خاندان کے بدلتے روپ

انور حسین،ناندیڑ

ہر سال 15 مئی کا دن دنیا بھر میں "عالمی یوم خاندان” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اس دن کو دنیا کے بیشتر ممالک اہمیت کے ساتھ مناتے ہیں۔سیمینار، مباحثے، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے اس دن خاندان اور خاندانی نظام کی اہمیت کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے۔خاندان انسانی سماج کا لازمی حصہ ہے۔ہزاروں برس کی انسانی تاریخ میں خاندان کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی کا تناسب کم ہی رہا۔ خاندان کو جدید دنیا میں عورت اور مرد کے رول، حقوق،ذمہ داریاں اور آزادی کے پیمانوں سے ناپا جا رہا ہے۔ خاندان میں ابتدا سے ہی مرد کو قوامیت حاصل رہی ہے لہذا دنیا میں بیشتر خاندانی نظام پدرسری یعنی جہاں مرد خاندان کا سربراہ ہوتا ہے پائے جاتے ہیں۔قبائلی سماجوں میں خاندانی نظام میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے لیکن اس کا تناسب بہت کم ہے۔ بھارت میں بعض قبائل میں مدرسری خاندانی نظام پایا جاتا ہے، جیسے میگھالیہ کے کھاسی اور گارو قبائل وغیرہ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے چین میں موسوو، کوسٹا ریکا میں بریبیری، کینیا میں یوموج، انڈونیشیا میں مینگکباو اور گھانا میں اکان قبائل پائے جاتے ہیں جہاں عورتوں کو سرداری حاصل ہے لیکن بحیثیت مجموعی دنیا بھر میں پدرسری خاندانی نظام کی برتری ہی رہی ہے۔
خاندان کی بنیاد مرد اور عورت کے باہمی رشتے پر رکھی گئی ہے۔ اس کے اہم کاموں میں سے ایک اہم کام افزائش نسل ہے۔ دنیا کی کثیر آبادی اسی خاندانی ڈھانچے کو مانتی آئی ہے۔
لیکن تاریخ انسانی میں جب انسان نے صراط مستقیم کو چھوڑا تو خاندان بیزاری بھی پیدا ہوتی گئی۔ انسانوں نے خاندانی نظام کو محض جنسی خواہش کی تسکین کا ذریعہ سمجھا اور اس کے نتیجے میں جنسی بے راہ روی کے راستے نکل آئے جو آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہیں اور فروغ پا رہے ہیں۔۔۔
بھارت اور یورپی ملکوں کا تقابل یہ بتا تا ہے کہ یوروپ بہت پہلے خاندانی نظام سے بے زاری کا اظہار کرچکا ہے۔ جس کے آج وہ کڑوے کسیلے پھل وہ کھا رہا ہے۔ جبکہ بھارت میں خاندانی نظام کی روایتیں ابھی باقی ہیں۔خاندان بیزاری کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ مادہ پرستی ہے۔ یہی مادہ پرستی بھارت میں بھی خاندانی نظام کی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔
جدید دنیا میں خاندان کا سب سے اہم چیلنج بچوں کی پرورش ہے، بچوں کی پرورش سے بے زاری نے خاندانی نظام میں بہت ساری تبدیلیوں کو جنم دیا ہے۔ اس کا پہلا اثر خاندان کی جسامت میں کمی آگئی ہے۔ یہ مفروضہ عام ہوگیا کہ کم بچوں میں نگہداشت اور تربیت نسبتاً آسان ہوتی ہے اس لیے خاندان میں افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوگئی۔ دوسری وجہ عورت کے حقوق کی آواز ہے۔ نام نہاد نسوانی تحریکات نے یہ نعرہ بلند کیا کہ خاندان میں عورت کو آزادی ہونی چاہیے۔ بعض نے آزادی کے نام پر آوارگی کی وکالت کی جس کے نتیجے میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کا مل کر زندگی گزارنا اور بچوں کی نگہداشت کرنا دونوں دورِ غلامی کے کام محسوس ہونے لگے۔ اس کا نتیجہ سنگل پیارنٹ فیملی سسٹم کے طور پر سامنے آیا۔
بھارت میں موجود روایتی مشترکہ خاندانی نظام کا وجود اب تو شہری زندگی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ روزگار اور تعلیم کے لیے نقل مکانی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں جدید تعلیم یافتہ طبقے میں پیدا ہونے والا عدم برداشت کا جذبہ بھی شامل ہے۔ کچھ دیہی علاقے ہی اس روایتی خاندانی نظام کو بچائے ہوئے ہیں۔
انفرادی خاندانی نظام اور اجتماعی خاندانی نظام کے اپنے کچھ فائدے اور نقصانات ہیں۔
پچھلے دو تین دہائیوں میں بھارت میں شہریانے کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ ہوا ہے۔دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس میں سے بیشتر انفرادی خاندانی زندگی گزارتے ہیں اور باقی اپنے بیوی بچوں سے دور تنہا رہتے ہیں اور بہت کم مدت کے لیے اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ وقت گزار پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیرون ملک معاش کے لیے جانے والے خاندان جس میں شوہر اور بیوی کو ایک لمبی مدت تک ایک دوسرے سے علیحدہ رہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے خاندانی زندگی میں توازن اور بچوں کی پرورش متاثر ہوتی ہے۔ خاندانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے دوسرے عوامل میں بدلتا طرزِ زندگی اور صارفیت کا بڑھتا رجحان بھی ہے۔ اس طرزِ زندگی کی ضرورتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور اس کو پورا کرنے کے لیے عورت کو بھی معاشی سرگرمیوں میں حصہ ادا کرنا پڑ رہا ہے جس کا لازمی نتیجہ بچوں کی تعداد میں کمی، بعض اوقات ان کی پرورش میں کمی اور قرض کا بوجھ انہیں مادہ پرست بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ان کے خاندانوں سے بزرگوں کا وجود ختم ہو رہا ہے اور اولڈ اہج ہوم جیسے ادارے وجود میں آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ اس پوسٹ ماڈرن کلچر نے کیریئر اور پیسہ کی اہمیت کو غیر معمولی حد تک بڑھا دیا ہے۔ خاندان کی بقا کے لیے اعتماد، محبت اور ایثار وقربانی جیسے مثبت جذبات کی ضرورت ہوتی ہے جو مادہ پرستی کے نتیجے میں کمزور ہو جاتی ہیں۔اس لیے انسان اپنی فطری ضروریات کی تکمیل غیر ذمہ دارانہ طریقہ سے پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ ذمہ داریاں اس کے کیریئر اور معاش میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ اس کا لازمی نتیجہ جنسی بے راہ روی اور خاندان بیزاری کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔
خاندان کا وجود شادی کے نتیجے میں ظہور میں آتا ہے۔ شادی کا ادارہ بھی افراط وتفریط کا شکار ہو چکا ہے۔ شادی کی عمر میں دیری، شادی کا مہنگی ہو جانا اور بین ذاتی وبین مذہبی شادیوں نے خاندان کے نظام میں کافی تبدیلیاں لائی ہیں جن میں ایک لیو ان ریلیشن شپ (نا جائز تعلقات) ہے۔
اس کے علاوہ ہم جنس پرستی کے وکالت میں بھی کافی زور لگا یا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کے لیے قانونی جواز فراہم کرلیا گیا ہے کیوں کہ اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ یہ دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی کمزوری ہے کہ وہ غیر اخلاقی قدروں کو بھی قانونی جواز فراہم کر دیتے ہیں۔ جب کہ اسلام کی فطرت یہ ہے کہ کسی بد اخلاقی پر مبنی اقدار کو وہ قانون کے دائرے میں جائز نہیں ٹھیراتا۔
خاندان کی بنیادیں اخلاق، محبت اور ذمہ داریوں پر نہ ہوں تو خاندان ٹوٹنے لگتے ہیں۔ طلاق، خودکشی اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن میں بہت سی رپورٹیں ایسی آرہی ہیں جس میں گھریلو تشدد میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔
کسی بھی سماج کی تعمیر میں خاندان کا اہم رول رہا ہے۔ مغربی دنیا جس تہذیبی واخلاقی گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے اس کی وجہ خاندانی نظام کی اہمیت کا کم ہونا ہے۔
دنیا بھر میں مسلمان جو اپنی تہذیبی اور اخلاقی وراثت کو باقی رکھے ہوئے ہیں وہ محض خاندانی نظام کی حفاظت کی وجہ سے ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ صارفیت، مہنگی شادیاں، شہری زندگی کی چکا چوند اور پاپولر کلچر جس تیزی سے مسلمانوں کو متاثر کر رہا ہے اس سے کہیں ان کے خاندان کا قلعہ منہدم نہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کے خاندانی نظام کی اہمیت کو واضح کریں اور نہ صرف مسلمانوں کی سماجی زندگی کی فکر کریں بلکہ پورے سماج کو بہتر سماج بنانے کی جد وجہد کریں۔

دنیا بھر میں مسلمان جو اپنی تہذیبی اور اخلاقی وراثت کو باقی رکھے ہوئے ہیں وہ محض خاندانی نظام کی حفاظت کی وجہ سے ہے۔ لیکن خدشہ ہے کہ صارفیت، مہنگی شادیاں، شہری زندگی کی چکا چوند اور پاپولر کلچر جس تیزی سے مسلمانوں کو متاثر کر رہا ہے اس سے کہیں ان کے خاندان کا قلعہ منہدم نہ ہوجائے۔