گھر کی اصلاح: غیر اسلامی رسوم

ابو سلیم محم عبدالحئی ؒ

آپ کا دوسرا کام اپنے گھر کی اصلاح ہے۔ اس اصلاح کا مختصر مطلب یہ ہے کہ آپ گہری نظر ڈال کر دیکھیں کہ آپ کے گھروں میں کتنی باتیں اسلام کی ہدایات اور خدا اور اس کے رسول ؐ کے احکام کے خلاف ہورہی ہیں۔ اس اعتبار سے آپ دیکھیں گے تو بڑی آسانی سے آپ کے گھروں میں سینکڑوں غیر اسلامی باتیں مل جائیں گی۔ سب سے پہلے آپ رسموں پر غور کریں۔ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک بیسیوں موقعوں کے لیے ہزاروں رسمیں مقرر ہیں جن میں سے تقریباً سب کی سب غیر اسلامی ہیں اور بہت سی تو خلاف اسلام بلکہ کھلی ہوئی مشرکانہ اور کافرانہ رسمیں ہیں۔ پھر ان رسموں نے کچھ اس طرح جڑ پکڑ رکھی ہے کہ وہ آپ کے گھروں کے لیے ایک مستقبل شریعت بن کر رہ گئی ہیں۔ قدم قدم پر ان کا پاس و لحاظ کیا جاتا ہے انہیں چھوڑدینا معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان کے خلاف اگر کوئی کچھ کہے تو ایسی باتوں کو سخت نا پسند کیا جاتا ہے۔
جب آپ نے اسلام کی راہ پر قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی زندگی کو اسلامی زندگی بنانے کے لیے تیار ہوئی ہیں تو آپ کو بڑی توجہ کے ساتھ اپنے گھروں کو ان رسموں سے پاک کرنا ہوگا۔ اس کام کے لیے مناسب تدبیر اور حکمت کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور اس گندگی کو دور کرنے کے لیے کچھ دنوں تک مسلسل کوشش کرنا چاہیے۔ ایک دم اصلاح کر ڈالنے کی کوشش ممکن ہے کہ مفید نہ ہو اور آپ خدا نخواستہ ہمت ہار بیٹھیں۔ اس اصلاح کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو وہ جس کا تعلق براہ راست خود آپ کی ذات سے ہے۔ دوسرا وہ جس کا تعلق دوسروں سے ہے۔ اصلاح کا ارادہ کرلینے کے بعد ان دونوں پہلووں کو گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ کچھ بھی نہیں کرسکیں گی۔ بہت سی خواتین کچھ اس طرح سوچتی ہیں کہ ہم نے اس رسم کو چھوڑ بھی دیا تو کیا ہوگا جب تک دوسرے صلاح کے لیے آمادہ نہ ہوجائیں اصلاح کا کام کیسے ہوسکتا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی یا تو وہ پہلے قدم پر مایوس ہو کر بیٹھ جاتی ہیں کیونکہ سب کو یکبارگی اصلاح کردینا ان کے بس کا کام نہیں ہوتا یا پھر وہ اصلاح رسوم کے جہاد پر کمر باندھ کر دوسروں کو وعظ و نصیحت پر اتر آتی ہیں اور جب بہت جلد انہیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کوئی ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ الٹا انہیں کو نکو بنایا جارہا ہے تو وہ جھنجھلاہٹ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاتی ہیں اور سوڈے کی بوتل کے جھاگ کی طرح ان کا جذبہ دب کر ختم ہوجاتا ہے۔ بلکہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی مایوس خواتین پھر ایسی الٹی باتیں کرنے لگتی ہیں کہ جن کو سن کر رسموں کی پابندی کرنے والی خواتین اپنے غلط طریقوں پر کچھ اور زیادہ مضبوط ہوجاتی ہیں اور اصلاح کا کام دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔
سب سے پہلے آپ اصلاح کے اس پہلو کو اختیار کریں جس کا تعلق خالص آپ کی ذات سے ہے۔ رسمیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف قسم کی ہو سکتی ہیں۔ کچھ رسمیں تو ایسی ہیں جو کھلی ہوئی اسلام کے خلاف ہیں۔ کسی میں شرک کا لگاؤ پایا جاتا ہے تو کسی میں کوئی کافرانہ بات موجود ہے۔ مثلاً ناچ ، گانا، باجا، قوالی، چڑھاوے، اللہ کے سوا دوسروں کے نام کی نذر و نیاز، ٹونے ٹوٹکے اور گنڈے وغیرہ۔ اس قسم کی رسموں کو پہچاننے کے لیے آپ اپنا علم بڑھائیں اور یہ قابلیت پیدا کرتی رہیں تاکہ آپ اسلام اور غیر اسلام میں بہت اچھی طرح تمیز کرنے کے قابل بن جائیں۔ اس قسم کی رسموں کے بارے میں آپ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ آپ خود انہیں ایک دم چھوڑدیں اور کسی قیمت پر انہیں کرنے کے لیے تیار نہ ہوں کیونکہ جب معاملہ اسلام اور غیر اسلام کا ہوتو پھر آپ کو غیر اسلام پر عمل کرنے کے لیے بہانے تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کا کام تو فوراً توبہ کرنا ہے۔ جو کچھ ہوچکا اس پر نادم اور شرمسار ہونا ہے اور آئندہ کے لیے ان سب کاموں سے بچنے کا عہد کرنا ہے۔ اس کے سوا آپ کے لیے کوئی درمیانی راہ ممکن نہیں۔ ایک طرف اسلام پسندی کا دعویٰ اور دوسری طرف خلاف اسلام باتوں سے چمٹا رہنا کسی ایسے شخص کا کام ہی نہیں ہے جس نے سوچ سمجھ کر اسلام کی راہ اختیار کی ہو اور جسے آخرت کی زندگی پر پورا پورا یقین ہو اور جو اللہ کی رضا کو اپنا مقصود ٹھہرالے۔
اس کے بعد اصلاح کا وہ پہلو آتا ہے جس کا تعلق دوسروں سے ہے اوپر بیان کی گئی ہوئی رسموں کے سلسلے میں دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں آپ کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ پہلے پوری کوشش کیجیے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کا ایمان، آخرت کی ذمہ داری اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کے جذبے کو ابھار کر انہیں اسلام کے خلاف کاموں کے کرنے سے روکا جائے ۔ روکنے میں طنز اور اعتراض کا پہلو اگر آجائے گا تو کوئی کام نہ بنے گا۔ اگر سمجھانے کا انداز ایسا ہوا کہ سننے والا یہ سمجھے کہ آپ اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں کچھ بہت اونچا بنارہی ہیں تو اس کا شیطان اسے بھلی بات کے سننے سے روک دینے میں آسانی کے ساتھ کامیاب ہوجائے گا۔ آپ کے انداز میں خلوص ہمدردی اور محبت ہونا چاہیے سننے والا سمجھ لے کہ آپ اسے خالص اس کے فائدے کے لیے کوئی بات بتارہی ہیں اسے اللہ کی ناراضگی سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں، آخرت کے عذاب سے اسے نجات دلانا آپ کا مقصد ہے اس طرح پوری حکمت اور پوری ہوشیاری کے ساتھ مناسب طریقے اور مناسب موقع پر آپ ان رسموں کے روکنے کی کوشش کریں۔ مناسب طریقے سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی کو موقع بے موقع نہ ٹوکیں بلکہ تنہائی میں یا کسی اور مناسب طریقے پر اسے بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ مناسب موقع کا مطلب یہ ہے کہ آپ وقت سے پہلے اسے سمجھائیں، ایسا نہ ہو کہ جب دروازے پر ناچ شروع ہوجائے، آتش بازی چھوٹنے لگے اور بھانڈ اور قوال سرپر سوار ہوجائیں تو آپ اپنا وعظ شروع کریں تاکہ اگر آپ کی بات کا اثر ہوتو سننے والے کو اس کے مطابق عمل کرنے میں خاص قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسے سمجھانے بجھانے کے نتیجے میں اگر کوئی اصلاح ہوجائے تو اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو ایک برائی روکنے کی توفیق عطا فرمائیں اور اگر خدا نہ کرے کہ جہالت و غفلت کی وجہ سے آپ کی بات کا اثر نہ ہوتو آپ خود ایسے تمام موقعوں کی شرکت سے پرہیز کریں جہاں اس قسم کی خلاف اسلام رسمیں انجام دی جارہی ہوں۔ چاہے معاملہ آپ کے کیسے ہی قریبی عزیز کا کیوں نہ ہو اور چاہے آپ کے اپنے گھر میں یہ سب کچھ کیوں نہ ہورہا ہو۔ لیکن ایک بات کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ آج کل کے بگڑے ہوئے مسلمان ایسے نہیں ہیں کہ ان سے بالکل تعلق ختم کرلیا جائے اس طرح کوئی اصلاح کا کام نہیں ہوسکے گا۔ اصلاح کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح صحیح اندازہ لگائے کہ کس حد تک اسے کٹنا ہے اور کس حد تک اسے جڑنا ہے۔ آپ کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپ ایسے تمام موقعوں سے دور رہیں جن میں خلاف اسلام رسمیں ہورہی ہوں لیکن ان موقعوں پر ضرور ساتھ دیں جہاں آپ کی شرکت میں کوئی حرج نہ ہو۔ آپ کے عمل سے صاف صاف یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ آپ کو جو نفرت ہے وہ اس بری رسم اور خلاف اسلام کام سے ہے نہ کہ اس شخص سے۔ اس شخص کی خوشی اور رنج میں آپ شرکت کے لیے تیار رہیں۔ آپ کو اس سے نہ کوئی دشمنی ہے اور نہ نفرت اس نازک فرق کو بہت اچھی طرح سمجھ لیجیے اور دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے می اسے ہر دم سامنے رکھیے۔ آپ کے اس رویہ کے بعد توقع ہے کہ آج نہیں تو کل لوگوں کے دل نرم ہوں گے اور ان پر ہدایات کے دروازے کھل جائیں گے۔ لیکن اگر آپ نے تعلقات کو بالکل ختم کرلیا اور دوستی ملاقات اور ہمدردی کے بدلے دشمنی، نفرت اور علیحدگی اختیار کرلی تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے اصلاح کا دراوزہ خود اپنے ہاتھوں سے بند کر لیا ہے۔