’’وید اور اس کی قدامت‘‘

علمی اور تحقیقی نہج پر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی ایک اہم کتاب

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی (1875-1938) مستند مصنف، سوانح نگار اور معروف تاریخ نویس ہیں۔ انہوں نے کئی اہم کتب تدوین وترتیب دی ہیں جو آج بھی ان کےعلمی رتبہ پر بین ثبوت ہیں۔ ان کی کچھ تصانیف درج ذیل ہیں:
تاریخ اسلام، تاریخ نجیب آباد، جنگ انگورہ، نواب امیر خان، گائے اور اس کی تاریخی عظمت، وید اور اس کی قدامت، ہندو اور مسلمانوں کا اتفاق اور آئینہ حقیقت نما وغیرہ وغیرہ۔ اس مضمون میں ان کی ایک اہم کتاب ’’وید اور اس کی قدامت‘‘ پر گفتگو مقصود ہے۔ اس کتاب پر تحشیہ و اضافہ سید حامد علی نے کیا ہے۔ آخر میں باقاعدہ ایک مقالہ کا بھی اضافہ ’’وید کیسے وجود میں آئے‘‘ کیا ہے۔ کتاب کی طرح سید حامد علی کا حاشیہ بھی بیش قیمت اور علمی نکات سے مملو ہے۔ تحشیہ و اضافہ کی ترتیب کے بعد کتاب کی ضخامت 95 صفحات پر مشتمل ہے۔ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے اس کتاب کو 1925 میں شائع کیا تھا۔ اسی مطبوعہ نسخہ کو مد نظر رکھ کر سید حامد علی نے اس پر تحشیہ و اضافہ کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں جوکہ سید حامد علی نے ہی رقم کیا ہے۔ تحریر کرتے ‘‘وید اور اس کی قدامت‘‘ کا 1925 کا مطبوعہ نسخہ پیش نظر ہے راقم الحروف نے نہ صرف یہ کہ طباعت کی غلطیاں درست کیں بلکہ کہیں کہیں ایک آدھ لفظ کے ردو بدل سے عبارت کا جھول بھی دور کیا۔ کثرت سے توضیحی، تائیدی اور تصحیحی حواشی لکھے اور آخر میں ‘‘وید کیسے وجود میں آئے‘‘ کے عنوان کے تحت 25-26 صفحات کے ایک مقالے کا اضافہ کیا۔ اس طرح کتاب کی ضخامت تقریباً چوگنی ہوگئی۔ افادیت میں جو اضافہ ہوا، اس کا اندازہ مطالعہ کے بعد ہو سکے گا، اللہ تعالیٰ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور مصنف اور مرتب کو اپنی مغفرت سے نوازے۔ اس وقت راقم کے سامنے جو نسخہ ہے وہ 1969 کا مطبوعہ ہے۔ اس کی اشاعت دفتر ادارہ شہادت حق 2503 بارہ دری شیر افگن ، بلیماران دہلی سے ہوئی ہے۔
سبب تالیف
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے سبب تالیف کے متعلق لکھا ہے۔ ”ہمارے ملک میں آریوں کے ایک نو عمر مذہبی فرقے نے اپنے آپ کو ویدوں کا صحیح اور حقیقی متبع ظاہر کر کے ویدوں کی قدامت اور ازلیت کا دعویٰ نہایت بلند آہنگی سے کیا اور گزشتہ صدی سے ہندوستان میں مذہبی مباحثوں اور مناظروں کا بازار گرم کر کے بسا اوقات ہندوستانی قوموں کے امن و سکون میں خلل ڈالا۔ ویدوں کی قدامت اور ازلیت کو ثابت یا رد کرنے کی کوشش میں آریوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی جانب سے بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ، بہت سے مناظرے ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کہ مذہبی تعصب اور بے جا طرف داری سے مجتنب رہ کر علمی اور تحقیقی رنگ میں اس موضوع پر ایک مضمون لکھنے کی گنجائش ابھی باقی ہے۔ 1916 میں، مَیں نے قدامت وید کے دعاوی کی جانچ پڑتال کے لیے کچھ مواد فراہم کیا تھا، آج اسی کو مرتب کرکے اسے رسالہ کی شکل میں پیش کرتا ہوں‘‘
درج بالا اقتباس کی رو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ زیر تبصرہ رسالہ آریہ سماج کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات کا علمی جواب ہے جو انہوں نے اسلام کے حوالے سے کیے تھے۔ یہاں مولانا نے ایک بات بڑی قیمتی فرمائی ہے وہ یہ کہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا رد سنجیدگی اور متانت سے دینے کے ساتھ ساتھ علمی طریقہ اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔ جذبات میں آ کر بسا اوقات معاملہ الٹ جاتا ہے اس لیے سنجیدہ اسلوب اور علمی دفاع سے ہی معترضین و معاندین کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اسی طریقے کو تمام اہل علم نے پسند کیا ہے۔
مباحث کتاب
اس کتاب میں درج ذیل عناوین کے تحت انتہائی جامع اور علمی گفتگو کی گئی ہے۔ پیش لفظ (یہ اضافہ ہے سید حامد علی کا) تمہید، قدامت وید کے دعوے پر نظر، آریہ لوگ ہندوستان کے قدیم باشندے نہیں ہیں، سنسکرت اور فارسی زبان کا تعلق، قدامت وید کے دعوے کا کوئی موئید نہیں، وید اپنی نسبت کیا کہتے ہیں؟ کیا ویدوں کی تعلیم ہر زمانہ کے لیے دستور العمل بن سکتی ہیں، وید مجوسیوں کی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ وید کیسے وجود میں آ ئے (اس مقالے کا اضافہ سید حامد علی نے کیا ہے)۔یقیناً مباحث کتاب اس بات پر دال ہیں کہ یہ کتاب علمی اور تحقیقی نہج پر مرتب کی گئی ہے۔
ہندوستان کے قدیم باشندے
یہ نکتہ بہت ہی اہم ہے اس مسئلہ پر آئے دن بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے کون ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ آریہ ہندوستان کے قدیم باشندے ہیں برعکس اس کے بعض دیگر باحثین نے اس بات سے انکار کیا ہے اور ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑی قوم کو بتایا ہے۔ مسلم مفکرین کے علاوہ خود ہندو مصنفین و مورخین نے بھی اس بات سے اتفاق نہیں کیا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے آر یہ ہیں۔ جیسے ڈاکٹر رادھا کرشنن نیز ڈاکٹر ڈبلیو ہنٹر کی تحقیق کے مطابق ہندوستان کے قدیم باشندے آریہ نہیں ہیں۔ چنانچہ اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس بابت مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی کیا رائے ہے بایں معنی وہ رقم کرتے ہیں۔
’’دنیا بھر کے مورخین میں شاید اس سے بڑھ کر کوئی متواتر اور متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے کہ کسی ابتدائی زمانے میں ایک قوم وسط ایشیا اور دریائے جیحون کے کنارے رہتی تھی۔ اس قوم کا ایک حصہ مشرق کی جانب چلا آیا اور کوہ ہندوکش کی وادیوں کو طے کرکے ہندوستان میں داخل ہوا، یہاں کے باشندوں کو مفتوح اور مغلوب کر کے سکونت اختیار کی اور آریہ کے نام سے موسوم ہوا۔ سیامک، جس کو ایرانی اپنا ایک پیغمبر مانتے تھے اس کا دوسرا نام پارسا تھا، اس کے نام پر ایران کا نام پارس ہوا، سیامک کے بعد ہوشنگ کو پیغمبری ملی، ہوشنگ کا دوسرا نام ایران شاہ بھی تھا، لہذا فارس کا دوسرا نام ایران مشہور ہوا اور اس ملک کے رہنے والے ایرانی یا ایرین یا آریہ مشہور ہوئے۔ دوسری روایت لفظ آریہ کی تحقیق میں یہ ہے کہ فرایدون نے اپنے مقبوضہ ممالک کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اپنے تینوں بیٹوں کو اس طرح سپرد کیا کہ شمال و مشرقی حصہ تورج کر دیا جہاں تورج اور اس کی اولاد عرصہ دراز تک حکمران رہی، اس ملک کا نام توران مشہور ہوا۔ مغربی حصہ سلم کو دیا اور درمیانی حصہ جو سب سے زیادہ بہتر اور متبرک حصہ ملک سمجھا جاتا تھا، سب سے چھوٹے بیٹے ایرج کو دیا، ایرج کے نام سے ایران مشہور ہوا اور اس ملک کے رہنے والے ایرانی ایرین یا آ ریہ کہلائے۔ تیسری روایت یہ ہے کہ آریہ مصدر آر سے نکلا ہے جس کے معنی قدیم سنسکرت زبان میں (ہنٹر اور میکس مولر کے قول کے مطابق) کاشتکاری اور زمین پھاڑنے کے ہیں لہذا آریہ کے معنی کاشتکار کے ہوئے۔
آر چمڑا سینے کے اوزار اور بیل ہانکنے کے ڈنڈے کو بھی کہتے ہیں جس کے معنی سرے پر نوکدار کیل لگی ہوتی ہے لہذا آریہ کے معنی ہوئے چمڑا سینے اور بیل ہانکنے والا ہوئے‘‘ متذکرہ بالا شواہد اس بات کی ببانگِ دہل شہادت دے رہے ہیں کہ ہندوستان کے قدیم باشندے آریہ نہیں ہیں۔ فاضل مصنف نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں مشہور مورخ اور ہندوستان کے گزیٹر مرتب کرنے والے ڈاکٹر ڈبلیو ہنٹر کی کتاب ’’تاریخ اہل ہند‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ہنٹر کو خود آریہ سماجی بھی مستند مورخ تسلیم کرتے ہیں۔
’’نہایت قدیم زمانے میں ایک اعلیٰ درجہ کی قوم شمال و مغرب کی جانب سے اصلی باشندوں کو زک دے کر ہندوستان میں داخل ہونا شروع ہوئی، یہ قوم آریہ نسل سے تھی۔ برہمن، راجپوت اور انگریز اسی ( آریہ قوم) کی اولاد ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل میں وسط ایشیا سے آئی تھی اور اسی مرکز (وسط ایشیا) سے چند شاخیں مشرق اور چند مغرب کو روانہ ہوئیں۔ آریہ نسل کی شاخیں وسط ایشیا کے اصلی مرکز سے، جو ان کا قدیمی گھر تھا مشرق کی جانب گئیں اور ان کے زبردست گروہ ہمالیہ کے دروں میں ہو کر پنجاب میں داخل ہوئے اور تمام ہند میں بالتخصیص برہمن اور راجپوت کے نام سے پھیل گئے۔ آریہ قوم مشرقی نیز مغربی شاخ نے اصل باشندوں کو جو اس سر زمین پر قابض تھے، ماتحت کرلیا اور ہر طرح پر اپنی فضیلت ان پر قائم کی‘‘ تصور کیجیے کہ ان حقائق و شواہد کے بعد کوئی یہ دعویٰ یقین سے کرسکتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے آریہ ہیں۔ مورخین نے ایک نہیں بلکہ سیکڑوں دلائل پیش کیے اور بتایا کہ آریوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں ایک اور قوم آباد و سکونت پذیر تھی۔
ویدوں کی تعلیمات آفاقی ہیں؟
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے اپنی اس کتاب میں ایک انتہائی اہم مسئلہ اٹھایا ہے کہ کیا ویدوں کی تعلیمات ہر دور اور زمانہ کے لیے لائق اتباع اور دستور العمل ہیں؟ اس بابت بہت سے ہندوؤں خصوصا آریہ سماجیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وید ہر زمانے کے لیے آفاقی اور قابل عمل ہیں۔ اس کے متعلق مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی تحقیق ہندوؤں کے اس دعویٰ کا بطلان کرتی ہے۔ انہوں نے خود علماء ہنود کی آراء سے اس بات کو ثابت کیا ہے ویدوں کی تعلیمات وارشادات آفاقی نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’اب اس بات کی تحقیق مقصود ہے کہ ویدوں میں ایسی تعلیم موجود ہے یا نہیں جو ہر زمانے کے لیے انسانی زندگی کا دستور العمل بن سکے۔ مذہب کی اصل غرض اور اس کا انتہائی اثر جو دنیا میں مشہور و محسوس ہوسکتا ہے وہ تہذیب نفس اور تربیت اخلاق ہے۔ وہ کتاب جو انسانی زندگی کے لیے دستور العمل ہو، اس میں خدا شناسی، عبادات، معاملات، معاشرت اور تمدن کے اعلیٰ اور پختہ اصول ہونے چاہئیں لیکن ویدوں میں ٹٹولنے سے اس قسم کے قوانین جو اس زمانے میں کسی معمولی انسان کی بھی تسکین خاطر کو موجب ہو سکیں دستیاب نہیں ہوتے‘‘ سید حامد علی نے اس کے ذیل میں جو حاشیہ درج کیا ہے وہ بھی انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے ہندو مت کے مشہور مفکر و محقق رادھا کرشنن کی کتاب Religion and Society کے حوالے سے لکھا ہے۔ ‘‘ویدوں میں دھرم کی منضبط تفصیلات نہیں ہیں، وہ آ ئیڈیل چیزوں کی طرف اشارہ کرتے اور کچھ اعمال کی نشاندہی کرتے ہیں، ضوابط و احکام سمرتیوں اور دھرم شاستروں میں جو عملاً مترادف ہی پائے جاتے ہیں، سمرتیوں ان یادداشتوں کا لفظ بہ لفظ حوالہ دیتی ہیں جو وید کے ماہر علماء سے محفوظ کی گئی ہیں۔ سمرتی کا وہ ضابطہ جس کا ماخذ وید میں مل سکتا ہو، اسے وید کی اتھارٹی حاصل ہوجاتی ہے‘‘ اب یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ ویدوں کی تعلیمات میں عالمگیریت اور آ فاقیت کا کوئی بھی عنصر نہیں پایا جاتا ہے۔ اس بات کا اعتراف و اقرار خود علماء ہنود نے کیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے رادھا کرشنن کے نظریہ کو سمجھا۔
ویدوں کے ماخذ
مولانا نے اپنی اس کتاب میں ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ وید مجوسیوں کی تعلیمات سے ماخوذ و مشتق ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے ’’قدیم ایرانیوں اور ژند و اوستا کے مذہب میں سورج کی بڑی تعظیم ہے۔ اسی طرح رگ وید کے متعدد مقامات میں سورج بطور دیوتا مانا گیا ہے‘‘ اسی طرح انہوں اس بات سے بھی استدلال کیا ہے کہ ‘‘کوی جس کے معنی سنسکرت زبان میں شاعر کے ہوگئے ہیں، ویدوں میں کاہنوں غیب دانوں اور داناؤں پر بولا گیا ہے۔ ایرانیوں میں بھی اس لفظ کا ایسا ہی استعمال ہوتا تھا اور یہ ان کے مشہور بزرگوں کا خطاب ہوتا تھا‘‘ آگ (اگنی) کی پرستش و تعظیم اور اس کو بطور معبود ماننا دونوں جگہ یکساں پایا جاتا ہے۔
’’قربانیوں کے طریقے اور عبادت کے وقت کی دعائیں ویدوں اور پارسیوں کی کتابوں میں اس قدر مشابہ اور اس کثرت سے ہیں کہ اگر سب کو اس جگہ نقل کیا جائے تو یہ ایک دفتر بن جائے۔ پرستش کے متعلق مجوسیوں کی کتاب میں درج ہے کہ میں متر بزرگ کو اپنی طاقت یعنی ہوم کے آلات اور منتروں کے زور سے ایرانیوں کی خوبی قسمت اور بہتری کے واسطے سراہتا ہوں، وہ متر میری مدد کرے، وہ متر ہمیں کشایش دے، وہ متر ہمارے دلوں کو مسرت بخشے، وہ متر ہمیں بہت سی بخششیں دے، وہ متر ہمیں تندرستی دے، وہ متر ہم کو ہمارے دشمنوں پر فتح دے‘‘ یہی مفہوم رگ میں بھی آیا ہے۔ ’’میں پاک طاقت والے متر اور دشمنوں کا ناش کرنے والے ورن کو جو دونوں مل کر مینھ برساتے ہیں، بلاتا ہوں اے عقیل متر اور ورن، تم دونوں ہمارے یگ کو زیادہ کرو، تم بہت آدمیوں کے فائدے کے واسطے پیدا ہوئے ہو، بہت لوگوں کو تمہارا آسرا ہے‘‘ ان شواہد کی روشنی میں مصنف کا تجزیہ یہ ہے کہ ویدوں کی تعلیمات مجوسیوں کی دینی کتب ژند اور آوستا جیسی کتب سے اخذ کی گئی ہیں۔ لہٰذا وید کی قدامت اور ان کا کلام الٰہی ہونا دونوں دعوے آریہ سماجیوں کے دلائل کی رو سے خارج ہوتے پیں۔
وید کیسے وجود میں آئے؟
اس عنوان کے تحت ایک مقالے کا اضافہ سید حامد علی نے کیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر نہایت تفصلی گفتگو کی۔ اہم بات اس مقالے میں یہ ہے کہ مقالہ نگار نے ہندو علماء اور مفکرین کی کتب سے حوالے دیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ”وید کیسے وجود میں آئے؟ کون شخص یا کون لوگ اس کے مصنف ہیں؟ اس کا صحیح اور قطعی جواب دینا آج دشوار بلکہ ناممکن ہے‘‘ بالائی سطروں سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ خود علماء ہنود میں اس حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ یہاں ان میں سے چند آراء نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سید حامد علی نے ویدانت درشن کے ادھیائے 1-3 کے 20-39 سوتروں کے حوالے سے لکھا ہے ’’ایشور نے دنیا کے آغازمیں (اپنے) ازلی و ابدی کلام (وید) کو اس لیے ظاہر کیا کہ اس سے دنیا کے معاملات نہایت خوش اسلوبی سے پورے ہو سکیں اور تمام موجودات کے نام مع ان کی ذات و صفات کے سب وید سے مقرر کیے۔ اور ایک قوم کے ذاتی اعمال مع ان کے خانگی معاملات اور اسماء کے سب کا اظہار وید سے کیا، اور جن لوگوں نے پہلی دنیا میں جو کام کیے تھے اس مرتبہ بھی انہوں نے انہیں کاموں کو پسند کیا اور جس کو پہلی دنیا میں جو عادات پڑ چکی تھیں، چاہے وہ اچھی تھیں یا بری، انہوں نے دوبارہ پیدا ہو کر بھی اپنی انہی سابقہ عادات کو اختیار کیا اور ہر ایک رشی کا کام مع ان کے ناموں کے ایشور نے قیامت کبریٰ کے بعد ہی ویدوں سے مقرر کردیے تھے‘‘۔ البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ویدوں کے کلام الٰہی ہونے میں شک خو ہندو علماء کو ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی معروف کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں ویدوں کو انسانی ذہن کی تخلیق و تصنیع سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے باقاعدہ حدوث وید لکھ کر ویدوں کی اندرونی شہادتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وید نہ ہی قدیم ہیں اور نہ ہیں یہ کلام خداوندی ہیں۔
کتاب کی اہمیت
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی اس کتاب کی پہلی خوبی یہ ہے کہ اس کے اندر ویدوں کے متعلق تمام بنیادی نکات کو شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کی ہر بحث اور نکتہ علم و تحقیق کے زیور سے مزین ہے۔ مزید برآں کہ سید حامد علی کے حاشیہ نے کتاب کی اہمیت اہل علم کی نظر میں بڑھا دی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے جن مسائل و مباحث پر گفتگو کی ہے ان کے تمام نکات کو انتہائی سلیس اور سادہ زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ گویا اگر کسی کو ہندوؤں کے دینی مصادر ویدوں کو سمجھنا ہو تو ایسے تشنگان علوم کے لیے یہ کتاب بہت حد تک اس کی تشنگی بجھانے کا کام کرے گی۔ آخر میں یہ عرض کردوں کہ ہندو مت میں وید ان کے بنیادی مصادر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ ان کے الہامی ہونے میں اہل علم ہندو مفکرین نے کسی بھی طرح کی وضاحت نہیں کی ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا مقدس سرمایہ ہے۔ ضمناً یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دور جدید کے کئی مصنفین جنہوں نے تقابل ادیان پر کام کیا ہے وہ بھی کسی حد تک ویدوں کے الہامی ہونے کے قائل ہیں۔ اس بابت راقم کی رائے یہ ہے کہ یہ انتہائی قدیم کتب ہیں۔ مجدد سیرت ڈاکٹر حمیداللہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ قرآن کریم کی آیت زبر الاولین سے مراد یہی وید ہیں۔
***

مذہب کی اصل غرض اور اس کا انتہائی اثر جو دنیا میں مشہور و محسوس ہوسکتا ہے وہ تہذیب نفس اور تربیت اخلاق ہے۔ وہ کتاب جو انسانی زندگی کے لیے دستور العمل ہو، اس میں خدا شناسی، عبادات، معاملات، معاشرت اور تمدن کے اعلیٰ اور پختہ اصول ہونے چاہئیں لیکن ویدوں میں ٹٹولنے سے اس قسم کے قوانین جو اس زمانے میں کسی معمولی انسان کی بھی تسکین خاطر کو موجب ہو سکیں دستیاب نہیں ہوتے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020