ازدواجی تعلقات

دلوں میں فرق آجائے تو تعلقات نبھائے نہیں جاتے ، گھسیٹے جاتے ہیں

شاہانہ خانم حیدرآباد

 

جب زندگی اللہ کی امانت ہے تو کرنا بھی وہی چاہیے جو اللہ کی مرضی ہو۔ انسان کا اختیار نہ سانس پر ہے نہ تقدیر پر لیکن اگر اللہ کی مرضی میں اپنی مرضی شامل کرلی جائے تو راحت مل جاتی ہے۔ دعا یہ ہونی چاہیے کہ ﷲ اپنی رضا کو ہماری رضا بنا دے اور ہم سے وہ کام نہ کروائے جسے وہ نا پسند کرتا ہے۔
زندگی سے موت تک عمل کی کئی راہوں سے سابقہ پیش آتا ہے جس راستے پر بھی جاؤ، اس کی کچھ راحتیں ہوتی ہیں یا کچھ تکلیفیں ہوتی ہیں یا اس راہ پر چلنے کی کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔
تعلقات کو نبھانے کے لیے عہد وپیماں کی ضرورت نہیں ہوتی، ایک دوسرے کے تئیں مخلص ہونا کافی ہوتا ہے۔ وہ تعلق چاہے دوستی کا ہو، محبت کا ہو یا احساس کا۔ اکثر جہاں عہد وپیماں زیادہ ہوتے ہیں وہیں رشتے جلدی زوال پذیر ہوتے ہیں۔ جن کو نبھانا ہوتا ہے وہ نہ تو بڑی بڑی قسمیں کھاتے ہیں اور نہ ہی ہر بات کو جتاتے ہیں بلکہ خاموشی سے رشتے نبھاتے ہیں اور محسوس بھی نہیں ہونے دیتے کہ وہ خود کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ آپ جب ان کو پکاروگے وہ آپ کے ساتھ آپ کا سایہ بن کر موجود رہیں گے۔
عورت کا فطری حق یہ ہے کہ اسے اپنے شوہر کے گھر میں تحفظ حاصل ہو۔ عزت، جان، مال اور ایمان ہر چیز کا تحفظ۔ وہ اس کے گھر میں رہ کر مطمئن ہو کہ اب یہ میرا گھر ہے۔ میرا سب کچھ یہی ہے اس لیے کہ میرے شوہر نے مجھے قبول کیا ہے۔ عورت بھی انسان ہے۔ یقیناً اس کے اندر کمزوریاں بھی ہوں گی۔ اگر ان کمزوریوں کی وجہ سے مرد اسے خشک پھول کی طرح توڑ کر پھینک دے گا تو عورت کا احساس تحفظ ختم ہو جائے گا۔ پھر وہ اس گھر کو کبھی بھی اپنا گھر نہیں سمجھے گی۔ اپنے دل کے راز نہیں بتائے گی۔ اپنے دل کی بات کا اظہار نہیں کرے گی۔ یہ اس کا حق ہے کہ اسے تحفظ ملے اسے اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہاں اس کی اچھائیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس کی کمزوریوں سے درگزر کیا جائے گا۔ وہ صحت مند ہو یا بیمار دونوں صورتوں میں اسے قبول کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہ وہ بیمار ہو تو کہا جائے کہ ماں کے گھر چلی جاؤ۔ بچے کی ولادت کا وقت قریب آئے تو اسے ماں کے گھر بھیج دیا جائے۔ اخراجات آن پڑیں تو ماں کے گھر جانے کا حکم سنا دیا جائے۔ اگر ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں اور ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے تو عورت عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ جب تک میں ٹھیک ہوں اور مجھ سے شوہر کی جبلی خواہشات پوری ہونے تک تو میں یہاں پر رہوں اور اگر میرے اندر کچھ کمزوری یا بیماری آ جائے تو یا میری زندگی کی ضروریات بڑھ جائیں تو مجھے نظروں سے گرادیا جائے گا۔ ایسی عورت کبھی بھی مطمئن زندگی نہیں گزار سکتی اور احساس عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پھر ایسی عورت سے اچھے اور بہترین سلوک اور کام کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
لہٰذا عورت کا حق یہ ہے کہ اسے شوہر کے گھر میں تحفظ ملے۔ اس بات کی فکر شوہر کو ہونی چاہیے، ساس بھی کرے اور خسر بھی کرے کہ جس بچی کو ہم لائے ہیں اسے ہم کو تحفظ بھی دینا ہے اس لیے کہ کل ہماری بیٹی بھی تو کہیں جائے گی اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کسی کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کر کے تم اس خدا سے کیسے بچ پاؤ گے جس نے انصاف کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔
عورت کیسی ہونی چاہیے؟ ہر مرد بتا سکتا ہے لیکن کیا مرد کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ خود اسے کیسا ہونا چاہیے؟ ایک اچھا مرد اور شوہر وہ ہے جو عورت کی بڑی سی بڑی خطا بھی معاف کر دیتا ہے۔ جو حکم راں بن کر نہیں محافظ اور ساتھی بن کر رہتا ہے۔ جو روٹی کپڑا اور پناہ دے کر احسان نہیں جتلاتا بلکہ شکر گزار نظر آتا ہے۔ جو وحشت کے گھوڑے پر سوار ہو کر عورت کی انا کی دھجیاں نہیں اڑاتا، جو بن مانگے عورت کو محبت کے ساتھ عزت بھی دیتا ہے۔ جو اپنی انا کی تسکین کے لیے عورت کی عزت نفس کو کچلتا نہیں ہے اور جو اپنے گھرانے کی خدمت کو عورت کا فرض نہ سمجھتا ہو۔ جو عورت کے ہر غم، دکھ درد میں شریک ہوتا ہو۔ ہاں وہ ایک اچھا مرد ہوتا ہے وہ ایک اچھا شوہر ہوتا ہے۔
عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی وفا دار، اس کو عزت دینے والی، اس کا حکم ماننے والی بنے۔ جب وہ کسی قصور کے بغیر ہی زیادتی کر بیٹھے تو صبر کر لیا کرے لیکن اس کے خلاف کچھ سوچا نہ جائے، جب اس کے خلاف بولنا چاہو تو تمہاری زبان اور جب لکھنا چاہو تو تمہارے ہاتھ بغاوت کر جائیں۔ جب کوئی اس کے خلاف کچھ بول جائے تو تم اس کی عزت کی خاطر اس سے لڑجاو اس لیے کہ محبت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ محبت قربانیاں مانگتی ہے، کبھی روح کی، کبھی جان کی اور کبھی خواہشات کی…!!
رابطے ختم ہو جائیں، رشتے ٹوٹ جائیں تو بھی محبتوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جس طرح یادیں حافظے پر قابض رہتی ہیں اسی طرح محبت بھی دل سے دستبردار نہیں ہوتی۔ اور اگر دلوں میں فرق آ جائے تو تعلقات نبھائے نہیں جاتے بلکہ گھسیٹے جاتے ہیں۔
٭٭٭

عورت کا حق یہ ہے کہ اسے شوہر گھر میں تحفظ ملے۔ اس بات کی فکر شوہر کوہونی چاہیے، ساس بھی کرے اور خسر بھی کرے کہ جس بچی کو ہم لائے ہیں اسے ہم کو تحفظ بھی دینا ہے اس لیے کہ کل ہماری بیٹی بھی تو کہیں جائے گی اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کسی کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کر کے تم اس خدا سے کیسے بچ پاؤ گے جس نے انصاف کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020