الاخوان المسلمون کے رہنما ڈاکٹر عصام العریان کی رحلت

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

بشریٰ صدیقی

بڑے آدمی تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں اور تاریخی واقعات پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں اس لیے ان کے تذکرے کا بھی وہی مقصد ہونا چاہئے جو قرآن تاریخی قصوں کو سنانے کا مقصد قرار دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ائے نبی! یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کرتے ہیں ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم ملا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی (ہود 120)
اس نظریے کے ساتھ بڑے آدمیوں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی معمہ یا معجزہ نہیں ہوتے بلکہ ہماری طرح کے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں لیکن وہ عزم و حوصلے کا پہاڑ ہوتے ہیں جن سے ٹکرا کر باطل طاقتیں پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت تھی اخوان المسلمون کے قائد عصام العريان کی جو قید کی حالت میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ موصوف کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات مل پائی ہیں لیکن جو بھی ملیں اسکا ہر پہلو حوصلہ، جرات ،ہمت، ثابت قدمی سے پُر ہے۔
عصام العریان 28 اپریل 1954 کو مصر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کے والد محمد حسین العریان ایک استاد تھے۔ گاؤں کے عام لوگوں کی طرح ان کی بھی پرورش دیہی ماحول میں ہوئی۔
1972 میں یونیورسٹی کے زمانے میں وہ قصر عینی کے کالج آف میڈیسن میں فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس آف میڈیسن کی کلچرل کمیٹی کے سکریٹری رہے پھر مصری یونیورسٹیوں کے طلباء کی جنرل یونین کے صدر بنے۔ 1974 میں اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی اور اخوان المسلمون کے خاندانوں کی تشکیل میں حصہ لیا۔ وہ ایک ڈاکٹر کے ساتھ سیاست دان بھی تھے۔ انہوں نے1977 میں قاہرہ یونیورسٹی میں اسکول آف میڈیسن سے اعزازی طور پر گریجویشن کیا۔ عصام العریان طب کی تعلیم حاصل کرنے پر مطمئن نہیں تھے اس لیے انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے قانون اور تاریخ کی ڈگری حاصل کی اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے لیے الازہر یونیورسٹی میں اسلامک لاء اسٹڈیز میں داخلہ لیا۔ پھر جنرل یونین آف اسلامک ایسوسی ایشنز اور گروپس کی شوریٰ کونسل کے ناظم بنے۔ انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے 1986 میں پتھالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے علوم اسلامیہ میں بیچلر اور الازہر یونیورسٹی سے بالترتیب 1999 اور 2000 میں بیچلر آف ہسٹری بھی حاصل کی۔ عصام العریان نے قاہرہ یونیورسٹی میں میڈیکل ڈاکٹریٹ کے علاوہ اسی یونیورسٹی میں کامن لاء کی ڈگری کے لیے داخلہ لیا۔ ایک ڈگری وہ قید کی وجہ سے مکمل نہیں کر پائے۔ 1986 میں مصری میڈیکل سنڈیکیٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن منتخب ہوئے۔ عصام العریان مصری تنظیم برائے انسانی حقوق کے بانی رکن بھی تھے۔
عصام العریان 1970 کی دہائی میں ممتاز طالب علم اور بہترین رہنما تھے اور دیگر طلبا تنظیموں کے ساتھ مربوط تھے۔ کئی برس تک وہ اخوان المسلمون کے رکن رہے اور اخوان المسلمون کی قائم کردہ
freedom of justice کے وائس چیئرمین ہونے سے قبل اس کی رہنمائی بیورو کریسی پر کام کرتے رہے۔ انہوں نے اخوان المسلمون کے اندر ایک رہنما کی حیثیت سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا کہ اخوان المسلمون اور حسن البنا کے نظریات جمہوری اصولوں کے مطابق ہوں۔ وہ اخوان المسلمون کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ رکن پارلیمان کی حیثیت سے ضلع Imbaba سے 1987 تا 1990 تک قانون سازی کے دور میں پیپلز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس وقت وہ سب سے کم عمر رکن تھے۔عصام العریان نے 1987 سے 1990 تک مصری پارلیمنٹ میں خود مختاری سے خدمات انجام دیں۔ 1995 میں انہیں ایک غیر قانونی گروہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں پانچ سال قید کی سنائی گئی۔ الزام تھا کہ انہوں نے مصر میں اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کی تھی۔ عصام العریان نے مختلف موضوعات پر کئی مقامی، عرب اور بین الاقوامی اخبارات، رسائل اور مجلات کے لیے لکھا۔ انہوں نے اخوان المسلمون کے سیاسی کاموں سے قبل فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سکریٹری جنرل اور نائب صدر کا منصب سنبھالا، وہیں وہ گروپ کی رہنمائی بیورو کے رکن تھے۔ عصام العریان اپنے اعتدال پسند نقطہ نظر کے لیے جانے جاتے تھے اور اخوان المسلمون کے داخلی اصلاحات کے وکیل سمجھے جاتے تھے۔ 1981 سے 2013 تک وہ متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیل چکے تھے۔
مصر کے فرعون حسنی مبارک کے صدارت سے استعفیٰ کے بعد جیل سے رہا ہوئے اور الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ جبکہ 2013 میں جنرل السیسی کے مارشل لاء کے بعد دوبارہ قید کر دیے گئے۔ یہ ان کی اخری گرفتاری تھی۔
قید میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے 13 اگست 2020 کو روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
مصری عوام محمد مرسی کے بعد دوسرے عظیم رہنما سے محروم ہو گئے۔ امت نے ایک اسلامی سیاسی تعلیمی وکلاء میں سے ایک کو کھو دیا۔
بہترین لوگوں کے تعلق سے جو احادیث ہم تک پہنچتی ہے ان سے اسی خیال کی تائید ہوتی ہے۔
1- تم میں بہترین وہ ہے جسے دیکھ کر خدا یاد آجائے۔(ابن ماجہ)
2- تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی قوم کی طرف سے مدافعت کرے جب تک کہ وہ اس مدافعت میں گناہ کا مرتکب نہ ہو۔ (ابوداؤد)
3- بہترین لوگوں میں سے ایک شخص وہ ہے جو خدا کی راہ میں سرگرم رہے چاہے گھوڑے کی پیٹھ پر یا اونٹ کی پیٹھ پر یا پا پیادہ ہی، یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔(نسائی)
دیکھا جائے تو ان اخوانی رہنماؤں میں جو شہید ہوئے اور جو ابھی جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں انہوں نے ان احادیثوں کو صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ موت آجانے تک ان کا عملی نمونہ بنے رہے اور دنیا میں طاغوتی نظام چلانے والوں کے دانت کھٹے کرتے رہے۔ جنت کی طلب میں اس جہاں کی لذتوں کو ٹھوکر مار کر آگے بڑھے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
ایسا لگتا ہے وہ کہ رہے ہوں ۔۔۔
تم میرے ہاتھوں میں بیڑیاں ڈال دو تاکہ میں اپنے سینے کی پیاس کو کوڑے کے ذریعے بجھاؤںمیرے تخیل کی پرواز کی استطاعت تم رکھ ہی نہیں سکتے یا میرے ایمان کی اور میرے یقین کی روشنی کی استطاعت تم نہیں رکھ سکتے
روشنی میرے دل میں ہے، میرا دل میرے رب کی مٹھی میں ہے اور میرا رب میری مدد کرنے والا ہے اور وہی میرا مددگار ہے۔ اور میں اپنے دین کے احیا کے لیے مسکراتے لب کے ساتھ جان دے دونگا۔
لوگ گزر جاتے ہیں لیکن ان کا مشن باقی رہتا ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے ائے دین حق کے علمبردار! اللہ آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔۔
ہم ان کے قاتلوں سے کہتے ہیں۔۔ اگر زمین میں انصاف نہ ہوا تو یہ نہ سمجھو کہ تم بچ گئے آخرت میں ضرور انصاف ہوگا جہاں تم اپنے پیاروں کو فدیے میں دے کر بچنا چاہو گے تو بھی نہیں بچ پاؤ گے کیونکہ "ان بطش ربک لشدید” در حقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
***