شہاب الدین مرحوم: تحریک اسلامی کے مثالی کارکن

ابراہیم خان ، آکوٹ

آکوٹ میں تحریک اسلامی کا کام قیامِ جماعت کے فوراً بعد ہی چند بزرگوں کے ذریعہ شروع ہوچکا تھا۔ اس قدیم جماعت کے ذمہ داروں میں جیسے جیسے نوجوانوں کی شمولیت ہونے لگی کام میں کافی ترقی ہوتی چلی گئی۔ انصار خاں مرحوم کی ٹیلرنگ شاپ دفتر جماعت کے لیے استعمال ہوا کرتی تھی۔ بعد میں آکوٹ کے قلب شہر میں ایک جگہ حاصل کی گئی جس پر دو منزلہ عمارت تعمیر کی گئی جس میں آج جماعت کا دفتر اس کے تمام شعبے، ایک گورنمنٹ سے منظور شدہ لائیبریری، انگلش میڈیم اسکول، مدرسہ نسواں، علامہ اقبال ہال اور ایک مولانا مودودی ہال بھی ہے۔
امیر مقامی جناب عبدالسبحان کے ہمراہ ان کے معاون خاص شہاب الدین مرحوم بڑی پابندی سے دفتر میں حاضر رہ کر جماعت کے کاموں کی نگرانی اور جماعتی ذمہ داریوں کو ادا کرتے تھے۔ شہاب الدین مرحوم پوسٹ آفس میں کلرک سے ترقی کرتے ہوئے پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر پہنچ کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ مطالعہ کا اعلیٰ ذوق تھا، پرواز رحمانی صاحب کے دلّی جانے سے قبل موصوف انہی کے ساتھ اپنا کافی وقت گزارا کرتے تھے۔ جماعت کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتے، پابندی سے اعانت دیا کرتے تھے۔ کتابیں خرید کر پڑھنے کا شوق تھا۔ تحریکی رسالوں کو بڑی حفاظت سے رکھتے اور سال بھر کے پرچوں کی بائنڈنگ کر لیا کرتے تھے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد رکنیت کے لیے درخواست دی اور پھر اپنا پورا وقت تحریک کے کاموں کے لیے فارغ کر دیا۔ چونکہ پوسٹ آفس کی ملازمت کا تجربہ تھا، حسابات وغیرہ میں کافی مہارت تھی، آکوٹ مقامی جماعت کے حسابات کو تو سنبھالا ہی تھا جب حلقہ کے آڈیٹر جناب محمد رفیق صاحب کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی تو ضلع کی جماعتوں کے آڈٹ کی ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی۔ ماشاء اللہ اسے بھی بڑے حسن و خوبی سے نبھایا۔ مقامی جماعت کے بیشتر کاموں کو انجام دے لیا کرتے تھے۔ محلہ کے چند ریٹائرڈ رفقاء کی روزآنہ بعد نماز عشاء درس قرآن کی محفل ہوتی تھی۔ وہ نہایت اعلیٰ کردار، متقی پرہیزگار اور ذمہ داریاں کو ادا کرنے میں ہر صورت میں تیار ایک متحرک شخصیت تھے۔ مختصر علالت کے بعد 18 جولائی کو اچانک خبر ملی کہ شہاب الدین صاحب ہم سے جدا ہو گئے۔ شہر کی پچیس تیس بیواؤں کو جماعت کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ذمہ دار موجود نہیں ہوتے تو خود گھر جا جا کر تقسیم کرتے۔ کسی بھی کام کے لیے انکار نہیں کرتے۔ مقامی امیر کی غیر حاضری میں قائم مقام امیر کی حیثیت سے ذمہ داری کو انجام دیا کرتے تھے۔ بچوں کے ادب سے بھی بڑی دلچسپی تھی۔ افسانے اور کہانیاں لکھنے کا بھی شوق تھا۔ اخبارات و رسائل میں ان کی کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ شاعری کا بھی شوق تھا۔ ادارہ ادب اسلامی کے مشاعروں میں اپنا کلام سنایا کرتے تھے۔ اپنی شاعری میں پوری طرح ادارہ ادب اسلامی کی ترجمانی کرتے۔ موصوف نے صرف شاعر ی میں اخلاق حسنہ کی بات نہیں کی بلکہ اپنے عمل سے بھی ثابت کر دکھایا۔ وہ محلے کی مقامی مسجد میں درس قرآن بھی دیا کرتے تھے، لیکن جب مسجد کا انتظام ایک دینی جماعت کے ہاتھوں میں آیا تو وہاں کے نادان متولی کے ذریعہ درس کے سلسلہ کو بند کرنے کی سازش رچی گئی۔ لیکن لوگ درس کا سلسلہ چاہتے تھے مگر ایک دن سختی سے اسے بند کر دیا گیا۔ متولی نے انہیں زدوکوب بھی کیا۔ آنا فأنا شہر میں یہ خبر عام ہو گئی کئی نوجوان اس متولی کو پیٹنے کے لیے جمع ہو گئے تھے لیکن شہاب الدین مرحوم نے سب کو منع کردیا اور کہا کہ جب میں انہیں معاف کرتا ہوں تو آپ لوگ کیوں ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں؟ مسجد میں کافی لوگ جمع ہوگئے تھے سب سمجھ رہے تھے کہ شہاب الدین مرحوم کی طرف سے سینکڑوں لوگ حمایتی بن کر آئے ہیں ضرور کچھ گڑبڑ ہوگی لیکن انہوں نے متولی کو معاف کر کے ایک بڑی مثال قائم کر دی۔ ان کی نعت کا ایک شعر بہت مشہور ہوگیا تھا ؎

یہ اپنے ہاتھ کہ محسن کو سنگسار کرے
وہ اس کے ہاتھ کہ اٹھے نہ بد دعا کے لیے

وہ خود کردار کے بلند تھے اور لوگوں میں اعلیٰ اخلاق ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ اپنے ایک شعر میں کردار کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔

گفتار کے لاکھوں ہوں تو بیکار ہے ساحل
کردار کے دو چار ہوں تو بہت ہے

شہاب الدین مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے، کافی محنتی اور ہمہ وقت کام کرنے کو ہی زندگی سمجھتے تھے۔ وہ آج ہم سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ ساتھیو! وقت کم ہے اور کام زیادہ اس لیے وقت کو ضائع نہ ہونے دینا بس کام کرتے رہنا وہ کام جو جماعت تم سے لینا چاہتی ہے اسے اپنی آخری سانس تک کرتے رہنا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے۔آمین