عصمت دری کے ملزم کو شادی کی پیش کش؟

چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بوبڈے پر چوطرفہ تنقید

حسن آزاد

 

ہمارے ملک میں عصمت دری کے ملزم کو متاثرہ سے شادی کرنے کی پیش کی جا رہی ہے جہاں نربھیا، دِشا، آصفہ اور ہاتھرس کی بیٹی کی نہ صرف عزت لوٹ لی گئی بلکہ حیوانوں نے ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا۔ کیا یہ دلخراش بات نہیں کہ سپریم کورٹ قصورواروں کو عبرت ناک سزا دینے کے بجائے ریپ کیس کے حل کے طور پر متاثرہ سے شادی کی تجویز دے رہا ہے؟ سپریم کورٹ میں یکم مارچ کو چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے چھ سال پرانے ایک عصمت دری کیس کی سماعت کی۔ اس تین رکنی بنچ میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی وی رماسبرامنیم شامل تھے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس بوبڈے نے ملزم سے سوال کیا کہ کیا وہ متاثرہ سے شادی رچانے کے لیے تیار ہے؟ ’اگر وہ شادی کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم اس درخواست پر نظرثانی کریں گے، دوسری صورت میں اسے جیل جانا پڑے گا اور نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔‘ اس کے جواب میں ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا مؤکل شادی شدہ ہے اور وہ متاثرہ لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا جبکہ اس نے شکایت کنندہ کو شادی کی پیش کش کی تھی چونکہ متاثرہ لڑکی 2016 میں نابالغ تھی اس لیے اسے دوسری لڑکی سے شادی کرنی پڑی۔ ریپ کا ملزم موہت سبھاش ریاست مہاراشٹرا میں بجلی کے محکمے میں ملازم ہے۔ اگر وہ 48 گھنٹے یا زیادہ وقت کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے تو نوکری سے معطل ہو جائے گا۔
اس پورے واقعے کے بعد سماج میں بے چینی پائی جانی عام بات تھی۔ خاص طور پر خواتین کے طبقے میں غصے کی لہر دیکھنے کو ملی۔ چنانچہ چار ہزار سے زیادہ خواتین، طلبہ، وکلا، فلمی شخصیتوں اور ممتاز شہریوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اے ایس بوبڈے سے ریمارکس کو واپس لینے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ خواتین کی تنظیموں نے سخت الفاظ کے ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ ’اس طرح کے ریمارکس سے چیف جسٹس جیسے عظیم عہدے سے دوسری عدالتوں، ججوں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے سبھی اداروں کو یہ پیغام گیا ہے کہ بھارت میں انصاف خواتین کا آئینی حق نہیں ہے۔ اس سے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی آواز کو اور بھی دبایا جائے گا۔ ریپ کرنے والوں کو اس سے یہ پیغام ملتا ہے گویا ریپ شادی کا اجازت نامہ ہے‘۔ خواتین نے مزید لکھا کہ ’اب بہت ہوگیا آپ کے الفاظ اور ریمارکس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے۔ ہم آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ یہ الفاظ واپس لے لیں اور اس ملک کی خواتین سے معافی مانگیں۔ اخلاقیات کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ چیف جسٹس کے عہدے سے بلا تاخیر دستبردار ہو جائیں۔‘
قابل غور ہے کہ ملزم اور متاثرہ کے خاندانوں میں پہلے سے راہ و رسم چلی آرہی تھی اور شادی کے لیے دنوں کی رضا مندی شامل تھی شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ ایس اے بوبڈے نے شادی کے حوالے سے سوال کیا ہو۔
معاملہ کیا ہے؟
ایک رپورٹ کے مطابق سال 2014میں موہت سبھاش چوہان نامی شخص پر الزام لگا کہ اس نے ایک نابالغ بچی کی عزت تار تار کی ہے۔ متاثرہ کی والدہ پولیس میں شکایت کرنا چاہتی تھیں لیکن ملزم کی والدہ نے صلح کے راستے کا انتخاب کیا اور بات یہ طئے پائی گئی کہ لڑکی کے بالغ ہو جانے کے بعد دونوں کی شادی کرادی جائے گی لیکن معلوم یہ ہوا کہ ملزم لڑکے نے کسی دوسری لڑکی سے شادی کر لی جس کے بعد باضابطہ طور پر 2019 میں موہت سبھاش کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا۔ دفعات 376 ،417، 506 اور POCSO ایکٹ 4 اور 12 کے تحت کیس درج ہوا۔ لیکن مہاراشٹر کے سیشن کورٹ نے موہت سبھاش کو پیشگی ضمانت پر رہا کر دیا جس کے بعد معاملہ بامبے ہائی کورٹ پہنچا جہاں موہت سبھاش کی پیشگی ضمانت کے خلاف نہ صرف سیشن کورٹ پر تنقید کی گئی بلکہ پیشگی ضمانت دینے والے جج کے خلاف جانچ بٹھانے کی بھی بات کہی گئی اور بامبے ہائی کورٹ نے موہت سبھاش کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد ملزم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہاں ملزم موہت سبھاش نے اسپیشل لیو پٹیشن (SLV) داخل کی۔ جس کی سماعت کے بعد موہت سبھاش کو پیشگی ضمانت کے ساتھ ساتھ چار ہفتوں کے لیے پولیس حراست سے بھی آزاد کر دیا گیا۔
واضح ہو کہ ملک میں خواتین کی سلامتی پر پہلے بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کی جانب سے گزشتہ سال جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں ہر 15منٹ میں ایک خاتون کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ این سی آر بی کی 2017کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد، ریپ، ان پر تیزاب سے حملے، انہیں ہراساں کرنے سمیت دیگر صنفی تفریق کے واقعات میں اضافہ ہوگیا اور گزشتہ برس 2016سے زیادہ جرائم ریکارڈ کیے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سال 2017میں مجموعی طور پر ملک بھر میں خواتین کےخلاف جرائم و تشدد کے 3 لاکھ 60ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سے زیادہ تر ’ریپ‘ کے کیسز تھے۔
***

ملک میں خواتین کی سلامتی پر پہلے بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کی جانب سے گزشتہ سال جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں ہر 15منٹ میں ایک خاتون کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد، ریپ، ان پر تیزاب سے حملے، انہیں ہراساں کرنے سمیت دیگر صنفی تفریق کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا  20 مارچ 2021