کووڈ۔19کا سبق: لوٹو اپنے رب کی طرف

لئیق اللہ خاں منصوری ایم اے، بنگلورو

 

غیر فطری غذاؤں کے استعمال کے نتیجے میں نومبر۲۰۱۹ء کو ملک چین کے ووہان شہر میں جس عجیب و غریب مہلک بیماری کا ظہور ہوا اسے ’’کووڈ۔19‘‘ (کرونا وائرس ڈیزیز) کا نام دیا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی وبا کی صورت اختیار کرلی۔اس وبا کے تدارک کے لیے ہندوستان میں مارچ ۲۰۲۰ء کے اواخر میں جنتا کرفیو نافذ کیا گیا اور پھر لاک ڈاؤن کا سلسلہ، کورنٹائن، سیل ڈاؤن کے اقدامات، لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے اور اکثریت کے صحت یاب ہونے کی خبریں، ہزاروں کی تعداد میں اموات کی اطلاعات نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔گزشتہ چار مہینوں میں ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کئی کاروبار بند ہوگئے، کئی لوگ بے روزگار ہوگئے۔ مہاجر مزدور سینکڑوں کلومیٹر دور اپنے گھروں کو پیدل لوٹنے پر مجبور ہوئے ۔تعلیمی سال کا باضابطہ آغاز نہ ہوسکا۔ عوام نفسیاتی عوارض کا شکار ہوئی۔الغرض پورے ملک کے معمولات متاثر ہوئے ہیں۔کم و بیش یہی حال دنیا بھر کے دیگر ممالک میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ کووڈ۔19 کے اس منظر نامے نے ہمیں بہت کچھ سکھادیا ہے۔آئیے ہم ان اسباق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس تناظر میں اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے صورت حال کا سامنا کرتے ہیں۔

دنیا کی بادشاہی اللہ کی

کووڈ۔19نے پوری دنیا کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔حکومتوں اور طبی نظام کی ساری تدبیروں کے باوجود اموات کی شرح کم نہیں ہورہی ہے۔معاملہ قابو سے باہر محسوں ہوتا ہے۔انسان اپنی فطرت کے موافق زبانِ حال یا زبانِ قال سے اس بات کا اعتراف و اظہار کرتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس صورت حال کو بہتر بناسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اسی قسم کے حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے انسان کی بے بسی کو یوں بیان فرماتا ہے: ’’اور جب ان پر سائبانوں جیسی کوئی موج چھا جاتی ہے تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً اسے پکارتے ہیں۔۔‘‘(لقمان: ۳۲)۔ کووڈ۔19 نے دنیا کو قیامت کی ایک جھلک دکھا دی ہے ’’(اور پوچھا جائے گا) آج حکومت کس کی ہے؟ (پھر خود ہی فرمائے گا) اللہ اکیلے کی جو سب پر غالب ہے۔‘‘ (غافر:۱۶)۔ کووڈ۔19نے حکومتوں کو یہ سوچنے پر محبور کیا ہے کہ خدا کی سلطنت میں ہمارا کوئی زور چلنے والا نہیں ہے۔

آفات و وبائیں۔ انسانوں کی زیادتیوں پر اللہ کی تنبیہ:

جب دنیا میں ظلم و زیادتی عام ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ وقتا فوقتاً اپنی نشانیاں بھیجتا رہتاہے تاکہ لوگ سنبھل جائیں۔’’تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب اور آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں‘‘(انعام: ۴۲)۔ وہ آفات ارضی و سماوی ہوں یا وباؤں کی فضا ہو، سب اللہ کی جانب سے انسانوں کے لیے تنبیہ اور آزمائش ہوتے ہیں:’’آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا، یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔(اعراف:۱۳۳)

آفات تنبیہ ہیں تو معصوم اس کی لپیٹ میں کیوں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ زیادتیاں ہورہی ہیں ان میں معصوم عوام کا کیا قصور؟ اللہ کی پکڑ صرف ظالموں تک محدود کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں جب مصیبتیں آتی ہیں تو اچھے برے سب اس کی زد میں آجاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کی سالمیت کے لیے تمام انسان ذمہ دار ہیں۔ جو لوگ فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں، ظلم و زیادتی کرتے ہیں، وہ ضرور قیامت کے روز پکڑے جائیں گے اور ان کے کرتوتوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا، لیکن دنیا کے نظام کو درست رکھنے میں بقیہ لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور ظالم کو ظلم سے روکیں۔ اگر اکثریت خاموش تماشائی بنی رہے گی تو اللہ کے قہر سے کوئی بچ نہیں پائے گا۔ قرآن مجید میں اسی قسم کے فتنے سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہیں لوگوں تک محدود نہیں رہے گی جنہوں نے ظلم کیا ہوگا۔(ملاحظہ ہوسورۂ انفال:۲۵)۔قرآن مجید میں امت مسلمہ کی جہاں کئی ذمہ داریوں کا ذکر کیا ہے انہیں میں سے ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے جس کے معنی نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے لوگوں کو روکنے کے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف نیکیوں کا فروغ کافی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو برائیوں سے باز رکھنا بھی ایک مستقل کام ہے جس سے غفلت برتنا باعث مواخذہ ہے۔ بخاری میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے نہی عن المنکر کے فریضہ کو سمجھانے کے لیے ایک ایسی کشتی کی مثال دی جس کی دو منزلیں ہوں کشتی میں پانی کا انتظام اوپر کی منزل میں تھا نیچے والے پانی کے لیے بار بار اوپر جانے کی زحمت سے بچنے کے لیے کشتی ہی میں سوراخ کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اب اگر اوپر والے اس منصوبے پر خاموش رہیں گے تو جب کشتی ڈوبے گی تو اوپر والوں کو بھی لے کر ڈوبے گی۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ معاشرے برے لوگوں کے ظلم سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی سے تباہ ہوتے ہیں۔(societies are not destroyed by the violence of bad people but by the silence of good people)۔آپؐ نے یہ ہدایت بھی دی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کی جائے گی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روک دو یہی اس کی مدد ہوگی۔(بخاری)

وبا کا حل۔ رجوع الی اللہ:

وبا کی سنگینی نے ہر خاص و عام کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر کوئی اس سے چھٹکارے کے لیے فکرمند ہے۔ ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ آخر یہ معاملہ کب تک چلے گا اور ہم کب اپنے معمولات پر واپس آسکتے ہیں اور کیسے اس وبا کا خاتمہ ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا جواب یہ ہوگا کہ انسان اپنی حیثیت کو پہچانے، اپنے خالق کو پہچانے، دنیا میں انسان کو بھیجنے کے مقصد کو سمجھے۔ اس حقیقت کو سمجھ کر اعتراف کرے کہ وہ اس دنیا میں خود مختار نہیں ہے بلکہ خالق حقیقی کے روبرو جواب دہ ہے۔ انسان اس دنیا میں امین ہے۔ اسے خلیفہ بنایا گیا ہے اور عند اللہ مسئول ہے۔ انسان جب اس زمین پر حدود سے تجاوز کرتا ہے اور فتنہ و فساد برپا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ مختلف آزمائشی حالات کے ذریعہ متنبہ کرتا ہے تاکہ وہ چوکنا ہو جائے اور اپنا جائزہ لے کر اصلاح کرلے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی چاہے اور اسی سے مدد طلب کرے۔ یہی رجوع الی اللہ ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہی بات یوں سمجھائی ہے کہ ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزہ انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں۔‘‘ (السجدہ:۲۱)۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسانوں کو یوں پکارا ہے: ’’اے نبیؐ ! کہہ دوکہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔ پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اس کے، قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کرلو رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘(الزمر:۵۳۔۵۵)۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی بھی دی ہے کہ ’’بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرمادے۔‘‘ (الطلاق: ۷)۔

تدبیر و توکل:

اس وبائی صورت حال سے نپٹنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ طبّی لحاظ سے ممکنہ تمام احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جائے۔ یہ ایمان اور توکل کا لازمی تقاضا ہے۔حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپؐ نے فرمایا: اسے باندھ دو، پھر توکل کرو۔(ترمذی)۔یعنی ظاہری اسباب اختیار کیے بغیر توکل نہیں ہے۔ لیکن اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ایمان کے منافی ہے۔ وبائی صورت حال میں توکل یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی قدرت پر اتنا یقین ہو کہ اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود اللہ کی مرضی ہو تو وبا سے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر اللہ کی مرضی ہو تو بغیر اسباب کے بھی بندہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ ہر معاملہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس احساس کے ساتھ اسباب اور احتیاط اختیار کرنا اور اللہ سے دعا کرنا توکل ہی کا حصہ ہے۔ نہ تو وبا کو بے حقیقت سمجھ کر بے نیازی برتنا صحیح ہے اور نہ ہی وبا کے خوف کو اپنے اوپر مسلط کر کے جینے ہی سے دست بردار ہوجانا درست رویہ ہے۔ تقدیر پر ایمان یہ ہے کہ جس شخص کی موت جب ،جہاں اور جیسی طے ہے، اسی حساب سے آئے گی۔ نہ وقت سے پہلے آئے گی اور نہ اس میں تاخیر ہوگی۔ اسی اصول کے تحت یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ موت کبھی بھی آسکتی ہے۔ کووڈ۔19نے اسی حقیقت کو محسوس کرایا ہے کہ انسان کی موت کا وقت کبھی بھی آسکتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی موت کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

موت کے لیے تیاری کیسے کی جائے؟

اللہ تعالیٰ نے موت اور حیات کو انسانوں کی آزمائش کے لیے تخلیق کیا ہے۔(ملاحظہ ہو سورہ المک: ۲)۔ہر نفس کو ایک دن مرنا ہے۔(آل عمران: ۱۸۵)۔’’رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہر حال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔‘‘(النساء: ۷۸)۔ ’’ان سے کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے ‘‘ (آل عمران: ۱۵۴)۔ ان آیات کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ موت کے معاملے میں انسان بے بس ہے۔ نہ وہ خود سے پیدا ہوا ہے اور نہ وہ یہاں ہمیشہ رہ سکے گا۔ اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس موت کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں اس دنیا میں کیسے جینا ہے؟ زندگی وقت گزارنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مہلت عمل ہے جس میں ہمیں اپنی اخروی زندگی کا ساز و سامان تیار کرنا ہے۔ ہماری آخرت کی زندگی کا سارا انحصار ِاس زندگی کی صحیح ترتیب اور حسن عمل پر ہے۔ دنیا ایک ایسا امتحان گاہ ہے جس میں ہمیں امتحان کا پرچہ تھمادیا گیا ہے اور کسی بھی وقت وہ پرچہ چھین لیا جاسکتا ہے۔ جس کو جتنا وقت ملا ہے اس وقت میں اس نے زندگی کے پرچے کو کیسے حل کیا ہے اسی پر اس کی کامیابی کا انحصار ہے۔ اس صورت حال کا صاف پیغام یہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اس حال میں گزارا جائے کہ ہم کسی بھی وقت رب سے ملاقات کے لیے تیار رہیں۔ ہماری نیتیں، ہمارے اعمال، ہمارے اخلاق ہمیں جنت میں لے جانے کے لیے مددگار ثابت ہوں۔اسی لیے حضورؐ نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، خوش حالی کو تنگ دستی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔(ترمذی)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو حیاتِ جاوادں کے لیے پیدا کیا گیا ہے لیکن اس حیاتِ جاوداں کے لیے اسے اسی دنیا میں اپنے عمل کے ذریعے ثابت کرنا ہے کہ وہ کیسی زندگی ہمیشہ کے لیے چاہتا ہے۔ جنت کی زندگی یا جنہم کی؟ اس امتحان کا خاتمہ موت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:

موت کو سمجھے ہیں غافل، اختتامِ زندگی ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی‘‘

کس حال میں رب سے ملاقات ہو؟

بندۂ مؤمن کے لیے موت کا مرحلہ رب سے ملاقات کا مرحلہ ہے۔ اسی لیے مؤمن کبھی موت سے گھبراتا نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اسی لیے یہ ہدایت دی ہے کہ ’’تم دنیا میں اس طرح رہو کہ گویا کہ تم ایک اجنبی ہو یا راہ چلتا مسافر۔‘‘(بخاری)۔ مؤمن اس دنیا کی دلفریبیوں سے مرعوب نہیں ہوتا ہے۔ اس کی نظر ہمیشہ آخرت کی ابدی زندگی پر اور رب کی خوشنودی پر ہوتی ہے۔ لیکن وہ دنیا سے غافل ہوکر جیتا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اخروی زندگی کو خوش گوار بنانے کا موقع یہی دنیا ہے۔ یہی توازن ایک مؤمن کو دنیا میں کچھ کر گزرنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے بے رغبتی بندۂ مؤمن کی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا کرنی ہے لیکن دنیا پہ مرنا نہیں ہے۔ ایمان والوں کی پہچان اللہ نے یہ بتائی کہ وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔(البقرہ: ۱۶۵)۔ اس محبت کے نتیجے میں وہ اسے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ اس کی مرضیات پر چلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس سے ملاقات کا شوق بھی رکھتے ہیں لیکن اس ملاقات کو خوش گوار بنانے اور اس کی جنت کو پانے کے حقدار بننے کے لیے مہلت عمل کا بھر پور استعمال بھی کرتے ہیں۔ جیتے جی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان اور مال کے ذریعے غیر معمولی مجاہدہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام، بالخصوص اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرات صحابہ کرام ؓ نے اللہ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے اپنی زندگیاں لگادیں تھیں۔ حضورؐ نے ہمیں اپنے اعمال ناموں کو مرنے کے بعد بھی نیکیوں سے بھرنے اور مفید بنانے کے لیے نسخے سمجھا دیے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ صدقۂ جاریہ، علم نافع اور صالح اولاد کے ذریعہ ہمیں مرنے کے بعد بھی نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی۔(مسلم، ابو داؤد)۔ جیتے جی ہمیں کچھ ایسے رفاہی کاموں کی داغ بیل ڈالنے کی ضرورت ہے جن سے آنے والی نسلیں فائدہ اٹھاتی رہیں۔ کچھ ایسا علمی کام ہم کرجائیں کہ آنے والی نسلیں ہدایت کا راستہ پاتی رہیں اور اپنی اولاد کی ایسی تربیت کر کے جائیں کہ وہ ہمارے حق میں دعا کرتی رہے اور ان کے اچھے کاموں کا صلہ ہمیں بھی برابر ملتا رہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کووڈ۔19خدائی لشکر کا ایک چھوٹا سا غیر مرئی حصہ ہے جس نے پوری دنیا کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ واحد و قہّار کی۔آج وقت ہے کہ حکومتیں اپنی غلط پالیسیوں سے باز آجائیں، انسانوں کے مابین تفریق و امتیاز کو ختم کر دیں، پوری عالمِ انسانیت اجتماعی توبہ و استغفار کرے۔ خدا کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہوں۔ جس ہستی نے یہ وبائی صورت حال پیدا کی ہے وہی اس کے خاتمے پر بھی قادر ہے۔ توقع ہے کہ مشکل کے بعد اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ انسانوں پر رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور ان آزمائشی حالات کو خوش گوار حالات سے مبدل فرمادے۔آمین

(مضمون نگار معاون سکریٹری حلقہ، جماعت اسلامی ہند ،کرناٹک ہیں)