مولانا ثناء اللہ امرتسری کی کتاب حدوث وید، مناظرانہ ادب کی ایک مثال

اردو ادب میں تقابل ادیان کا فروغ (قسط7)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی،علیگڑہ

تقابل ادیان پر کام کرنے والے مسلم اسکالرز و علماء کی سر زمین ہند میں ایک طویل فہرست ہے ۔ ہمارے ملک کی یہی وہ نمایاں ترجیحات ہیں جو یہاں کی تہذیب و ثقافت کو ممتاز کرتی ہیں۔ جس طرح مسلم علماء نے دیگر ادیان کا مطالعہ بغیر کسی تعصب و تنگ نظری کے کیا ہے اسی طرح بہت سے غیر مسلم مفکرین نے بھی اسلام کے تعلق سے مثبت رائے کا اظہار کیا ہے۔ یقیناً اس طرح کی خدمات ہمارے وجود، سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کو ہم آہنگ کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے وطن عزیز کو ادیان کا سنگم کہا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ مذاہب و ادیان اور افکار و نظریات کی تعدد و کثرت ہی کسی بھی جمہوری نظام اور سماجی رکھ رکھاؤ کو تقویت پہنچاتی ہے۔ چنانچہ مسلم اسکالرس نے تقابل ادیان کی تمام جہات کا احاطہ کیا ہے۔ ہندوستانی مذاہب، ہندومت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت کے علاوہ عیسائیت اور یہودیت پر بھی انتہائی اہم اور قیمتی مواد قلمبند کیا ہے۔ اس بابت جب ہم دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تقابل ادیان پر مسلم علماء کے کام کرنے کی متعدد جہات ہیں۔ مثلاً بعض علماء نے ادیان کا مطالعہ صرف اس لیے کیا کہ دیگر مذاہب کی معلومات عوام کے سامنے پیش کی جائیں تاکہ باہم غلط فہمیوں اور فاصلوں کا ازالہ ہو سکے۔ مثلاً خواجہ حسن نظامی کی معروف کتاب کرشن بیتی اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔ اس زمرے میں ایک اور ممتاز نام مولانا مناظر احسن گیلانی کا پیش کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے یہ نظریہ اور رائے قائم کی ہے کہ قرآن میں مذکور ذوالکفل در اصل عربی ہے اور اس سے مراد کپل وستو ہے جہاں مہاتما بدھ کی پیدائش ہوئی تھی۔ دوسرے یہ کہ بعض علماء نے ادیان کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اسلام سے دیگر مذاہب کی تعلیمات کا تقابل کرکے ترجیحی نکات اور امتیازی گوشوں سے عوام کو روشناس کرایا ہے۔ اس حیثیت سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی خدمات نمایاں نظر آتی ہیں۔ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی ایک تازہ تصنیف معروف اسلامی اسکالر پروفیسر سعود عالم قاسمی کی "مطالعہ مذاہب کی اسلامی روایت” کے نام سے آئی ہے۔ تقابل ادیان پر کام کرنے والوں کی ایک جہت یہ ہے کہ انہوں نے اسلام اور دیگر ادیان کے مابین مشترکہ اقدار کی تلاش کی ہے۔ متبعین ادیان و مذاہب کی توجہ نکتہ اتحاد پر دلائی ہے۔ اس سلسلے میں ناچیز کی زیر طبع کتاب "اسلام اور ہندو مت کی مشترکہ اقدار کا تجزیہ” وغیرہ شامل کی جاسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں تقابل ادیان پر مسلم باحثین نے مناظراتی خدمات بھی انجام دی ہیں اور باضابطہ اس عنوان کے تحت کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اس حوالے سے بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی، مولانا ابو الوفاء ثناءاللہ امرتسری اور مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی کا نام سر فہرست ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کا ایک قابل مطالعہ اور قیمتی رسالہ "حدوث وید” ہے۔ اس رسالے کے اندر فاضل مصنف نے ویدوں کی اندرونی شہادت سے یہ ثابت کیا کہ وید الہامی نہیں ہیں۔ اور نہ ہی قدیم ہیں جیسا کہ آریہ سماجی طبقہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے۔
اس رسالے کو مکتبہ محمدیہ کراچی نے شائع کیا ہے لیکن تاریخ اشاعت مرقوم نہیں ہے۔ البتہ قیاس یہ ہیکہ یہ رسالہ ان تاریخوں میں قلمبند کیا گیا ہوگا جب ملک کے اندر آریہ سماجی تحریک اپنے عروج پر تھی۔

سبب تالیف

مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے اپنی اس کتاب کے دیباچے میں سبب تالیف و تصنیف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
"آریوں نے جوش میں آ کر جو بت پرستی کے چھوڑنے سے فطرتاً ان میں پیدا ہوا ہے اپنے بانی کی تقلید میں بہت سے ایسے دعوے بھی کیے ہیں جن کا ثبوت ان کے ذہن کے سوا کسی جگہ نہ ہوسکے۔ مثلآ یہ دعویٰ کہ سب زبانوں کی اصل سنسکرت زبان ہے۔ اسی طرح یہ دعویٰ کہ تمام دنیا میں روشنی، ہدایت، تہذیب، ترقی وید ہی کے ذریعہ سے پھیلی ہے۔ حتیٰ کہ ریل، تار، توپ، بندوق وغیرہ آلات حرب وید ہی سے بنائے گئے ہیں۔ انہی عجوبہ قسم کے دعووؤں میں سے ایک قدامت وید کا دعویٰ بھی ہے۔ یعنی یہ کہ وید دنیا کے شروع سے ہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ ان کے ملمعوں ہی سے دنیا شروع ہوئی ہے۔ کیونکہ دنیا کے شروع میں چار رشی (اگنی ، وایو ، عادات ، انگارس) پیدا ہوئے تھے انہی پر چار وید نازل ہوئے۔ جن کو آج ایک ارب ستانوے ہزار نو سو چھیانوے برس گزرے ہیں۔ ازاں بعد تمام دنیا نے وید ہی سے روشنی اور ہدایت حاصل کی۔ ” ان تمام دعووؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا نے ’’حدوث وید‘‘ کے نام سے اس رسالے کو تصنیف کیا ہے۔

رسالہ حدوث وید پر اعتراض اور اس کا جواب

فاضل مصنف نے رسالے کے دیباچہ میں تحریر کیا ہیکہ طبع اول کے بعد اس رسالہ کے دو جواب آریہ مصنفوں نے دیے۔ ان میں ایک مصنف ’’مہاشہ یوگیندر پال آنجہانی ‘‘ ہیں انہوں نے اس رسالے کے جواب میں "قدامت وید” کے نام سے کتاب لکھی۔ اور دوسرے مصنف ’’سوامی درشنا نند جی سرسوتی‘‘ ہیں۔ انہوں نے اس رسالے کے جواب میں جواب "مباحثہ” کے نام سے اپنی معروضات قلمبند کی ہیں۔ یوگیندر پال آنجہانی نے اپنی کتاب "قدامت وید” میں اعتراض کیا کہ محمد صاحب نے فرمایا: ’’من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد‘‘ اس کا ترجمہ یوگیندر جی نے یہ بیان کیا ہے کہ جو کوئی اس دین میں عقل کو دخل دے کر نئی بات ایجاد کرے یا نئی تحقیقات کرے وہ مردود ہے۔
پھر مذکورہ حدیث کا مطلب پیش کیا کہ معقول پسندی سے اسلام اور قرآن کو نفرت ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو آ نجہانی نے بیان کیا ہے۔ بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہیکہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کوئی ہمارے دین میں از قسم عبادت کوئی ایسا کام ایجاد کرے جو دین میں سے نہیں یعنی کوئی نئی عبادت بنا دے مثلآ پانچ نمازوں کی جگہ چھ نمازیں تجویز کرے ،ایک مہینے کے روزوں کی جگہ دو مہینوں کے روزے بتلادے وغیرہ وغیرہ۔ حدیث کا مفہوم واضح ہیکہ کوئی بھی از قسم عبادت میں ایسا کام ایجاد کرے جس کی اصل دین میں نہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہے اور وہ شخص مردود ہے۔ اس حدیث کے اندر ہمیں نہ کسی ایجاد سے روکا ہے اور نہ کسی علمی تحقیقات سے منع فرمایا ہے۔ مذکورہ عبارت کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جناب یوگیندر پال کا اعتراض مذہبی تعصب اور تنگ نظری کی واضح علامت ہے۔ ایک جگہ سوامی دیانند نے اپنی کتاب ستھیارتھ پرکاش میں لکھا ہے۔
"جو لوگ ضدی متمرد اور سرکش ہوتے ہیں اور مذہب کی تاریکی میں پھنس کر عقل کو کھو بیٹھتے ہیں وہی متکلم کے خلافِ منشاء کلام کے معنی کیا کرتے ہیں۔

قدامت وید اور مولانا امرتسری

ہندو مفکرین کا یہ دعویٰ ہیکہ وید قدیم ہیں یعنی شروع دنیا سے وید کا وجود پایا جاتا ہے۔ اس دعویٰ کا بطلان مولانا امرتسری نے خود وید میں موجود منتروں سے کیا ہے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ قدامت وید کا ابطال ویدوں میں کہیں صراحتاً اور کہیں اشارتاً مذکور ہے۔ چنانچہ رگ وید ادہیائے 8 ورگ 49 منتر 2 میں مذکور ہے، اس کا ترجمہ بابو نہال سنگھ آ ریہ ساکن کرنال نے اس طرح کیا ہے۔
"اے انسانو! تم میرے بنائے ہوئے پر انصاف و بے تعصب راستی کو صفت سے موصوف دھرم پر چلو اور ہمیشہ اس پر قائم رہو، اور اس کے حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی مخالفت چھوڑ کر آپس میں ملو۔ تاکہ تمہارے درمیان اعلیٰ درجے کا سکھ ہمیشہ ترقی پاوے اور تمام دکھ مٹ جاویں۔ تم آپس میں مل کر حجت تکرار اور مخالفانہ بحث کو چھوڑ کر باہم محبت کے ساتھ بطریق سوال وجواب گفتگو کرو۔ تاکہ تمہارے درمیان سچے علوم اور عمدہ صفات بخوبی ترقی پاویں اور تم صاحب علم ومعرفت بن جاؤ ۔ تم ہمیشہ ایسی لگاتار سعی و کوشش کرو کہ جس سے تمہارے دل علم کے نور سے روشن اور آنند سے بھر پور ہوں۔ تم کو دھرم ہی پر عمل کرنا چاہئے ادھرم اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح زمانہ قدیم کے صاحب علم ومعرفت راستی شعار طرف داری و تعصب سے خالی عالم اور ایشور اور دھرم کے حکم کو عزیز جاننے والے تمہارے بزرگ تمام علوم سے ماہر اور لائق و فائق گزر چکے ہیں۔ مجھے عبادت کرنے کے لائق قادر مطلق وغیرہ صفات سے موصوف ایشور کے حکم کی تعمیل یا میرے بنائے ہوئے دھرم پر عمل کرتے رہے ہیں اسی طرح تم بھی اسی دھرم کے پابند رہو تاکہ وید میں بتائے ہوئے دھرم کا تم کو بلا شک و شبہ علم ہوجائے”
وید کے درج بالا اقتباس کی روشنی میں مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے قدامت وید کا ابطال اس طرح کیا ہے۔
"اس منتر میں ایشور حکم دیتا ہے کہ اے مخاطبو! تم اپنے سے پہلے لوگوں کی جو تمہارے بزرگ گزر چکے ہیں ان کی تابعداری کرو۔ اس لفظ سے (کہ تمہارے بزرگ گزر چکے ہیں) صاف سمجھ میں آ تا ہے کہ جس وقت وید کی تصنیف یا نزول یا (بقول آریان) الہام ہوا تھا اسوقت دنیا کی آبادی اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ بہت سے ان میں سے نیک تھے اور بہت سے بد اور ریفارمروں کو اصلاح کرتے ہوئے پہلے بزرگوں کی نظیر بتلانی پڑی تھی جیساکہ عموماً آج کل بھی ہر ایک قوم کے لیکچرار لیکچروں میں اپنے اپنے بزرگوں کے حالات سناکر ان کی پیروی کی ترغیب دیا کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں جو قصے آتے ہیں ان سے بھی یہی غرض ہے کہ بھلے آدمیوں کی چال اختیار کرو اور بروں کی روش سے بچو” گویا مولانا کا نظریہ یہ ہیکہ سابقہ بزرگوں کی روش اختیار کرنے کے حکم سے پتہ چلتا ہےکہ ویدوں سے قبل شریعتیں بھی گزری ہیں اور صحیفے بھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ وید شروع دنیا سے ہیں مناسب نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ وید کے متذکرہ بالا اس منتر میں سچائی، راست بازی، بے تعصبی، اتحاد و اتفاق اور صالح افراد کی اتباع کی دعوت دی گئی ہے آج کے ہندو حضرات کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اپنے کردار وعمل کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم دھرم کی تعلیمات کو کس حدتک اپنا رہے ہیں۔ اگر کوئی بھی ہندو مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتا ہے تو سچا اور مذہب کو دل سے ماننے والا ہندو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہندو دھرم کے مَتوں میں اس بات پر زور دیا گیا کہ باہم مل جل کر زندگی گزارنی چاہئے اور کسی کو بھی بےجا ستانا نہیں چاہئے۔ آج جو مذہب کے نام پر ڈھونگ رچا جا رہا ہے اور مذہب کے اصل ہیرو بننے کی کاوش میں ہیں در اصل وہ اپنے مذہب کی عمدہ تعلیمات کو یاتو دانستہ طور پر بدنام کررہے ہیں یا وہ اس بات سے قطعی واقف نہیں ہیں کہ ہندو دھرم کی اصل روح اور بنیادی مقصد کیا ہے۔

حدوث وید کی اہمیت

اس کتاب کے اندر مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے انتہائی علمی اور تحقیقی گفتگو کی ہے اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وید یقیناً شروع دنیا سے نہیں۔ اس مضمون میں جملہ حقائق و دلائل کو تو پیش نہیں کیا جا سکتا ہے البتہ بالائی سطروں میں مذکور وید کے اقتباس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ ویدوں کا وجود پایا جاتا ہے لیکن آریہ مفکرین و علماء کا یہ کہنا کہ وید شروع دنیا سے ہیں یا قدیم ہیں کسی حد تک درست نہیں ہیں۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ہندو دھرم کی بنیادی تعلیمات اور اس کی روح کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب نہایت مفید اور قابل مطالعہ ہے۔ خصوصاً ان محققین کے لیے جو تقابل ادیان کو اپنی قلم کی جولان گاہ بنانا چاہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ مولانا نے ویدوں کے اقتباس نقل کر کے قوم میں یکجہتی اور رواداری کا پیغام دیا ہے۔ اسی کے ساتھ کتاب سے یہ واضح ہوتا ہیکہ ہندو دھرم بھی انسانیت کی تعمیر و ترقی کا خواستگار ہے لیکن یہ خواب اسی وقت پورا ہوگا جب کہ ہندو طبقے سے وابستہ افراد اپنے مذہب پر صحیح معنوں میں عمل کریں۔
***