بچوں کی تربیت میں تساہل کے ذمہ دار کون :ایک جائزہ

انسٹاگرام پر بچوں کے ایک گروپ ’’بوائز لاکر روم ‘‘ میں فحش چیٹنگ کا انکشاف نوعمر بچوں کی اخلاقی تنزلی کے اسباب اور اس کا حل

آسیہ تنویر

دنیا میں جب ایسی فضا پروان چڑھ رہی ہو جس میں انسان کو بے قابو ہوتے دیر نہ لگتی ہو، ایسا ماحول معاشرے میں بن جائے کہ جب اس کی باطنی خواہشات کو بے لگام ہونے سے روکنے کی کوئی سبیل نہ ہو تو نوجوانوں کے برانگیختہ ہونے میں دیر کب لگے گی؟ جب جنوں کا نام خرد اور خرد کا جنوں رکھا جانے لگے تو برائی،برائی نہیں رہ جاتی۔
بحیثیت ایک شہری اگر ہم خود ایسے ماحول کو پروان چڑھانے میں چاہے انچاہے، جانے انجانے شامل ہو رہے ہوں تو ہم معاشرے میں پنپ رہی کسی برائی کی اخلاقی ذمہ داری سے اپنا پلہ کیسے جھاڑ سکتے ہیں؟۔در اصل، گزشتہ دنوں ہمارے ملک میں ایک واردات سامنے آئی ہو جس نے ہر باضمیر و حساس فرد کو حواس باختہ کر دیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ انسٹاگرام‘ پر بچوں کے ایک گروپ کے اندر ہونے والی آپسی گفتگو (چیٹنگ)، حادثاتی طور پر منظر عام پر آگئی جس نے صحت مند سوچ کے حلقوں میں تہلکہ مچا دیا. لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں بند چند نوجوان بچے جن کی عمریں چودہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں سوشل میڈیا کے ایک مقبول عام ہنڈل انسٹا گرام پر ایک گروپ بناتے ہیں۔ جس کا نام ’’ بوائز لاکر روم ‘‘ہے۔اس گروپ میں بچوں کی آپس میں گفتگو کرنے کا انداز اتنا فحش ہے کہ پڑھتے ہوئے خود پر شرم آنے لگے. بچے آپس میں ساتھی لڑکیوں کی تصاویر اور گرافکس شیئر کرتے ہوئے ان کے اعضاء پر عامیانہ تبصرے کرتے ہیں۔اور اس بات کی پلاننگ کرتے ہیں کہ کس طرح ان میں سے ایک لڑکی کو انجان جگہ بلاکر اس کا گینگ ریپ کیا جاسکتا ہے. معاملہ کی تشویشناک صورتحال اتنی ہی نہیں بلکہ ان لڑکوں کو ایسی چیٹنگ کرتے ہوئے کوئی خوف و خطربھی نہیں، بڑے گھرانوں سے وابستہ ہونے کا غرور اور سزا سے بچ جانے کا یقین، کسی کی رگوں میں خون جما دینے کیلیے کافی ہے. لیکن کسی طرح سے یہ چیٹ ایک لڑکی تک پہنچ گئی.اور اسی لڑکی نے اس گفتگو کے اسکرین شاٹس ٹویٹر اور انسٹاگرام پر شیئر کئے. اس کے بعد کئی بچوں نے انہیں پہچانا اور حیرانی کا اظہار کرنے لگے. بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ ان بچوں کی بے حسی اور نڈر پن کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی گفتگو منظر عام پر آگئی. اور ان پر ہر طرف سے پھٹکار ہونے لگی تب ان بچوں نے فوری ایک دوسرا گروپ بنالیا اور اس میں قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے پہلووں اور بااثر خاندانوں سے وابستہ ہونے کے گھمنڈ پر بات کرنے لگے۔
دلی کے چار مشہور پرائیویٹ اسکولوں سے تعلق رکھنے والے ان بچوں پر جب ہر طرف سے کارروائی کرنے کا مطالبہ بڑھنے لگا۔تب کہیں جاکر جنوبی دلی کے پولیس سائبر سیل نے ان خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے اس گروپ سے تعلق رکھنے والے پانچ طلباء کو گرفتار کیا ہے. پولیس نے بتایا اس گروپ میں شامل جملہ 21 بچوں کی شناخت کرلی گئی ہے۔ ان کے فون ضبط کیے گئے ہیں۔اور اس بات کی جانچ بھی کی جارہی ہے کہ کہیں یہ ماضی میں بھی اسی طرح کے کسی جرم میں ملوث نہ رہے ہوں. جنوبی دلی کے ڈی سی پی سائبر سیل، انیش رائے نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا، "اس کا پتہ چلنے کے بعد، ہم نے جعلسازی کی دفعہ 465،جعلی دستاویز یا الیکٹرونک آلات کے غلط استعمال کیلیے دفعہ471، جعلسازی کے ذریعہ کسی کو دانستہ نقصان پہنچانے کی نیت کے لیے دفعہ 469 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ الفاظ سے، اشارے یا عمل سے عورت کی شائستگی کی توہین کرنے کے جرم کے لیے دفعہ509 اور دفعہ 67 کے تحت الیکٹرانک ذرائع پر فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل کے تحت مقدمات درج کیےگئے ہیں اور ہم اس معاملے کی آئی ٹی ایکٹ کے تحت بھی تحقیقات کر رہے ہیں اور تمام تکنیکی ثبوت اکٹھا کر رہے ہیں۔‘‘
دہلی کمیشن آف ویمن (DCW) نے ’’بوائز لاکر روم ‘‘واقعے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے از خود حرکت میں آکر کارروائی کی۔ کمیشن نے انسٹاگرام کو نوٹس جاری کیا اور جواب طلب کیا کہ ملزم لڑکوں کی اس چیٹنگ کے خلاف انسٹاگرام نے کیا کارروائی کی ہے۔ علاوہ ازیں ڈی سی ڈبلیو نے انسٹاگرام سے اس معاملے میں درج ایف آئی آر کی کاپی پیش کرنے اور گروپ کے ارکان کی تفصیلات شیئر کرنے کے لیے کہا ہے۔اس کی قانونی گونج تو تا دیر سنی جائے گی لیکن اس واردات نے سماج اور اس کی اخلاقی اقدار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ٹویٹر، فیس بک سے گزرتے ہوئے یہ بحث ملکی میڈیا میں بھی پہنچی لیکن کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک اس اخلاقی وائرس سے تحفظ اور اس سے نمٹنے کی تدابیر و اقدامات پر ویسی گفتگو نظر نہیں آئی یا شاید یہ موضوع ہنگامہ خیزی کی نذر ہوگیا یا اس واردات کے تار ہائی پروفائل خاندانوں سے جڑے ہونے کے سبب معاملے کو رفع دفع کرنے میں ہی سب نے عافیت سمجھی ہوگی۔ ویسے بھی اس پر بحث کو آگے بڑھانے میں تعصب و نفرت انگیزی کا کوئی پہلو ملا نہیں ہوگا تو قومی میڈیا نے بھی سوچا ہوگا ’’تیری بھی چپ، میری بھی چپ‘‘۔لیکن سلگتی آگ کو نظر انداز کر دینے سے آنے والے خطرات کو ٹالا تو نہیں جاسکتا؟ ریت میں چہرہ کو چھپانے سے آنے والے طوفان کو روکا تو نہیں جا سکتا؟
اخبار کے نامہ نگاروں نے ان بچوں کے اسکولوں کے پرنسپلز سے بات کرنے کی کوشش کی۔ صرف ایک اسکول کے پرنسپل نے اپنے جواب میں کہا ’’اس ضمن میں اسکول کے طلباء اور ان کے والدین کے ساتھ الیکٹرانک اشیاء کے فوائد، نقصانات اور استعمال پر کئی کونسلنگ میٹنگز رکھی گئیں تھیں۔ والدین اپنے بچوں کو پر تعیش سہولتیں فراہم تو کرتے ہیں لیکن اس کے مفید اور مضر اثرات سے اپنے بچوں کو واقف کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔اسکولوں کے ذمہ داران اتنی بات کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ہمارے ملک میں تاریخ کے نصاب کو تبدیل کرنے کیلیے بڑی کوشش کی جاتی ہےاور اس کے خلاف آوازیں بھی بہت اٹھائی جاتی ہیںلیکن نصاب کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ بھارتی اسکولوں میں اخلاقی تعلیم کا تصور اب نہیں رہا۔عورت کی تعظیم ہندوستانی ثقافت کا حصہ رہی ہےجہاں ہندوستانی دیومالائی قصوں کہانیوں (میتھالوجی) میں عورت کا ذکر بڑی تعظیم کے ساتھ کیا گیا۔امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اخلاقی تعلیم کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ وہیں اسلام نے عورت کو برابری کا درجہ عنایت کیا ہے۔
’’بوائز لاکر روم ‘‘کی فحش چیٹنگ کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک دوسرے طبقہ نے ’’گرلز لاکر روم‘‘ میں بھی ہونے والی فحش اور آزادخیال چیٹنگ کے راز کا افشا کر دیا۔ غلطی چاہے کس رخ سے بھی کی جائے قابل تادیب ہے۔ چاہے وہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلباء ہوں یا ہمارے معاشرے سے تعلق رکھنے والے عام افراد ہوںجب تک طلباء کے اندر صحیح غلط کی ٹھیک ٹھیک پہچان نہ کرائی جائے انہیں ’’امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘کی تعلیم نہ دی جائے۔ہم ان پر سزا کا اطلاق نہیں کرسکتے.ٹھیک اسی نہج پر انسانیت کی رہنمائی کے لیے قرآن نازل کیا گیاہے۔
یقینا یہ صورتحال خوفناک یا تباہ کن ہے لیکن یہ سب غیر متوقع بھی نہیں ہے انٹر نیٹ کی دنیا بہت وسیع ہے بلاشبہ یہ آگ کے مماثل ہے جب یہ آگ آپ کی دسترس میں آجاتی ہے تب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ آگ کا استعمال اندھیرے میں روشنی کےلیے کرتے ہیں یا آگ سے اورجگہ آگ لگاتے ہیں؟۔
نوجوان نسل انٹرنیٹ کے استعمال سے ہماری سوچ سے کئی گنا زیادہ اخلاقی پستی کا شکار ہورہی ہے۔ تقریباً تمام تعلیمی ادارے ڈگری بیچنے والے اداروں میں تبدیل ہونے لگ گئے۔ جنہیں فیس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا،آزادانہ اختلاط، جدید کلچر پر مبنی ماحول،لگی بندھی ٹکنالوجی سے چلنے والے تعلیمی طریقہ کار اور غیر مصدقہ تعلیمی تدابیر سے بالاتر کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ موت کے بعد کی زندگی، سماجی عزت، ثقافتی اقدار، اخلاقیات اور سزا کا خوف،لڑکیوں اور خواتین کو احترام کی نظر سے دیکھنا،مردوں اور عورتوں کے درمیان آزادانہ میل جول میں حدود کو قائم رکھنا، یہ تمام قدریں ہمارے معاشرے سے آہستہ آہستہ نا پید ہوتی جارہی ہیں. چند ایک تعلیمی ادارے جہاں اخلاق اور کردار سازی پر توجہ دی جاتی ہے وہاں ان کی سننے والا کوئی نہیں ہے. جبکہ انٹرنیٹ پر لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں۔کوئی معاشی پسماندگی کےلیے، کوئی مخصوص مذہبی شناخت رکھنے کے لیے ! لیکن جملہ واقعات میں سے 87 فیصد واقعات میں صرف خواتین ہی جنسی ہراسانی یا زیادتی کا شکار ہوتی رہی ہیں۔
انٹرنیٹ پر جنسی جرائم عروج پر ہیں چونکہ ہم تیزی سے ڈیجیٹل دنیا کی طرف گامزن ہیں، جہاں پر حقیقی دنیا، تصوراتی دنیا میں تبدیل ہوکر اچھائی اور برائی دونوں انسانی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہیں۔اگرچہ آسان ذرائع مواصلات جیسے اسمارٹ فون، کمپیوٹر وغیرہ بڑے پیمانے پر رابطے قائم کرنے کی ایسی سہولت ہے جس کو ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن شناخت کو مخفی رکھ کر نجی گروپوں میں ہراسانی کو مشغلہ بنانا، ٹرولنگ کرنا یعنی بے جا نشان ملامت بنانا اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں انٹرنیٹ پر کمزور طبقات کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، ہر دن اوسطا 175 ہزار سے زائد بچے پہلی بار آن لائن آتے ہیں. اس رپورٹ کی روشنی میں 18 سال کی عمر کے تقریبا 80 فیصد بچوں اور نوجوانوں کو انہی کے ذریعے فراہم کی گئی اطلاعات کے مطابق آن لائن جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے. یا انہیں اس طرح خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ دریں اثنا، سائبر ٹرائپ لائن نامی ایک تنظیم کی ایک رپورٹ، جو 2019 میں جاری کی گئی تھی۔اس میں بتایا گیا ہے کہ بچوں پر کی گئ جنسی زیادتیوں اور استحصال کی تمام اطلاعات میں ہندوستان کا حصہ 11.7 فیصد ہے، تناسب کی یہ سطح پوری دنیا کے جملہ واقعات میں سب سے زیادہ ہیں. جبکہ تمام جملہ رپورٹس میں، 19،87،430 کی تعداد ہندوستانی معاملات کی ہیں.اس کے علاوہ’’ سائبر سیکیوریٹی کے اصول ‘‘کے نام سے نورٹن سمسٹک فرم کی جانب سے بالغوں میں ہراسانی اور زیادتی پر کیے گئے سروے میں بتایا ہے کہ ہندوستان میں 10 میں سے 8 خواتین کو کسی نہ کسی طرح آن لائن ہراساں کیا گیا ہے، جبکہ تقریبا 41 فیصد خواتین کو ویب پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ہراساں کرنے کی زیادہ تر عام قسمیں بدسلوکی اور توہین کی تھیں۔ اس سروے میں 1,035افراد کو ہندوستان کے بڑے شہروں سے منتخب کیا گیا تھا. جس کا مقصد آن لائن ہراسانی کے معاملات کو ہندوستانی تناظر میں سمجھنا تھا63 فیصد متاثرین نے اپنے جواب میں بتایا، آن لائن ہراساں کرنے کی سب سے عام شکلیں بدسلوکی اور دانستہ توہین کی ہیں۔ اس کے بعد59 فیصد افراد کے ساتھ بدنیتی پر مبنی گپ شپ اور غلط طریقے سے بدسلوکی گئی ہے۔ سوشل میڈیا سائٹ پر 54 فیصد افراد کے ساتھ ٹرولنگ،50 فیصد افراد کے ساتھ بدنیتی پر مبنی تبصرے، دھمکیاں، اور گروپس کے اندر 49 فیصد افراد کو مبینہ طور پر جنسی فقروں کا سامنا کرنا پڑا۔
سائبر کرائم سیل کے مطابق صرف انسٹاگرام پر ہی اس طرح کے ایک ہزار سے زیادہ گروپس ہیں چونکہ انسٹاگرام ایک سیلبریٹی ایپ ہے اس لیے دنیا بھر کے اداکار، کھلاڑی، فیشن اور لائف اسٹائل سے متعلق شخصیات اس پر سرگرم رہتی ہیں اور یہ شخصیات نوعمر طبقے کے لیے آئیڈیل ہوتی ہیں۔ دلی پولیس کے مطابق ’’بوائز لاکر روم ‘‘واقعے میں جن بچوں کے درمیان چیٹنگ ہورہی تھی ان میں سے ایک لڑکی اپنی جعلی شناخت کے ساتھ لڑکے کے نام سے موجود تھی اور اسی لڑکی نے اسکرین شاٹس کو وائرل کیاہے۔ہوسکتا ہے مستقبل میں ان بچوں پر یہ کہہ کر کوئی کیس ہی نہ بنے کہ انہیں جھوٹی چیٹنگ میں پھنسایا گیا تھا لیکن قابل تشویش بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہوگئی ہے۔شناخت چاہے کسی کی بھی ہو لیکن اخلاق کے مظاہرے سے کردار کا پتا تو چل ہی جاتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے نوعمر بچوں میں تیزی سے بگڑتے اخلاق اور ان کی شخصیت کے نشوونما کے بارے میں ماہرین تعلیم سے سوال کیا تو ان کا ایک ہی جواب تھا..تربیت.. تربیت اور صرف ترتیب!! چونکہ اعلی تکنیکی وسائل جیسے انٹرنیٹ، اسمارٹ فون اس دور میں تقریبا ہر طبقے کے بچوں کو ہر شہر میں میسر ہیں اورجس کے استعمال سے بچوں کو روکا نہیں جاسکتا اسی لیے اس کا واحد حل، ان آلات وسائل کے استعمال کےدوران ان کے ذہن و فکر کی پختہ تربیت ہے۔
لیکن تربیت کے باوجود نو عمر بچوں میں ماحول سے مطابقت اختیار کرنے اور اس ماحول کی خصوصیات کو اپنانے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔فی زمانہ جب بچے یوٹیوب،نیٹ فلکس، امیزان فلمس وغیرہ پر فحش ویب سیریز، ہیجان انگیز فلمیں، پر تشدد گیمز میں رات دن مصروف رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر معاشرے کی نام نہاد قدآور شخصیات کی جانب سے خواتین کے ساتھ بدسلوکی، بدزبانی، فحش تبصرے پڑھتے ہیں تب ہم ان سے کس طرح اچھے اخلاقی مظاہرے کی امید رکھ سکتے ہیں؟
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ان کے والد صرف عصر کی نماز کے لیے انہیں اپنے ساتھ گھر سے باہر لےجایا کرتے تھے باقی سب نمازیں وہ گھر میں خود پڑھایا کرتے تھے تاکہ بچوں پر باہر کے ماحول کا اثر نہ ہو۔
شخصیت سازی پر ماحول کے اثرات کے متعلق ماہرین نفسیات سے بات کی گئی تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ بچے نوعمری میں ذاتی اور معاشرتی تعلقات کو قائم کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ خود اپنی ایک الگ شناخت بنانے کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔
تیرہ سال سے بیس سال کی ابتدائی عمر کے دوران نوعمر بچوں کو شناخت کے علاوہ کردار کے انتخاب کی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے میں نوجوان زندگی میں سماجی اقدار کو قائم رکھنے کی جدوجہد، سیاسی امور میں دلچسپی، اپنی پسند کا کریئرچننے کی کشمکش، شادی جیسے مراحل میں اپنے انتخاب اور اپنی شناخت بنانے کےلیے برسرکار رہتے ہیں۔ان حالات میں وہی بچے کامیاب ہوکر آگے بڑھتے ہیں جنہیں پانچ سال سے بارہ سال کی عمر میں بہترین فیصلہ کن تربیت حاصل رہی ہو.یاد رہے ہمارے نبی کریم نے بھی فرمایا ہے کہ ’’سات سال محبت کرو اور سات سال تربیت کرو۔‘‘
نوعمر بچے اپنے ہم عمروں کے بیچ ہر طرح سے دوسروں کے ہم پلہ بنے رہناچاہتے ہیں کیونکہ وہ کسی حال اپنے دوستوں کے ساتھ کو کھونا نہیں چاہتے. اسی کو ’پیئر پریشر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’’بوائز لاکر روم‘‘ میں شامل اور گرفتار کیے گئے پانچ لڑکوں کےعلاوہ باقی طلبا بھی اسی کیفیت سے گذر رہے تھے۔ وہ سمجھ تورہے تھے کہ ایسی چیٹنگ کرناغلط ہے لیکن یہ سوچ کر چپ رہے کہ دوست ان کوگروپ سے خارج کرنہ کر دیں۔ یعنی اس عمر کے بچے اپنے ہم عمروں میں ہرطرح سے’’فٹ‘‘ ہونا چاہتے ہیں اوروہ اس احساس کے تلے دبے رہتے ہیں کہ ان کے دوست اور ہم جماعت اسی وقت تک ان کے ساتھ رہنا چاہیں گے جب تک کہ وہ ان کی کی توقعات اور مطالبات پرکَھرے اترتے رہیں گے۔ بعض اوقات بچے اساتذہ کے سامنے ان کی خواہش کے مطابق رویہ اپناتے ہیں، ماں باپ جس طرح کی پرسنیلٹی کو پسند کرتے ہیں ان کے سامنے وہی رخ اپناتے ہیں دوسری طرف دوستوں کی محفل میں اپنے ساتھیوں کی موافقت والا رویہ اپناتے ہیں۔ اس رسہ کشی میں وہ اپنی شناخت کے بارے میں سخت الجھن کا شکاربھی ہو جاتے ہیں۔ ان کی اپنی ذات و شخصیت اس کشمکش کے بیچ کہیں کھوسی جاتی ہے اوربالآخر وہ ایک کمزور شخصیت بن کرپر سامنے آتے ہیں۔
بچوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور نا پسندیدہ سلوک کی سب سے بڑی وجہ والدین کی تربیت میں کمی ہوتی ہے۔ ہر معاملے میں سختی اوران کو اپنے حکم کے تابع رکھنا بھی شخصیت کے نشوونما کیلیے نقصاندہ ثابت ہوتا ہے اس کے علاوہ بے جا لاڈ پیار، حد درجہ آزادی بھی نقصان کا بیش خیمہ ہوتی ہے۔اس کے برعکس کچھ والدین اپنے بچوں کو دوست کی طرح رکھتے ہیں اور اپنی تربیت کے دوران وہ بچوں کو کچھ اصول و ضوابط اور ہدایات کے ساتھ ہر قسم کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی مصروفیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں صحیح راہ کے انتخاب میں مدد کرتے ہیں۔
ماہرین نفسیات پانچ سال سے بارہ سال کی عمر کے دوران تربیت کو بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ان کے مطابق بچپن سے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئے۔انہیں صحیح اور غلط کے فیصلے کرنے کیلیے روزمرہ کی زندگی میں حسن اخلاق کے ساتھ اپنی زندگی میں کچھ اصولوں کو نافذ کر لینا چاہیے۔ بچپن میں سچائی، جھوٹ، دھوکہ، بدزبانی سے اجتناب کی تربیت ہی انہیں اپنی آگے کی زندگی میں صحیح اور غلط فیصلوں میں مدد کرتی ہے۔ خاص طور پر بچوں میں یہ احساس پیدا کرنا کہ ہر وقت تمہارا رب تم کو دیکھ رہا ہے۔إِنَّ رَبَّكَ لَبِٱلْمِرْصَادِ۔ ’’بے شک تمہارے رب کی نظر سے کچھ غائب نہیں ‘‘ (سورہ الفجر9:)۔یہی وہ واحد خوف ہے جس کے ذریعے بچے دنیا کی یا سوشل میڈیا کی دل فریبی میں مبتلا ہونے سے خود کو روک سکتے ہیں۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ’’بے شک نفس تو اکثر برائی پر اکساتا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے‘‘ (سورہ یوسف آیت 53 )
آج کے دور میں سنیما،تھیٹر، فلمیں، ڈرامے،ویب سیریز، چھوٹی فلمیں Short Filmsاور Documentries نیز سوشل میڈیا کی ضوفشانیوں کی طرف نہ صرف بے حد رجحان پایا جاتا ہے بلکہ لوگ شوق سے ان چیزوں کو دیکھتے بھی ہیں۔ فی زمانہ کچھ حد تک ان کی ضرورت بھی ہے اور افادیت بھی ہے۔آج یوٹیوب یا سوشل میڈیا، نیٹ فلکس،امیزان فلمس سے لے کر بالی وڈاور ہالی وڈ کا اتنا دبدبہ ہے کہ اس کے بغیر اب خصوصاً نوجوان نسل کا جینا محال ہوگیا ہے۔اس کے خلاف ہم کب تک مذمت، لعن طعن اور فتاوٰی صادر کریں گے؟ کب تک یہ کہتے رہیں گے کہ یہ حرام ہے،وہ مکروہ تحریمی اور تنزیہی ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔ لیکن کیا اب ہمیں اب متبادل سنیماء نہیں تیار کرنا ہوگا؟اور کیا ہمیں ہالی وڈ اور بالی وڈ سے جو فلمیں بن کے آرہی ہیں ان کا کچھ متبادل تیار کرنے میں دلچسپی نہیں دکھانی ہوگی؟ یا نیز بڑے پیمانے پر جو فحش سیریلز اور ویب سیریز بھی بن رہے ہیں ان کے اچھے متبادل فراہم نہیں کر نا چاہیے! ہمیں نئی نسل کی فکری تربیت کر کے اس شعبے میں کیرئیر بنانے کی ترغیب بھی دینی ہوگی۔اس اہم شعبہ کو ہم کب تک خالی چھوڑ دیں گے؟ تحریکات اسلامی نے بھی اس طرف ابھی تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ بلکہ اس کو ایک شجر ممنوعہ سمجھ کر اس شعبے سے خود کو لا تعلق کرلیا جس کے نتیجے اسلامی تحریکیں اور ایڈوانس ذرائع مواصلات میں ناقابل عبور دوری ہمیشہ قائم رہی ہے۔ہماری نوجوان نسل ہی دراصل ہمارا بیش قیمت اثاثہ ہے۔ان کی تربیت، ان کی فکری اور ذہنی اصلاح ہمارا نصب العین ہے جبکہ ہم سوشل میڈیا اور دیگر تیز رفتار ذرائع مواصلات سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایک مجرمانہ غفلت کا شکار ہورہے ہیں۔
احساسات اور اپنی بات مؤثر انداز سے پیش کرنے کا روایتی انداز دور نبوت میں اللہ کے رسولﷺ نے بھی بدل دیا تھا۔اس دور میں عرب میں اگر کسی کو ضروری اعلان یاکسی بات کو دوسروں تک پہنچانی ہوتی تو وہ اپنے جسم سے کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور کوہ صفاء پر چڑھ کر زور زور سے چلاتا ’’ہائے صبح کی تباہی‘‘۔اس اعلان کرنے والے کوعرب میں ’’النزیر العریان‘‘ یعنی ’ننگا ہو کر ڈرانے والا‘ کے نام سے پکارتے تھے۔اللہ کے رسول ﷺ نے بھی ابلا غ کے اس ذریعہ کو استعمال کیا لیکن کپڑے اتارے بغیر یعنی عریانیت کے بغیر، چیخنے چلانے اور دوسری غیر اخلاقی قدروں سے اجتناب کرتے ہوئے اس کو اسلامی رنگ عطا کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رائج میڈیا کے قابل اعتراض حرکتوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی دعوت پہنچانے کے لیے اس ذریعے کو بخوبی استعمال کیا جانا چاہیے۔لیکن آج ہم فلمیں یا ڈرامے بنانا گندے لوگوں کا کام تصور کرتے ہیں لیکن بہ وقت ضرورت ان سے محظوظ ہونا بھی از حدضروری سمجھتے ہیں۔
فنون لطیفہ افتاد طبع اور نفس کی تسکین کے لیے ایک مطلوبہ شعبہ ہے۔
.فلمیں، ڈرامے اور طنز و مزاح کے دیگر ذرائع، احساسات اور جذبات کے اظہار کا دلکش اور دلچسپ شعبہ ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو مخاطب کرنے اور ان کی ذہن سازی کرنےکا ایک واحد مؤثر ذریعہ بھی ہے اور ان سب کی تیز رفتار تشہیر کیلیے سوشل میڈیا کا استعمال بہ حسن و خوبی کیا جاتا ہے۔ہمیں اس کی طرف اب پیش قدمی کرنی چاہیےجو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
انسان اپنے جسم کے ساتھ ساتھ اپنی روح کی تسکین کے حصول کی لڑائی بھی لڑتا رہتا ہے اسلام نے جسم اور روح دونوں کے تقاضے پورا کرنے پر زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ’’ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا‘‘پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی۔اور پھر کہا گیا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا۔ ’’ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا‘‘۔یعنی نسل انسانی کو دنیاوی زندگی کی رہنمائی، چودہ سو سال پہلے ہی کردی گئی ہے۔
ہمارے معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو آزادی و مساوات کے نام پر دن بدن جو رعایتیں دی جارہی ہیں اور مردوں کو بھی آزادانہ طرز زندگی کے انتخاب کے نام پر جن رعایتوں کو جائز ٹہرانے کی بات کی جارہی ہے اسی کے اثرات نتیجے ہیں جو آج معاشرہ کو نت نئے گھناؤنے جرائم سے دو چار کر رہے ہیں۔خواتین کے بے حیائی پرمبنی مختصر و تنگ لباس پر کوئی کمنٹ کر دے حتی کہ لباس کے بارے میں کوئی کالج، کوڈ آف کنڈکٹ ہی جاری کردے تو بہت بڑا واویلا مچا دیا جاتاہے۔پھر کوئی منچلا یا ابوالہوس ایسی لڑکیوں کو اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔یہ برہنگی سیلاب کی طرح ہے۔جب تک اس پر بندھ نہ باندھ دیا جائے آئے دن ایسے واقعات کا نہ ہونا بعیدازقیاس ہے۔پھر ایسے واقعات وہاں کیوں نہیں ہوتےجہاں عورتیں حیا دار اور اخلاقی حدود میں رہتی ہیں۔یہ کوئی معمہ نہیں ہے کہ سمجھا یا جائے بس اپنی عقل و ضمیر کے در پر دستک دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ہر وقت ہوس کے نشے پڑے رہنے کی، جس کی تبلیغ سوشل میڈیا پر رات دن جاری رہتی ہے۔

ان بچوں کی بے حسی اور نڈر پن کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی گفتگو منظر عام پر آگئی اور ان پر ہر طرف سے پھٹکار ہونے لگی تب انہوں نے فوری ایک دوسرا گروپ بنالیا اور اس میں قانونی چارہ جوئی اور سزا سے بچنے کے پہلؤوں پر بات کرنے لگے۔