شاہراہِ زندگی پر کامیابی کا سفر

احمد توصیف قُدس، کشتواڑ، جموں و کشمیر

 

مصنف : محمد بشیر جمعہ
صفحات : 243
قیمت : 195روپے
ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی
مبصر : احمد توصیف قُدس، کشتواڑ، جموں و کشمیر
انسان پابند اور منظم زندگی جینے کا خواہاں رہا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں جن کی یہ ’’آرزو‘‘ پوری ہوتی ہے۔ آرزو پوری کیوں نہیں ہوتی، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ اِس مطلوب و محبوب زندگی کو جینے کے لیے ’’صحیح رہنمائی‘‘ کا فقدان ہے۔ جناب محمد بشیر جمعہ نے اِسی ضرورت کے پیشِ نظر ’’شاہراہِ زندگی پر کامیابی کا سفر‘‘ کے نام سے ایک کتاب منصہ شہود پر لائی ہے۔ محمد بشیر جمعہ پاکستان کے ایک معروف مصنف اور Motivational Speaker ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شماریات (Accounts) کے سرکاری شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن قلم و قرطاس سے خصوصی شغف ہے۔ پاکستان کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ اور دوسرے اخبارات و رسائل میں اصلاحی، معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی موضوعات پر مسلسل لکھتے رہے ہیں۔
زیر نظر کتاب کا موضوع ’’تعمیرِ شخصیت‘‘ (Personality Development) ہے۔کتاب کُل 8 ابواب پر مشتل ہے۔ ابواب ایک دوسرے سے جُڑے ہیں۔ ہر باب کی ذیل میں چھوٹے ابواب ہیں جنہیں لکھنے اور مرتب کرنے میں معروضی اور سائنسی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اپنی معروضیت اور سائنسی طرز سے کتاب کے ان ابواب میں دلچسپی چھا جاتی ہے اور یہ پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ذیل میں کتاب کے ابواب پر ایک اجمالی تعارف پیش ہے:
٭…وقت کی اہمیت:
’’ وقت کی اہمیت‘‘ کے اس موضوع کو اگرچہ ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں اور ہمیں اس سے اس قدر آگاہی و آشنائی بھی ہے کہ اس کے اصول و مبادی ہمیں ازبر ہوتے ہیں۔ لیکن مسئلہ ہے اس کی ہماری زندگی میں عملی تنفیذ کا۔ ہم میں سے اکثر اگر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی پر نظر دوڑائیں تو پائیں گے کہ ہماری ذات سے ’’وقت‘‘ کی کس قدر ’’بے حرمتی‘‘ ہوتی ہے۔ تضیع اوقات، ٹال مٹول، سستی، کاہلی اور ایسے ہی درجنوں نفسیاتی امراض آج ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ نتیجتاً ہماری زندگی ’’کامیابی کی شاہراہ‘‘ سے کوسوں دور ہے۔ کتاب کے اس باب میں اولاً وقت کی اِس بے قدری پر مرثیہ خوانی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں وقت کی قدر و قیمت اجاگر کر کے انسانی زندگی کو وقت کا پابند بنانے کا ایک عمدہ اور قابلِ عمل خاکہ بھی زیرِ نظر باب میں شامل ہے۔
٭…انفرادی منصوبہ بندی اور کیریئر پلاننگ:
ماہرین نے ’’پلاننگ‘‘ کو کسی بھی عمل کی ’’ریڑھ کی ہڈی“ قرار دیا ہے۔ یوں تو ہم اپنے ہر کام اور عمل میں پلاننگ کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اِس پلاننگ کو ترتیب دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ آیا یہ ’’پلاننگ برائے پلاننگ‘‘ ہے یا اِسے کافی و غور و خوض اور سائنسی و منطقی اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر ترتیب دیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا کہ انسان پلاننگ تو کرتا ہے لیکن کیا یہ پلاننگ انسان کے ذوق و شوق اور اُس کی صلاحیتوں کے عین مطابق ہوتی ہے یا پھر چند معاشرتی عناصر اور دباؤ سے متاثر ہو کر اِسے مرتب کیا جاتا ہے۔ انسان کو زندگی میں معاش کمانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے وہ کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے۔ اُس پیشے کو اختیار کرنے اور احسن طریقے سے عملانے کے لیے ’’پلاننگ‘‘ ناگزیر ہوتی ہے۔بالفاظِ دیگر انسان کو مستقبل کے لیے راہیں خود متعین کرنی پڑتی ہیں۔ کتاب کے اِس باب میں اِن سب باتوں پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
٭…مؤثر شخصیت:
انسان کو اپنی زندگی میں کئی چیزیں متاثر کرتی ہیں۔ وہ اِن چیزوں سے اثر لے کر اپنی زندگی کو ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے ممیز و ممتاز کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ وہ اپنے وجود سے دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اُس کی شخصیت میں تفرد ہونا اُس کے لیے ایک ضرورت بن جاتا ہے۔ زیر نظر باب میں انسان کی شخصیت کو گوناگوں خوبیوں سے مالامال کرنے کے گُر سکھائے گئے ہیں۔ ایک متوازن اور متاثر کُن شخصیت کے خدوخال سمجھائے گئے ہیں۔ شخصیت کے لیے کون سی چیزیں تباہ کُن ہیں، اس پر سے بھی پردہ اُٹھایا گیا ہے۔
٭… فنِ گفتگو:
انسان کو اللہ تعالیٰ نے ’’بیان‘‘ کی قوت سے سرفراز کر کے اپنی دیگر خلقت سے ممتاز بنا دیا ہے۔ یہ انسان کا ایسا وصف ہے کہ اِسی کے ذریعہ سے وہ کامیابی کی بلندیوں کو چھوتا ہے اور اسی کے توسط سے بعض اوقات وہ ذلت و پستی کا شکار بھی ہوتا ہے۔ گفتگو کے اِس فن کو سیکھنا اور اِس کی باریکیوں کا سمجھنا کسی بھی کامیاب انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ انسان مختلف مواقع پر مختلف نوعیتوں کی گفتگوئیں کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دفتری اوقات اور گھریلو اوقات میں کی جانے والی گفتگو میں فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ انسان کے لیے فنِ گفتگو میں مہارت حاصل کرنا ناگزیز بن جاتا ہے اور آج کل تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور روز بروز نئے اندازِ گفتگو متعارف ہوئے جا رہے ہیں۔ انسان کو یہ سب چیزیں سیکھنا مطلوب ہوتی ہیں۔ مصنف نے کتاب کے اس باب میں ان ہی باتوں کو خصوصیت کا مرکز بنا کر کچھ رہنما اصول فراہم کر دیے ہیں۔
٭… اجتماعی و دفتری زندگی:
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ انسان اور اجتماعیت دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ انسان اجتماعیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اب سوال ہے کہ اس اجتماعیت میں انسانی زندگی کیسے صرف ہو؟ ظاہر ہے کہ اس کے بھی اپنے قاعدے اور قوانین ہوں گے اور ہر معاشرے اور ملک میں اجتماعیت کے الگ الگ قوانین ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی پر اجتماعیت کے اثرات اور اس کے اصول و مبادی، ان سب پہلوؤں پر اس باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ دفتری زندگی کو بطور مثال پیش کر کے اجتماعیت کے موضو ع پر مدلل و مفصل کلام کیا گیا ہے۔
٭…عملی میدان میں کامیابی:
ماہرین نفسیات کے مطابق انسانی زندگی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک زندگی اُس کے خیالات و نظریات پر مبنی ہوتی ہے جس کا خاکہ اُس کے ذہن میں ہر وقت گردش کرتا ہے۔ دوسری اُس کی عملی زندگی ہوتی ہے جسے وہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں عملی طور جیتا ہے۔ ان دونوں حیثیتوں اور کیفیتوں میں فرق ہے اور دونوں کیفیتیں انسان کی کامیابی کے لیے یکساں ضروری ہیں۔ لیکن انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اُس کی عملی زندگی کا خاص عمل دخل ہوتا ہے۔ وہ خیالی طور پر اس دنیا کا مالک بن سکتا ہے لیکن عملی میدان میں اُس کی حیثیت ایک کمزور شخص کی سی ہوتی ہے۔ اِنسان عملی میدان میں کیسے کامیابی حاصل کر سکتا ہے؟ زیرِ نظر باب میں یہی سب کچھ سکھانے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
٭… انفرادی صلاحیتیں:
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی ہُنر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کوئی بھی انسان اِس دنیا کے لیے ’’بھوج‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں۔ بلکہ ہر انسان کسی نہ کسی حیثیت میں سماج میں اپنا ایک اثر قائم کر سکتا ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنا ہُنر پہچانے اور بعد ازاں اُس ہنر کی آبیاری بھی کرے۔ اِس باب میں اِسی اہم نکتہ پر بحث کی گئی ہے۔
٭… فارمز اور چارٹس کے ذریعے اپنی ذات کی تنظیم
یہ کتاب کا آخری باب ہے۔ اس میں زندگی کو مربوط و منظم کرنے کے کچھ زریں اصولوں سے واقفیت بہم پہنچائی گئی ہے۔ مختلف چارٹس کو متعارف کیا گیا ہے جس کا ہم اپنی زندگی میں روزآنہ استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ سبھی چارٹس قابل عمل و قابلِ اتباع ہیں۔ ان پر پابندی سے عمل کیا جائے تو غیر ممکن نہیں کہ ہماری زندگی میں ایک غیر معمولی نظم و ضبط قائم ہو جائے۔
’’شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر‘‘ نامی یہ کتاب پہلے پاکستان میں سن 1995 میں شائع ہوئی۔ اپنی اشاعت سے لے کر آج تک اِس کے کئی ایڈیشن سامنے آ چکے ہیں۔ صبیح محسن نے The Highway to Success کے نام سے کتاب کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات اِس قدر اہم ہیں کہ انہیں ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’’صبح پاکستان‘‘ سے نشر کیا جا چکا ہے۔ کتاب کی مقبولیت کے پیشِ نظر ہندوستان میں 2016 میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرس، نئی دہلی نے بھی اِس کتاب کو شائع کرنے کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ہندوستانی ایڈیشن کی یہ کتاب ۲۴۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت 195 روپے ہے۔ ہندوستان میں متذکرہ پبلشرس سے رابطہ کرکے کتاب منگوائی جا سکتی ہے۔
[email protected]

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020