عدالت عظمیٰ کے میزان پر شاہین باغ اور کسان تحریک

احتجاج کی دونوں تحریکات سے جمہوریت کے چاروں ستونوں کا کھوکلا پن آشکار

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

 

کسانوں کی تحریک کا تعلق معیشت سے ہے لیکن حکومت اس کو بدنام کرنے لیے اسے دفاع سے جوڑ کر عدل و قسط کا خون کر رہی ہے۔ اس سے قبل انسانی مساوات کی شاہین باغ تحریک کو وہ قومی سلامتی سے جوڑ کر دبانے کی کوشش کر چکی ہے اس تناظر میں کنفیوشس کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ملک چین میں’’کنفیوشس‘‘ اسی طرح مشہور ہے جیسے یونان میں سقراط اور افلاطون۔ اس عظیم چینی فلسفی سے پوچھا گیا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہوں اور کوئی ایسی مجبوری آن پڑے کہ ان میں کسی ایک شئے کو ترک کرنا پڑ جائے تو کس چیز کو چھوڑ دیا جائے؟ تو کنفیوشس کا جواب تھا دفاع کو چھوڑ دو۔ سائل نے مزید استفسار کیا کہ اگر باقی ماندہ چیزیں یعنی انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنے کی نوبت آن پڑے تو کس کا انتخاب کیا جائے؟ کنفیوشس نے دو ٹوک معیشت کو چھوڑنے کا حکم لگا دیا۔
عصر حاضر کے تناظر میں یہ بالکل الٹی ترتیب ہے۔ فی زمانہ حکم راں دفاع کے نام پر عوام کو ہر طرح کے جبر و استبداد کا شکار بناتے ہیں اور اسے قبول بھی کرلیا جاتا ہے۔ معاشی ترقی کی آڑ میں سارے اخلاقی حدود و قیود کو قدموں تلے روند دیا جاتا ہے لیکن کسی جبیں پر شکن نہیں آتی۔ جہاں تک عدل و انصاف کا تعلق ہے اس کو آخر میں رکھا جاتا ہے اور اس کی معدومی پر کسی کو افسوس نہیں ہوتا۔ کنفیوشس کی ترتیب پر سائل نے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے حیرت سے پوچھا کہ اگر معیشت اور دفاع کو ترک کر دیا جائےتو قوم فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گی نیز دشمن اس پر حملہ کر دیں گے؟ کنفیوشس نے اس خیال کی تردید میں کہا نہیں! ایسا نہیں ہوگا بلکہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معاشی مشکلات کے باوجود پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا دفاع کریں گے۔ آج کل نا انصافی کے سبب عوام کا حکم رانوں پر اس طرح اعتبار اٹھ گیا ہے کہ کوئی خوش حال بھی دفاع کے لیے آگے نہیں آتا۔
عدل و انصاف اور خوش حالی کے درمیان تعلق کو خلیفہ عمرؒ بن عبدالعزیز نے اس وقت واضح فرمایا جب کہ کسی حاکم نے اپنے شہر کی ویرانی کا شکایت نامہ بھیج کر اس کو آباد کرنے کے لیے مال طلب کیا۔ امیر نے جواب میں فرمایا اپنے شہر کو عدل و انصاف کے ذریعہ محفوظ کر کے شہر کے راستوں سے ظلم و زیادتی دور کر دو کیوں کہ ظلم وجبر ہی شہر کی ویرانی کا باعث ہے۔ ملک میں پھیلی ہوئی معاشی بد حالی کا ایک سبب چہار جانب پھیلا ہوا جبر و استبداد ہے۔ اس کو مضبوط تر کرنے کی خاطر سرکار نے زرعی قوانین بنائے ہیں اور کسان اس کے خلاف سڑکوں پر اتر کر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ حکومتِ وقت کے لیے جب اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر عدالت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کسانوں کے ذریعہ دلی کی گھیرا بندی کے تقریباً 20 دن بعد جب سارے سرکاری حربے نا کام ہو گئے تو عدالت عظمیٰ کی زنجیر میں جنبش ہوئی۔ اس معاملے میں کئی لوگوں نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا لیکن وہ کمبھ کرن کی نیند سو رہی تھی۔ شکایت کنندگان کا کہنا تھا کہ سڑک بندی کے سبب عوام کو زحمت ہو رہی ہے نیز مظاہرین اپنے درمیان فاصلے نہیں رکھتے اس لیے کورونا کی وبا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یہ دعویٰ بالکل درست ہے کیوں کہ اس وقت تک ہریانہ کے بعد دہلی سے راجستھان جانے والی شاہراہ کو بند کیا جا چکا تھا اور سماعت والے دن نوئیڈا جانے والی سڑک کو چلاّ بارڈر پر جام کر دیا گیا تھا۔ دلی ٹرافک پولیس نے ٹکری اور دھنسا بارڈر کو بند کرنے کے بعد جھٹیکرا پر صرف دوپہیوں کی گاڑیاں اور پیدل چلنے والوں کو آمدو رفت کی اجازت دے رکھی تھی۔ اب یہ حالت ہے کہ کسان احتجاج میں بڑی سڑک بند کرتے ہیں تو انتظامیہ چھوٹی سڑکوں پر اس خوف سے روک لگا دیتی ہے کہ کہیں کسان مظاہرین شہر کے اندر نہ گھس جائیں۔ حکومت اور انتظامیہ کے اندر یہ خوف و دہشت کسان تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
عوام کو ہونے والی زحمت کا کسان رہنماؤں کو احساس ہے لیکن چوں کہ یہ ان کی زندگی اور موت کا سوال ہے اس لیے وہ معذرت طلب کر کے اس کو گوارا کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ ایسے میں عوام کو چاہیے کہ وہ عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے کسانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر حکومت پر دباؤ ڈالیں لیکن حکومت کے باج گزاروں سے یہ توقع ممکن نہیں ہے۔ وہ لوگ عدالت کے ذریعہ اس تحریک کو کچلنے کا جواز تلاش کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے آمدو رفت کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا کہ مظاہرین ماسک نہیں پہنتے، بھیڑ میں بیٹھتے ہیں اس لیے کورونا کا خطرہ ہے۔ کسانوں کا جواب ہے کہ زرعی قوانین کورونا سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے سبب ہماری اگلی نسلیں اپنے ہی کھیت میں مالک سے مزدور بنا دی جائیں گی۔ اس تحریک کی ابتدا میں معروف کسان رہنما گرنام سنگھ چڑھونی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ یا تو بل واپس لو یا ہمیں گولی مار دو۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہریانہ اور پنجاب کے اندر 2019 میں 900 کسان خود کشی کر چکے ہیں اور چڑھونی کے مطابق اس بل کے بعد حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ اس لیے کسانوں کو خود کشی پر مجبور کرنے کے بجائے انہیں گولی مار دینا زیادہ بہتر ہے۔ ویسے سنت بابا رام سنگھ کی خود کشی نے اس دعویٰ کی دلیل پیش کردی ہے۔ اپنی وصیت میں انہوں نے صاف لکھا ہے کہ مجھ سے ان کسانوں کی ابتری نہیں دیکھی جاتی۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل کے اس دعویٰ پر غور کرلیا جائے کہ کسان دوسروں کے حقوق سلب نہیں کر سکتے، یہ مظاہرین گاوں میں جا کر وبا پھیلائیں گے۔ وزیر داخلہ نے بھی جب کسانوں کے چالیس نفری وفد کو مختصر کرنے کا مطالبہ کیا تو بھیڑ کے سبب کورونا کا ذکر فرمایا۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ بہار کی انتخابی مہم کے دوران جمع ہونے والے ہجوم سے وینو گوپال کو کوئی تشویش نہیں ہوئی۔حیدرآباد کا روڈ شو امیت شاہ بھول گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی حکومت قائم کرنے لیے عوام کو بلی کا بکرا بنانا جائز ہے لیکن جہاں سیاسی نقصان دکھائی دے وہاں کورونا کا بہانہ بنایا جائے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہار میں کورونا کے پھیلاؤ کو چھپایا جا سکتا ہے مگر دلی میں مشکل ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہے کہ دلی کے امیر کبیر لوگوں میں کورونا کے پھیلنے کی اہمیت زیادہ ہے اور بہار کے دیہات میں رہنے والوں کی زندگی ارزاں ہے۔ کیا کسی ملک کے اٹارنی جنرل کو عدالت عظمیٰ میں کھڑے ہو کر اس طرح کا تفریق و امتیاز برتنا زیب دیتا ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے پر سپریم کورٹ کی بنچ ان کو پھٹکار بھی نہیں لگاتی۔
عدالت عظمیٰ کے اندر سماعت کے آغاز میں ہی سالیسیٹر جنرل نے یہ تجویز پیش کر دی کہ حکومت، کسان تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی چاہیے کیوں کہ جلد ہی یہ ایک قومی مسئلہ بننے والا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومتی سطح پر سلجھ نہیں سکے گا۔ سالیسیٹر کی جانب سے آنے والی اس تجویز دراصل سرکاری موقف ہے کیوں کہ وہ حکومت کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کے تجویز کے کئی معنیٰ ہیں مثلاً حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ جلد ہی قومی مسئلہ بنے گا جب کہ حقیقت میں یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت نے یہ بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس کمیٹی کی تشکیل کا مشورہ سپریم کورٹ کو دیا جا رہا ہے وہ حکومت خود کیوں نہیں بنا دیتی؟ اس سوال کا جواب سرکار کو معلوم ہے کہ وہ کسانوں کا اعتماد پوری طرح گنوا چکی ہے۔ اب اس کی بنائی ہوئی کمیٹی پر کوئی بھروسہ نہیں کرے گا۔ اس لیے سپریم کورٹ کے اعتماد کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اگر کورٹ نے سرکار کی موافت کی تو وہ بھی اپنا اعتبار کھو دے گی۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس کے اندر خود اعتمادی کا اس قدر شدید فقدان ہے۔
عدالت کو احساس ہو گیا ہے کہ اب یہ کسان اس قانون کے مسترد کیے جانے سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اور اس کے رہتے بات چیت کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے اس لیے اس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا حکومت یہ یقین دہانی کر سکتی ہے کہ جب تک کورٹ کی سماعت چلے گی تب تک قانون کے نفاذ کی خاطر کوئی انتظامی اقدام نہیں کیا جائے گا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ کس طرح کا انتظامی اقدام؟ اس کی وضاحت کرنے کے بجائے جج صاحب نے کہا کہ ایسا ہوا تو کسان بات کرنے آئیں گے۔ اس جگل بندی سے ایسا لگتا ہے جیسے سرکار اور عدالت کے درمیان کوئی نورا کشتی چل رہی ہے اور اپنی رسوائی بچانے کے لیے سرکار عدالت کی آڑ لینا چاہتی ہے۔ وہ کہے گی سپریم کورٹ کے کہنے پر قانون کے نفاذ کو معطل کر دیا گیا ہے اس لیے کسان پھر سے گفتگو کے لیے آمادہ ہو جائیں لیکن اس سے بھی بات نہیں بنی۔ بالآخر وزیر زراعت تومر نے یہ اعلان کر دیا کہ اگر کسان قانون کی ہر شق میں موجود کجی کو واضح کر دیں تو وہ اسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کے ان بیانات کا کیا ہوگا کہ یہ قانون کسانوں کے حق میں ہے، ان کو ورغلایا گیا ہے اور ان کندھے پر بندوق رکھ کر کوئی اور فائر کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے پہلے ہی دن چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے یہ تسلیم کیا کہ سرکار کے ساتھ کسانوں کی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کی اور مشترکہ کمیٹی بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اس دوران ایک وکیل نے شاہین باغ کے معاملے کو دلیل کے طور پر پیش کر دیا۔ یہ سنتے ہی عدلیہ کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ چیف جسٹس نے فوراً کہا نظم و ضبط سے جڑے معاملوں میں کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ یہ عجیب بات ہے کیوں کہ کسان تحریک اور شاہین باغ کے درمیان بلا کی مشابہت ہے۔ یہ دونوں عوامی تحریکات ہیں۔ ان کے پس پشت کوئی سیاسی مقصد کار فرما نہیں ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت اس کی رہنمائی کر رہی ہے۔ ان دونوں کے وجود میں آنے کا سبب پارلیمنٹ میں قانون سازی یا ترمیم ہے۔ ان دونوں سے لاحق خطرات و اندیشوں کے سبب شدید غم و غصہ ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں قوانین ایک ہی حکومت نے وضع کیے ہیں۔ دونوں تحریکات سے نمٹنے کے لیے یکساں طریقہ کار اختیار کیا گیا یعنی کبھی پولیس کے ذریعہ منتشر کرنے کی یا دبانے کی کوشش کی گئی تو کبھی میڈیا کی مدد سے بدنامی کا طوفان برپا کر دیا گیا۔ ان کے خلاف جب یہ حربہ ناکام ہوگیا تو اس کے تار بیرون ملک دشمن طاقتوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کو ان میں کبھی خالصتانی نظر آئے تو کبھی پاکستانی عناصر دکھائی دیے۔ مخالفین پر سیاسی مفاد پرستی کا الزام لگا کر سرکار نے اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں اور جب وہ جل کر خاک ہونے لگیں تو عدالت سے رجوع کیا۔ ان دونوں معاملات کو چوں کہ ایک ہی قاضی اعظم نے سنا اس لیے موازنہ قدرے آسان ہے۔ اس تناظر میں عدالت عظمیٰ کے اندر کسان تحریک اور شاہین باغ کے درمیان اختیار کیے جانے والے رویے کا معروضی جائزہ ناگزیر ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چند ماہ قبل دیے گئے شاہین باغ کے فیصلے پر ایک نگاہ ڈال لی جائے جس سے عدالت فی الحال نظریں چرا رہی ہے۔ شاہین باغ کے معاملے میں جسٹس سنجے کشن کی قیادت والی سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ عوامی مقامات پر لمبے وقت تک دھرنے نہیں دیے جا سکتے۔ کسان تحریک بہت جلد اپنا ایک مہینہ مکمل کرلے گی اس لیے اسے مختصر وقفہ تو نہیں کہا جاسکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ مظاہرہ ایک طے شدہ مقام پر ہونا چاہیے۔ حکومت نے بادلِ ناخواستہ براڈی کا نرنکاری میدان تجویز کیا تھا مگر کسانوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا اور حکومت میں جرأت نہیں ہے کہ وہ انہیں وہاں منتقل کرے ۔
اس وقت عدالت نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت اور عدم اتفاق ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں مگر شاہین باغ جیسے عوامی مقام کا گھیراؤ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ شاہین باغ کا مظاہرہ تو ایک چھوٹی سی سڑک پر تھا لیکن کسان احتجاج نے تو کئی ہائی ویز کو بند کر دیا ہے تو انہیں کیسے برداشت کیا جا رہا ہے؟ کسان تحریک سے جس طرح سرکار ڈر گئی ہے اسی طرح عدلیہ بھی خوفزدہ ہے۔ شاہین باغ کو خالی کروانے میں ڈھلائی کرنے والی دلی پولیس سے عدالت نے کہا تھا کہ ایسے معاملات میں افسروں کو خود ایکشن لینا چاہیے عدالت کے پیچھے چھپ کر وہ نہیں کہہ سکتے جب عدلیہ کا حکم آئے گا ہم کارروائی کریں۔ افسران کو شاہین باغ کے مظاہرین کو ہٹانے کی تلقین کرنے کا حکم دینے والے اب کسانوں سے بات چیت کا مشورہ دیتے نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ فیصلے سے جس طرح پولیس کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کسان تحریک نے اس کی ہوا نکال دی ہے مگر مخالفت اور آمدو رفت کے حق میں توازن قائم کرنے کا درس دینے والے جج صاحبان کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے۔ شاہین باغ کے مظاہرین پر سختی سے فیصلہ کرنے والے کسان مظاہرین کے تعلق سے فرماتے ہیں کسان تشدد کو بڑھاوا نہیں دے سکتے حالاں کہ شاہین باغ کے مظاہرین بھی پر امن تھے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی شہری کو بلاک نہیں کرسکتے یہ خلاف حقیقت بات ہے۔ فی الحال دہلی کی مکمل گھیرا بندی کی جا چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فیصلے میں کہا کہ احتجاجی مظاہرہ اس وقت تک آئینی ہے جب تک اس سے مالی نقصان یا کسی کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ عدالت نے ایک آزاد اور غیر جانب دار کمیٹی بنانے اور اس کے سامنے دونوں فریقوں کو اپنا موقف رکھنے کا مشورہ دیا۔ اس کمیٹی کے اندر مختلف کسان تنظیموں کے علاوہ پی سائی ناتھ جیسے دانشوروں کو شامل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کمیٹی کے فیصلے تک احتجاج جاری رہ سکتا ہے اور اس کا فیصلہ سب کو قبول کرلینا چاہیے لیکن کسان تو قانون کو واپس لینے کے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں اور حکومت اس کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔
کسانوں کو سمجھانے منانے کے لیے عدالت نے کہا کہ ہم ان کی حالتِ زار کو سمجھتے ہیں اور ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس ہمدردی کا مظاہرہ شاہین باغ کی بابت دیکھنے کو نہیں ملا۔ عدلیہ نے آمدو رفت کو سہل بنانے کے لیے کسانوں کو اپنا طریقہ بدل کر احتجاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ عدالت نے یقین دہانی کی کہ وہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کا حق تسلیم کرتے ہیں اور دبانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عدالت صرف اس بات غور کر رہی ہے کہ احتجاج کے سبب کسی کی جان نہ جائے لیکن کئی لوگ ابھی تک دورانِ احتجاج اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ساری کسان تنظیموں کو کمیٹی میں شمولیت کا خط بھیجا جائے گا اور سرمائی چھٹیوں کے دوران تعطیلاتی بنچ اس معاملے کو دیکھے گی۔ کسانوں کے ساتھ جو نرمی برتی جا رہی ہے وہ بہت خوش آئند ہے۔ یہاں اس پر تنقید مقصود نہیں ہے بلکہ عدالت سے یہ توقع ہے کہ وہ تمام مظاہرین کے ساتھ بشمول شاہین باغ اسی طرح کا نرم رویہ اختیار کرے گی ورنہ اگر عدالت خود نا انصافی کی مرتکب ہوگی۔ اس طرح پورے سماج سے عدل و قسط کا جنازہ اٹھ جائے گا۔
انصاف ایک تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ سب کے لیے مہیا ہو اور دوسرا یہ کہ اس میں کوئی بھید بھاؤ نہ کیا جائے۔ اس کا دعویٰ تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مثال پیش کرنے کی بات آتی ہے تو سب ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس بابت اسلام کے ہمنواؤں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اس ارشاد ربانی پر عمل کرتے ہیں کہ ”خبردار کسی کی دشمنی تمہیں اس کے ساتھ نا انصافی کرنے پر آمادہ نہ کرے“۔ غزوہ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی گرفتار ہوئے۔ قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا، فدیہ کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھی۔ حضرت عباس چونکہ حضور ﷺ کے چچا تھے اس لیے چند صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ اجازت دیجیے کہ عباس کا فدیہ معاف کر دیا جائے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ عباس سے ان کی خوش حالی کے سبب حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔ افسوس کہ شاہین باغ اور کسانوں کی تحریک نے عدالت عظمیٰ کے سامنے جو آئینہ رکھا ہے اس میں میزان عدل ایک جانب جھکا ہوا نظر آتا ہے۔ ان دو تحریکات نے جمہوری نظام کے چاروں ستونوں کا کھوکھلا پن بے نقاب کر دیا ہے۔

ملک میں پھیلی ہوئی معاشی بد حالی کا ایک سبب چہار جانب پھیلا ہوا جبر و استبداد ہے۔ اس کو مضبوط تر کرنے کی خاطر سرکار نے زرعی قوانین بنائے ہیں اور کسان اس کے خلاف سڑکوں پر اتر کر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ حکومتِ وقت کے لیے جب اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا تو وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر عدالت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21