار دوڑاتے رہے اور مقامی افراد کی رہبری سے قبائلی خاتون گتی منجولا کے گھر پہنچے۔ کچی سڑک پرواپسکار دوڑاتے اس خاتون کو بروقت پی ایچ سی پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ رات 10:30 بجے بچی کی ولادت ہوئی۔ مختلف پیچیدگیوں کے سبب نومولود کی حالت تشویش ناک تھی۔ ڈاکٹر مکرم نے اپنی پوری طبی مہارت صرف کردی، اور بالآخر نومولودکی سانس بحال ہوئی۔ اس کے رونے کی پہلی آواز ڈاکٹر مکرم کی اس پوری تگ و دو کا انعام تھی۔ صحت مند ماں اور بیٹی اب حکومتی تحفے کے ساتھ اپنے گھرکو لوٹ چکے ہیں ۔
اس پورے عمل میں ذرا سی اور لاپروائی دو جانوں کے ضیاع کا سبب بن سکتی تھی۔ اس تفصیل کو ضلع کلکٹر نے ٹوئٹر پر شیئر کیا اور انگریزی اخبار دی ہنس اور نیوز میٹر ڈاٹ ان نے رپورٹ کیا۔ سحری سے کچھ پہلے، رات 1 بجے ڈاکٹر مکرم نے افطار کیا۔
( دیشما پوزکل کی رپورٹ، نیوز میٹر 14 مئی؛ ادیپو مہندر کی رپورٹ مشمولہ دی ہنس انڈیا 14 مئی)
60) بی بی سی کے نمائندے سلمان راوی اپنی منفرد ر فیلڈپورٹنگ، بالخصوص زمیندارانہ نظام، بندھوا مزدوری،قبائلی سماج کے مسائل اور غریبوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کےلیے جانے جاتے ہیں ۔ آج کل ان کی توجہ کوروناکے ان” متاثرین “ پر مرکوز ہے جو دھوپ، بھوک، بے بسی اور پیدل مارچ کی مار جھیل رہے ہیں ۔ وہ نگر نگر گھوم کر مائگرنٹ مزدوروں کے قافلوں کی بے پناہ مصیبتوں کی لرزہ خیز تصویریں پیش کررہے ہیں تاکہ نیتاؤں کے ضمیر جاگ جائیں ۔ مائیگرنٹ مزدوروں سے ان کی گفتگو دلوں کو جھنجھوڑتی ہے۔ مجبور لوگ بمشکل اپنے جذبات کو قابو کرتے ہیں ، لیکن بالآخر پھوٹ پڑتے ہیں ۔ ایک بلکتا مزدور ننھے بچوں کو گھسیٹتا چھ دنسے پیدل چل رہا ہے۔ کہتا ہے آپ میری تکلیف کیا سمجھیں گے۔ اور آپ کو کیا پتہ کہ میں نے اس سفر کے دوران کتنے ڈنڈے کھائے ہیں ۔ پیچھے کھڑی مجبور تھکی ہاری خاتون بچے کو گود میں اٹھائےمسلسل روئے جارہی ہے۔
ایک اور شخص ننگے پاؤں چلچلاتی سڑک پر چلنے کے لیے مجبور ہے۔ سلمان کی نظر اس کے پیروں پر پڑتی ہے، پوچھتے ہیں آپ کی چپل کہاں ہے؟کہتا ہے کہیں ٹوٹ گئی، وہ اپنا قیمتی جوتا نکال کر اسے دے دیتے ہیں ۔ اسے قبول کرنے میں تردد ہوتا ہے، سلمان بڑی اپنائیت سے کہتے ہیں کہ میں مینیج کرلوں گا آپ میری فکر نہ کریں اور خود جوتوں کے بغیر رپورٹنگ جاری رکھتے ہیں ۔ سلمان کی اس غیر معمولی دردمندی کی ٹوئٹر پر بے انتہا ستائش ہورہی ہے۔ فلم ایکٹریس پوجا بھٹ لکھتی ہیں ’’سلمان آپ کی دریا دلی نے مجھے رلادیا اور انسانیت پر میرے یقین کو مستحکم کردیا‘‘ کاش اگر گودی میڈیا کے نفرت بیچنے والے نام نہاد صحافی بھی ایسی انسانیت دوستی اپنے اندرپیدا کرلیں تو شاید ملک کی تصویر بدل جائے۔
(تفصیلی رپورٹس ملاحظہ فرمائیے بی بی سی نیوز، جنتا کا رپورٹر، 15 مئی)
61) بیرون ملک پھنسے ہندوستانیوں میں ایک بڑی تعداد ان مزدوروں کی بھی ہے جن کے لیے کورونا لاک ڈاؤن مصائب کا لامنتہی سلسلہ بن چکا ہے۔ اجنبی سرزمین، روزگار ختم، گھر اور خاندان سے دوری، جیب خالی، اور واپسی کے راستے مسدود۔ جب واپسی کے لیے چند پروازوں کی راہ ہم وار ہوئی تو ان کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب معلوم ہوا کہ ٹکٹ کے لیے معمول سے زیادہ رقم ادا کرنی ہوگی۔ اس موقع پر کیرالا کے نامور میڈیا گروپ میڈیا ون اور گلف مادھیمم نئی امید کے روپ میں سامنے آئے۔ روزگار سے محروم ان پریشان حال لوگوں کا سہارا بنے۔ میں نے مادھیمم گروپ کے ایڈیٹر پی آئی نوشادسےتفصیلاً بات کی اور اس مشن کی تفصیل دریافت کی۔ نوشاد کے مطابق دونوں معروف میڈیا گروپوں نےنامور تاجرین کے تعاون سے ’’مشن ونگس آف کمپیشن‘‘ کا آغاز کیااورضرورت مند لوگوں کے لیے 1000 بین الاقوامی ٹکٹوں کاانتظام کیا۔ ایسے پریشان حال لوگوں سے باضابطہ رجسٹریشن کے ذریعے معلومات اکھٹا کی گئیں ۔ اور 1000 مستحق لوگوں کا انتخاب کیاجارہا ہے۔ان محسنین کے بروقت تعاون کے ساتھ مصیبت زدہ لوگوں کی ’’گھر واپسی ‘‘ کا منظر دیدنی ہے۔
62) ممبئی کے مضافاتی شہر الہاس نگر نے بین مذہبی رواداری کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ اشوک نگر کی ساکن ایک خاتون کورونا مثبت پائی گئی۔ محکمہ صحت نے اس خاتون کے لیے کوارنٹین لازمی قرار دیا۔ لیکن خاتون کے دو ماہ کے بچے کی رپورٹ نگیٹیو رہی اور اسےخاتون سے علحیدہ رکھنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ لیکن کورونا کی دہشت کے مارےکوئی رشتے دار بچے کو ساتھ رکھنے کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ماں کے گھر آنے تک پرورش کے لیے سلطان شیخ اور فرزانہ شیخ نامی معذور جوڑے نے حامی بھری اور بچے کو ان کے حوالے کیا گیا۔ (اعجاز عبدالغنی کی رپورٹ۔ مشمولہ انقلاب 15 مئی)
63) یعقوب اور امرت کی سچی کہانی اس ہفتے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر چھائی رہی۔ یہ کہانی بے لوثی، انسان دوستی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور جذبہ قربانی کی ایسی دل آویز تصویریں پنہاں رکھتی ہے کہ اس پر کسی بالی ووڈ کی خیالی داستاں کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن یہ وہ سچا واقعہ ہےجس نے اس ہفتے یقینا بے شمار آنکھوں سے نفرتاور تعصب کی عینک اتاردی ہوگی۔
دونوں غریب دوست پریشان حال مزدوروں سے بھرے ایک ٹرک میں اپنی جمع پونجی(چار ہزار روپیے) جھونک کرگھر پہنچنے کا خواب آنکھوں میں سموئےگجرات سے سفر کررہے تھے۔ سخت گرمی، طویل سفر، بند ٹرک کی گھٹن، پانی اور آکسیجن کی کمی اور ٹرک میں پھنسے پھنسائے مزدور۔ امرت ان مصیبتوں کی تاب نہ لاسکا اور بیمار پڑگیا۔ اسکی بیماری نے کورونا کی ہیبت کے شکار سبھی ہم راہیوں کے ہوش اڑادئیے۔کہتے ہیں کہ ’امرت‘ کا ساتھ امر بنا دیتا ہے۔ لیکن یہاں فیصلہ یہ ہوا کہاپنی جان بچانی ہو تو ’امرت‘ سے جان چھڑاناضروری ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں بیمار امرت کو آسمان تلے سڑک پر چھوڑدیا گیا۔ ہزار پریشانیوں اور بے بسی کے باوجود یعقوب کو یہ غیر انسانی رویہ قبول نہ ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بیمار امرت کو یوں تڑپتا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ امرت کس مرض کا شکار ہے۔ اس نےتمام ممکنہ خطروں کو قبول کیا لیکنامرت کا ساتھ نہ چھوڑا۔ سواری یا طبی مدد ہر ممکنہ سہارا جٹانے کی اس نے جی توڑ کوشش کی۔ لیکن اس کیکوششیں کامیاب نہ ہوسکیں ۔ اور آج کئی اخبارات نے اس تصویر کو شائع کیا جو شاید اسکویڈ 19انسانی المیہ کی پہچان بن گئی۔
محمد یعقوب کی گود میں امرت کمار نے دم توڑدیا۔ (این ڈی ٹی وی،دی ویک، ٹائمز آف انڈیا سمیت کئی اخبارات اور چینلوں نے نشر اور شائع کیا)
64) مجبور مزدوروں کے قافلوں کی بے بسی کی تصویریں مسلسل عام ہورہی ہیں ۔ جن راستوں سے یہ لوگ گزر رہے ہیں وہاں موجود اہل خیر (بھیونڈی میں ایم پی جے کاروٹی بینک، اورنگ آباد میں عارضی کیمپ وغیرہ ادارے) ہیان کا تاحالبڑا سہارا ہیں ۔ مہاراشٹر کے سب سے بڑے مراٹھی روزنامے لوک مت نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ اورنگ آباد کا تبلیغی مرکز اورشہر کیکئی مساجد اور ان سے وابستہ نوجوانان پریشان حال مسافروں کی ہر ممکنہ خدمت کے ذریعے کیسے مسیحا بنے ہوئے ہیں ۔ مرحوم حفیظ میرٹھی نے اس دل کش منظر کو بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔
ہم خلوص والے ہیں یہ بھی کر دکھائیں گے
تہمتیں خریدیں گے خدمتیں لُٹائیں گے
(تفصیلی رپورٹ ملاحظہ فرمائیے۔ مراٹھی دینک لوک مت، لوک مت نیوز نیٹ ورک، 15 مئی)
65) ہمارے ملک میں کرکٹر اور فلمی ستارے شہرت اور چاہت کی ان بلندیوں پر فائز ہوتے ہیں جہاں جذبہ خدمت،مالی تعاون اور زبانی ہمدردیسے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی سیلیبریٹی کرکٹر چلچلاتی دھوپ میں ،گمنام دیہات سے گزرتی ہائی وے پر، چہرے پر ماسک لگائے، پسینے میں شرابور، مزدورں کی خدمت میں جٹا نظر آئے تو کون یقین کرے گا؟کچھ ایسا ہی منظر اپنے کیمرے میں قید کیا نوبھارت ٹائمز کے نمائندے نے۔
سرفراز خان وزڈن کرکٹ بک میں شامل آئی پی ایل کے سب سے کم عمر شریک، کنگس ایلیون کے قیمتی کھلاڑی،ویراٹ کوہلی کے چہیتےبلے باز،رانجی کے لیےتین پیہم سنچریوں کےریکارڈ کے ساتھ ممبئی ٹیم کے اہم آل راونڈر ہیں ۔ سرفراز اپنے وطن ( یو پی ) گئے ہوئے ہیں ۔ وہاں انھوں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ خدمت کا محاذ کھول رکھا ہے۔ جب اس نامور کھلاڑی کو ایک گمنام مقام پر مزدوروں کے قافلوں کے پیچھے دوڑتے اور ٹرکوں کی چھتپر بیٹھے بھوکے مزدوروں تک ایک گیند باز کی ماننداچھل اچھل کرکھانے کے پیکٹس، پھل اور پانی کی بوتلیں پہنچاتے ہوئے دیکھا گیا تو نوبھارت ٹائمز کے نمائندے نے اس دل چسپ منظر کو کیمرے میں قید کرلیا اور ایک تفصیلی رپورٹ نشر کی۔ ماسک پہنے سرفراز کو پہچاننا مشکل تھا۔اس لیےرپورٹ میں اضافی علامت کے ذریعے ان کی نشاندہی کی گئی۔سرفراز کہتے ہیں کہ روزہ،ان لوگوں کو بھی بھوک کے احساس سے روشناس کرواتا ہے جو نہیں جانتے کہ بھوک کا درد کیا ہوتا ہے۔ ماہ صیام نے اس احساس کو تازہ کیا۔ اورہمارےپورے خاندان نے فیصلہ کیا کہ عید کے اخراجات کے بجائے خدمت کے جذبات سے خوشیاں سمیٹی جائیں ۔
(نتیہ نند پاٹھک کی رپورٹ نشرکردہنوبھارت ٹائمز۔ این بی ٹی آن لائن)
66) کرشنا گری ( تاملناڈو) شہر کے ڈاکٹر امان اللہ غربت کے سبب ڈاکٹر نہ بن سکے تھے۔ لیکن آج وہ نہ صرف ‘’ڈاکٹر‘ ہیں بلکہ کئی ڈاکٹروں کے رول ماڈل بھی ہیں ! ڈاکٹر امان اللہ نے دو اسپتال کھولے اور مریضوں کا مفت علاج شروع کردیا۔آج دونوں اسپتال قرب و جوار کے بہت سے دیہاتوں کے لیے رحمت بن چکے ہیں ۔ 2016 میں ریاستی یونیورسٹی نے ان کی بے مثل خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔
آج ان کے اسپتالوں سے پندرہ ہزار وہ غریب دائمی امراض میں مبتلا افراد ( کرونک پیشنٹ) زیرعلاج ہیں جنھیں مستقل دوائیوں اور تشخیص کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ لاک ڈاؤن ان مریضوں کے لیے جان کا آزاربن گیا تھا۔ ڈاکٹر امان اللہ ان حالات میں بھی کارمسیحا ئی سرانجام دیتے رہے۔ 50 کلومیٹر کے دائرے میں پھیلے کئی دیہاتوں کے مریضوں تک وہ خود پہنچ کر نہ صرف ان کی مفت تشخیص کرتے ہیں ، بلکہ مفت دوائیوں کی فراہمی کو یقینی بنارہے ہیں ۔
بیشتر دیہاتوں تک پہنچنے کے لیے انھیں پیدل بھی چلنا پڑتا ہے۔ ٹی وی رپورٹ میں وہ مناظر بھی عیاں ہیں جن میں وہ کچے راستوں اور پہاڑیوں پر کاندھے پر دوائیوں کا بیگ لگائے چلتے نظر آتے ہیں ۔ نہ صرف تشخیص، دوائیاں ، بلکہ وہ اپنے مریضوں کو سینٹائزر اور ماسک بھی پہنچاتے ہیں ۔وہ جراثیم کش اسپرے بھی ساتھ رکھتے ہیں اور حسب ضرورت دیہاتوں میں ان کی ٹیم اہم مقامات پر ضروری جراثیم کش صفائی کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ فی الحال ان کے دونوں اسپتال قرنطینہ مرکزکی صورت میں حکومت کے حوالے ہیں ۔ اور ڈاکٹر امان اللہ کا چلتا پھرتا اسپتال اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کا فیس بک پیج ان کی بے لوث خدمات کا آئینہ دار ہے۔
( ڈی راگھون کی رپورٹ، نشر کردہ انڈیا ٹی وی ؛ نہال قدوائی کی رپورٹ، نشرکردہ این ڈی ٹی وی انڈیا )
67) ڈاکٹر زاہد عبدالمجید ایمس ( دہلی ) کے سینیئر ریزیڈنٹ ڈاکٹراور کووڈ معالجین کی کریٹیکل کیر یونٹ ٹیم کا اہم حصہ ہیں ۔ ایک روز دن بھر کی مشقت کے بعدابھی وہ افطار بھی نہ کرپائے تھے کہ اطلاع ملی کہ کووڈ 19 سے متاثر ایک انٹیوبیٹد مریض کوفوری آئی سی یو منتقل کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر زاہد افطار کی پروا کیے بغیر دوڑے چلے گئے۔ مریض کی منتقلی کے دوران ڈاکٹر زاہد نے محسوس کیا کہ مریض کو ری انٹیوبیٹ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ موت یقینی ہے، لیکن حفاظتی چشمے اور فیس شیلڈ کے ساتھ یہ کام ناممکن تھا، اور فیس شیلڈ ہٹانا ڈاکٹر کی جان کے لیے بڑاخطرہ تھا۔ لیکن ڈاکٹر زاہد نے اپنے مریض کی جان بچانے کےلیے اپنی جان کو داؤ پر لگایا اور فیس شیلڈ ہٹا کر ایمبولینس میں ضروری کارروائی انجام دی۔ اپنے مریض کو بچالیا، اگرچہ اب انھیں دو ہفتوں کا کوارنٹائین درپیش ہے۔
اننت ناگ ( جموں و کشمیر ) کے متوطن ڈاکٹر زاہد کہتے ہیں مجھے اپنے اس فیصلے پر خدشہ تھا کہ جب والدین کو اس بات کا علم ہوگا تو وہ خفا نہ ہوجائیں ۔ لیکن ان کے بزرگ والد کا یہ جواب حوصلوں کو مزید جلا بخش گیا کہ اگر تم جان بچاتے ہوئے اپنی جان کھو بھی دیتے تو مجھے غم نہ ہوتا اس لیے کہ شہادت پر غم کیسا !
ایمس کے ڈاکٹر ہرجیت سنگھ نے ٹوئیٹر کے ذریعے جب اپنے ساتھی کے کارنامے کی تفصیل پیش کی تو دی ہندو اور ایناڈو سمیت ملک کے کئی سرکردہ اخبارات نے جرأت اور انسانی ہم دردی کے اس خوب صورت مرقعے پر ستائشی رپورٹیں شائع کیں ۔ (بندو شاجان کی رپورٹ، مشمولہ دی ہندو، دہلی ایڈیشن 10 مئی 2020 )
68) -عام طور پر غیرسرکاری تنظیموں کے بانی اورسرکردہ اراکین سماج کے خوش حال طبقات کے لوگ ہوتے ہیں ۔ محنت کش لوگ روزی کے مسائل میں ایسے الجھے ہوتے ہیں کہ کوئی اضافی خدمت ان کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ کولھا پور کی بیت الما ل کمیٹی اس حوالے سے امتیازی خصوصیت کی حامل ہے۔
جذبہ خدمت سے سرشار 3000محنت کش لوگوں پر مشتمل اس کمیٹی کا سفر حیرت انگیز اور حوصلہ بخش ہے۔ کمیٹی کے اراکین میں شہر کے رکشہ ڈرائیور، میوہ فروش اور یومیہ مزدور شامل ہیں ۔ 12 سال پہلے صرف 50 افراد سے ترتیب پانے والی اس کمیٹی میں آج تین ہزار اراکین شامل ہیں ۔ یہ لوگ اپنے وقت اور اپنی مختصر کمائی کا ایک حصہ بیت المال میں جمع کرتے ہیں جو 300 نادار خاندانوں کی کفالت، اور ہرسال 150 لڑکیوں کی شادی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کمیٹی کا کام بھی دوچند ہوگیا۔ روزانہ شہر اور مضافات کا سروے کیا جاتا ہے۔سماج کے کم زور طبقات سے ان رضاکاروں نے پہلو تہی نہیں کیا۔
مستحقین کی نشاندہی ان کے لیے مشکل نہیں ۔ ایسے 3000 خاندانوں کا وہ سہارابن چکے ہیں ۔ کمیٹی نے مقامی اسپتال سی پی آر کو 30 لاکھ روپیوں کی مدددینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ مزید وینٹیلیٹر اور ضروری سامان خرید سکے۔ ہزار ہا کروڑ روپیوں کے گھوٹالوں کے مفرور مجرم، فاقہ کشوں کے حلق سے نوالے چھیننے والے سیاست دان اور دل کی دولت سے مالا مال یہ محنت کش ! آخر کامیاب کون ہے؟ نہیں تھا اس کے برابر کا اہل زر بھی کوئی مگر غریبکی دریا دلی سےہار گیا
( تاج ملانی کی رپورٹ، نشر کردہ بی نیوز مراٹھی کولھا پور )

69) آخر میں چلتے چلتے ایک خبر یہ بھی کہ امریکی انتظامیہ نے ویکسن کی تیاری کو اولیت دیتے ہوئے’’آپریشن وارپ اسپیڈ‘‘ نامی ایک تیز رفتار پرگرام شروع کیا۔ اور اس پروگرام کی قیادت معروف امیونولوجسٹ ڈاکٹر منصف محمد سلوئی کے حوالے کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے اس مشن کی سربراہی کے لیے محمد منصف کے نام کا اعلان کرتے ہوئے انکا تعارف ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا۔ ’’ ویکسن کی تیاری کے میدان میں دنیا کا سب سے معزز نام ‘‘ ( سارا کولینوسکی کی رپورٹ، نشر کردہ اے بی سی نیوز 16 مئی ) جاری۔۔۔

مجھے اپنے اس فیصلے پر خدشہ تھا کہ جب والدین کو اس بات کا علم ہوگا تو وہ خفا نہ ہوجائیں ۔ لیکن ان کے بزرگ والد کا یہ جواب حوصلوں کو مزید جلا بخش گیا کہ اگر تم جان بچاتے ہوئے اپنی جان کھو بھی دیتے تو مجھے غم نہ ہوتا اس لیے کہ شہادت پر غم کیسا !
ڈاکٹر زاہد